دوسری وآخری قسط :مساجد میں خواتین: روحانی ارتقاء اور ملّت کی طاقت

جہاں ارادہ ہے، وہاں راستہ ہے۔ عملی اقدام ہی تبدیلی لاتے ہیں

0

رحمت النساء

مساجد کو عورتوں اور بچوں کی تعلیم و تربیت اورسماجی سرگرمیوں کا مرکز بنایا جائے
مسجد جانا روحانی ترقی میں کس طرح مدد دیتا ہے؟
قرآن زور دیتا ہے کہ مردوں اور عورتوں دونوں پر اخلاقی اور روحانی طور پر اپنی تربیت کرنا فرض ہے۔ مسجد ہمیشہ سے اخلاقی اور روحانی تعلیم و تربیت کا مرکز رہی ہے۔ عورتوں کی مساجد میں شرکت نہ صرف ان خواتین کی روحانی ترقی کا باعث بن سکتی ہے جو حاضر ہوتی ہیں بلکہ پورے خاندان اور یوں پورے معاشرے کی روحانی ترقی کا سبب بن سکتی ہے۔
• وہ تعلیم یا سیکھنے کا عمل جو خود بخود واقع ہوتا ہے: نماز میں شرکت، قرآن کی تعلیمات کا مطالعہ، جمعہ کے خطبے کو سننا، امام کی تلاوت کو سننا، اور دیگر روحانی سرگرمیوں میں شامل ہو کر عورتیں اللہ سے اپنا تعلق مزید گہرا کر سکتی ہیں۔ علم، ایمان سے پہلے آتا ہے۔ دینی تعلیم ہر گھر میں یکساں، باقاعدہ اور منظم طریقے سے فراہم نہیں کی جاتی۔ اس لیے اگر مسجد میں ہونے والی سرگرمیاں سب کے لیے بآسانی قابل رسائی ہوں تو سیکھنے کا عمل خود بخود جاری رہے گا۔ جمعہ کے خطبے میں تقویٰ (یعنی اللہ کے حاضر و ناظر ہونے کے شعور) پر زور دیا جاتا ہے جو روحانی ترقی کے لیے لازمی ہے۔ مسجد کا ماحول یکسوئی میں مدد دیتا ہے اور وہاں کی فضا میں برکت ہوتی ہے۔ صدیوں تک عورتیں نہ صرف عبادات کے لیے بلکہ درس میں شرکت اور روحانی یاد دہانیوں کو سننے کے لیے بھی مساجد جاتی رہی ہیں۔ ان دنوں مسجدِ حرام، مسجدِ نبوی، مسجدِ اقصیٰ، مسجدِ اموی وغیرہ میں خواتین کے حلقے فعال ہوتے تھے۔
• اگر نماز اکیلے گھر پر ادا کی جائے تو سستی یا تاخیر ہونے کا امکان ہوتا ہے۔
ابو درداءؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
"کسی بستی یا قافلے میں اگر تین افراد ہوں اور وہ باجماعت نماز قائم نہ کریں تو شیطان ان پر قابو پا لیتا ہے۔ پس جماعت سے جُڑے رہو، کیونکہ بھیڑیا اسی بکری کو کھا جاتا ہے جو ریوڑ سے الگ ہو جائے۔”(سنن ابی داؤد)
دوسری نیک خواتین کو دیکھ کر روحانی تحریک ملتی ہے۔ مسجد میں عمر رسیدہ اور متقی خواتین کی شرکت دیگر خواتین اور نوجوان لڑکیوں کو نیکی کی جانب مائل کرتی ہے۔ ایسی خواتین محض اپنی موجودگی سے ہی نہیں بلکہ ایک دوسرے کو یاد دہانی کروا کے اور اصلاح کر کے بھی دین کے کلچر اور ورثے کو فروغ دیتی ہیں۔
یہ کمیونٹی کو بااختیار بنانے میں کیسے مدد دیتی ہے؟
دین کی بہتر سمجھ اور سماجی و سیاسی شعور کی ترقی: مسجد مسلمانوں کے مسائل پر گفتگو اور ان کے حل تلاش کرنے کے لیے ایک عوامی مقام ہے۔ اگر عورتیں با اختیار ہوں تو پورا معاشرہ فائدہ اٹھاتا ہے۔ یہ اگلی نسل کی تربیت اور ان کی معاشرتی شمولیت میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ یہ سماجی ہم آہنگی اور فہم کو بھی فروغ دیتا ہے۔
اللہ کے رسول ﷺ کی دینی مجالس میں خواتین بھی شریک ہوتی تھیں۔ آپ نے ان کی فعال شرکت کو سراہا اور ان کے سوالات کو خوش دلی سے قبول فرمایا۔
"انصار کی عورتیں کتنی بہترین ہیں! ان کی شرم و حیا نے انہیں دین سیکھنے سے نہیں روکا۔”(صحیح بخاری)
کبھی کبھار نبی کریم ﷺ نے صرف خواتین کے لیے علیحدہ وقت مقرر فرمایا تاکہ وہ دین کی وہ تعلیم اور شعور حاصل کر سکیں جو ان کے با اختیار ہونے کے لیے ضروری تھا۔
"عورتیں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگیں: مرد آپ سے سارا وقت لے لیتے ہیں، ہمارے لیے اپنا کوئی دن مقرر فرما دیجیے۔ آپ نے ان سے ایک دن کا وعدہ فرمایا، اس دن ان سے ملاقات کی، انہیں وعظ کیا اور نصیحتیں فرمائیں۔” (صحیح بخاری)
عید کے موقع پر جب نبی ﷺ نے محسوس کیا کہ خواتین خطبہ صحیح سے نہیں سن پائیں، تو آپ ان کے پاس تشریف لے گئے:
"پھر آپ ﷺ عورتوں کے پاس تشریف لائے، انہیں وعظ فرمایا، یاد دہانی کرائی اور صدقے کی تلقین کی۔”(صحیح بخاری)
کم سے کم وسائل سے زیادہ سے زیادہ فائدہ
جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں، بھارت جیسے ممالک بالخصوص شمالی علاقوں میں مسلم کمیونٹی پسماندگی کا شکار ہے۔ ایسی صورتِ حال میں خواتین کی دینی و اخلاقی تعلیم کے لیے الگ سہولیات مہیا کرنا نہایت مشکل ہے، اور ان مقامات پر ایسی کوششیں عام بھی نہیں ہیں۔ صرف وسائل کی کمی یا غربت کو موردِ الزام ٹھیرا کر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کربیٹھ جانا درست طرزِ عمل نہیں۔ کمیونٹی رہنماؤں اور علمائے کرام کو چاہیے کہ جو کچھ میسر ہے، اسی کے بہترین استعمال کے طریقے تلاش کریں تاکہ نہ صرف روحانی بلکہ معاشی ترقی بھی ممکن ہو سکے۔
مسجد جیسے عظیم الشان منصوبے پر بھاری سرمایہ خرچ کرنے کے بعد اگر وہ صرف پانچ وقت کی نماز اور صرف مردوں کے لیے استعمال ہو تو یہ ایک بڑی کوتاہی ہے—خصوصاً جب یہ حقیقت پیشِ نظر ہو کہ مسجد بنانا مشکل ہے اور اسے قائم رکھنا اور اس کی حفاظت کرنا اس سے بھی زیادہ مشکل۔ سیاسی مداخلت، بدلتے قوانین اور سماجی حالات کمیونٹی کے لیے مزید چیلنجز پیدا کر رہے ہیں۔
ایسی صورتحال میں دانش مندی یہی ہے کہ مساجد کو کمیونٹی کی تربیت، تزکیہ نفس اور دینی تعلیم کا مرکز بنایا جائے۔ اور یاد رکھیں، خواتین بھی اس کمیونٹی کا حصہ ہیں۔یہی مدینہ ماڈل ہے۔ آغاز میں وہ لوگ معاشی طور پر کم زور، سماجی طور پر پس ماندہ اور اندرونی و بیرونی خطرات میں گھرے ہوئے تھے مگر وہاں کی مساجد مردوں، عورتوں اور بچوں کے لیے تعلیم و تربیت اور بیداری کا مرکز تھیں، جس کے نتیجے میں وہ معاشرتی، معاشی اور سیاسی طور پر مضبوط اور باوقار قوم میں ڈھل گئے۔ وہ قوم جو یہودیوں سے قرض لے کر گزارہ کرتی تھی چند دہائیوں میں اتنی خود کفیل ہو گئی کہ زکوٰۃ لینے والا کوئی نہ تھا۔
صرف مدینہ میں نہیں بلکہ ہندوستان کے جنوبی علاقوں میں بھی جہاں خواتین کی مساجد میں شرکت زیادہ عام ہوئی وہاں خواتین کے اعتماد، دینی شعور اور حوصلے میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا—جو کمیونٹی کی مجموعی ترقی میں ہر میدان میں مثبت کردار ادا کر رہا ہے۔
مستقبل کا راستہ — کچھ عملی تجاویز: * مساجد میں آرام دہ اور قابلِ رسائی جگہیں فراہم کی جائیں:
* مسجد میں ایک باوقار اور کشادہ جگہ خواتین کی روحانی نشوونما، علمی تسکین اور تربیت کے لیے اہم ہے۔ یہ جگہیں تنگ، گھٹن زدہ، الگ تھلگ، بے ہوا اور غیر آرام دہ نہیں ہونی چاہئیں۔ صفائی، سکون، روشنی اور حسنِ ترتیب کا خیال رکھا جائے۔
موزوں ساؤنڈ سسٹم کی فراہمی:
ہندوستان کی جن مساجد میں خواتین کے لیے جگہ فراہم کی گئی ہے، وہاں اکثر (اگرچہ سب نہیں) ساؤنڈ سسٹم ناقص ہوتا ہے جس کی وجہ سے امام کی آواز خطبے یا نماز میں صاف سنائی نہیں دیتی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خواتین گھر پر نماز کو ترجیح دیتی ہیں اور یوں وہ جگہیں غیر فعال ہو کر یا تو ختم ہو جاتی ہیں یا محدود کر دی جاتی ہیں۔
محفوظ اور الگ راستے اور دروازے:یہ بہت ضروری ہے کیونکہ خواتین بچوں کے ساتھ آتی ہیں اور بڑی عمر کی خواتین کے لیے بھی عام راستے مشکل ہو سکتے ہیں۔ الگ اور آسان راستہ مردوں سے زیادہ اختلاط سے بچاؤ میں بھی مدد دیتا ہے۔
خواتین کو مقرر، رضاکار، مخیر یا پروگرام کی شراکت دار بننے کی سہولت دی جائے:
مسجد میں ہونے والے عام بیداری پروگراموں اور سرگرمیوں میں خواتین کو مقرر، رضا کار یا معاون کے طور پر شرکت کا موقع دیا جانا چاہیے۔
جیسا کہ ڈاکٹر حاتم الحاج (سابق ڈین برائے اسلامیات، مشکاۃ یونیورسٹی) نے فرمایا:
"ہم مسجد کو ایک خاموش، سنسان، جراثیم سے پاک جگہ تصور کرتے ہیں جہاں صرف نماز ہو اور پھر سب منتشر ہو جائیں۔ یہی سوچ ہمیں ایسی سختی پر مجبور کرتی ہے کہ مسجد بچوں، خاندانوں، حتیٰ کہ مردوں کے لیے بھی غیر مانوس جگہ بن جاتی ہے۔”
اگر خواتین کو مسجد سے دور رکھا جائے تو اس کے منفی اثرات آئندہ نسلوں پر پڑتے ہیں۔ جب بچوں کو سکھایا جاتا ہے کہ اسلام مرد و عورت دونوں کو روحانی طور پر برابر سمجھتا ہے اور عورتوں کو بے نظیر حقوق دیے ہیں اور پھر وہ اس کے برخلاف عمل دیکھتے ہیں تو ان کا ایمان متزلزل ہونے لگتا ہے۔ اگر بچپن میں مسجد سے ان کا تعلق نہ بنایا جائے تو بڑے ہو کر بھی وہ مسجد کو اپنانے میں مشکل محسوس کرتے ہیں۔
خواتین کو اگر مسجد کی سرگرمیوں میں ثانوی حیثیت میں رکھا جائے گا تو مسجد معاشرتی ترقی کے عمل سے حاشیے پر ہی رہے گی۔ اس لیے ضروری ہے کہ خواتین بھی مسجد کی سرگرمیوں میں شامل ہوں۔
خواتین کے ذریعے گھر گھر رابطہ:مسجد اور امام یا منتظمین کے درمیان افراد سے بہتر تعلق کے لیے گھر گھر رابطہ مہم ہونی چاہیے۔ ایسے دوروں میں خواتین و بچوں سے بھی ملاقات ضروری ہے تاکہ وہ بھی مسجد سے جڑے اور اعتماد محسوس کریں۔ اس سے گھریلو دینی، سماجی و مالی حالات کا اندازہ ہوگا اور مسجد کی فلاحی سرگرمیاں صحیح افراد تک پہنچ سکیں گی۔
اگر خواتین بھی اس وفد کا حصہ ہوں یا علیحدہ خواتین کی ٹیم تشکیل دی جائے تو اس کے کئی فوائد ہوں گے: وہ زیادہ آسانی سے گھر کی خواتین اور بچوں سے بات کر سکیں گی، ان سے ہمدردی اور تعلق قائم کر سکیں گی۔
خواتین و بچوں کو مسجد کے حصے کی صفائی و نگہداشت میں شامل کریں:اکثر مساجد میں خواتین کے حصے کو نظر انداز کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہاں صفائی نہیں ہوتی، گرد و غبار ہوتا ہے اور خواتین آنا چھوڑ دیتی ہیں۔ اس کا آسان حل یہ ہے کہ خواتین اور بچوں میں اس حوالے سے شعور بیدار کیا جائے اور انہیں صفائی و نگہداشت میں شریک کیا جائے۔ ان مساجد میں جہاں ایسا کیا گیا وہاں مثبت نتائج دیکھے گئے ہیں۔
خواتین کی ضروریات پر مبنی بیداری پروگرام:مسجد میں خواتین کی ضروریات کے مطابق خصوصی پروگرام رکھے جائیں۔ روزمرہ فقہ سے متعلق ایسے بہت سے سوالات ہوتے ہیں جو خواتین کے جسمانی معاملات سے جڑے ہوتے ہیں۔ مسجد میں آداب، احکام اور اعمال سے بھی بہت سی خواتین ناواقف ہوتی ہیں۔ ان تمام موضوعات پر صرف خواتین کے لیے علیحدہ نشستیں رکھی جا سکتی ہیں۔
شادی اور خاندانی مسائل پر مشاورت:مسجد کو شادی سے پہلے اور بعد کی مشاورت کا مرکز بنایا جائے—صرف لڑکیوں کے لیے نہیں بلکہ لڑکوں اور ان کے خاندانوں کے لیے بھی۔ نکاح سے پہلے مسجد یہ یقینی بنائے کہ دولہا اور دلہن دونوں قرآن و سنت کی روشنی میں اسلامی خاندان چلانے کی تعلیم سے آشنا ہوں۔
آج کل نوجوان اپنے حقوق سے تو آگاہ ہیں مگر فرائض سے غفلت برتتے ہیں۔ اس حوالے سے متوازن شعور پیدا کرنا ضروری ہے اور اس میں خواتین کو بطور مشیر (کونسلر) شامل کرنا فائدہ مند ہو سکتا ہے۔ شادی کے جھگڑوں کے حل میں خواتین کی شمولیت عورت کے مسائل کو بہتر سمجھنے اور اس کے دکھ کو سننے میں مدد دیتی ہے۔ عورت کی عورت سے بات زیادہ آسان ہوتی ہے، اس لیے خواتین مشیرات کی تربیت دی جانی چاہیے تاکہ فیصلے جامع اور مؤثر ہوں۔
خواندگی اور شمولیت پر مبنی چند اہم تجاویز
خواندگی کے پروگرام:اعداد و شمار کے مطابق آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی بھارت میں مسلم خواتین کی ایک بڑی تعداد ناخواندہ ہے جو کہ ایک لمحۂ فکریہ ہے—خصوصاً اس امت کے لیے جس کی کتابِ ہدایت کی پہلی وحی کا آغاز ہی "اقْرَأْ” یعنی پڑھنے کے حکم سے ہوا۔
لہٰذا، مساجد کے منتظمین کو عزم کرنا چاہیے کہ اس محلے کی کوئی بھی خاتون (اور اگر کوئی مرد بھی ناخواندہ ہو) ناخواندہ نہ رہے۔ اگر کمیونٹی اس فیصلے پر عمل پیرا ہو تو صد فیصد خواندگی کا ہدف آسانی سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔
فیصلہ سازی میں خواتین کی شمولیت
خواتین کو مسجد یا محلے کی کمیٹیوں میں شامل کیا جانا چاہیے تاکہ کمیونٹی زیادہ مضبوط اور ہمہ گیر بن سکے۔
یہ قدم ان اسلام دشمن عناصر کو دور رکھنے میں بھی مدد دے گا جو بالخصوص نوجوان لڑکیوں کو مساوات اور آزادی کے نام پر گمراہ کرتے ہیں۔ اسلام کے بنیادی اصول—عدل، مساوات اور شفقت—کو برقرار رکھنے کے لیے خواتین کی شرکت ضروری ہے۔
جب مسجد کے تمام افراد، بشمول خواتین و بچیوں کی صلاحیتیں بروئے کار نہیں لائی جاتیں تو مسجد کی ترقی رک جاتی ہے۔ اگر خواتین مسجد کے ذریعے اپنی صلاحیتیں استعمال نہ کر سکیں تو وہ خود مختار طور پر الگ سرگرمیاں شروع کرتی ہیں جو وقت کے ساتھ کمیونٹی میں تقسیم اور دوری کا باعث بن سکتی ہے۔
یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ جب خواتین مسجد کی کمیٹیوں میں شامل ہوتی ہیں تو محلے کے عمومی نظم و نسق اور مختلف امور سے نمٹنے کے انداز میں مثبت تبدیلی آتی ہے۔
یہ خواتین کو قیادت کے مواقع فراہم کرتا ہے جو کہ معاشرے کی مجموعی ترقی میں ممد و معاون بنتی ہیں۔بحیثیت مائیں، یہ تربیت آئندہ نسلوں کی بہتر پرورش میں بھی مدد دیتی ہے۔
اب جب کہ بہت سی مسلم خواتین اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں تو کمیونٹی قیادت کو چاہیے کہ وہ انہیں اپنے علم و ہنر کے اظہار اور خدمت کے مواقع فراہم کرے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ایسی باصلاحیت خواتین اور لڑکیاں احساسِ محرومی کا شکار ہو کر ان خیالات کا شکار ہو سکتی ہیں جو اسلامی تعلیمات سے متصادم ہوں—اور اسلام دشمن قوتیں اس محرومی کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کر سکتی ہیں۔
مستقل خاتون نگراں یا ذمہ دار کی تقرری:لندن اور دنیا کے دیگر کئی علاقوں میں یہ عملی نمونہ موجود ہے کہ خواتین کے نماز والے حصے کے قریب ایک علیحدہ دفتر ہوتا ہے جہاں ایک خاتون بیٹھی ہوتی ہیں جو خواتین سے متعلقہ امور کی نگرانی کرتی ہیں۔
اسی طرز پر خواتین اور بچوں سے متعلقہ سرگرمیوں کے لیے علیحدہ ذیلی کمیٹیاں قائم کی جا سکتی ہیں۔
مسجد میں باقاعدگی سے آنے والی خواتین کو گھر بیٹھے کام—مثلاً پیغامات بھیجنا، پوسٹر بنانا، اعداد و شمار جمع کرنا وغیرہ—سونپے جا سکتے ہیں تاکہ ان کی صلاحیتوں سے کمیونٹی کی ترقی میں فائدہ اٹھایا جا سکے۔
بوڑھی خواتین کے لیے خصوصی سہولیات: بوڑھی خواتین کو اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے حالانکہ ان کی موجودگی مسجد کے لیے باعثِ برکت ہوتی ہے۔ نئی نسل ان سے بہت کچھ سیکھ سکتی ہے۔
کمیونٹی کی ثقافت، دینی ورثہ اور اقدار کی منتقلی میں بزرگ خواتین کا کردار نہایت اہم ہے۔
ان کے آرام اور عزت کا خیال رکھنا ضروری ہے—جیسے کہ نماز کے حصے میں کرسیوں کی فراہمی اور وہیل چیئر کے لیے آسان راستہ۔
شکایات و تجاویز کا نظام
مسجد کا امام سب کا رہنما ہوتا ہے:چونکہ مسجد کا اصل اسلامی کردار شفقت، تربیت اور رہنمائی کا ہے، اس لیے امام اور خطیب کو چاہیے کہ وہ سب کی ضروریات کو جانیں، ان کے خیالات سنیں اور موقع دیں کہ لوگ اپنی بات رکھ سکیں۔
نبی کریم ﷺ کے بعض خطبات خواتین کی طرف سے آنے والی شکایات یا سوالات کے جواب میں تھے۔
خواتین اور نوجوان لڑکیوں میں خیالات، توانائی اور تجربے کا خزانہ موجود ہے—اسے مسجد کی زندگی کو تازہ کرنے کے لیے بروئے کار لانا چاہیے۔
اس مقصد کے لیے کم از کم خواتین کے حصے میں ایک تجویز و شکایت بکس ضرور نصب کیا جانا چاہیے۔
مسجد کے دورے، معلوماتی اسٹال/ڈیسک اور بین المذاہب مکالمہ
مسجد کمیٹی کے ممبران کو چاہیے کہ وہ غیر مسلم خواتین کو بھی خوش آمدید کہیں، انہیں مسجد میں آنے، سوال کرنے اور مسلم خواتین سے سیکھنے کی ترغیب دیں۔
اس سے ایک طرف تو مسلم خواتین کو اظہار اور اعتماد کا موقع ملتا ہے اور دوسری طرف معاشرے میں اسلام کے متعلق پھیلی غلط فہمیوں کا ازالہ بھی ہوتا ہے۔
خواتین کی شمولیت اور کمیونٹی کی ترقی کے لیے
دیگر سہولتیں
ضرورت اور وسائل کے مطابق، درج ذیل سہولیات کو مرحلہ وار مسجد یا اس کے احاطے میں فراہم کیا جا سکتا ہے۔ ان میں سے بعض سہولیات ممکن ہے پہلے سے موجود ہوں، اس لیے دہرانے کی ضرورت نہیں۔ تاہم، کمیونٹی کے قائدین کو چاہیے کہ وہ یہ یقینی بنائیں کہ ان سہولیات تک خواتین کو مناسب رسائی حاصل ہو:
خواتین کے لیے لائبریری اور مطالعہ گاہیں
بچوں کے لیے مطالعہ و کھیل کی سرگرمیوں کی جگہ
کلینک اور مفت طبی معائنہ
قانونی مدد اور رہنمائی
ہیلپ ڈیسک
اسکول کی تعلیم میں اضافی مدد یا سپلیمنٹری تعلیم (اسلامی تعلیم کے ساتھ)
اختتامِ ہفتہ پر اسلامی تعلیمی پروگرام
معاشی طور پر خواتین کو خود کفیل بنانے کے لیے مسجد کمیٹیاں:
مالیاتی تعلیم فراہم کر سکتی ہیں
خود امدادی گروپس تشکیل دے سکتی ہیں
مائیکرو فائنانس نظام قائم کر سکتی ہیں
خواتین کے تیار کردہ مصنوعات کی روزانہ یا ہفتہ وار نمائش کے ذریعے فروخت کا انتظام کر سکتی ہیں
کسی بھی کمیونٹی کی ترقی اس کے افراد، خصوصاً خواتین کی جسمانی و ذہنی صحت پر منحصر ہوتی ہے۔ اس مقصد کے لیے فزیکل فٹنس کی تربیت، جمناسٹکس اور ان ڈور گیمز کو مسجد کی سرگرمیوں کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔
خواتین اور بچیوں کے لیے اسلامی آداب کے دائرے میں رہتے ہوئے مناسب تفریحی مواقع ہونے چاہییں، ورنہ ان کے ان پلیٹ فاموں کی طرف مائل ہونے کا خطرہ ہوتا ہے جہاں بے حیائی عام ہے اور اسلامی اقدار کی پروا نہیں کی جاتی۔
جنوبی ہند کی بعض مساجد میں ایسی سرگرمیاں خصوصی طور پر خواتین کے لیے فراہم کی جاتی ہیں، جیسے کہ "جمعہ، فن ڈے” وغیرہ، جو فنون اور ثقافتی سرگرمیوں کے فروغ کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔
یاد رکھیں:
یہ تمام تجاویز ایک ساتھ نافذ کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ بتدریج، حکمت اور منصوبہ بندی کے ساتھ انہیں اختیار کیا جا سکتا ہے۔
کمیونٹی قیادت کے لیے ضروری ہے کہ وہ خواتین کو مسجد جیسے اہم ترین ادارے میں شامل کرنے کا وژن اور عملی حکمتِ عملی رکھے۔
اس طرح ہماری مساجد زیادہ متحرک، جاذبِ نظر اور سب کے لیے مفید بن سکتی ہیں۔
خواتین کا کردار صرف مطالبہ کرنے کا نہیں، بلکہ انہیں درست افراد سے رجوع کر کے عملی تجاویز دینے اور خود بھی خدمت کے جذبے کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔
عدل و سماجی بہبود کا کام صرف مردوں کی ذمہ داری نہیں۔
قرآنِ کریم میں فرمایا گیا:
وَٱلْمُؤْمِنُونَ وَٱلْمُؤْمِنَـٰتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَآءُ بَعْضٍۢ ۚ يَأْمُرُونَ بِٱلْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ ٱلْمُنكَرِ وَيُقِيمُونَ ٱلصَّلَوٰةَ وَيُؤْتُونَ ٱلزَّكَوٰةَ وَيُطِيعُونَ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥٓ ۚ أُو۟لَـٰٓئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ ٱللَّهُ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌۭ (التوبہ:71)
ترجمہ: "مومن مرد اور مومن عورتیں، ایک دوسرے کے مددگار ہیں؛ بھلائی کا حکم دیتے ہیں، برائی سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ و اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن پر اللہ رحم فرمائے گا۔ بے شک اللہ زبردست اور حکمت والا ہے۔”
خلاصہ:
اگر خواتین کے لیے مسجد میں مناسب جگہ اور سرگرمیوں میں شرکت کے مواقع فراہم کیے جائیں تو اس سے بڑی تبدیلیاں ممکن ہو سکتی ہیں۔
اس کے لیے صرف مثبت ذہنیت اور ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔
اگر ہر محلے میں صرف پانچ خواتین بھی اپنے وقت کی قربانی دینے پر آمادہ ہو جائیں اور انہیں صحیح انداز سے شامل، با اختیار اور تعاون یافتہ بنایا جائے تو مختصر مدت میں قابلِ ذکر تبدیلیاں لائی جا سکتی ہیں۔
یقیناً تبدیلی کے لیے ارادہ، قوتِ فیصلہ، وسائل، وقت، مالی مدد اور مہارتوں کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ مرحلہ وار پیش قدمی سے ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔
پہلا قدم یہ ہے کہ ہم موجودہ صورتحال کا جائزہ لیں اور بہتر بنانے کے لیے حکمتِ عملی بنائیں۔
اگر نیت پختہ ہو تو راستے خود بن جاتے ہیں۔
جب مساجد خطرات سے دوچار ہوں اور مخالفین انہیں ضبط کرنے یا منہدم کرنے کی تاک میں بیٹھے ہوں تو ایسی صورت میں مسجد کے تحفظ اور فلاحی مقاصد کے لیے مرد، خواتین، نوجوان اور بچے سب کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے۔
ایسے وقت میں ہمیں کسی باہر کے سہارے کی ضرورت نہیں ہے۔
ہماری امید ان لوگوں سے نہیں ہو سکتی جنہوں نے:
کمیونٹی کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی
ہمیں تقسیم و حاشیہ پر دھکیلنے کی کوشش کی۔
بےگناہ مردوں کو سڑکوں پر قتل کیا۔
عورتوں کو بیوہ اور نوجوانوں کو سالوں تک بغیر مقدمات کے قید کیا۔
نفرت انگیز تقریریں اور خفیہ اشارے دے کر ہمیں مسلسل نشانہ بنایا۔
اگر وہ امید کے نام پر کچھ پیش کریں تو ہمیں وہ قبول نہیں ہے۔
ہمارے پاس قرآن و سنت موجود ہیں، جو خواتین و بچیوں کو انصاف اور باعزت مقام فراہم کرنے کے لیے کافی ہیں۔
جھوٹے وعدوں کے پیچھے جانا نادانی اور حماقت ہے۔
کمیونٹی کے اکثر رہنما اگر سنجیدگی سے آگاہ کیے جائیں تو ضروری تبدیلیوں کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔
خواتین کو بھی چاہیے کہ وہ اس جدوجہد کے لیے اپنا وقت، توانائیاں اور وسائل وقف کریں۔یاد رکھیں کہ حقوق کے ساتھ ذمہ داریاں بھی لازم ہوتی ہیں۔
(مضمون نگار جماعت اسلامی ہند کی نیشنل سکریٹری ہیں)

 

***

 دانش مندی یہی ہے کہ مساجد کو کمیونٹی کی تربیت، تزکیہ نفس اور دینی تعلیم کا مرکز بنایا جائے۔ اور یاد رکھیں، خواتین بھی اس کمیونٹی کا حصہ ہیں۔یہی مدینہ ماڈل ہے۔ آغاز میں وہ لوگ معاشی طور پر کم زور، سماجی طور پر پس ماندہ اور اندرونی و بیرونی خطرات میں گھرے ہوئے تھے مگر وہاں کی مساجد مردوں، عورتوں اور بچوں کے لیے تعلیم و تربیت اور بیداری کا مرکز تھیں، جس کے نتیجے میں وہ معاشرتی، معاشی اور سیاسی طور پر مضبوط اور باوقار قوم میں ڈھل گئے۔ وہ قوم جو یہودیوں سے قرض لے کر گزارہ کرتی تھی چند دہائیوں میں اتنی خود کفیل ہو گئی کہ زکوٰۃ لینے والا کوئی نہ تھا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 22 جون تا 28 جون 2025