
دوسری قسط:رمضان: برکتوں اور شخصیت کی تعمیر کا مہینہ
روحانی ترقی کے عملی اقدامات کا موقع۔ قرآن: علمی ارتقا کا سب سے بڑا ذریعہ
ایس امین الحسن، نئی دہلی
نائب امیر جماعت اسلامی ہند
رمضان کے موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ ہر فرد اپنااحتساب کرے۔ خود کا جائزہ لینا اور اپنی موجودہ حالت کا تجزیہ کرنا روحانی ارتقا کی پہلی شرط ہے۔ اس عمل کو سیلف اسسمنٹSelf assessment کہا جاتا ہے، جس کے ذریعے آپ اپنی موجودہ روحانی سطح کو سمجھ سکتے ہیں اور اس میں بہتری کےلیے عملی اقدامات کر سکتے ہیں۔
اپنی روحانی زندگی کو صفر سے 10 کے درمیان کسی اسکیل پر رکھکر تجزیہ کریں۔ مثال کے طور پر، اگر کوئی شخص اپنی روحانی حالت کو تین نمبر پر پاتا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ نہ بالکل غافل ہے اور نہ بہت زیادہ متقی۔ تین نمبر پر ہونا اس بات کی علامت ہے کہ وہ عام طور پر نماز ادا کرتا ہے، کبھی کبھار قرآن کی تلاوت کرتا ہے، اور جمعہ کے دن دعائیں کرتا ہے، لیکن روحانی طور پر مزیدترقی کی گنجائش موجود ہے۔
روحانی ترقی کے اقدامات
اب سوال یہ ہے کہ تین سے چار تک یا مزید آگے بڑھنے کے لیے کیااقدامات کیے جائیں؟ اس کے لیے چند اہم اقدامات یہ ہیں:
1. سیلف اسسمنٹ:
اپنی موجودہ روحانی حالت کا تجزیہ کریں اور یہ دیکھیں کہ آپ کہاں کھڑے ہیں۔
2. پلاننگ:
رمضان سے پہلے یا اس دوران ایک رات تہجد میں اٹھیں یا تنہائی میں بیٹھ کر اپنی زندگی کے روحانی پہلو پر غور کریں۔ یہ طے کریں کہ آپ کو کہاں جانا ہے اور اس کے لیے کیا عملی اقدامات کرنے ہیں۔
3. عملی اقدامات:
روزانہ قرآن کی تلاوت کو معمول بنائیں۔
تہجد یا کم از کم رات کی عبادات کا آغاز کریں۔
روزے کے ساتھ ساتھ صدقہ و خیرات میں حصہ لیں۔
ذکر اور دعاؤں کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔
اپنے گناہوں سے معافی طلب کریں اور نیک اعمال میں اضافہ کریں۔
4. مسلسل ترقی:
جہاں آپ کھڑے ہیں، وہاں سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں۔ یہ ترقی صرف رمضان تک محدود نہ ہو، بلکہ رمضان کے بعد بھی جاری رہے۔
(الف) نماز کی پابندی اور روحانی ترقی
رمضان کے روحانی فوائد میں سب سے اہم پہلو نماز کی پابندی ہے۔ نفل نمازوں کو فرض کے برابر اجر ملنے کا وعدہ ہمیں یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم اپنی عبادات کو معمول سے زیادہ بڑھائیں۔ اگرچہ تراویح نفل نماز ہے، لیکن رمضان میں اسے ترک کرنا مومن کے لیےایک بڑی محرومی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"جو شخص رمضان کی راتوں میں ایمان اور اجر کی نیتسے قیام کرے، اس کے تمام پچھلے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔” (بخاری)
رمضان کی عبادات کو زیادہ مؤثر بنانے کے لیے ہمیں اضافی نمازوں کا اہتمام کرنا چاہیے۔ تہجد، تراویح اور صلوۃ الاوابین جیسی نمازیں روحانی ارتقا کا اہم ذریعہ ہیں۔ عام دنوں کی بہ نسبت بندہ مومن رمضان المبارک میں زیادہ کام کرتا ہے جس کی وجہ سے تھکن اسےلاحق ہو جاتی ہے۔ اس کے باوجود جنہیں اپنی روحانی ترقی کرنے کاشوق ہوتا ہے وہ تراویح اور تہجد جیسے قیام اللیل کو اپنا معمول بنالیتے ہیں۔کچھ لوگ مغرب کے بعد چھ رکعت نماز اوابین ادا کرتے ہیں۔ یہ تمام اضافی اور نفلی نمازیں بشمول تراویح اور تہجد نہ صرف گناہوں کی معافی کا ذریعہ بنتے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے قربت کادروازہ بھی کھولتے ہیں۔
(ب) روحانی ترقی کا ذریعہ: دعا اور اللہ سے قربت
رمضان المبارک اللہ سے قربت کا مہینہ ہے، اور اس میں روحانی ترقی کے کئی دروازے کھلتے ہیں۔ ان میں ایک اہم ذریعہ دعا ہے۔ سید قطبؒ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ہر روزے دار کے لیے ایک دعا ضرور قبول کی جاتی ہے۔ انہوں نے حدیث کی مکمل سند کےساتھ لکھا:
"بے شک اللہ تعالیٰ رمضان کے ہر دن اور ہر رات میں کچھلوگوں کو جہنم سے آزاد فرماتا ہے، اور ہر مسلمان کے لیے ایک دعاہے جو لازمی قبول کی جاتی ہے۔” (مسند احمد)
یہ حدیث ہمیں رمضان کے دوران دعا کی اہمیت اور اس کی قبولیت کی یقین دہانی کراتی ہے۔ اگر ہم رمضان کے پورے مہینے میں سوچ سمجھ کر دعاؤں کی منصوبہ بندی کریں، تو کم از کم ساٹھ دعائیں ایسی ہوں گی جو ضرور قبول ہوں گی۔
رمضان ایک موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم اپنی زندگی کا جائزہ لیں اوراپنے مسائل کے حل کے لیے اللہ سے رجوع کریں۔ دعا کے ذریعے نہ صرف روحانی سکون حاصل ہوتا ہے بلکہ اللہ کے ساتھ تعلق بھی مضبوط ہوتا ہے۔رمضان کی برکتوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے دعا کومنصوبہ بندی کے ساتھ کریں۔ مثال کے طور پر:
آپ اپنی دعاؤں کو درج ذیل نکات پر ترتیب دے سکتے ہیں:
1. فکری پختگی کے لیے دعا: اپنی سوچ اور رویے کو بہتر بنانے کےلیے اللہ سے مدد مانگیں۔
2. گھر کے حالات کی بہتری کے لیے دعا: گھر میں سکون، محبت، اور خوشحالی کے لیے دعا کریں۔
3. بچوں کے تعلقات کی بہتری کے لیے دعا: اپنے بچوں کے ساتھ تعلقات کو خوشگوار بنانے کے لیے اللہ سے رجوع کریں۔
4. پڑوسیوں سے حسن سلوک کے لیے دعا: اپنے رویے کو بہتر بنا کراچھے تعلقات قائم کریں۔
5. تعلیم اور رزق کے لیے دعا: اپنی تعلیم میں آسانی اور رزق میں برکت کے لیے دعا کریں۔
6. بیماریوں سے شفا کے لیے دعا: کسی بیمار کے لیے صحت یابی کی دعا کریں۔
7.اپنی روحانی زندگی کے لیے دعا کریں کہ اللہ آپ کو عبادات میں اخلاص اور استقامت عطا فرمائے۔
8. اپنی ذاتی زندگی کے مسائل کے حل کے لیے دعا کریں، جیسےتعلقات، تعلیم یا صحت کے مسائل۔
9.اپنی اخلاقی اور عملی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے اللہ سے مددمانگیں۔
رمضان ایک ایسا روحانی ماحول فراہم کرتا ہے جس سے ہر بندہ مومن کے اندر رجائیت پیدا ہوتی ہے اور خدا کے حضور دعا کرتے ہوئے نبیؐ کی وہ بات اسے یاد رہتی ہے کہ:
نبی کریم ﷺ نے دعا کی قبولیت کے بارے میں فرمایا: "تین لوگوں کی دعا رد نہیں کی جاتی: روزے دار کی دعاجب تک وہ افطار نہ کر لے، عادل حکم راں کی دعا، اور مظلوم کی دعا۔”
یہ حدیث ہمیں اس بات کی ترغیب دیتی ہے کہ افطار سے پہلے اپنی دعاؤں کا وقت ضرور نکالیں، کیونکہ یہ قبولیت کا خاص وقت ہے۔
(ج) روزوں کا مکمل اہتمام
روزہ رمضان کا سب سے اہم عمل ہے۔ یہ روحانی پاکیزگی کا راستہ ہے۔ مومن کو چاہیے کہ وہ رمضان کے تمام روزوں کا مکمل اہتمام کرے۔ سفر یا بیماری کی صورت میں شریعت نے رعایت دی ہے، لیکن صحت مند اور مقیم افراد کو چاہیے کہ وہ کسی بھی بہانے سے روزہ ترک نہ کریں۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "جو شخص ایمان اور اجر کی نیت سے رمضان کے روزےرکھے، اس کے تمام پچھلے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔”
روزہ مومن کے لیے صبر، استقامت پیدا کرنے کا ذریعہ اور روحانی قوت کے حصول کا وسیلہ ہوتا ہے۔ روزہ انسان کو اپنی خواہشات پرقابو پانے اور اللہ کے حکم کے مطابق زندگی گزارنے کی تربیت دیتاہے۔روحانی ترقی کے لیے خواہشات پر قابو پانا نہایت ضروری ہے۔
رمضان کا اہم مقصد خود کا احتساب اور اپنی روحانی حالت کو بہتربنانا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی موجودہ حالت کا جائزہ لیں اور اپنی صلاحیت کے مطابق چند اہم اعمال کو منتخب کریں، جوہمیں روحانی طور پر ترقی دیں:
1. تراویح اور تہجد کا اہتمام۔
2. دعاؤں کی منصوبہ بندی اور ان پر عمل۔
3. تمام فرض اور نفل عبادات کی پابندی۔
4. روزوں کی مکمل پاسداری۔
رمضان میں جذباتی طور پر دس بڑے اہداف طے کرنا اور پھر ان پرعمل نہ کر پانا انسان کو مایوسی میں ڈال سکتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اپنی صلاحیت کے مطابق تین سے چار اہم اہداف طے کریں اوران پر عمل کریں۔ یہ اہداف نہ صرف رمضان کے دوران بلکہ رمضان کے بعد بھی آپ کی شخصیت میں مثبت تبدیلی لانے کا ذریعہ بنیں گے۔
2. رمضان: علمی ارتقا اور فکری بصیرت کا مہینہ
جہالت کے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی عرب قوم کے درمیان رسول اللہﷺ نے علم کی شمع روشن کی۔ آپ ﷺ کی برپا کردہ علمی تحریک نے اس وقت کے تمام ذہین، فطین، اور سلیم الطبع انسانوں کومتاثر کیا۔ قرآن نے انہیں دنیا کو دیکھنے اور زندگی کا معنی متعین کرنے کا ایک منفرد زاویہ دیا۔ وہ اپنے زمانے میں علم و فکر کے نورکے مینار تھے۔ قرآن نے ان کے ذوقِ طبع کو اس طرح بدلا کہ ان کی ہر بات انوکھی، ہر سوچ پاکیزہ اور بلند، ان کی گفتگو شائستہ، ان کاذوق ستھرا اور نکھرا ہوا، اور ان کے عزائم بے مثال ہو گئے۔
پھر وہ جہاں بھی گئے، وہاں انہوں نے اپنے علم و فکر کی برتری کواس طرح منوایا کہ دنیا ان کے آگے سرنگوں ہو گئی۔ اسلام کا پرچم، جو انہوں نے اس وقت بلند کیا، ایک صدی سے زائد عرصے تک دنیاکے بڑے حصے میں لہراتا رہا۔ زندگی کا کوئی گوشہ یا علم کا کوئی شعبہ ایسا نہیں تھا جس میں جو ایجادات ہوئیں، جو نئے پیمانے مقررہوئے، اور جو نئے اقدار وضع کیے گئے، ان میں قرآن کا کردار شامل نہ ہو۔
قرآن و سنت کا علم ایک ایسی تیز دھار تلوار ثابت ہوا جس کےسامنے سقراط و بقراط جیسے مفکرین بھی ٹک نہ سکے۔ لیکن پھر ہم پر زوال کا دور آیا، جس نے ہم سے بہت سی صلاحیتیں اور ذوق چھین لیے۔ ان میں سب سے بڑا نقصان علمی رجحان کے خاتمے کاہے۔ آج امت مسلمہ کی اکثریت حقیقی علم سے کوسوں دور ہے۔ زندگی کا کوئی بلند مطمح نظر نہیں اور جو رسمی تعلیم حاصل کی جا رہی ہے، وہ محض ذریعہ معاش بن کر رہ گئی ہے۔ اس کے علاوہ ان کی کوئی امتیازی پہچان نہیں ہے ۔
اصل علم تو وہ ہے جو دنیا کے اندھیرے دور کرے، حق کی روشنی عام کرے، زندگی کی راہ واضح کرے، اخلاق و کردار کو چمکائے، اورضمیر کو زندہ کرے۔ آج بھی تحریک سے وابستہ افراد قرآن کے علمبردار بن کر دنیا کے سامنے علم و فکر کی اصل حقیقت سے روشناس کرانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ رمضان ایک سنہری موقع ہے جہاں اہل ایمان قرآن کی روشنی میں آئیں اور علم کا چراغ اپنےہاتھوں میں تھام لیں۔یہ واضح رہے کہ رمضان المبارک صرف عبادات اور روحانی ترقی کا نہیں بلکہ علمی اور فکری ارتقا کا بھی مہینہ ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جب انسان قرآن سے جڑ کر اپنی فکری اورانٹلیکچول گروتھ (Intellectual Growth) کو بہتر بنا سکتا ہے۔
(الف) قرآن: علمی ارتقا کا سب سے بڑا ذریعہ
یہ ایک حقیقت ہے کہ جو شخص قران کو گہرائی سے سمجھ لیتا ہےپھر اس کے بعد دنیا کے تمام علوم میں اسے نقص نظر اتے ہیں اورسب بونے نظر اتے ہیں۔
مولانا مودودیؒ نے کیا پیاری بات لکھی ہے:
"جاہلیت کے زمانے میں میں نے بہت کچھ پڑھا ہے۔ قدیم و جدیدفلسفہ، سائنس، معاشیات، سیاسیات وغیرہ پر اچھی خاصی ایکل ائبریری دماغ میں اتار چکا ہوں، مگر جب آنکھ کھول کر قرآن کوپڑھا تو بخدا یوں محسوس ہوا کہ جو کچھ پڑھا تھا سب ہیچ تھا- علم کی جڑ تو اب ہاتھ آئی ہے۔ کانٹ، ہیگل، نٹشے، مارکس اور دنیا کے تمام بڑے بڑے مفکرین اب مجھے بچے نظر آتے ہیں- بے چاروں پر ترس آتا ہے کہ ساری عمرجن گتھیوں کو سلجھاتے رہے اور جن مسائل پر بڑی بڑی کتابیں تصنیف کر ڈالیں، پھر بھی حل نہ کر سکے، ان کو اس کتاب نے ایک دو فقروں میں حل کرکے رکھ دیا- میری محسن بس یہی کتاب ہے- اس نے مجھے بدل کر رکھ دیا- حیوان سے انسان بنا دیا- تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئی- ایسا چراغ میرے ہاتھ میں دے دیاکہ زندگی کے جس معاملہ کی طرف نظر ڈالتا ہوں حقیقت اس طرح برملا دکھائی دیتی ہے کہ گویا اس پر پردہ نہیں ہے- انگریزی میں ایسی کنجی کو شاہِ کلید (Master Key) کہتے ہیں جس سے ہر قفل کھل جائے- سو میرے لیے یہ قرآن مجید شاہِ کلید ہے- مسائلِ حیات کے جس قفل پر اسے لگاتا ہوں، کھل جاتا ہے- جس خدا نے یہ کتاب بخشی ہے، اس کا شکر ادا کرنے سے میری زبان عاجز ہے”
اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کریم علمی ترقی، بصیرت اور فکری رہنمائی کا سب سے مؤثر ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو بصیرت کی روشنی قرار دیا ہے:
هَٰذَا بَصَٰٓئِرُ مِن رَّبِّكُمۡ وَهُدࣰى وَرَحۡمَة لِّقَوۡمࣲ یُؤۡمِنُون
(سورۃ الاعراف: 203)
ترجمہ: یہ (قرآن) تمہارے رب کی طرف سے بصیرت ہے، ہدایت ہےاور ان لوگوں کے لیے رحمت ہے جو ایمان لاتے ہیں۔
انسان جب قرآن کا مطالعہ کرتا ہے تو اس پر یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ وہ ایک زندہ کتاب کے ساتھ معاملہ کر رہا ہے۔ اس کا مطالعہ محض غیر شعوری مطالعہ (Passive Reading) نہیں ہوتا، بلکہ اس کا سامنا ایک ایسی کتاب سے ہوتا ہے جو پڑھنے والے کی فعالیت اور شعور کو جِلا بخشتی ہے۔ جیسے ہی انسان شعوری مطالعہ(Active Reading) شروع کرتا ہے، اس کی ذہنی بصیرت روشن ہو جاتی ہے۔
قرآن انسانی ذہن کو جھنجوڑتا ہے، سوالات کھڑے کرتا ہے، اور ہماری زندگی کے مختلف پہلوؤں پر غور و فکر کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔ یہ محض ایک کتاب نہیں بلکہ ایک زندہ مکالمہ (Dialogue) کی مانندہے جو قاری کے ساتھ بات چیت کرتا ہے، اسے چیلنج کرتا ہے، اوراس کی سوچ کو نئی سمت دیتا ہے۔ جیفری لینگ جیسے محققین نےبیان کیا کہ قرآن پڑھنے والا قاری کے ساتھ مکالمہ کرتا ہے، اس کےرویے پر سوال اٹھاتا ہے، اور اسے اپنی زندگی کے بارے میں سوچنےپر مجبور کرتا ہے۔
قرآن ہماری عقل کو تحریک دیتا ہے، تخلیقی سوچ (Creativity) پیدا کرتا ہے، اور ہمیں دنیا اور زندگی کے بارے میں گہرائی سے غورو فکر کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ یہ کتاب انسان کو اس کی حقیقت سےروشناس کراتی ہے اور اسے اپنی زندگی میں شعوری تبدیلی لانے کاذریعہ بناتی ہے۔
قرآن ایک ایسی کتاب ہے جو انسان کو غور و فکر کی دعوت دیتی ہےاور اس کی عقل کو جِلا بخشتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
إِنَّ فِي خَلۡقِ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلۡأَرۡضِ وَٱخۡتِلَٰفِ ٱلَّيۡلِ وَٱلنَّهَارِ لَأٓيَٰتٖ لِّأُوْلِي ٱلۡأَلۡبَٰبِ (سورۃ آل عمران: 190)
ترجمہ: بے شک زمین و آسمان کی پیدائش اور رات دن کے بدلنےمیں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔
یہ آیت ہمیں کائنات کی تخلیق پر غور کرنے اور اللہ کی قدرت کوسمجھنے کی دعوت دیتی ہے۔ قرآن تخلیقی سوچ، تدبر، اور بصیرت پیدا کرتا ہے۔ یہ محض ایک کتاب نہیں بلکہ دلائل، حجتوں، اور رہنمائی کا ایک خزانہ ہے جو ہر اس شخص کے لیے راستہ دکھاتی ہے جو اسے شعوری انداز میں پڑھتا ہے۔رمضان، جس میں قرآن نازل کیا گیا، اسی پیغام کو اور واضح کرتاہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: شَهۡرُ رَمَضَانَ ٱلَّذِيٓ أُنزِلَ فِيهِ ٱلۡقُرۡءَانُ هُدى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَٰتٖ مِّنَ ٱلۡهُدَىٰ وَٱلۡفُرۡقَانِ
(سورۃ البقرۃ: 185)
ترجمہ: "رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا، جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور حق و باطل کو واضح کرنے والے دلائل پر مشتمل ہے۔”
یہ مہینہ ہمیں قرآن کے ذریعے غور و فکر کرنے اور اپنی زندگی میں اس کے پیغام کو اپنانے کی دعوت دیتا ہے۔ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ علم وفکر کا حقیقی منبع وہ کتاب ہے جو ہمیں نہ صرف دنیا کے مسائل کاحل فراہم کرتی ہے بلکہ ہماری روحانی اور اخلاقی زندگی کو بھیسنوارتی ہے۔ قرآن ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ حق اور باطل کی تمیزکیسے کی جائے اور زندگی کو بلند تر مقصد کے لیے وقف کیا جائے۔
رمضان، قرآن اور غور و فکر کا یہ ملاپ ہماری شخصیت میں تبدیلی لانے کا ایک زرین موقع ہے۔ یہ ماہ ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم اپنے شعورکو بیدار کریں، اپنے ذہن کو روشنی سے منور کریں، اور اپنی زندگیوں کو قرآن کی روشنی میں گزاریں۔
قرآن سے استفادے کے عملی طریقے
1. روزانہ قرآن مجید کی تلاوت کریں اور اس کے معانی کو سمجھنےکی کوشش کریں۔
2. تراویح میں پڑھی جانے والی آیات کا خلاصہ جاننے کی کوشش کریں۔
3. کسی ایک موضوع پر قرآن کا گہرائی سے مطالعہ کریں، جیسےدعوت، والدین کا کردار، یا انسانی اخلاقیات۔
4. مختلف تفاسیر کا مطالعہ کریں اور ان کے موازنہ سے اپنی بصیرت کو بڑھائیں۔
5. قرآن کو غور و فکر کے ساتھ پڑھیں تاکہ وہ آپ کی زندگی میں سوالات پیدا کرے اور آپ کو اپنی شخصیت پر غور کرنے کا موقع ملے۔
(جاری )
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 23 فروری تا 01 مارچ 2025