دورِ حاضر میں مسلم نوجوانوں کے سامنے سنگین چیلنجز
نسل نوکی کامیابی صالح صحبت اور مضبوط ایمان سے وابستہ
ڈاکٹر ساجد عباسی، حیدرآباد
بچوں کی تعلیم کے ساتھ تربیت پر توجہ دینا والدین کی ذمہ داری
اسلامی انقلاب کے معمار نوجوان نسل کی رہنمائی ضروری ہے
انٹرنیٹ کے اس پرفتن دور میں مسلم نوجوان، لڑکے اور لڑکیاں شدید فتنوں سے دوچار ہیں۔ جہاں شہواتِ نفس کو ابھارنے والے عوامل پیدا ہوچکے ہیں، وہیں ذہن کو پراگندہ کرنے والے شبہات پیدا کرنے والے ذرائع بھی عام ہوچکے ہیں۔ شہوات اور شبہات دونوں شیطان کے حربے ہیں، جن سے ایمان خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ شیطان، جو انسان کا ازلی دشمن ہے، سب سے پہلے مسلم نوجوانوں کو اللہ کی یاد سے غافل کرتا ہے، جس سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کا تعلق کمزور ہوکر بالآخر ٹوٹنے لگتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ سے تعلق ختم ہوجاتا ہے تو شیطان آسانی سے نوجوانوں کو اپنا شکار بنا لیتا ہے۔
شیطان سب سے پہلے نوجوانوں کو نفسانی خواہشات کا غلام بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ نوجوان جو اللہ کی یاد سے غافل ہوں ان پر شیطان اپنے پہلے حملے میں بہت آسانی سے کامیاب ہوجاتا ہے۔ جو نوجوان خواہشاتِ نفس کے غلام بننے میں شیطان کو شکست دے دیتے ہیں، ان پر شیطان اپنا دوسرا حربہ استعمال کرتا ہے۔ یہ حربہ دینِ اسلام کے بارے میں شبہات پیدا کرنے کا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے جن کا تعلق ٹوٹ چکا ہو تو ان پر یہ حربہ مزید کارگر ثابت ہوتا ہے۔
اسلام دشمن افراد (Islamophobes)نت نئے اعتراضات کے ذریعے اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جو نوجوانوں کے دلوں میں شبہات پیدا کرتے ہیں۔ جو نوجوان علمائے حق یا اسلامی اجتماعیت سے جڑے رہتے ہیں، انہیں ان اعتراضات کا بروقت جواب مل جاتا ہے، جس سے ان کے ایمان کو تقویت ملتی ہے۔ لیکن جو نوجوان اللہ کی یاد سے غافل ہوں اور صحبتِ صالح سے بھی محروم ہوں، وہ ان شکوک و شبہات سے متاثر ہو کر اپنے ایمان کو کھو بیٹھتے ہیں۔
شہواتِ نفس اور شبہات فی الاسلام پیدا کرنے والے چند عوامل درج ذیل ہیں، جو دورِ حاضر میں مسلم نوجوانوں کے لیے بڑے خطرات بن چکے ہیں۔ یہ معلومات سماجی کارکنان کی مشاورت سے ماخوذ ہیں:
1۔ بدنظری
علامہ اقبالؒ نے شاید اسی دور کے لیے کہا تھا:
رسوا کیا اس دور کو جلوت کی ہوس نے
روشن ہے نگہ، آئینہ دل ہے مکدر
بڑھ جاتا ہے جب ذوقِ نظر اپنی حدوں سے
ہوجاتے ہیں افکار پراگندہ و ابتر
اس دور کا سب سے بڑا چیلنج سوشل میڈیا پر دکھائی جانے والی برہنہ تصویریں اور پورن فلمیں ہیں، جنہوں نے نوجوانوں کے دماغوں کو ماؤف کر دیا ہے۔ انٹرنیٹ کے اس دور میں لذتِ نگاہ تک رسائی مفت اور نہایت آسان ہوچکی ہے۔
فحش مواد کا اثر
2023ء میں پورن انڈسٹری کی کل مالیت 173 بلین ڈالر تھی، جو 2030ء تک 248 بلین ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے۔ یہ شیطان کا ایسا میگا پروجیکٹ ہے، جس کے ذریعے بڑی کامیابی کے ساتھ انسانوں کو جہنم کا مستحق بنایا جا رہا ہے۔ بدقسمتی سے مسلم نوجوان بھی اس لت میں مبتلا ہوچکے ہیں۔
اس کے اثرات جسمانی و ذہنی صحت پر شدید منفی اثرات مرتب کرتے ہیں اور ازدواجی زندگی کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ وہ نہ پڑھائی پر توجہ دے سکتے ہیں اور نہ اپنے پیشے پر، جس کے باعث ان کی معاشی زندگی بھی متاثر ہوتی ہے۔
آزمائش اور سزا
جب لوگ اللہ کی نافرمانی ڈھٹائی سے کرنے لگیں اور نفسِ لوامہ کی طرف سے ہونے والی ندامت کو دباتے چلے جائیں، تو اللہ تعالیٰ اس دنیا میں بھی انہیں سزا دیتا ہے۔ وہ گناہ کرنا آسان اور سہل الحصول بنا دیتا ہے۔ بنی اسرائیل کے لوگوں کے ساتھ بھی یہی ہوا، جب ان سے کہا گیا کہ سبت کے دن صرف عبادت کریں، تو اللہ تعالیٰ نے مچھلیوں کو اس دن کثرت سے سطح سمندر پر آنے کا حکم دیا۔
فی زمانہ، فحش فلمیں دیکھنا مفت اور نہایت آسان بنا دیا گیا ہے جو کہ موجودہ دور کا سب سے بڑا امتحان ہے۔
اس وقت نوجوانوں کے لیے سب سے بڑا چیلنج بدنظری سے بچنا ہے۔ انسان کے جسم میں آنکھیں اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہیں۔ کوئی اندھے سے پوچھے یا ہم خود اپنی آنکھوں کو تھوڑی دیر کے لیے بند کرکے محسوس کریں کہ اندھے لوگ کتنی بڑی نعمت سے محروم ہیں۔ ہر نعمت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں۔ شکرگزاری کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہر نعمت کو خالقِ نعمت کی مرضی کے مطابق استعمال کریں۔ زندگی اللہ کی نعمت ہے، اس کا شکر یہ ہے کہ ساری زندگی کو اللہ کی مرضی کے مطابق استعمال کریں۔ دماغ اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے، اس کا شکر یہ ہے کہ اپنی دماغی صلاحیت کو استعمال کرتے ہوئے اللہ کی نشانیوں میں غور و فکر کریں اور اللہ کی سچی معرفت حاصل کریں۔ ایسے کاموں میں اپنی عقل لگائیں جن سے اللہ کی مرضی پوری ہوتی ہو، جیسے دنیا میں نیکیوں کو کیسے پھیلایا جائے اور برائیوں کو کیسے روکا جائے اور دعوت الی اللہ کا کام کس طرح کیا جائے۔
اللہ تعالیٰ نے جتنے بھی احکام دیے ہیں، ان کی پیروی میں خود انسانوں کی دنیاوی فلاح کی بھی ضمانت ہے۔ بدنظری سے بچنے کا اللہ نے حکم دیا ہے، مومن مردوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں۔ لیکن آج کل انٹرنیٹ کے زمانے میں بدنظری کی تمام حدوں کو پار کردیا گیا ہے۔ جس قدر بدنظری میں انسان آگے بڑھتا جائے گا، اسی قدر وہ اللہ کو ناراض کرتا جائے گا، لیکن اس بدنظری سے اس زندگی میں جو نقصانات ہو رہے ہیں، وہ انتہائی تباہ کن ہیں۔
2) بے مقصدیت
مسلم نوجوانوں کی اکثریت بے مقصدیت کا شکار ہے۔ اخروی مقصد تو درکنار، دنیاوی مقصد یا ہدف بھی ان کے سامنے نہیں ہوتا۔ وہ تعلیم بھی اس لیے حاصل کرتے ہیں کہ والدین ان کو اسکول اور کالج میں شریک کرواتے ہیں۔ چنانچہ اسکول کی سطح پر بیس فیصد اور کالج کی سطح پر دس فیصد طلبہ ترکِ تعلیم (dropouts) کا شکار ہوتے ہیں۔ عدم دلچسپی کی وجہ سے وہ امتحانات میں ناکام ہوتے رہتے ہیں اور بار بار امتحان دینے کی نوبت آتی ہے۔
3) التواء
سستی اور کاہلی اور عدم دلچسپی کی وجہ سے اہم کاموں کو ملتوی کرنے کا مرض مسلم نوجوانوں میں عام ہے۔
4) تضیع اوقات
دوستوں کے ساتھ گھنٹوں لایعنی گفتگو اور گھومنے پھرنے کے عادی ہوتے جا رہے ہیں۔ عموماً رات کے وقت ہوٹلوں پر گپ شپ کرتے ہوئے شب بیداری کرتے ہیں جس کی بنا پر صبح دیر سے اٹھتے ہیں اور کالج میں اکثر غیر حاضر رہتے ہیں۔ دیر تک کھلی رہنے والی ہوٹلیں ان آوارہ گردی کرنے والے طلبہ سے آباد رہتی ہیں۔ جہاں وہ قیمتی وقت ضائع کرتے ہیں، وہیں وہ فضول خرچی کرتے ہوئے بلاضرورت اور بغیر بھوک کے کھاتے رہتے ہیں۔ اس طرح یہ کچھ نہ کچھ کھاتے رہنے کی لت میں بھی گرفتار رہتے ہیں۔
5) دورِ حاضرمیں طلاق کی کثرت
بالخصوص شادی کے بعد ایک یا دو سالوں میں طلاق کی نوبت آنا شروع ہو جاتی ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں: کم از کم دس فیصد طلاق کی وجہ ناجائز تعلقات ہیں۔ دوسری وجہ لڑکی کے اندر صبر و تحمل اور تربیت کی کمی ہے۔ تیسری وجہ سسرال کی زیادتی اور بے جا مداخلت ہے۔ چوتھی وجہ گندی فلموں کو دیکھنے سے لڑکوں میں مردانہ کمزوری کا پیدا ہونا ہے۔ چونکہ اس وقت بھارت میں لڑکوں کی طرف سے طلاق دینا، انہیں تین طلاق کا مجرم بنا سکتا ہے، اس لیے اکثر رشتوں کا اختتام لڑکی کی طرف سے خلع کی صورت میں ہو رہا ہے۔
6) مسلم لڑکیوں کا غیر مسلم لڑکوں سے شادی کرنا
اس سازشی جال میں بالخصوص ایسی لڑکیاں پھنستی ہیں جو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ملازمت کرنا ضروری سمجھتی ہیں۔ آفس کے اندر غیر مسلم لڑکوں سے دوستی ہوتی ہے اور جو محبت میں بدل جاتی ہے۔ یہ لڑکیاں ایسے گھروں سے آتی ہیں جہاں والدین بھی اسلامی ماحول سے نابلد ہوتے ہیں۔ ایسے گھروں میں لڑکیوں کی تعلیم پر تو بہت زور دیا جاتا ہے لیکن ان کی تربیت پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی اور نہ ہی اختلاط مرد و زن کے نقصانات سے والدین اپنے بچیوں کو خبردار کرتے ہیں۔ آج کل مسلم گھرانوں میں پاکستانی ٹی وی سیریلز بڑے شوق سے دیکھے جانے لگے ہیں، جن میں غیر محرموں سے بے حجابی، ناجائز دوستیاں اور تعلقات دکھائے جاتے ہیں اور اس کو معمول بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ پڑوسی ملک اسلام کی سچی اور اچھی تصویر پیش کرنے کے بجائے فساد فی الاخلاق کا موجب بن رہا ہے۔
درست املا اور روانی کے ساتھ متن درج ذیل ہے:
تدارک:
1) اسلام اعلیٰ مقصدِ زندگی متعین کرتا ہے:
اسلام انسان کو اس کے خالق کا بھرپور تعارف کراتا ہے اور اس کی صفاتِ عالیہ بیان کرتا ہے۔ یہ انسان کو تخلیق کے مقصد سے آگاہ کرتا ہے اور وضاحت کرتا ہے کہ انسان کو امتحان کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ اس امتحان کے لیے عارضی زندگی عطا کی گئی ہے، اور امتحان کا محور یہ ہے کہ کون اللہ کی عبادت کو بغیر دیکھے اپناتا ہے۔ اس امتحان کا نتیجہ مرنے کے بعد ابدی جزا یا سزا کی صورت میں ظاہر ہوگا۔ قرآن بار بار انسان کو یہ حقائق یاد دلاتا ہے تاکہ وہ عارضی زندگی کی چمک دمک میں گم نہ ہو جائے اور اس اہم امتحان میں ناکام نہ ہو۔
قرآن اہلِ ایمان کو یاد دلاتا ہے کہ وہ ایک امتِ وسط ہیں، جنہیں خیرِ امت کا لقب دیا گیا ہے۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ وہ اللہ کے پیغام کو دنیا تک پہنچائیں، نیکی کو عام کریں، اور برائیوں کا سدباب کریں۔ اس عظیم مقصد کے لیے ہر مسلمان کو اپنی تمام صلاحیتیں اور مال خرچ کرنا چاہیے، ظلم کے خلاف عدل و انصاف کا علَم بلند کرنا چاہیے۔ یہ اعلیٰ مقاصد انسان کو خواہشات کا غلام بننے سے روکتے ہیں اور اسے اللہ کی محبت پر دیگر تمام محبتوں کو قربان کرنے کا درس دیتے ہیں۔
2) شیطان کے تسلط سے آزادی:
شیطان کے تسلط سے آزادی اسی وقت ممکن ہے جب انسان کا اللہ سے مضبوط روحانی تعلق قائم ہو۔ یہ ممکن نہیں کہ ایک انسان بیک وقت اللہ کا بھی اور شیطان کا بھی تابع ہو۔ جب اللہ سے تعلق ٹوٹتا ہے، تو شیطان اس پر قابو پانے لگتا ہے۔ اللہ فرماتا ہے:
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ” (سورۃ البقرۃ: 208)
3) تعلق باللہ:
اللہ تعالیٰ سے مضبوط تعلق قرآن کی تلاوت اور نماز کے قیام سے ہوتا ہے۔ نماز فحاشی اور برے اعمال سے روکتی ہے، اور قرآن کی تلاوت سے انسان کا ایمان بڑھتا ہے۔ قرآن اور نماز وہ ذرائع ہیں جن سے انسان اللہ سے جڑتا ہے اور شیطان کے اثرات سے محفوظ رہتا ہے۔
4) صحبتِ صالح:
نوجوانوں کے ایمان کی حفاظت کے لیے صالح صحبت بے حد ضروری ہے۔ نیک ساتھی عطر فروش کی مانند ہے، جس کی صحبت سے خوشبو ملتی ہے، جبکہ برا ساتھی لوہار کی مانند ہے، جس کی صحبت سے نقصان ہوتا ہے۔
5) والدین کی ذمہ داری:
والدین کی اولین ذمہ داری ہے کہ بچوں کی تعلیم کے ساتھ ان کی تربیت بھی کریں۔ ان کے دلوں میں اللہ کی محبت اور آخرت کا خوف پیدا کریں۔ نکاح میں تاخیر نہ کریں، بچوں کو موبائل فون کے مضر اثرات سے بچائیں اور اسلامی کتب کے مطالعے کی عادت ڈالیں۔ والدین خود نیک اعمال کے ذریعے بچوں کے لیے نمونہ بنیں تاکہ وہ ان کی پیروی کریں۔
***
***
والدین کی اولین ذمہ داری ہے کہ بچوں کی تعلیم کے ساتھ ان کی تربیت بھی کریں۔ ان کے دلوں میں اللہ کی محبت اور آخرت کا خوف پیدا کریں۔ نکاح میں تاخیر نہ کریں، بچوں کو موبائل فون کے مضر اثرات سے بچائیں اور اسلامی کتب کے مطالعے کی عادت ڈالیں۔ والدین خود نیک اعمال کے ذریعے بچوں کے لیے نمونہ بنیں تاکہ وہ ان کی پیروی کریں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 دسمبر تا 04 جنوری 2024