دورِحاضرمیں دعوت الی اللہ کی حکمتِ عملی
اگر امتِ مسلمہ اپنے منصبی فریضے کو فراموش کردے تو امت کا وجود ہی خطرہ میں پڑجائے گا
ڈاکٹر ساجد عباسی
دعوت الی اللہ کی حکمتِ عملی پیش کرنے سے قبل دعوت الی اللہ کے سلسلے میں بنیادی نکات کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔دعوت الی اللہ کو قرآن میں مختلف عنوانات دیے گئے ہیں جیسے شہادت علی الناس، امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور انذار و تبشیر۔
دعوت الی اللہ انبیاء کا مقصدِ بعثت بھی رہا ہے اور ختمِ نبوت کے بعد امتِ مسلمہ کا مقصدِ وجود بھی ۔اللہ تعالیٰ نے امتِ مسلمہ کو امتِ وسط اور خیر امت کے القابات سے خطاب کرکے امت کے مقام کو بلند فرمایا اور شہادت علی الناس اور امر بالمعروف و نہی المنکر کی ایک گراں قدر ذمہ داری سپرد کی ہے۔ (سورۃ البقرۃ ۱۴۳،سورۃ آل عمران ۱۱۰) اس وقت سارے کرہ ارض پر امتِ مسلمہ ہی وہ واحد امت ہے جس کے پاس اللہ تعالیٰ کا کلام خالص حالت میں موجود ہے اور رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات بھی تفصیل کے ساتھ موجود ہیں ۔امت مسلمہ کے علاوہ دنیا میں جتنی بھی قومیں مختلف مذاہب کو ماننے والی ہیں وہ مسلسل ایک تاریکی سے دوسری تاریکی میں بھٹکتی رہی ہیں اور کوئی امکان ہی نہیں ہے کہ آخری الہامی کتاب (قرآن) کے بغیر ان کو ہدایت مل سکے۔ان کو تاریکیوں کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں روشنی دکھانے کی ذمہ داری امت مسلمہ کی ہے اور یہی دراصل امتِ مسلمہ کا مقصدِ وجود ہے ۔ اللہ کے نزدیک امت ِ مسلمہ کا مقصدِ وجود اتنا اہم ہے کہ اگر اس کو فراموش کردیا جائے تو امت کا وجود ہی خطرہ میں پڑجائے گا(سورۃ محمد۳۸) دنیا میں کوئی بھی شئے جب اس افادیت و مقصد کو کھو دیتی ہے جس کے لیے اس کو بنایا گیا ہے تو اس کو اپنے مقام سے ہٹاکر کوڑے دان میں پھینک دیا جاتا ہے۔سوال یہ ہے کہ اگر امت مسلمہ میں ایک قلیل ترین گروہ بھی شہادت علی الناس کی ذمداری کو ادا کرنے والا نہ رہے تو کیا اللہ ایسی امت کو باقی رکھے گا، اور رکھے گا تو کب تک باقی رکھے گا؟ آج ملک میں سو کروڑ غیر مسلموں کے درمیان مخلص داعیان ِ حق کی تعداد کتنی ہے؟یقیناً بہت ہی کم ہے۔
اللہ تعالیٰ کی ایک سنت یہ ہے کہ وہ کسی قوم کو عذاب میں مبتلا نہیں کرتا جب تک ان کے درمیان رسول کو مبعوث نہ کرے اور وہ قوم رسولوں کا انکار کرکے ظلم کا ارتکاب نہ کرے ۔ ارشادِ الہی ہے: وَمَا كَانَ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرَى حَتَّى يَبْعَثَ فِي أُمِّهَا رَسُولًا يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِنَا وَمَا كُنَّا مُهْلِكِي الْقُرَى إِلَّا وَأَهْلُهَا ظَالِمُونَ ۔اور تیرا رب بستیوں کو ہلاک کرنے والا نہ تھا جب تک کہ ان کے مرکز میں ایک رسول نہ بھیج دیتا جو ان کو ہماری آیات سناتا۔ اور ہم بستیوں کو ہلاک کرنے والے نہ تھے جب تک کہ ان کے رہنے والے ظالم نہ ہو جاتے۔(سورۃ القصص۵۹)۔
ختمِ نبوت کے بعد چونکہ امتِ مسلمہ شہادت علی الناس کے فرض کو ادا کرنے کے لیے مسئول بنادی گئی ہے اس لیے گمراہ قوموں کو ان کی گمراہیوں پر اس وقت تک نہ پکڑا جائے گا جب تک امتِ مسلمہ اتمامِ حجت کی حد تک دعوت الی اللہ کا فریضہ انجام نہ دے ۔اتمامِ حجت کی حد تک دعوت الی اللہ کا کام نہ کرنے کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے عتاب کا رخ امتِ مسلمہ ہی کی طرف رہے گا۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مغربی اقوام کی بدترین گمراہیوں کے باوجود ان کو پکڑنے کے بجائے امتِ مسلمہ پر تازیانے برسائے جارہے ہیں تاکہ وہ جاگ اٹھیں اور اپنے فرضِ منصبی کو ادا کریں۔دنیا میں جن جن ممالک میں مسلمان ، اقلیت میں ہیں وہاں ان پر ظالم اکثریت کو مسلط کردیا گیا ہے۔اور جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں وہاں ان پر مغرب نواز ظالم اورسفاک حکم رانوں کو مسلط کردیاگیا ہے۔
جب امتِ مسلمہ اپنے فرضِ منصبی کو فراموش کردیتی ہے تو وہ فکری زوال سے دوچار ہوتی ہے اور امت کے مقام سےگر کر ایک قوم بن جاتی ہے۔امت مسلمہ ،امت باقی رہتی ہے دعوتی مشن کے ساتھ ۔جب امتِ مسلمہ دعوتی مشن کو چھوڑ دیتی ہے تو زوال پذیر ہوکر قوم کی سطح پر زندہ رہنے لگتی ہے ۔آج ہم مسلم امت نہیں بلکہ مسلم قوم بن چکے ہیں اور قوم ہونے کی حیثیت سے دفاعی سوچ رکھنے والے بن گئے ہیں۔اس سوچ کے ساتھ مسلم قوم کو ہمہ وقت اپنے وجود کی حفاظت ،اپنے مساجد و مدارس کی حفاظت ،اپنے تشخص و تہذیب کی حفاظت اور اپنے پرسنل لا کی حفاظت کی فکر دامن گیر رہتی ہے ۔وہ اپنے فرائض کو بھول جاتی ہے اور اپنے حقوق کی بازیابی پر ساری توجہ مرکوز کردیتی ہے۔امت ہونے کا احساس ہمیشہ دعوتی فریضہ کو ادا کرنے اور انسانیت سے لینے سے زیادہ اس کو دینے کی سوچ پیدا کرتا ہے۔امت ہونے کی سوچ یہ احساس پیدا کرتی ہے کہ امتِ مسلمہ کے پاس ایسی قیمتی چیز ہے جو دنیا میں کسی کے پاس نہیں ہے۔یہ وہ نعمت ہے جس سے انسانیت کی دنیاوی و اخروی فلاح جڑی ہوئی ہے۔امت کے پاس دینے کے لیے بہت کچھ ہوتا ہے اور قوم کے پاس لینے کے ما سوا کچھ نہیں ہوتا ۔یہ ہے امت اور قوم کا فرق!
قرآن میں اللہ کی مدد و استعانت کا جہاں بھی وعدہ کیا گیا ہے وہ غیر مشروط نہیں ہے (سورۃ محمد۷) بلکہ اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ امتِ مسلمہ اس دین کے ساتھ کیا معاملہ کرتی ہے جو ساری انسانیت کے لیے امانت کے طور پر اس کو سونپا گیا ہے۔ آج ہم سمجھتے ہیں کہ فلاں، فلاں قوتیں مسلم قوم کی دشمن ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے امت کو دعوت الی اللہ کے فریضہ سے رو گرادنی کے نتیجہ میں تنبیہ کے طور پر ان کے دشمنوں کو ان پر مسلط کیا ہے۔ہماری حقیقی دشمن دراصل دعوت الی اللہ کے فریضہ سے ہماری لاپرواہی اور غفلت ہے ۔جس وقت مسلم قوم ،مسلم امت بن کر اٹھ کھڑی ہوگی اسی وقت سے امت پر اللہ کی مہربانیوں کا آغاز ہوجائے گا۔
موجودہ حالات میں دعوت الی اللہ کی حکمتِ عملی :
۱)حالات وظروف کے مطابق دعوت الی اللہ کے طریقِ کار اور حکمتِ عملی میں تبدیلی ہوسکتی ہے اور یہ عین حکمت کا تقاضا ہے ۔ سیرت سرورِعالم ﷺ میں ہم کو ہر طرح کے دور کے لیے رہنمائی ملتی ہے۔ آغازِ دورِ نبوت کے تین سالوں میں خاموش دعوت کا انداز اختیار کیا گیا تھا ۔اس دورمیں کفارِ مکہ نے رسول اللہ ﷺ کی نبوت کو سنجیدہ خطرہ نہیں سمجھا۔جو بھی نئے مسلمان ہوتے وہ اپنے رشتہ داروں اور قریبی دوستوں میں اسلام کے پیغام کو ان کے سامنے پیش کرتے اور قرآن کی آیات پڑھ کر سناتے ۔اس طریقِ دعوت کی نتیجہ میں خاموشی کے ساتھ بغیر کسی مزاحمت کے بہت سارے خاندانوں میں کوئی نہ کوئی مشرف بہ اسلام ہوا۔اس طرح اسلام کے نو زائیدہ پودے کو پہلی ہی فرصت میں نوچ کر پھینک دینے کا دشمنوں کو موقع نہیں ملا۔ اس خاموش دعوت کے دور کے بعد جب اسلام ایک واضح نظریاتی قوت بن کر مشرکانہ عقائدکے لیے چیلنچ بن کر سامنے آگیا تو اس وقت سے مشرکین ِ مکہ اسلام کی مقبولیت کو اپنی مشرکانہ تہذیب اور مشرکانہ نظام سے جڑے ہوئے مفادات کے لیے خطرہ سمجھنے لگے۔مخالفت کا آغاز استہزا اور زبانی حملوں سے ہوا اور بالآخر مخالفت، جسمانی تشدد کے دور میں داخل ہوئی ۔اس کے بعد مسلمانوں کا اجتماعی معاشی بائیکاٹ کیا گیا ۔آخری دور میں رسول اللہ ﷺ کی قبائلی حمایت ختم ہوئی تو دشمن آپ ؐ کی جان کے درپے ہوگئے۔
آج جب بھارت میں مسلمانوں کے لیے حالات پرآشوب بناد یے گئے ہیں خصوصاً شمالی بھارت میں، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان حالات میں دعوت کے فریضے کو کیسے انجام دیا جائے ۔ہم پر حالات اس لیے تنگ کر دیے گئے کہ ہم دعوت الی اللہ کو فراموش کر کے اپنے عمل سے اسلام کے بجائے غیر اسلام کی نمائندگی کر رہے ہیں ۔قرآن جیسا کلام پاس رکھ کر شرک کے اڈے قائم کر رکھے ہیں اور توحید کے بجائے شرک کا سبق دے رہے ہیں۔
ہم کو مکی دور کے اس ماڈل کو اختیار کرنا پڑے گا جس میں خاموش دعوت کے ذریعے ان لوگوں میں دعوت کا کام کریں جو پہلے سے ہمارے رابطے میں ہیں۔ اس کے لیے پہلی چیز جو درکار ہے وہ ہے دعوتی شعور اور داعیانہ تڑپ کی۔ گفتار اور کردار کے ذریعے ہم اسلام کے سچے نمائندہ بنیں اور ہمارے تحت الشعورمیں داعی ہونے کا احساس جیتا جاگتا رہے۔
۲)اس وقت ہم بیک وقت تین کام کریں ۔پہلا کام یہ کہ جو بھی دعوتی شعور رکھنے والے افراد ہیں وہ غیر مسلموں کے اندر دعوتی کام کرتے ہوئے ان کے اندر اللہ کی بندگی کا شعور پیدا کریں۔ دوسرا کام یہ کریں کہ جو مسلمان عقیدہ و عمل کے بگاڑ کا شکار ہیں ان کے اندر صحیح اسلامی شعور پیدا کریں تاکہ ان کے فکر وعمل سے اسلام بدنام نہ ہو۔ تیسرا کام یہ کریں کہ جو مسلمان صوم و صلواۃ کے پابند ہیں ان کے اندر دعوتی شعور پیدا کریں اور ان کو دعوتی تربیت دیں۔بیک وقت تین طرح کے شعور کو پیدا کرنے کی کوشش کریں ۔
۳)مکے کے چار ادوار میں دعوت کی حکمتِ عملی بدلتی رہی لیکن ایک ہی اصول پر چلتی رہی اور وہ ہے دعوت بالقرآن۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُونَ وَمَا أَنتَ عَلَيْهِم بِجَبَّارٍ فَذَكِّرْ بِالْقُرْآنِ مَن يَخَافُ وَعِيدِ اے نبیؐ، جو باتیں یہ لوگ بنا رہے ہیں انہیں ہم خوب جانتے ہیں، اور تمہارا کام ان سے جبراً بات منوانا نہیں ہے۔ بس تم اس قرآن کےذریعہ سے ہر اُس شخص کو نصیحت کر دو جو میری تنبیہ سے ڈرے۔ سورۃ ق ۴
مکی دورِ نبوت میں بھی جہاد کا حکم دیا گیا لیکن یہ فکری جہاد تھا جو قرآن کے ذریعے سے کیا گیا ۔فَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَجَاهِدْهُم بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا ۔پس اے نبیؐ، کافروں کی بات ہرگز نہ مانو اور اس قرآن کو لے کر ان کے ساتھ جہاد کبیر کرو۔سورۃ الفرقان ۵۲۔
اسی جہاد بالقرآن کی وجہ سے قرآن سے سرداران مکہ اس قدرخائف تھے کہ رسول اللہ ﷺ کو مجنون ،کاہن اور شاعر کہا گیا اور قرآن سننے سے عام لوگوں کو روکنے کی کوشش کی گئی ۔
قرآن سے دعوت الی اللہ کا کام انجام دینا ہر زمانے میں مطلوب ہے۔یہ ایک مستقل اصول ہے دعوت الی اللہ کا ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن میں اللہ کے وجود ،توحید،آخرت اور رسالت کو ثابت کرنے کے لیے آفاق و انفس اور تاریخ سے پرزور دلائل دیے گئے ۔یہ دلائل آج بھی اتنے ہی وزنی اور عقل کو اپیل کرنے والے ہیں جو دورِ نبوت میں تھے۔آج کے ملحدین کے سامنے خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے قرآنی دلائل پر زور طریقے سے پیش کیے جاسکتے ہیں۔قرآن ایک زندہ معجزہ ہے ۔پچھلے رسولوں کو دیے گئے معجزات ان رسولوں کے ساتھ ختم ہوگئے لیکن قرآنی معجزہ قیامت تک آنے والے انسانوں میں حق کے متلاشی لوگوں کو تاریکیوں سے روشنی میں لانے کا سب سے طاقتور ذریعہ ہے۔قرآن میں ایک اہم آیت آئی ہے۔سورۃ حٰم السجدۃ کی آیت ۵۳میں فرمایا گیا ہے کہ :سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ ۔عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور ان کے اپنے نفس میں بھی یہاں تک کہ ان پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ قرآن واقعی برحق ہے۔
اس آیت میں مستقبل کے بارے میں فرمایا جا رہا ہے کہ قرآن میں ایسی کئی آیات ہیں جن سے مستقبل میں یہ ثابت ہو جائے گا کہ قرآن اللہ کا کلام ہے اور یہ حق پر مبنی ہے (مثال کے طورپر :سورۃ الانبیاء۳۰، سورۃ الذاریا ت ۴۵،سورۃ المومنوں ۱۳، ۱۴) اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن اللہ تعالیٰ کا ایسا معجزاتی کلام ہے جو دعوت کی ان تمام ضرورتوں کو پورا کرے گا جو قیامت کے قائم ہونے تک پیش آئیں گی۔
۴)دورِ حاضر میں دوسرے مذاہب کی مذہبی کتابوں کی غیر معقول باتوں کو پڑھ کر پڑھے لکھے لوگ دہریت و الحاد کی طرف مائل ہو رہے ہیں اور ان کو جنسِ مذہب ہی سے نفرت ہوچکی ہے۔ انہوں نے قرآن کا کبھی مطالعہ نہیں کیا۔ مسلمانوں میں سے وہ نوجوان جنہوں نے قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی اور نہ ہی اسلامی لڑیچر کا انہوں نے مطالعہ کیا وہ بھی جدید ملحدوں سے متاثر ہوکر اسلام چھوڑ رہے ہیں اور اپنے آپ کو-Muslims Ex کہلانا پسند کر رہے ہیں۔ان ملحدین اور مرتدین کو اسلام میں واپس لانے کے لیے ان کے شکوک کو دورکرنا دورِ جدید کا ایک اہم چیلنج ہے۔ان میں وہ لوگ بھی ہیں جو اسلام کے دشمنوں کا آلۂ کار بن کر تھوڑے سے مالی فائدوں کے لیے سوشل میڈیا پر دن رات اسلام پر تنقیدیں کرتے رہتے ہیں۔
درحقیقت اسلام سے وہی خارج ہوتے ہیں جو شعوری طور پر اسلام میں کبھی داخل ہی نہیں ہوئے تھے۔ان کا اسلام سے تعلق محض مورثی و روایتی رہا ہے۔ دعوت الی اللہ کے میدان میں کام کرنے والوں کو خصوصی طور پر وہ علم حاصل کرنا چاہیے جس سے وہ ملحدین کے اشکالات کو دور کرسکیں ۔اس سلسلے میں قرآنی دلائل کو جدید مثالوں کے ساتھ پیش کرنا ہوگا۔سب سے پہلا جو سوال ملحدین کی طرف سے کیا جاتا ہے وہ ہے اللہ کے وجود کو کیسے ثابت کیا جائے۔قرآن نے خدا کے وجود پر کثرت سے دلائل پیش کیے ہیں ۔جہاں تک مشرکین کا سوال ہے قرآن میں توحید پر بھی بھر پور دلائل کو پیش کیے گئے ہیں ۔
۵)اللہ تعالی کے وجود اور اس کی وحدانیت پر دلائل پیش کرنے کے بعد ان کے سامنے مقصدِ زندگی کو پیش کرنا ہوگا کہ انسانی زندگی کا مقصد یہ ہے کہ انسانوں کی عقل کا امتحان لیا جائے ۔عقل کا امتحان یہ ہے کہ کیا وہ اللہ تعالیٰ کو بغیر دیکھے اس کی نشانیوں کو دیکھ کر پہچانیں گے۔ اللہ تعالی کو خالق اور رب کی حیثیت سے پہچاننے کے بعد کیا وہ اللہ کی بندگی اختیار کرنے کے لیے تیا رہیں؟ اس امتحان میں کامیاب ہونے کے لیے رہنمائی کے طور پر اللہ تعالیٰ نے رسولوں کو مبعوث فرمایا اور کتابوں کو نازل کیا ہے بالکل اسی طرح جس طرح ایک طالب علم کو امتحان میں کامیابی کے لیے اساتذہ اور کتابوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ جب مقصدِ زندگی امتحان کا لیا جانا ہے تو پھر اس امتحان کے نتیجہ کا بھی وقت آنا چاہیے ۔اس طرح توحید ،رسالت و آخرت کو مربوط کرکے یہ بتلایا جا سکتا ہے کہ یہی عقائد اس دنیا کی حقیقت کو بیان کرسکتی ہیں ۔
۶) دعوت الی اللہ کے سلسلے اللہ تعالیٰ نے رہنمائی فرمائی ہے : ادْعُ إِلِى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۔اے نبی، اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ، اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقہ پر جو بہترین ہو۔سورۃ النحل ۱۲۵۔
اس آیت میں فرمایا جا رہا ہے کہ دعوت الی اللہ کے کام میں حکمت سے کام لیا جائے ۔مدعو کی نفسیا ت کو پیش نظر رکھتے ہوئے سوزِ دل کے ساتھ دعوت پیش کی جائے۔عمدہ نصیحت سے مراد ہے عقل کے ساتھ دل کو بھی اپیل کیا جائے۔اگر مباحثہ اور مناظرہ کی دعوت دی جائے تو اس کو بھی قبول کیا جائے ۔لیکن شائستگی و متانت کو ملحوظ رکھتے ہوئے مضبوط دلائل سے بحث کی جائے تاکہ سامعین یا ناظرین یہ دیکھ سکیں کہ کون حق کی وکالت کر رہا ہے اور کون باطل کی۔اسلام فکری میدان میں بہت طاقتورہے۔ اسلام کی وکالت کرنا ایسا ہے جیسے ایک وکیل کے لیے سچ کو سچ ثابت کرنا جو بہت آسان ہوتا ہے بہ نسبت اس وکیل کے جو جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کا کام اپنے ذمے لے لے۔
۷) قرآن کتابِ تلاوت ہی نہیں ہے بلکہ یہ کتابِ ہدایت بھی ہے ۔اس سے آگے بڑھ کر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ قرآن ایک کتابِ دعوت بھی ہے۔قرآن میں وہ تمام دلائل دیے گئے ہیں جو وجودِ خداوندی، توحید، رسالت اور آخرت کو ثابت کرنے کے لیے درکار ہیں۔ قرآن میں پیغمبروں کے وہ دعوتی ماڈل پیش کیے گئے جس میں وہ اپنی اپنی قوم میں دعوت الی اللہ کا فرض انجام دیتے ہیں۔ قرآن پچھلی قوموں کی سرگزشت کو بیان کرتے ہوئے مستکبرین سے رسولوں کے مکالمات کو نقل کرتا ہے تاکہ وقت کے فرعونوں کے سامنے کیسے اللہ کے پیغام کو پیش کیا جائے۔
۸)مسلم اپنے خول سے باہر نکلیں اور ایک Marketing Mindset کے ساتھ اسلام کو دوسروں کے سامنے پیش کریں ۔اس بات کا انتظار نہ کریں کہ کوئی اسلام کے متعلق پوچھے گا تو ہم بتلائیں گے بلکہ ہم خود سائلین سے ملیں اور ان کے اشکالات کے بارے میں سوال کریں ۔آج کے دور میں مخالفین ِ اسلام نے اسلام کو بحث کا موضوع بنا دیا ہے ۔اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اتنا زہر پھیلا دیا گیا ہے کہ ایک عام غیر مسلم آج کل جب کسی مسلمان کو دیکھتا ہے تو اس کے ذہن کے افق پر منفی خیالات پیداہونے لگتے ہیں۔ اس صورت میں بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم خود آگے بڑھ کر ان سے نرمی سے سوال کریں کہ اگر آپ ذہن میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں کچھ غلط فہمیاں پائی جاتیں ہوں تو وہ پیش کرے۔اس سے کہیں کہ میڈیا کے ذریعے پھیلائے گئے نفرت کے اس ماحول میں حقیقی بھائی چارہ قائم کرنے کے لیے غلط فہمیوں کا دور ہونا ضروری ہے۔دعوتی گفتگو کو شروع کرنے کا یہ ایک اچھا طریقہ ہے۔ مسلمان ہی نفرت آمیز جھوٹے الزامات کے جواب میں صفائی پیش نہ کریں تو آخر کون کرے گا؟
۹)اسلام کو بہترین اور دل نشین انداز میں پیش کرنا، بہترین زبان اور اسلوب کو اختیارکرنا، گفتگو میں روانی کا ہونا اور حاضر جوابی سے کام لینا اور عمومی طور پر جو اعتراضات مخالفین کی طرف سے اسلام پر کیے جاتے ہیں ان کے جوابات کی تیاری کرنا یہ وقت کا اولین تقاضا ہے۔ جو لوگ دعوت الی اللہ کو اپنا مقصدِ زندگی بنا کر اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اس مقدس کام میں لگا نا چاہتے ہیں ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے اندر تقریری صلاحیت پیدا کریں اور مسلسل علم حاصل کرتے رہیں ۔قرآن سے شغف پیدا کریں اور قرآن کو اس انداز سے پڑھیں کہ قرآن ایک Dawah Manual ہے۔ یقیناً قرآن کے نزول کا ایک مقصدیہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ کی دعوتی زندگی میں فکری مواد آپ کو بروقت ملتا رہے۔ معترضین کے سوالات کے جوابات بر وقت آپ پر نازل ہوا کرتے تھے۔
۱۰) داعیانہ تڑپ کے ساتھ دعوت کے میدان میں اتریں۔انبیاء و رسل کی سیرت یہ بتلاتی ہے کہ ان کی قوم کے لوگ ان کو برا بھلا کہتے اور مار پیٹ بھی کرتے یہاں تک کہ ان کو لہولہان کر دیتے، لیکن اس کے باوجود وہ اپنی مدعو قوم کے خیر خواہی میں رہتے ۔یہی خیرخواہی کا جذبہ ایک داعی کو صبر و استقامت کے ساتھ دعوت کے میدان کھڑا رکھتا ہے ۔ایک رسول اپنی قوم کو مستقبل میں اس طرح سے دیکھتا ہے کہ یہ ہٹ دھرم لوگ ایک دن آگ کا ایندھن بننے والے ہیں ۔وہ اس منظر کو دیکھ کر تڑپ اٹھتا ہے اور ان سے التجا کرتا ہے کہ وہ ایمان لائیں اور اللہ کے عذاب سے اپنے آپ کو بچائیں۔ایک رسول اپنے زخموں کی فکر سے بے نیاز ہو کر مدعو کی اخروی کامیابی چاہتا ہے۔
۱۱)داعی کا ایک اہم وصف یہ ہے کہ داعی اپنے آپ کو مدعو کے مقابلے میں مدعو کا حریف نہ سمجھے بلکہ وہ مدعو کو مریض کے درجے میں اور خود کو ڈاکٹر کے درجے میں محسوس کرے۔وہ مریض سے نہ لڑے بلکہ وہ مرض سے لڑے ۔وہ مریض کی ضد و ہٹ دھرمی سے دلبرداشتہ نہ ہو۔داعی کو قرآن میں صبر کی باربار تلقین کی گئی ہے اور یہ فرمایا گیا ہے کہ یہ صبر کرنا عالی ظرفی کی علامت ہے ۔شیطان کی کوشش ہوتی ہے کہ داعی اور مدعو کے درمیان اتنی تلخی بڑھ جائے کہ دعوت کا کام رک جائے اور مدعو ہدایت سے محروم رہ جائے (سورۃ حم السجدۃ۳۴ تا ۳۶)
۱۲)مدعو کی زبان سیکھیں ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ فَيُضِلُّ اللّهُ مَن يَشَاء وَيَهْدِي مَن يَشَاء وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ۔ہم نے اپنا پیغام دینے کے لیے جب کبھی کوئی رسول بھیجا ہے، اس نے اپنی قوم ہی کی زبان میں پیغام دیا ہے تاکہ وہ انہیں اچھی طرح کھول کر بات سمجھائے۔ پھر اللہ جسے چاہتا ہے بھٹکا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت بخشتا ہے، وہ بالا دست اور حکیم ہے۔سورۃ ابراھیم ۴۔
وہ داعی جو مدعو کی زبان جاننے والے ہوں وہ بہت خوش قسمت ہیں کہ دعوت کا کام ان کے لیے بہت آسان ہے۔ضروری علم حاصل کریں اور اس علم کو لے کر دعوت کے میدان میں اس مبارک فریضہ کو مدعو کی زبان و اسلوب میں ادا کریں۔ آج کل Chat GPT کے ذریعے دعوتی مواد کا کسی بھی زبان میں ترجمہ کرکے مطلوبہ زبان میں دعوتی کام کو موثر طریقے سے انجام دیا جا سکتا ہے۔
۱۳) جو لوگ سوشل میڈیا کی مہارت رکھتے ہوں وہ بھی سوشل میڈیا کو دعوت کے لیے بہترین ذریعہ بنا سکتے ہیں۔ الحمدللہ فی زمانہ سوشل میڈیا کے ذریعے اسلام کی اشاعت کا کام کچھ لوگ کر رہے ہیں لیکن اس کو بہت بڑے پیمانے پر کرنے کی ضرورت ہے۔ Live Streams پر سوالات کے جوابات دیے جاتے ہیں اور مباحثے ہوتے ہیں جس سے غیر مسلموں کی غلط فہمیاں دور ہوتی ہیں۔ جہاں سوشل میڈیا سے شر پھیل رہا ہے وہیں اس سے خیر کے پھیلنے کے امکانات ہیں۔
۱۴) Visit the Mosque پروگرام جہاں بھی ہوئے ہیں وہاں ان کے بہت اثرات اس محلے میں پیداہوئے ہیں ۔مسجد کا پرامن روحانی ماحول،ایک صف میں نمازیوں کا کھڑا ہونا اور رکوع و سجود کی صورت میں مراسم عبودیت کا بجالانا ان کے لیے اسلام کے تعارف کی ایک بہترین ابتداء ہے۔اس دوران ان کو اذان کا مطلب سمجھایا جاتا ہے۔ اسلام کے بنیادی عقائد سمجھائے جاتے ہیں۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 19 مئی تا 25 مئی 2024