![](https://dawatnews.net/wp-content/uploads/2025/02/20250209-13.jpg)
دوسری قسط:لچک دار رویہ:21ویں صدی کی ایک اہم مطلوبہ صلاحیت
تعلیمی میدان کے ساتھ ساتھ سماجی کامیابی کے لیے بچوں کوحالات سےموافقت کا گر سکھائیں
سید تنویر احمد
سکریٹری مرکزی تعلیمی بورڈ
گروپ سرگرمیاں اور پرائمری اسکول کی تربیت:
جب بچے پرائمری اسکول میں داخل ہو جاتے ہیں تو لچک دار رویہ کی صفت کو پروان چڑھانے کے لیے گروپ لرننگ (Group Learning) اور تعاون پر مبنی لرننگ (Collaborative Learning) کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔
-1 سرکل ٹائم ایکٹیویٹی (Circle Time Activity): اس میں طلبہ ایک گروپ بنا کر کسی منصوبے یا سرگرمی کو انجام دیتے ہیں۔
-2 سماجی پروجیکٹس: عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ طلبہ کو ایسے سماجی منصوبے دیے جاتے ہیں جو ان میں لچک اور سماجی شعور پیدا کرتے ہیں۔
ایموشنل کوشنٹ (EQ) اور سوشل کوشنٹ (SQ):
موجودہ تعلیمی ماحول میں دو اصطلاحات بہت معروف ہو گئی ہیں:
1- ایموشنل کوشنٹ (Emotional Quotient): یہ دوسروں کے جذبات کو سمجھنے اور ان کے مطابق اپنے رویے کو ڈھالنے کی صلاحیت ہے۔ ضروری ہے کہ نہ صرف دوسروں کے جذبات کو سمجھا جائے بلکہ ان کے مطابق اپنے جذبات کو ترتیب دیا جائے۔ بعض اوقات دوسروں کے جذبات کی اصلاح کے لیے اپنے جذبات کو قابو میں رکھنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اس شعوری عمل کو ای کیو (EQ) کہا جاتا ہے۔
2- سوشل کوشنٹ (Social Quotient): اس سے مراد یہ ہے کہ فرد سماجی ضرورتوں، افراد کی عادتوں، ان کے رد و قبول اور مزاج کو سمجھے اور اپنے رویے کو ان کے مطابق ڈھال لے۔ ایک سماجی کارکن کے لیے مختلف ثقافتی یا جغرافیائی ماحول میں لچک دار رویہ اپنانا سوشل کوشنٹ کی مثال ہے۔ مثلاً، شمالی بھارت کے ایک سماجی کارکن کو جنوبی بھارت میں ناشتے میں اِڈلی اور وڈا پیش کیا جائے اور وہ اسے خوش دلی سے قبول کر لے تو یہ اس کی سماجی ذہانت (Social Intelligence) کی علامت ہے۔
ایمپیتھی (Empathy) کی تعلیم:
ایمپیتھی، یعنی دوسروں کے جذبات، خوشی، غم، سوچ اور عادتوں کو سمجھنے کی صلاحیت کو بھی اسکولوں میں فروغ دیا جا رہا ہے۔
ایمپیتھی صرف غم اور مشکلات کو سمجھنے تک محدود نہیں ہے بلکہ خوشی کو بھی سمجھنا اس میں شامل ہے۔
اس میں نہ صرف دوسروں کے جذبات کا احساس شامل ہے بلکہ ان کے مطابق اپنے عمل میں تبدیلی لانا بھی ضروری ہے۔
مثال کے طور پر کسی کے غم کا احساس کرنے کے بعد اس کی مدد کرنے کا اقدام ایمپیتھی کی اعلیٰ مثال ہے۔
مذہب اور لچک دار رویہ:
لچک دار رویے کی تربیت میں مذہبی اقدار کو شامل کرنے کی ضرورت ہے۔
اسلامی عقائد اور سیرتِ نبوی کی روشنی میں طلبہ کی تربیت کر کے ان میں سماجی ہم آہنگی کا شعور پیدا کیا جا سکتا ہے۔
مسلم سماج میں لچک پیدا کرنے کے لیے جمعہ کے خطبات اور دیگر مذہبی جماعتوں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
ماہرینِ نفسیات اور اخلاقی سائنس:
مسلم ماہرین نفسیات جو رویوں کی تبدیلی پر کام کر رہے ہیں، ان سے استفادہ کیا جانا چاہیے۔
جدید نفسیات کی ایک شاخ NLP (Neuro-Linguistic Programming) رویوں میں تبدیلی کے لیے مقبول ہو رہی ہے۔
اسلام میں مراقبہ اور نفس کی اصلاح کے تصورات کو بھی اس سلسلے میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔
خلاصہ:
لچک دار رویہ نہ صرف تعلیمی میدان میں بلکہ سماجی کامیابی کے لیے بھی ایک بنیادی خصوصیت ہے۔ بچوں میں یہ صفت پیدا کرنے کے لیے تعلیمی نصاب، گروپ سرگرمیاں، مذہبی تربیت اور نفسیاتی تکنیکوں کا استعمال ضروری ہے۔ یہ خصوصیت بچوں کو ایک بہتر اور ہم آہنگ سماج کا حصہ بننے میں مدد دیتی ہے۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ وہ طلبہ جو سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، ان میں لچک دار رویہ پیدا کرنے کے لیے سماجی علوم، بالخصوص بنیادی نفسیات اور عمرانیات (سوشیولوجی) کی تعلیم ضروری ہے۔ بھارت کی تعلیمی پالیسی 2020 نے بھی اس قسم کی رائے پیش کی ہے۔ کئی یورپی ممالک میں گریجویشن کی سطح پر نصاب میں اس طرح کے مضامین شامل کرنے کی گنجائش رکھی گئی ہے۔
ماہرینِ تعلیم کا یہ بھی مشاہدہ ہے کہ طلبہ میں لچک دار اور مثبت رویہ پیدا کرنے کے لیے جدلیاتی (Dialectical) طریقہ کار مؤثر ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ طریقہ مکالمے، مباحثے یا تضادات کے ذریعے کسی موضوع یا خیال کی گہرائی میں جانے اور اس کے حل تک پہنچنے کے عمل کو بیان کرتا ہے۔
اسلام اور لچک دار رویہ
اسلام اپنے ماننے والوں کو "امت وسط” کہتا ہے، یعنی درمیانی اور متوازن امت۔
مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ تفہیم القرآن میں سورہ بقرہ آیت نمبر 143 کے تحت "امت وسط” کی وضاحت کرتے ہوئے رقم طراز ہیں۔
’’امت وسط” سے مراد وہ امت ہے جو اعتدال اور توازن کی حامل ہو۔ یہ امت نہ تو افراط میں مبتلا ہوتی ہے اور نہ تفریط میں، بلکہ ہر قسم کی انتہا پسندی اور غلو سے پاک رہتی ہے۔ یہ امت اپنے اخلاق، اعمال اور نظریات میں میانہ روی اختیار کرتی ہے جو اللہ کے نزدیک پسندیدہ طریقہ ہے۔
اعتدال اور توازن:
مولانا مودودی کے مطابق "امت وسط” کا تصور اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے۔ اسلام ایک ایسی راہ دکھاتا ہے جو انسان کی روحانی اور مادی ضروریات دونوں کا احاطہ کرتی ہے۔ یہ نہ تو دنیاوی خواہشات کو مکمل طور پر ترک کرنے کا درس دیتا ہے، اور نہ ہی انہیں حد سے بڑھانے کی اجازت دیتا ہے۔
میانہ روی کی اہمیت
اللہ کے آخری رسول حضرت محمد ﷺ نے فرمایا:
میانہ روی اختیار کرو، میانہ روی اختیار کرو، میانہ روی اختیار کرو، یہ جنت کے راستوں میں سے ایک ہے۔”
اسلام ہمیشہ سے لچک دار رویے کی تعلیم دیتا رہا ہے۔ تاہم، لچک دار رویہ اپنانے کا مطلب یہ نہیں کہ اپنی اصولی رائے، عقائد یا ثقافت کو ترک کر دیا جائے۔
لچک دار رویے کے حدود
لچک دار رویے پر گفتگو کرتے ہوئے یہ غلط فہمی پیدا ہو سکتی ہے کہ کہیں اس رویے کا مطلب یہ تو نہیں کہ:
اپنی رائے کو مکمل طور پر ترک کر دیا جائے۔
مخالف کی رائے کو بلا سوچے سمجھے قبول کر لیا جائے۔
حالات کے دباؤ میں آ کر اپنے اصولوں کو قربان کر دیا جائے۔
کسی بھی قسم کی چالاکی یا لالچ کی بنیاد پر اپنا موقف تبدیل کر دیا جائے۔
لچک دار رویے کا اصل مفہوم:
لچک دار رویہ دراصل دلیل، حقائق اور دور رس نتائج کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی رائے یا عمل میں وہ تبدیلی ہے جو حق اور درستگی کی جانب لے جائے۔ لیکن یہ تبدیلی خوف، لالچ یا دباؤ کے تحت نہیں ہونی چاہیے۔
اسلامی لچک داری کا مطلب یہ ہے کہ اپنی شناخت، تہذیب اور عقائد کو برقرار رکھتے ہوئے دوسروں کے ساتھ معاملات کیے جائیں۔
اپنے عقائد اور نظریات کی وضاحت دلیل کے ساتھ کریں۔
دوسرے کے دلائل کو غور سے سنیں، لیکن اپنی شناخت کو کھونے نہ دیں۔
دباؤ یا زور و زبردستی کے ذریعے نہ اپنی رائے کو مسلط کریں اور نہ دوسرے کی رائے کو بلا وجہ قبول کریں۔
اپنے رویے کو اس طرح ترتیب دیں کہ آپس میں احترام اور تعاون کا ماحول پیدا ہو۔
جہاں لچک نہ ہو، وہاں سختی پیدا ہوتی ہے
جب کسی فرد یا گروہ میں لچک کا فقدان ہوتا ہے تو وہاں سختی جنم لیتی ہے۔ یہ سختی جب تین افراد کے ایک گروہ میں منتقل ہوتی ہے تو فسطائیت کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔
آج ہمارے ملک کے نوجوانوں میں یہ رجحان تیزی سے فروغ پا رہا ہے کہ ان کا عقیدہ، روایت، لب و لہجہ اور نظریات دوسروں سے بہتر ہیں۔ وہ ان لوگوں کو کم تر سمجھتے ہیں جو ان کی فکر سے متفق نہیں یا ان کے نظریات کو نہیں مانتے۔
سیاسی طاقت اور سخت رویے کا فروغ
جب سخت گیر رویوں کو سیاسی طاقت ملتی ہے تو یہ انتہا پسندی اور فسطائیت کو بڑھاوا دیتا ہے۔ یہی کچھ آج ہمارے ملک میں ہو رہا ہے، جہاں سختی اور عدم برداشت کا رجحان نوجوانوں اور طلبہ میں بڑھ رہا ہے۔
اسلامی تاریخ میں لچک دار رویے کی مثالیں
اسلامی تاریخ میں ہمیں لچک دار رویے کی کئی روشن مثالیں ملتی ہیں، جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
-1 حضرت ابراہیم علیہ السلام کا رویہ:
جب حضرت ابراہیم علیہ السلام مصر کے بادشاہ کے دربار میں پہنچے تو انہوں نے اپنی بیوی حضرت سارہ کو اپنی بہن کے طور پر متعارف کروایا۔ یہ حکمتِ عملی اس وقت کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اختیار کی گئی تاکہ کسی قسم کی ناگہانی صورت حال سے بچا جا سکے۔
-2 صلح حدیبیہ:
صلح حدیبیہ کے معاہدے کے دوران مکہ والوں نے یہ اعتراض کیا کہ معاہدے میں "رسول اللہ” کا لفظ لکھا ہوا نہ ہو۔ اللہ کے رسول نے اس اعتراض کو قبول کیا اور معاہدے میں اپنا نام صرف "محمد بن عبداللہ” لکھوانے پر راضی ہو گئے۔ یہ رویہ اس وقت کی حساسیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنایا گیا تاکہ معاہدہ طے پا سکے اور امن کی راہ ہموار ہو۔
-3 جنگ بدر کے قیدیوں کے ساتھ رویہ:
جنگ بدر کے بعد گرفتار کیے گئے قیدیوں میں سے چند قیدیوں کو اس شرط پر رہا کیا گیا کہ وہ مسلمانوں کو تعلیم دیں گے۔ یہ اقدام اسلامی تعلیمات میں لچک اور انسانیت نوازی کا بہترین مظہر ہے۔
شریعت اسلامی میں لچک دار رویے کے پہلو
شریعت اسلامی میں بھی لچک داری کے کئی اہم پہلو شامل ہیں جو زندگی کے مختلف مواقع پر سہولت اور آسانی فراہم کرتے ہیں:
-1 نمازِ قصر:
سفر کے دوران نمازِ قصر (مختصر کر کے پڑھنا) کی اجازت دی گئی ہے تاکہ عبادات میں آسانی ہو۔
-2 روزے میں رعایت:
اگر کوئی شخص بیمار ہو یا سفر پر ہو تو وہ روزہ نہ رکھ کر بعد میں اس کی قضا کر سکتا ہے۔
-3 ازدواجی زندگی میں لچک:
اگر شادی شدہ مرد اور عورت کے درمیان نباہ ممکن نہ ہو تو شریعت طلاق یا خلع کی اجازت دیتی ہے تاکہ دونوں فریقین ذہنی سکون کے ساتھ اپنی زندگی گزار سکیں۔
-4 اہل کتاب کے ساتھ معاملات میں لچک:
اہل کتاب کے کھانے کو جائز قرار دیا گیا ہے بشرطیکہ وہ اسلامی اصولوں کے مطابق ہو۔ o اہل کتاب کی خواتین سے شادی کی اجازت بھی دی گئی ہے۔
5- تمام انسانوں کے ساتھ حُسن سلوک:
اسلام تمام انسانوں کے ساتھ حُسن سلوک کرنے، ان کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنے اور انصاف پر مبنی معاشرتی نظام قائم کرنے کی تاکید کرتا ہے۔
***
ماہرین کا ماننا ہے کہ وہ طلبہ جو سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، ان میں لچک دار رویہ پیدا کرنے کے لیے سماجی علوم، بالخصوص بنیادی نفسیات اور عمرانیات (سوشیولوجی) کی تعلیم ضروری ہے۔ بھارت کی تعلیمی پالیسی 2020 نے بھی اس قسم کی رائے پیش کی ہے۔ کئی یورپی ممالک میں گریجویشن کی سطح پر نصاب میں اس طرح کے مضامین شامل کرنے کی گنجائش رکھی گئی ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 09 فروری تا 15 فروری 2025