دورانیے کے اعتبار سے غزہ خونریزی اسرائیل کی طویل ترین جنگ

یہ جماعتی و سیاسی مفادات کی جنگ ہے: اسرائیل کے ہزاروں فوجی افسروں کا بیان

مسعود ابدالی

خود کو مزاحمت کاروں سے آزاد کرکے، ہمارے قیدی واپس کر دو: اسرائیل کی اہل غزہ کو دھمکی
کینیڈا کی انتخابی مہم میں غزہ نسل کشی کی بازگشت۔امریکی جامعات میں حبس کی سی کیفیت۔ اربوں ڈالر کی وفاقی گرانٹ معطل
ایمیگریشن جج نے طالب علم رہنما محمود خلیل کی ملک بدری کا فیصلہ درست قرار دے دیا
غزہ کے طول و عرض پر بمباری اور بر و بحر سے شدید گولہ باری کے ساتھ اسرائیل اپنے قیدیوں کی رہائی کے لیے مِصر کی ثالثی میں ’دہشت گردوں‘ سے براہ راست مذاکرات بھی کر رہا ہے۔ جمعہ 11اپریل کو شناخت پوشیدہ رکھنے کی شرط پر ایک سینئر اسرائیلی اہلکار نے KAN نیوز ایجنسی کو بتایا کہ نیتن یاہو، آٹھ قیدیوں اور آٹھ لاشوں کے عوض کئی سو فلسطینی رہا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس دوران پائیدار امن مذاکرات کے لیے چالیس سے 70 دن حملے بند رہیں گے۔ جبکہ مزاحمت کار شہری علاقوں اور رفح سے اسرائیلی فوج کی واپسی اور انسانی امداد کے راستے میں حائل تمام رکاوٹیں ختم کرنے کے مطالبے پر قائم ہیں۔ اس ’انکشاف‘ سے کچھ دیر قبل صدر ٹرمپ نے واشنگٹن میں کابینہ اجلاس کے دوران صحافیوں کو بتایا کہ ’ہم اسرائیل اور مزاحمت کاروں سے رابطے میں ہیں، قیدیوں کی رہائی بہت قریب ہے لیکن مزاحمت کار بہت گندے (Nasty) لوگ ہیں‘۔ کچھ ایسی ہی بات صدر کے خصوصی ایلچی آدم بوہلر نے CNN کے جیک ٹیپرکو 11 اپریل کی صبح بتائی کہ قیدیوں کی رہائی پر بات چیت فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ اپنے سوال سے پہلے صحافتی بد دیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جیک ٹریپر نے کہا کہ اب تک ہونے والے تمام امن مذاکرات کی ناکامی کے ذمہ دار مزاحمت کار ہیں۔ جیک ٹیپر کی اس بات کی حمائت کرتے ہوئے آدم بوہلر بولے ’ہاں یہ دہشت گرد بہت خراب لوگ ہیں لیکن کیا کیا جائے، ’معصوم‘ قیدیوں کو چھڑانے کے لیے وحشیوں سے رابطہ ہماری مجبوری ہے‘۔
ہفتہ 12 اپریل کو جہاں امن مذاکرات کے لیے اعلیٰ سطحی وفد قاہرہ روانہ ہوا وہیں اسرائیلی طیاروں نے سارے غزہ پر عربی زبان میں وزیر دفاع اسرائیل کاٹز کے آخری انتباہ پر مبنی پمفلٹ گرائے۔ ٹائمز آف اسرائیل میں اس پمفلٹ کا جو متن شائع ہواہے اس کے مطابق اسرائیلی فوج نے فلاڈیلفی راہداری کے شمال مغرب میں موراگ راہداری پر اپنا قبضہ مکمل کر لیا ہے۔ شمال میں بیت حنون کا علاقہ ابھی اب اسرائیل فوج کا سیکیورٹی زون ہے۔ وزیر دفاع نے اہل غزہ سے کہا کہ وہ خود کو مزاحمت کاروں سے آزاد کرکے ہمارے قیدیوں کو آزاد کردیں کہ یہ جنگ ختم کرنے کا آخری موقع ہے۔ اب مزاحمت کار خود ہی راہ فرار اختیار کر رہے ہیں اور ان کے لیے تمہاری حفاظت ممکن نہیں لہٰذا بہتر یہی ہے کہ معاملات اپنے ہاتھ میں لے کر اپنی اور اپنے بچوں کی جان بچا لو۔ یعنی بقول احمد فراز
سو شرط یہ ہے جو جاں کی امان چاہتے ہو
تو اپنے لوح و قلم قتل گاہ میں رکھ دو
وگرنہ اب کے نشانہ کمان داروں کا
بس ایک تم ہو، تو غیرت کو راہ میں رکھ دو
تاہم معاملہ اتنا سادہ نہیں جیسا فاضل وزیر دفاع بیان کر رہے ہیں۔ اس طویل خونریزی نے جہاں غزہ اور اہل غزہ کو برباد کر دیا وہیں اب اسرائیلی فوج میں بھی تھکن بلکہ جھنجھلاہٹ کے آثار بہت واضح ہیں۔ اس سے پہلے 1967 کی جنگ میں مصر، شام، اردن، عراق اور لبنان کے ساڑھے چار لاکھ سپاہی، 800 طیارے اور 2500 سے زیادہ ٹینک صرف چھ دن ثابت قدم رہ سکے۔ چھ روزہ جنگ میں اسرائیل کے کل 900 سپاہی ہلاک ہوئے۔چھ سال بعد 1973 کی جنگ رمضان (جنگ یوم کپر) صرف 23 دن جاری رہی، اس جنگ میں مصر اور شام کو الجزائر، عراق، لیبیا اور تیونس کے علاوہ شمالی کوریا اور کیوبا کی مدد بھی حاصل تھی۔ جنگ رمضان میں اسرائیل کے 2800 فوجی مارے گئے۔ جبکہ حالیہ خونریزی 560 دنوں سے جاری ہے جس میں 40 ہزار مزاحمت کاروں کے مقابلہ پر اسرائیل نے محفوظ (Reserve) سپاہیوں سمیت اپنے لاکھوں فوجی جھونک رکھے ہیں۔جھڑپوں میں اسرائیل کے 2000 کے قریب سپاہی ہلاک اور 75 ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے جنکی نصف تعداد معذور ہو چکی ہے۔
دہشت گردی اور قومی سلامتی کا ہوا کھڑا کر کے نیتن یاہو اور ان کے انتہا پسند اتحادی غزہ مزاحمت کاروں کے مکمل خاتمے تک جنگ جاری رکھنے کا راگ الاپ رہے ہیں اور امریکی صدر بھی ان کی لَے میں لَے ملائے ہوئے ہیں لیکن فوج میں جنم لینے والی بے چینی اب منظر عام پر آنا شروع ہو گئی ہے۔
نو اپریل کو اسرائیلی فضائیہ کے ایک ہزار سے زیادہ (Reserve) افسران نے اپنے سربراہ میجر جنرل تومر بار کو ایک خط لکھا جس کی نقول اسرائیلی اخبارات کو جاری کی گئیں۔ خط میں کہا گیا ہے کہ شہری آبادی پر وحشیانہ بمباری مسئلے کا حل نہیں ہے۔ قیدیوں کی آزادی کو لڑائی پر ترجیح ملنی چاہیے۔ اس خط پر نیتن یاہو سخت غصے میں آگئے اور وزیر دفاع کے نام ایک مکتوب میں کہا کہ
’اس حرکت سے فوج میں بد دلی اور قیادت پر عدم اعتماد پیدا ہوگا لہٰذا ان سرکش بزدلوں کو فوراً بر طرف کر دیا جائے‘۔قارئین کی دلچسپی کے لیے عرض ہے کہ اسرائیل میں فوجی ملازمت ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ختم نہیں ہوتی اور مناسب صحت کے حامل افراد کو محفوظ یا reserve دستے کا حصہ بنالیا جاتا ہے۔ اس وقت غزہ میں پونے دو لاکھ Active سپاہ کے شانہ بشانہ تین لاکھ محفوظ سپاہی لڑائی میں شریک ہیں جو ایک ماہ محاذ پر گزار کر 30 دن آرام کرتے ہیں۔
ابھی ان باغیوں کی گوشمالی کا کام شروع ہی ہوا تھا کہ اسرائیلی بحریہ کے 150 سے زیادہ ریٹائرڈ افسران نے وزیر دفاع کے نام ایسا ہی ایک خط لکھ مارا۔ بحریہ کے افسران نے غزہ خونریزی فوراً بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے تحریر کیا کہ بے مقصد جنگ سے اسرائیل کو مالی و جانی نقصان اور عالمی سطح پر بدنامی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا۔ خط میں ایک جملہ یہ بھی ٹانک دیا گیا کہ جنگ دوبارہ شروع کرکے وزیر اعظم نے 59 اسرائیلی قیدیوں کی زندگی خطرے میں ڈال دی ہے۔ شام کو میڈیکل کور کے سیکڑوں افسران نے بھی اسی مضمون کا سندیسہ اپنی قیادت کو بھجوادیا ہے۔ عبرانی چینل 12 کے مطابق اسرائیلی بکتر بند دستے کے سیکڑوں اہلکاروں نے بھی فوج کے سربراہ کے نام خط میں کہا ہے کہ ’’غزہ میں جاری لڑائی اسرائیل کے دفاع کے لیے نہیں بلکہ سیاسی مفادات کی تکمیل کے لیے لڑی جا رہی ہے‘‘۔
جمعہ 11 اپریل کو فوج کے انتہائی اہم 8200 انٹیلی جنس یونٹ کے 250 ایجنٹوں کی طرف سے لکھے جانے والے خط نے اسرائیلی قیادت کو مزید پریشان کر دیا ہے۔ جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس 18 سے 21 سال کے 5000 نو خیز جوانوں پر مشتمل اس یونٹ کو اسرائیلی فوج کا دل و دماغ اور اصل قوت سمجھا جاتا ہے۔ اپنے خط میں ان افسران نے کہا کہ لمبی و بے مقصد جنگ نے اسرائیلی فوج کو تھکا دیا ہے اور لڑائی سے ہمارے قیدیوں کے لیے خطرات بڑھتے جارہے ہیں۔ خط میں جنگ ختم کر کے سفارتی کوششوں کے ذریعے قیدیوں کی رہائی یقینی بنانے پر زور دیا گیا ہے۔ یونٹ 8200 کے خط پر وزیر اعظم نے شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے ہمارے دشمنوں کے حوصلے بلند ہو رہے ہیں۔
اب تک اسرائیل میں قیدیوں کی رہائی کے لیے مظاہرے ہو رہے تھے اور جنگی جنون کی بنا پر بائیں بازو کے لیے بھی غزہ نسل کشی کی مذمت کرنا ممکن نہ تھا لیکن فوجیوں کے کھلے خطوط سے حوصلہ پانے والے سیکڑوں افراد نے تل ابیب میں غزہ نسل کشی کے خلاف مظاہرہ کیا جہاں معاشرتی تطہیر نا منظور، معصوم بچوں کا قتل عام بند کرو اور غزہ پر قبضہ نا منظور کے نعرے لگائے گئے۔
غزہ نسل کشی کی باز گشت کینیڈا میں بھی سنائی دے رہی ہے جہاں 28 اپریل کو انتخابات ہونے ہیں۔ آٹھ اپریل کو جب کینیڈا کے وزیر اعظم مارک کارنی، کالگیری (Calgary) کے ایک انتخابی جلسے میں تقریر کے لیے اسٹیج پر آئے تو بہت سے لوگ کھڑے ہوگئے اور کہا ’جناب کارنی!!! غزہ میں نسل کشی کا بھیانک عمل جاری ہے، پہلے اس پر اظہار خیال کیجیے‘۔ کنیڈین وزیر اعظم نے جواب دیا۔ ’مجھے یہ بات معلوم ہے اسی لیے ہم نے (اسرائیل) کو اسلحے کی فراہمی بند کردی ہے‘۔یہ خبر سن کر نیتن یاہو آپے سے باپر ہوگئے اور ٹویٹر (X) پر پیغام داغ دیا کہ ’ایک جمہوری ملک کی حمایت کے بجائے جو منصفانہ انداز میں اپنی بقا کی جنگ لڑرہا ہے، جناب کارنی خونخوار دہشت گردوں کی حمایت کر رہے ہیں‘۔
جنگی جنون کو ہوا دینے کے لیے عراق میں میزائیل کی تنصیب کا شوشہ بھی چھوڑ دیا گیا ہے۔ پہلے ٹائمز آف لندن نے خبر شائع کی کہ ایران نے اپنے عراقی جنگجو جتھے قوات الحشد الشعبی (PMF) کو قدس 351 اور جمال 69 منجنیقی (Ballistic) میزائل فراہم کر دیے ہیں۔ اخبار نے اپنے اس دعوے کے حق میں کوئی شہادت یا ثبوت پیش نہیں کیا۔ لیکن دو دن بعد اسی کہانی کو رائٹرز نے بھی چھاپ دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ صرف چند دن پہلے تک امریکی حکام سینہ پھلا کر کہہ رہے تھے کہ ’یمن کے حوثیوں کا حشر دیکھ کر ایران نے اپنی عراقی ملیشیا کو غیر مسلح کرنا شروع کر دیا ہے‘۔ عراق میں دور مار میزائیلوں کی تنصیب کا اب تک کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا لیکن اسرائیلی میڈیا اسے خوب بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے۔
امریکی جامعات میں غزہ نسل کشی کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو کچل دینے کا سلسلہ جاری ہے۔ جمعہ 11اپریل کو غزہ نسل کشی کے خلاف جامعہ کولمبیا میں طلبہ تحریک کے قائد محمود خلیل کی امریکہ بدری کا فیصلہ سنا دیا گیا۔محمود کے خلاف کسی پُر تشدد واقعے میں شرکت اور دہشت گردی میں ملوث ہونے کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔ گرین کارڈ ہولڈر محمود خلیل کے خلاف فردِ جرم، وزیر خارجہ مارکو روبیو کی دو صفحاتی یاد داشت (MEMO) پر مشتمل ہے جس پر تاریخ بھی درج نہیں ہے۔ میمو میں وزیر خارجہ نے تحریر کیا کہ ’ 7مارچ کو انہیں ہوم لینڈ سیکیورٹی ڈپارٹمنٹ سے خلیل کے بارے میں معلومات ملی تھیں، جس کے مطالعے کے بعد انہیں یقین ہوگیا کہ خلیل کے امریکہ میں قیام سے سام دشمنی کا مقابلہ کرنے کی امریکی خارجہ پالیسی کے مقصد کو نقصان پہنچے گا۔ یہود مخالف مظاہرے اور تخریبی سرگرمیاں، امریکہ میں یہودی طلبہ کے خلاف معاندانہ ماحول کے فروغ کا سبب بن سکتی ہیں۔ لوزیانہ کی امیگریش جج جیمی کومنز (Jamee Comans) نے اپنے مختصر فیصلے میں لکھا ’میرے پاس مارکو روبیو کے خدشات پر سوال اٹھانے کا کوئی اختیار نہیں‘۔ فیصلہ سننے کے بعد محمود خلیل نے جج صاحبہ کو مخاطب کر کے کہا ‘یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے مجھے اس عدالت میں بھیجا ہے جو میرے خاندان سے ایک ہزار میل دور ہے۔ مجھے امید ہے کہ آپ نے میرے لیے جو فوری ضرورت محسوس کی ہے وہ ان سیکڑوں دیگر لوگوں کو بھی ملے گی جو مہینوں سے یہاں بغیر کسی شنوائی کے موجود ہیں۔جواں سال محمود خلیل 8 مارچ سے نظر بند ہیں۔ دوسری طرف غزہ نسل کشی کے خلاف مظاہروں کو روکنے میں ناکامی پر صدر ٹرمپ نے جامعہ کورنیل کی ایک ارب اور Northwestern یونیورسٹی کے لیے 79 کروڑ ڈالر کی وفاقی گرانٹ معطل کر دی ہے۔
امریکہ اور اسرائیل کے سخت و غیر لچکدار موقف و رویے کے باوجود عرب ممالک کا اسرائیل سے تعاون جاری ہے۔ گزشتہ ہفتے اسرائیل کے ساتھ مشترکہ فضائی مشقوں میں قطر اور متحدہ امارات نے بھی شرکت کی۔ خلیج یونان میں ہونے والی اس مشق میں امریکہ، ہندوستان، فرانس، اٹلی، پولینڈ نے بھی حصہ لیا۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]

 

***

 امریکی جامعات میں غزہ نسل کشی کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو کچل دینے کا سلسلہ جاری ہے۔ جمعہ 11 اپریل کو غزہ نسل کشی کے خلاف جامعہ کولمبیا میں طلبہ تحریک کے قائد محمود خلیل کی امریکہ بدری کا فیصلہ سنا دیا گیا۔محمود کے خلاف کسی پُر تشدد واقعے میں شرکت اور دہشت گردی میں ملوث ہونے کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔ گرین کارڈ ہولڈر محمود خلیل کے خلاف فردِ جرم، وزیر خارجہ مارکو روبیو کی دو صفحاتی یاد داشت (MEMO) پر مشتمل ہے جس پر تاریخ بھی درج نہیں ہے۔ میمو میں وزیر خارجہ نے تحریر کیا کہ7 مارچ کو انہیں ہوم لینڈ سیکیورٹی ڈپارٹمنٹ سے خلیل کے بارے میں معلومات ملی تھیں، جس کے مطالعے کے بعد انہیں یقین ہوگیا کہ خلیل کے امریکہ میں قیام سے سام دشمنی کا مقابلہ کرنے کی امریکی خارجہ پالیسی کے مقصد کو نقصان پہنچے گا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 اپریل تا 26 اپریل 2025