
اشہد رفیق ندوی
سکریٹری ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی، علی گڑھ
علم و نور کے سرچشموں سے ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی کا استفادہ
دیوبند سے کاندھلہ تک ایک علمی سفر کی روداد
مظاہر علوم
آج کی پہلی منزل مظاہر علوم سہارن پور تھی۔مظاہر علوم بھی دارالعلوم دیوبند کے ساتھ ہی وجود میں آیا۔ دونوں کے نظام و نصاب اور تعلیم و تربیت میں بڑی مماثلت ہے۔ ڈیڑھ سوبرس سے زیادہ عرصہ گزرجانے کے باوجود بحمد اللہ دونوں ادارے پوری شان وشوکت کے ساتھ قائم ہیں اور طالبان علوم نبوت کی خدمت میں سرگرم عمل ہیں۔ مدرسہ کے احاطہ میں پہنچنے کے بعد امین عام حضرت مولانا سید محمد صالح الحسنی حفظہ اللہ نے پرتپاک خیر مقدم کیا۔مہمانوں کو گلے سے لگایا، دعائیں دیں اور ناشتہ کے دسترخوان پر بٹھادیا۔ ناشتہ بہت پر تکلف تھا۔ ایک ایک چیز اپنے ہاتھ سے پیش کرتے رہے۔ ٹوسٹ پر مکھن لگانے لگے تو علی گڑھ والوں کی رگِ ظرافت پھڑکی۔ کسی نے کہا: حضرت یہ کام تو علی گڑھ والوں کے لیے چھوڑ دیجیے، مگر حضرت ضیافت میں ہی مشغول رہے، کوئی کسر نہ چھوڑی۔ پھر کیمپس کی سیر کرائی۔ جدید درس گاہ نہایت عالی شان ہے۔ شعبہ جات کے مخصوص کمرے ہیں۔ تخصصات کا معیاری نظم ہے۔ اردو و عربی کے رسائل بھی شائع ہوتے ہیں۔ کتب خانہ میں کتابوں کا بہت بڑا ذخیرہ ہے۔ طلبہ واساتذہ کو جن امہات الکتب کی ضرورت ہوتی ہے سبھی موجود ہیں۔ کتابیں نہایت سلیقہ سے لگی ہوئی اور ہر کتاب تک قاری کی رسائی بہت آسان ہے۔ شعبہ جات کی الگ الگ لائبریریاں ہیں، ان میں موضوع کے لحاظ سے کتابیں فراہم کی گئی ہیں۔مخطوطات کا بھی بہت اچھا ذخیرہ ہے۔ ان کی حفاظت اور دیدار کا نظم بھی بہت شان دار ہے۔شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یونس جونپوریؒ کے کمرے کو یادگار گوشہ بنادیا گیا ہے۔ اس میں حضرت کی ذاتی کتابیں، زیر مطالعہ کتابیں اور دیگر یادگار چیزوں کو بہت سلیقہ کے ساتھ محفوظ کردیا گیا ۔ اس میں بخاری شریف و مسلم شریف کے وہ نسخے بھی ہیں جو درس کے درمیان حضرت کی آنکھوں کے سامنے رہا کرتے تھے اور جن پر آپؒ کے قلم سے حواشی لکھے ہوئے ہیں۔
دار العلوم دیوبند کی طرح یہ بھی بہت قدیم و عظیم مدرسہ ہے۔ دورہ تک درس نظامی کی مکمل تعلیم کے ساتھ علوم میں اختصاص کے لیے الگ شعبہ جات قائم ہیں۔ سب کا علیحدہ نصاب، الگ لائبریری اور مخصوص نظام تربیت ہے۔ ان شعبہ جات میں شعبۂ افتا، تخصص فی الحدیث، تخصص فی الادب، تخصص فی التفسیر، تخصص فی القرآن،تدریب فی القضاء اور شعبۂ تحفظ ختم نبوت خصوصاً قابل ذکر ہیں۔ ختم نبوت کا شعبہ علمی وعملی سطح پر بہت سرگرم ہے۔ اس میں طلبہ کو احقاقِ حق کے لیے تیار کرکے میدان میں اتارا جاتا ہے اور لٹریچر کی تیاری پر بھی فوکس ہے۔
ہماری نگاہیں شعبہ تحقیق وتعلیق کی تلاش میں تھیں، بالآخر ہم لوگ وہاں پہنچ گئے اور اس کے ذمہ دار مولانا محمد معاویہ گورکھپوری حفظہ اللہ سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے شعبہ کی سرگرمیوں کا تعارف کرایا۔ اس شعبہ کا نام’’ مجمع الشیخ محمد زکریا مہاجر مدنی‘‘ہے۔ یہاں حدیث پاک کی بنیادی کتابوں کی تحقیق و تعلیق کا کام ہوتا ہے۔’جمع الفوائد‘، نئی تحقیق و تعلیق کے ساتھ آٹھ جلدوں میں شائع ہوئی ہے۔ اس کی تحقیق و تعلیق کے معیار کو عالمی سطح پر تسلیم کیا گیا ہے۔ اس وقت کتاب القویم فی احادیث النبی الکریم پر تحقیق جاری ہے۔
تحقیق و تدوین کا یہ عظیم کام محض چند بلند پایہ محققین کے ذاتی ذوق اور کاوش کا مرہون منت ہے۔ محض ایک کمرے سے یہ کام ہوتا ہے۔ زیادہ افرادی قوت اس میں شریک نہیں ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اتنا بڑا کام چندافراد نہیں اکیڈمیاں کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان محققین کو ہمت و حوصلہ عطا فرمائے اور ان کے کاموں میں برکت عطا فرمائے۔بلاشبہ یہ بہت عظیم کام ہے اور بڑے پیمانے پر کرنے کی ضرورت ہے۔ توجہ دلائی گئی کہ افرادی قوت بڑھا کر مزید کام بڑھایاجانا چاہیے اوریہاں کے فارغین کو اس کام میں لگانا چاہیے۔ یہ بات سامنے آئی کہ مدارس سے جو بچے فارغ ہوتے ہیں ان میں دو چار ہی ایسے سنجیدہ اور پتہ ماری کے کاموں میں لگتے ہیں۔ زیادہ تر اپنے گھریلو کام یا مدرسوں اور مسجدوں کی خدمت میں لگ جاتے ہیں اورکچھ ضائع بھی ہوجاتے ہیں۔ برسہابرس قرآن وسنت کے ماحول میں زندگی گزارتے ہوئے علوم نبوت سے فیض یاب ہونے والے طلبہ سماج کو اپنے علم کا فیض نہ پہنچا پائیں اور ضائع ہو جائیں یہ بہت تشویش ناک بات ہے۔ اس کا چرچا اخبارات ورسائل میں برابر رہتا ہے مگر مدرسہ کے ذمہ دار سے سن کر خیال ہوا کہ اچھی بات ہے کہ ذمہ داروں میں زیاں کا احساس ہے۔ سوال ہوا کیا ہمارے پاس کوئی ایسا منصوبہ ہے کہ یہ حاملین علوم نبوت ضائع ہونے کے بجائے سماج کی تعمیر میں مثبت کردار ادا کریں۔ سوال بہت پرانا اور بہت بڑا ہے۔ جواب ارباب مدارس کوزبان سے نہیں، عمل سے دینا ہے۔ زمانہ مثبت جواب کا منتظر ہے۔
دوتین گھنٹے یہاں گزرے۔ مزید ٹھیرنے کا جی چاہتا تھا۔ یہاں کی علمی و روحانی فضا ، شعبہ جات کا رنگ ڈھنگ اور محترم امین عام کا خلوص و فروتنی اپنی طرف کھینچ رہی تھی، آگے کی منزل تقاضا کررہی تھی کہ جلد نکلا جائے۔ بالآخر میزبان محترم سے اجازت لی گئی۔ انہوں نے وفد کے ہر فرد کو تحائف دیے اور دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا۔
خانقاہ اشرفیہ
ہماری اگلی منزل ضلع شاملی کی روحانی بستی تھانہ بھون تھی۔ یہ وہ عظیم بستی ہے جو ماضی میں حضرت امداد اللہ مہاجر مکیؒ، حضرت مولانا شیخ محمد تھانوی اور حضرت حافظ محمد ضامن شہیدؒ کا مرکز فیض تھی۔ پھر حضرت مہاجر مکیؒ کی توجہ و تاکید پر حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانویؒ نے دوبارہ اس مرکز معرفت کو آباد کیا۔ بستی کے ایک کونے میں چھوٹی سی عمارت ہے۔ اس میں مدرسہ، مسجد، خلوت و جلوت گاہیں اور تالیف و تصنیف کا کام ہوتا ہے۔ کوئی اشتہار نہیں، کوئی نمود و نمائش نہیں۔ چند نفوس ہیں جو خدمت میں لگے ہوئے ہیں۔ اس خانقاہ کے بارے میں حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی حفظہ اللہ نے لکھا ہے کہ ’’یہاں سے ایک ہزار کے لگ بھگ اعلیٰ درجہ کی تصانیف تیار ہوئیں۔ وعظ و ارشاد کا ایک نرالا رنگ وجود میں آیا۔ حقائق و معرفت کے دریا بہائے گئے۔ طریق وتصوف کی تجدید ہوئی۔ علمی وعملی مشکلات کی گتھیاں سلجھائی گئیں۔علوم نبوت کے عقدے کھلے، ہزارہا انسانوں کوحسن اخلاق و معاشرت کے دل کش سانچوں میں ڈھالا گیا۔ شرافت وانسانیت کو نئی زندگی ملی۔ شریعت، عقل اور عشق کی حدیں قائم کی گئیں۔تینوں کے حسین و متوازی امتزاج سے وہ مذاقِ زندگی وجود میں آیا جو اس آخری دور میں کتاب و سنت کی عملی تفسیر کا دوسرا نام ہے‘‘۔(تعارف نامہ)
اس عظیم بستی اور خانقاہ کا یہی شہرہ سن کر ہم لوگ بھی حاضر ہوئے تھے۔ یہاں کے جملہ امور کے انچارج حضرت مولانا سید نجم الحسن تھانوی مظاہری حفظہ اللہ نے ہمارا استقبال کیا۔ خوب اچھی ضیافت کی، خانقاہ کے متبرک گوشوں کا دیدار کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ سہ دری کا علاقہ، جو سب سے زیادہ مقدس اور متبرک مانا جاتا ہے، جہاں بزرگوں کے جلوت و خلوت کی نشانیاں ہیں، وہاں نمازِ ظہر ادا کرنے کا موقع ملا۔ ہمارے لیے یہ سب نیا تجربہ تھا، جس کے خوش گوار اثرات مرتب ہوئے۔
تحقیق و تصنیف کے متوالوں کو شعبۂ تالیفات کی تلاش تھی۔ یہاں دو شعبے اس کام میں مشغول نظر آئے۔ ادارۂ تالیفات اشرفیہ اور شعبہ نشرو اشاعت مرکز معارف حکیم الامت۔ دونوں کی فہرست مطبوعات پر نظر ڈالی گئی۔ ان میں زیادہ تر کتابیں دعاء و اذکار، کرامت وکمالات، آداب و حقوق اور بزرگوں کے احوال و کوائف پر مشتمل تھیں۔ وہ خانقاہ جہاں بیٹھ کر بیان القرآن، بہشتی زیور، اصلاح الرسوم اور تسہیل المواعظ جیسی رہ نما کتابیں لکھی گئیں، جنہوں نے خلق کو زندگی کا شعور دیا، بدعات و خرافات پر قدغن لگائی اور براہ راست قرآن وسنت پر توجہ مرکوز کرنے کی دعوت دی، موجودہ کتابوں میں بہ ظاہر وہ زندگی و تابندگی نظر نہیں آئی۔جستجو ہوئی کہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ قرآن مجید کو ملجا و ماوی بنانے، معاشرہ سے بدعات و رسومات کو ختم کرنے اورتسہیل المواعظ کے ذریعہ معاشرہ میں اصلاح وبیداری کی جو جوت جلانا چاہتے تھے، کیا ان کاموں کی طرف بھی توجہ ہے؟ کیوں کہ یہ بڑے اہم کام ہیں۔ یہی کارنامے حضرت تھانویؒ کو دوسروں سے ممتاز کرتے ہیں۔ انہیں زندہ رکھنے کی شدید ضرورت ہے،مگر جستجو لاحاصل رہی۔
القرآن اکیڈمی کیرانہ
تھانہ بھون سے روحانی غذا لینے کے بعد کارواں کیرانہ پہنچا۔ القرآن اکیڈمی کے ڈائریکٹر مفتی محمد اطہر شمسی صاحب نے کئی کلو میٹر آگے آکر استقبال کیا۔ اپنے گھر لے گئے اور سادہ و لذیذ ظہرانہ سے شاد کام کیا۔ یہاں پہنچ کر القرآن اکیڈمی کی سرگرمیوں کا قریب سے مشاہدے کا موقع ملا۔ اس خطے میں قرآن مجید سے رجوع اور قرآنی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے یہ اکیڈمی قائم ہوئی ہے۔یہاں نئے تجربات ہورہے ہیں۔ وہ بیداری کے لیے پروگرام چلاتے ہیں، نصابات میں تبدیلی کے لیے کوشاں ہیں اور خود انہوں نے ایک نئے نصاب اور نئے طریقہ تدریس کے ساتھ تعلیم کا نیا نظام قائم کیا ہے۔ اس نظام کی خاصیت یہ ہے کہ وہ طلبہ کو قرآن مجید کے معانی و مفاہیم، تعلیمات و مطالبات کی لذت سے آشنا کرتا اور قرآن سے جوڑتا ہے۔ اکیڈمی میں موجودطلبہ نے تعلیمی مظاہرہ کرکے منتظمین کے
خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرکے دکھایا۔ اسے دیکھ کر مزید اطمینان ہوا۔ اس خطے میں حدیث و فقہ کا غلغلہ زیادہ ہے۔ تعلیم قرآن اور رجوع الی القرآن کا معاملہ دب سا گیا ہے۔ قرآن مجید کو اس کا حقیقی مقام دلانے کے لیے اکیڈمی کی کوششیں بلاشبہ قابل ستائش ہے۔
کاندھلہ
سفر کی آخری منزل بزرگان دین کی عظیم بستی کاندھلہ تھی۔ یہاں حاضر ہوکر دنیائے علم و تحقیق کی عظیم ہستی حضرت مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی حفظہ اللہ سے استفادہ مقصود تھا۔ آپ نے بزرگوں کی اس عظیم بستی میں تحقیق و تصنیف کے جو نقوش ثبت کیے ہیں ان میں تحقیق کے متوالوں کے سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ حضرت مولانا کاندھلوی حفظہ اللہ سے استفادہ کے لیے پہلے سے وقت لے لیا گیا تھا۔ وہ سراپا انتظار تھے۔ ہم لوگ پہنچے تو چاروں طرف کتابوں کے درمیان ایک چار پائی پر آپ تشریف فرما تھے، بہ مشکل تمام ایک چار پائی کی جگہ استفادہ کرنے والوں کے لیے خالی تھی۔ باقی ہرطرف کتابیں ہی کتابیں تھیں۔ تقریباً ایک گھنٹہ آپ کے ساتھ گزارنے کا موقع ملا، جتنی دیر حضرت کی صحبت میں رہے علم و نور کی بارش ہوتی رہی۔ قرآن و حدیث، فلسفہ و تاریخ، فقہ وفتاوی اور احسان و تصوف جس موضوع پر گفتگو کا آغاز ہوتا، سیر حاصل مواد ابل پڑتا۔ آپ کی ذاتی لائبریری بھی ایک قیمتی خزانہ ہے۔قدیم رسائل وجرائد کی فائلیں، قیمتی کتابیں اور نہایت قیمتی مخطوطات اس خزینہ کی زینت ہیں۔یہاں پہنچ کر اسکالروں کو اندازہ ہوا کہ معیاری تحقیق کن جاں گسل حالات سے گزرنے کے بعد عزت وشرف کا باعث بنتی ہے۔ تحقیق کے متوالوں کو اس ملاقات کے بعد بحر تحقیق میں غواصی کا مزید حوصلہ ملا اور صحیح معنوں میں سیرابی یہاں پہنچ کر حاصل ہوئی۔
اختتامیہ
اس خوش گوار سفر میں دودن اور ایک رات کا وقت لگا۔ بہت کچھ دیکھنے اور سیکھنے کا موقع ملا۔ جن اداروں کی زیارت ہوئی اور وہ عزت وشہرت کے جس بلند مقام پر فائز ہیں، یقیناً قابل رشک ہیں۔ انہیں یہ بلند مرتبہ ان کی گراں قدر خدمات کی وجہ سے حاصل ہوا ہے۔ حالات کی شدت اور دست یاب محدود وسائل کے ساتھ جو خدمات بھی انجام پارہی ہیں ان کی افادیت سے کسی صورت انکار نہیں کیا جاسکتا۔ بلاشبہ وہ بہت قابل قدر ہیں۔اداروں کے نظام و نصاب کو زمانہ کی ضروریات سے ہم آہنگ ہونا چاہیے، یہ ایک مسلّم حقیقت ہے۔ اس کا تقاضا بہت دنوں سے ہورہا ہے۔ کچھ مدرسے اس کا لحاظ کررہے ہیں مگر کچھ کو ’قدامت‘ پر اصرار ہے، حالاں کہ نہ بدلنے کے نقصانات واضح ہیں۔ تحقیق و تصنیف کا میدان بھی اسی سرد مہری کا شکار ہے، کیوں کہ یہاں جن موضوعات پر خامہ فرسائی ہورہی ہے، وہ بھی اسلاف کے دامن سے بندھے ہوئے ہیں۔ ان میں بھی تازگی اور زمانہ کے تقاضوں سے ہم آہنگی کم ہی پائی جاتی ہے۔ کاش اس پہلو پر بھی ذرا توجہ ہوجاتی تو مدارس سے قدامت پسندی کا الزام رفع ہوجاتا اور اس کی افادیت مزید بڑھ جاتی۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان اداروں کی حفاظت فرمائے، انہیں قائم و دائم رکھے اور ان کے ذمہ داروں کو ضروریات اور تقاضوں کے مطابق فیصلے اور اقدام کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 09 مارچ تا 15 مارچ 2025