ڈونالڈ ٹرمپ کی فتح اور کملا ہیرس کی شکست کے اسباب۔ ایک جائزہ
سیاہ فام، نسلی امتیاز اور خواتین کی تحقیر، نام نہاد ترقی یافتہ قوم کی تصویر
ڈاکٹر سلیم خان ،ممبئی
ڈونالڈ ٹرمپ نے حالیہ صدارتی انتخاب میں ایک دو نہیں بلکہ ساتوں فیصلہ کن سوئینگ ریاستوں کو جیت کر ایک تاریخ رقم کر دی ہے۔ ان کو کملا ہیرس کے دو سو چھبیس کے مقابلے میں تین سو بارہ ارکان پارلیمان کی حمایت حاصل ہوگئی۔ اس کے باوجود یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ انہیں 2020 کے مقابلے میں آٹھ لاکھ ووٹ کم ملے یعنی پچھلی بار کے مقابلے رائے دہندگان کی تعداد سات کروڑ لاکھ سے گھٹ کر سات کروڑ چونتیس لاکھ پر آگئی۔ سوال یہ ہے کہ اس کمی کے باوجود پرانی ہار اس بار عظیم فتح میں کیسے بدل گئی؟ اس کی بنیادی وجہ ڈیموکریٹک ووٹوں میں زبردست کمی ہے۔ پچھلے انتخاب میں جو بائیڈن کو آٹھ کروڑ تیرہ لاکھ ووٹ ملے تھے جو اس بار گھٹ کر چھ کروڑ اکیانوے لاکھ پر آگئے ہیں یعنی تقریباً تیرہ لاکھ ووٹوں کا زبردست خسارہ ہوگیا۔ اس کی مختلف وجوہات میں سے ایک اہم سبب بائیڈن انتظامیہ کی اسرائیل نوازی ہے۔ اس کے علاوہ مہنگائی نے بھی اپنا کام کیا اور ٹرمپ کا کام بنا دیا۔
ڈونالڈ ٹرمپ کو ان کی غیر معمولی کامیابی پر دنیا بھر کے رہنماؤں نے مبارکباد کا پیغام بھیجا مگر ان میں سب سے اہم موجودہ صدر جو بائیڈن کی نہایت کشادہ دلی کے ساتھ دی جانے والی تہنیت ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے نو منتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی کامیابی میں کیڑے نکالنے کے بجائے اسے منصفانہ اور شفاف قرار دیتے ہوئے اقتدار کی پر امن منتقلی کو یقینی بنانے کا وعدہ کیا۔ جو بائیڈن کے مندرجہ ذیل الفاظ میں ٹرمپ کے ساتھ ساتھ مودی کے لیے بھی درسِ عبرت ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ اپنے ملک سے صرف اس وقت ہی محبت نہیں کرتے جب آپ فتح یاب ہوتے ہیں۔ آپ اپنے ہمسایہ سے صرف اس وقت محبت نہیں کرتے جب آپ ان سے متفق ہوں۔ یہ سبق کسی خود پسند انسان کی سمجھ میں کبھی نہیں آسکتا۔ کملا ہیرس کی شکست کے پیچھے کئی وجوہات کار فرما ہیں مگر ان میں ان کا سیاہ فام اور اوپر سے خاتون ہونا سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ یہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ نام نہاد ترقی یافتہ امریکہ میں آج بھی نسل پرستی کا دور دورہ ہے، ساتھ ہی خواتین کے تئیں حقارت بھی پائی جاتی ہے۔ اسی لیے پچھلے دنوں (Black lives matter) یعنی’ کالوں کی زندگی اہم ہے‘ نامی تحریک چلانے کی نوبت پیش آئی تھی۔
ڈونالڈ ٹرمپ نے اسی سفید فام نسلی تفاخر کو اپنے حق میں بھنا کر یہ کامیابی حاصل کی ہے۔ سیاہ فام عوام پر ظلم و جبر کے معاملے میں آزادی و مساوات کا دم بھرنے والے امریکہ کی تاریخ ہندوستان کے منو نواز برہمنوں سے بھی بدتر ہے جنہوں نے صدیوں تک ملک کے اصلی باشندوں کو شودر بناکر ان پر مظالم توڑے۔ 1619ء میں افریقہ کے ساحلوں سے افریقیوں کو جہازوں میں اغوا کرکے امریکہ لانے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ اس کاروبار کا نام ”افریقیوں کا شکار‘‘ رکھا گیا اور 1898ء تک ایک کروڑ افریقی غلام بنا کر امریکہ لائے گئے۔ دورانِ سفر تشدد، بیماری اور دم گھٹنے سے بیس لاکھ سے زیادہ افریقی ہلاک ہوگئے۔ ان افریقیوں میں بحث ومباحثہ یا مزاحمت کرنے والوں کو سرکش غلام کا نام دیا جاتا اور پیروں میں وزن باندھ کر سمندر میں پھینک دیا جاتا تھا۔ ان غلاموں کی فروخت کے لیے ورجینیا‘ کیرولینا اور جارجیا میں منڈیاں قائم کی گئی تھیں۔ اس زمانے میں سرکشی کرنے والے غلاموں کو ان کے خونی رشتے دار کے ہاتھوں پھانسی دینے کا رواج عام کیا گیا تھا کہ دوسروں کی حوصلہ شکنی ہو۔
وطن عزیز میں جس طرح گاندھی جی کو مسلمانوں کا ہمدرد بتا کر قتل کر دیا گیا اسی طرح کی سزا امریکی صدر ابراہم لنکن کو غلامی کے خاتمے کی جدوجہد میں شمولیت کے لیے دی گئی۔ مارٹن لوتھر کنگ کی جدوجہد کے نتیجے میں امریکی سیاہ فاموں کو ووٹ ڈالنے کا حق تو ملا مگر اس طرح کہ انہیں بھی موت گھاٹ اتار دیا گیا۔ سو سال کی جدوجہد کے بعد ووٹ دینے کا حق حاصل کرنے والے سیاہ فاموں کو 1955ء میں ملک بھر میں مظاہرے کرنے پڑے تب جاکر امریکی عدالت کا یہ فیصلہ آیا کہ بسوں میں ان کے ساتھ امتیازی سلوک نہ کیا جائے۔ یہ فیصلہ چغلی کھاتا ہے کہ اس وقت تک اور آج بھی کھلے عام ان کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ سیاہ فام امریکی بارک اوباما کی صدارتی انتخاب میں کامیابی امریکی تاریخ کا ایک روشن باب ہے مگر اس کے باوجود امریکہ میں لسانی، نسلی اور مذہبی اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک ہنوز جاری ہے اور اسے ہوا دے کر الیکشن جیتنے کی کوشش کامیاب بھی ہو جاتی ہے۔ کملا ہیرس نہ صرف سیاہ فام ہیں بلکہ خاتون بھی ہیں اس لیے وہ دوہری تضحیک کی مستحق ہو گئی ہیں۔
امریکہ میں تفریق و امتیاز کے واقعات میں محض سماج کے چند مجرم پیشہ انتہا پسند لوگ ملوث نہیں ہوتے بلکہ چار سال قبل امریکہ کے سابق اور موجودہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ پر بھی ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والی خواتین کے خلاف نسل پرستانہ ٹویٹس کرنے کا الزام لگ چکا ہے۔ سابق امریکی صدر نے حسب روایت ڈیموکریٹک پارٹی کی سیاہ فام نسلوں سے تعلق رکھنے والی چار خواتین ارکانِ پارلیمنٹ سے جھڑپ کے بعد اپنے ٹوئٹ میں لکھا تھا کہ اسپیکر نینسی پیلوسی (ان سیاہ فام خواتین کے لیے) جلد از جلد مفت سفری انتظامات کر کے بہت خوش ہوں گی۔ ان خواتین کو ‘واپس جانے‘ کا مشورہ دینے سے قبل ٹرمپ نے کہا تھا کہ ’’یہ خواتین دراصل مکمل طور پر تباہ حالی کے شکار ممالک سے آئی ہیں‘‘ اس کے جواب میں نینسی پیلوسی نے مذکورہ ٹویٹ کو غیر ملکیوں سے نفرت پر مبنی قرار دیا تھا۔ اسپیکر نے ٹرمپ کے ’امریکہ کو ایک مرتبہ پھر عظیم بنانے‘ کے نعرے کو دوبارہ سفید فاموں کا ملک بنانے کا منصوبہ بتاکر تنوع کو طاقت و اتحاد کے قوت ہونے پر زور دیا تھا۔
امریکی رائے دہندگان نے سیاہ فام کملا ہیرس سے قبل سفید فام ہیلری کلنٹن پر بھی ڈونالڈ ٹرمپ جیسے نیم پاگل کو ترجیح دے کر یہ عندیہ دے دیا تھا کہ ان کے نزدیک کسی صورت خاتون سربراہ قابلِ قبول نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگلے انتخاب میں ڈیموکریٹک پارٹی نے نہایت نحیف و ناتواں جو بائیڈن کو میدان میں اتارا تو وہ بھی کامیاب ہوگئے مگر تیز طرار کملا ہیرس مسترد کردی گئیں۔ امریکہ میں 1920 تک سیاہ فام خواتین تو دور سفید فام عورتوں کو بھی ووٹ دینے کے حق سے محروم رکھا گیا۔ امریکی آئین میں 19ویں ترمیم سے قبل ووٹنگ حقوق میں صنفی امتیاز کے سبب ووٹ دینے والی خواتین سزا کی مستحق تھیں۔ 1872 کے 22 ویں امریکی صدارتی انتخاب میں سوزن بی اینتھنی نامی خاتون کو ووٹ ڈالنے کی سزا دی گئی تھی۔ وہ امریکہ میں حقوقِ نسواں اور ’سفرج موومنٹ‘ کے تحت خواتین کو ووٹ کا حق دینے کے لیے چلائی جانے والی تحریک کی ایک فعال رہنما تھیں۔ ان پر 1872 کے صدارتی الیکشن میں ووٹ ڈالنے کی کوشش کا الزام لگا کر 26 دسمبر 1872 کو نیویارک کی سپریم کورٹ نے سو ڈالر جرمانہ عائد کیا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ انہوں نے اسے نہیں ادا کیا۔ اس کے ڈیڑھ سو سال بعد بھی امریکہ خاتون صدر کے لیے ترس رہا ہے۔
صدر جو بائیڈن نے خود میاں مٹھو بنتے ہوئے اپنی واحد مدت کار کو ایک تاریخی دورِ صدارت قرار دیا اور وجہ یہ بتائی کہ اس سے آنے والے برسوں میں لوگوں کی زندگیاں تبدیل ہوجائیں گی۔ عوام کے ساتھ کیا ہوگا یہ تو وقت بتائے گا لیکن ان کے کارناموں نے بے چاری کملا ہیرس کی تو مٹی پلید کردی۔ بائیڈن کا دعویٰ تھا کہ وہ اپنے ریپبلکن سیاسی حریف اور جانشین کے لیے "دنیا کی مضبوط ترین معیشت” چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ اپنے دعویٰ کی دلیل کے طور پر انہوں نے ملک بھر میں انفراسٹرکچر کے اندر بہتری کا خاص طور پر ذکر کیا۔ وطن عزیز میں بھی مہنگائی اور بے روزگاری کے زخموں پر مندروں و سڑکوں کی تعمیر کا مرہم رکھ کر سوزش کم کی جاتی ہے۔ ہندوستان کی مانند امریکی اعداد و شمار بھی اس معاشی ترقی کے ان باتوں کی تائید نہیں کرتے۔ عوام کا جو تاثر ایگزٹ پولوں کے ذریعہ سامنے آیا اس نے مذکورہ بالا دعویٰ کو مسترد کر دیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو بائیڈن اور کملا ہیرس کی لفاظی سے قطع نظر ان کے پورے دور میں بڑھتی ہوئی مہنگائی نے لوگوں کےگھریلو بجٹ کو متاثر کر رکھا تھا۔
ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنی مہم کے دوران مہنگائی کو کم کرنے کا وعدہ کیا۔ وہ عام لوگوں کے لیے کوئی واضح حکمت عملی تو نہیں سجھا سکے مگر یہ ضرور کہا کہ ان کی انتظامیہ ٹیکسوں میں کمی کرے گی۔ اس سے صارفین کا کم اور امیر ترین لوگوں یا بڑے تجارتی اداروں کا منافع ضرور بڑھے گا۔ وہ سرمایہ دار اگر اپنی بچت میں سے عام لوگوں کو سہولت دیں گے تو ان کا بھلا ہوگا ورنہ نہیں۔ یہ کس حد تک ہوگا وہ تو وقت بتائے گا مگر اس حقیقت کا انکار ممکن نہیں ہے کہ امریکہ کے اڈانی یعنی ایلون مسک کے اچھے دن آچکے ہیں۔ انہوں نے انتخابی مہم کے دوران جو جوا کھیلا تھا اس میں ان کو جیک پاٹ لگ چکا ہے۔ مضبوط ترین معیشت کا دعویٰ کرنے والے جو بائیڈن کو بتانا ہوگا کہ ان کی مدتِ کار میں ملک پر قرض کی مقدار کا چھتیس کھرب ڈالر تک پہنچ جانا کس بات کا غماز ہے؟ ٹرمپ کے دور میں ٹیکسوں کی کمی اس قرض کو مزید بڑھائے گی، اس لیے کہ نہ تو سرکار دربار کے اخراجات اور نہ ہی سیاست دانوں کی عیش و عشرت میں کوئی کمی آئے گی۔ اس کا نتیجہ قرض میں اضافہ کے سوا اور کیا ہوگا؟
امریکی عوام کے نزدیک فی الحال مہنگائی اور خوشحالی زیادہ اہم ہیں۔ امریکی رائے دہندگان کی یہ عام رائے ہے کہ ٹرمپ کے زمانے میں ان کے معاشی حالات بائیڈن کے دور سے بہت بہتر تھے۔ اسی چیز نے سیاہ فام مردوں کو بھی سفید فام انتہا پسند رہنما کا گرویدہ بنا دیا۔ ایک ہند نژاد امریکی پروفیسر کے مطابق ہر چار میں سے ایک سیاہ فام مارا جاتا ہے اور ایک جیل کے اندر ہوتا ہے۔ باقی پچاس فیصد کالے مرد ووٹروں کی اکثریت نے ٹرمپ کی حمایت کی اور ممکن ہے کچھ سیاہ فام خواتین کو بھی خوشحالی نے اپنی جانب متوجہ کیا ہو۔ عام ووٹر یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہے کہ ملک میں افراطِ زر یا مہنگائی کی وجہ معاشی پالیسی نہیں بلکہ کورونا جیسے بیرونی مسائل رہے ہیں، لیکن جو بائیڈن نے اسرائیل پر جس طرح بے دریغ ڈالر لٹائے اس کے بدلے اگر وہ اپنے عوام کی فلاح و بہبود پر وہی رقم خرچ کرتے تو شاید کملا ہیرس اس بری طریقہ سے نہیں ہارتیں۔
عام لوگوں کو ٹرمپ کے نعرے ُسب سے پہلے امریکہ‘ پھر دنیا داری میں کشش نظر آتی ہے۔ وہ سوچتے ہیں کہ اگر ٹرمپ کے مطابق امریکی انتظامیہ یوکرین اور اسرائیل کی جنگ سے ہاتھ کھینچ لے تو ان کی معیشت بہتر ہوگی۔ امریکہ کے رائے دہندگان میں غیر قانونی تارکینِ وطن کے متعلق گہری تشویش پائی جاتی ہے اور اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ جو بائیڈن کے دورِ حکومت میں ان کا تناسب بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں ملک کی سرحدوں کو محفوظ رکھنے پر زور دیا اور اس کا تعلق بھی کہیں نہ کہیں بے روزگاری سے ہے۔امریکی ووٹروں کو ٹرمپ یہ سمجھانے میں کامیاب ہوگئے کہ جو بائیڈن کی قیادت میں ان کا ملک ناکام ہو رہا ہے لہٰذا اسے دوبارہ عظیم بنانے کے لیے ان کا اقتدار میں آنا ضروری ہے۔ یعنی ہندوستان کے اندر وشو گرو بننے کا خواب بیچا جا رہا ہے اور امریکہ میں اس مقام کو لاحق خطرے سے ڈرایا جا رہا ہے۔ ٹرمپ نے اس مقصد کو عوام کی خوشحالی سے جوڑ کر کہا کہ وہ عالمی سطح کی تجارت پر بیس فیصد تک ٹیرف لگا کر خزانے کی آمدنی بڑھائیں گے نیز، یوکرین اور مشرق وسطیٰ کی جنگوں کو ختم کر کے فضول خرچ بچائیں گے۔ ان خوش کن نعروں نے اچھے دنوں کا خواب دکھانے والے ٹرمپ کو ان کے اچھے دن انہیں لوٹا دیے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کے عوض وہ و عوام کو کیا لوٹاتے ہیں؟
’لوٹ کے بدھو گھر کو آئے‘ کی مثل نو منتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ پر پوری طرح صادق آتی ہے کیونکہ وہ قصرِ ابیض کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں اور وہاں سے نکلنے کو علی الاعلان غلطی گردانتے ہیں۔ اپنی حالیہ انتخابی مہم کے اختتام پر انہوں نے پنسلوانیا میں ببانگ دہل کہا تھا کہ انہیں 2021 میں وائٹ ہاؤس چھوڑنے پر افسوس ہے، وہ 2024 کی انتخابی مہم کو اسی طرح ختم کر رہے ہیں جس طرح انہوں نے شروع کیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ جس انتخابی مہم کے اختتام کی بات وہ کر رہے تھے اس کا آغاز کب ہوا تھا؟ سچ تو یہ ہے وہ اسی دن شروع ہوگئی تھی جب امریکہ کی تاریخ میں پہلی بار پچھلے انتخابی نتائج کے بعد ٹرمپ کے حامیوں نے امریکی ایوانِ پارلیمنٹ پر حملہ کردیا تھا۔ اس کے نتیجے میں ٹرمپ کے نائب صدر کو حمام میں چھپ کر عقب کے دروازے سے جان بچانا کر بھاگنا پڑا تھا۔ اس شنیع حرکت پر صدر مملکت نے ان بلوائیوں کی سرزنش کرنے کے بجائے انہیں سراہا تھا۔ ان میں سے آج بھی کئی لوگ جیلوں میں بند ہیں اور خود ٹرمپ بھی کئی مقدمات میں ماخوذ لیکن اب جبکہ ’سیاّں بھئے کوتوال تو ڈر کاہے کا‘؟ اس ہنگامہ آرائی کے بعد موصوف چار سالوں تک نہایت پرتشدد و توہین آمیز بیان بازی کے ذریعے مصروفِ عمل رہے اور آخر میں یہاں تک کہہ دیا کہ اس بار تو وہ کسی صورت اپنی شکست کو قبول نہیں کریں گے۔
ڈونالڈ ٹرمپ کے اس بیان کا مطلب صاف تھا کہ انتخابی نتائج کے بعد اگر دوبارہ ان کے مداحوں نے وائٹ ہاوس پر ہلہ بول دیا تو وہ ان کے کندھوں پر سوار ہوکر قصرِ ابیض میں داخل ہو جائیں گے اور اس پر قبضہ کرلیں گے۔ اس ناگہانی واردات کا پورا امکان تھا اور اگر ایسا ہوجاتا تو امریکی جمہوریت کی قلعی کھل جاتی۔ اس سنگین صورتحال سے بچنے کے لیے امریکہ کے رائے دہندگان نے دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بصد احترام وہائٹ ہاؤز کی کنجی ٹرمپ کو تھما دی۔ اس طرح کم از کم عارضی طور پر سہی، دنیا میں امریکا کا جمہوری طور پر پر امن اقتدار کی منتقلی کا بھرم باقی رہ گیا۔ ملوکیت میں ’جیسا مالک ویسا گھوڑا کچھ نہیں تو تھوڑا تھوڑا ‘ ہوتا ہے۔ یعنی عوام بادشاہ کے دین پر ہوتے ہیں۔ جمہوریت میں ’جیسی عوام ویسا قوام‘ کا معاملہ ہوتا ہے’ پورا نہیں تو آدھا ادھورا‘ کے تحت لیڈر اپنے عوام کی مرضی کے مطابق چلنے کا ڈھونگ کرتے ہیں حالانکہ حقیقت میں ہر دو نظاموں میں حاکم کی ہی من مانی چلتی ہے۔
وہ تو اسلام کا نظامِ سیاست ہی ہے جس میں حاکم اور عوام دونوں ہی احکامِ الٰہی کے پابند ہوتے ہیں۔
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***
***
ڈونالڈ ٹرمپ کو ان کی غیر معمولی کامیابی پر دنیا بھر کے رہنماؤں نے مبارکباد کا پیغام بھیجا مگر ان میں سب سے اہم موجودہ صدر جو بائیڈن کی نہایت کشادہ دلی کے ساتھ دی جانے والی تہنیت ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے نو منتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی کامیابی میں کیڑے نکالنے کے بجائے اسے منصفانہ اور شفاف قرار دیتے ہوئے اقتدار کی پر امن منتقلی کو یقینی بنانے کا وعدہ کیا۔ جو بائیڈن کے مندرجہ ذیل الفاظ میں ٹرمپ کے ساتھ ساتھ مودی کے لیے بھی درسِ عبرت ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ اپنے ملک سے صرف اس وقت ہی محبت نہیں کرتے جب آپ فتح یاب ہوتے ہیں۔ آپ اپنے ہمسایہ سے صرف اس وقت محبت نہیں کرتے جب آپ ان سے متفق ہوں۔ یہ سبق کسی خود پسند انسان کی سمجھ میں کبھی نہیں آسکتا۔ کملا ہیرس کی شکست کے پیچھے کئی وجوہات کار فرما ہیں مگر ان میں ان کا سیاہ فام اور اوپر سے خاتون ہونا سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ یہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ نام نہاد ترقی یافتہ امریکہ میں آج بھی نسل پرستی کا دور دورہ ہے، ساتھ ہی خواتین کے تئیں حقارت بھی پائی جاتی ہے۔ اسی لیے پچھلے دنوں (Black lives matter) یعنی’ کالوں کی زندگی اہم ہے‘ نامی تحریک چلانے کی نوبت پیش آئی تھی۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 17 نومبر تا 23 نومبر 2024