ڈالر کے بعد’’بر کس پے‘‘ کا دور؟

برکس کا نیا ڈیجیٹل پیمنٹ سسٹم، عالمی مالی نظام میں انقلابی قدم

ڈاکٹر فرحت حسین

برکس ممالک کی بڑھتی ہوئی معاشی خود مختاری، امریکہ کے لیے خطرے کی گھنٹی!
برکس ( BRICS) نامی تنظیم جس میں برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ شامل ہیں گزشتہ دو دہائیوں سے مغربی ممالک کی بالادستی کے خلاف ایک طاقت کی شکل میں ابھری ہے۔ اب اس گروپ میں کچھ اور ممالک مثلاً ایران، مصر، انڈونیشیا، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب وغیرہ بھی شامل ہو گئے ہیں۔ حال ہی میں برازیل کے شہر ریو (Rio) کے اجلاس (Rio Summit) میں ڈالر پر انحصار کو کم کرنے کی تدابیر پر غور کیا گیا اور ایک نیا پلان منظور کیا گیا جس کے تحت برکس پے (BRICS Pay) کے نام سے ایک نئے ڈیجیٹل ادائیگی نظام (Digital payment system) کے نفاذ کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ اس نئے ادائیگی نظام کا مقصد ڈالر پر انحصار کو کم کرنا ہے۔ نو بھارت ٹائمز (11 جولائی 2025) نے اسے ڈالر سے آزادی کی مہم بتاتے ہوئے لکھا ہے کہ
’’حال ہی میں برکس ممالک کے لیڈروں نے برازیل کے شہر ریو (Rio) میں ملاقات کی۔ اس اجلاس میں باہمی تعاون اور بین الاقوامی معاملات میں اصلاح پر گفتگو ہوئی۔ ساتھ ہی اس میں بین الاقوامی مالی نظام کے اس سوال پر بھی غور ہوا کہ آخر دنیا کب تک فقط امریکی ڈالر پر ہی انحصار کر سکتی ہے؟‘‘
امریکی ڈالر کے عروج کی کہانی 
پہلی جنگ عظیم سے ٹھیک پہلے تک برطانیہ کی کرنسی پاؤنڈ اسٹرلنگ کا بول بالا تھا۔ عالمی ادائیگیوں میں اسی کا استعمال ہوتا تھا۔ اس وقت گولڈ اسٹینڈرڈ رائج تھا یعنی سونے کے ذخیرے کے تناسب میں ہی کرنسی چھاپی جاتی تھی۔ جنگ عظیم شروع ہونے پر ملٹری کے اخراجات کے باعث بہت سے ممالک نے گولڈ اسٹینڈرڈ کو خیر باد کہہ دیا۔ برطانیہ نے بہرحال گولڈ اسٹینڈرڈ کو جاری رکھا مگر حالات کے دباؤ میں سن 1931 میں پاؤنڈ اسٹرلنگ کا رشتہ سونے سے الگ کر لیا گیا۔ یہیں سے برطانیہ کی کرنسی کی ساکھ میں زوال کی شروعات ہوئی۔ امریکہ نے گولڈ اسٹینڈرڈ کو جاری رکھا یعنی امریکہ سونے کے ریزرو کے تناسب میں ہی کرنسی چھاپ رہا تھا۔ دوسری جنگ عظیم میں امریکی ڈالر کو دنیا کی معیشت پر راج کرنے کا موقع ملا۔ دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ کی قیادت والے حلیف ممالک الائیڈ گروپ کو امریکہ نے جو اسلحہ کی سپلائی کی اس کی قیمت سونے میں ادا کی گئی۔ اس طرح دنیا کے سونے کے ذخائر کا تین چوتھائی سونا امریکہ کے پاس پہنچ گیا۔ سن 1944 میں بریٹن ووڈ ایگریمنٹ (Bretton Wood Agreement) کے ذریعے 44 ملکوں نے فیصلہ کیا کہ بین الاقوامی تجارت اب سونے سے نہیں بلکہ امریکی ڈالر سے منسلک رہے گی اور امریکی ڈالر سونے سے منسلک رہے گا۔ اس طرح امریکی ڈالر کو عالمی لین دین میں اجارہ داری حاصل ہو گئی۔ سن 1971 میں امریکی صدر رچرڈ نکسن نے ویتنام جنگ کے اخراجات کے مد نظر امریکی ڈالر کو سونے سے الگ (de-link) کر لیا۔ اس فیصلے سے امریکی ڈالر کی ساکھ کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا، چنانچہ اس کے سد باب کے لیے امریکہ نے تیل پیدا کرنے والے ممالک یعنی اوپیک ممالک سے 1973 میں ایک سمجھوتہ کیا جو پیٹرو ڈالر کے نام سے موسم ہے۔ اس سمجھوتے کے تحت طے کیا گیا کہ تیل کی ادائیگی صرف ڈالر میں ہوگی اس کے بدلے میں امریکہ نے اوپیک ممالک کی حفاظت کا ذمہ اپنے سر لیا۔ سن 2023 تک دنیا کے کچے تیل کے بزنس کا 80 فیصد کاروبار ڈالر میں ہوتا رہا۔ دوسری کرنسیاں جیسے یورو وغیرہ ڈالر کے سامنے بہت زیادہ اچھی کارکردگی نہیں دکھا سکیں۔ اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ تقریبا ایک صدی سے عالمی معیشت میں امریکی ڈالر کی بادشاہت بہرحال قائم ہے۔ ڈالر نہ صرف یہ کہ بین الاقوامی تجارت کا ذریعہ ہے بلکہ اس کے ذریعے امریکہ کو عالمی معیشت اور سیاست میں خصوصی قوت حاصل ہو گئی ہے۔
شکایت
امریکی ڈالر کی اس اجارہ داری سے کئی ممالک ناخوش ہیں اس میں روس اور ایران سرفہرست ہیں۔ روس-یوکرین جنگ کے دوران امریکہ نے روس پر جو پابندیاں لگائیں اس کی وجہ سے روس کی معیشت کو دھکا لگا۔ روس کا خیال ہے کہ امریکی ڈالر کی اجارہ داری کی وجہ سے ہی امریکہ نے یہ قدم اٹھایا ہے لہٰذا امریکہ کی یہ اجارہ داری ختم ہونی چاہیے۔ اسی طرح ایران کو بھی امریکہ سے شکایت ہے کہ اس نے ایران پر بے جا پابندیاں عائد کیں۔ چین اور کچھ دوسرے ممالک بھی امریکہ کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں۔ 
نیا سسٹم 
برکس ممالک کی گزشتہ برس کی میٹنگ میں اپنی کرنسی لانے پر غور ہوا تھا، مگر حالیہ اجلاس میں ڈیجیٹل پیمنٹ سسٹم کو شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ نیا ادائیگی نظام ڈالر پر انحصار کو کم کرے گا۔ ممبر ممالک کے بیچ اس سسٹم کے ذریعے تجارتی لین دین براہ راست ممکن ہو سکیں گے۔ اس طرح ممبر ممالک کی کرنسی کے ذریعے تجارت ہو سکے گی اور امریکی ڈالر یا امریکی سسٹم سوِفٹ SWIFT کے بغیر لین دین ہو سکیں گے۔ برکس تنظیم کے بانی ممالک اور اس میں اب تک شامل ہونے والے ممالک کی معیشت کے اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی معیشت کا خاصا حصہ ان ممالک پر مشتمل ہے۔ مطلب یہ ہے کہ عالمی معیشت میں ان ممالک کی اہم پوزیشن ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ 
یقیناً یہ ایک انقلابی فیصلہ ہے۔ اس نئے نظام کے وجود میں آنے کے بعد امریکی ڈالر کی اجارہ داری اور قوت میں کمی آئے گی۔ عالمی لین دین میں امریکہ کے ذریعے جو پابندیاں عائد کی جاتی تھیں اس پر بھی اثر پڑے گا۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ نیا ڈیجیٹل ادائیگی سسٹم امریکہ کے سسٹم سے بہتر ہے۔ اس کے ذریعے برکس ممالک کے درمیان تجارتی لین دین کو فروغ حاصل ہوگا خصوصاً زرعی پیداوار کی آپسی تجارت میں ترقی ہوگی اور امریکی غلبے میں کمی آئے گی۔
بھارت
بھارت برکس تنظیم کا اہم حصہ ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ نئے ڈیجیٹل پیمنٹ سسٹم میں بھارت کے پیمنٹ سسٹم یو پی آئی UPI کو بنیاد بنایا گیا ہے جو دنیا میں رائج نظاموں میں بہتر نظام تصور کیا جاتا ہے کیونکہ اس میں زیادہ تیز رفتاری سے فنڈ ٹرانسفر ہوتا ہے۔ اس نئے  نظام سے بھارت کی بین الاقوامی تجارت کو فروغ حاصل ہوگا۔ یہاں یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ نئے نظام کے نفاذ  سے امریکی انتظامیہ بہرحال خوش نہیں ہے اور صدر ڈونالڈ ٹرمپ ان ممالک کی تجارت پر زیادہ محصول لگانے کا اعلان کر چکے ہیں۔ 
امریکی تشویش 
برکس کا نیا پیمنٹ سسٹم ابھی شروعاتی مرحلے میں ہے۔ مگر چونکہ کئی بڑی معیشتیں جیسے چین روس بھارت متحدہ عرب امارات سعودی عرب وغیرہ اس سے منسلک ہیں اس لیے امریکی ڈالر کے بغیر جو لین دین ہوں گے وہ یقیناً ڈالر کی اجارہ داری کو کسی حد تک کم کر سکتے ہیں۔ سر دست امریکی ڈالر کو کسی بڑے خطرے کا سامنا نہیں ہے، تاہم یہ ایک شروعات ہے جو مستقبل میں ایک متبادل نظام کی شکل لے سکتا ہے اور ڈالر کے لیے بڑا چیلنج بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ یہی چیز امریکہ کے لیے باعث تشویش ہے۔
***

 

***

 برکس کا نیا پیمنٹ سسٹم ابھی شروعاتی مرحلے میں ہے۔ مگر چونکہ کئی بڑی معیشتیں جیسے چین روس بھارت متحدہ عرب امارات سعودی عرب وغیرہ اس سے منسلک ہیں اس لیے امریکی ڈالر کے بغیر جو لین دین ہوں گے وہ یقیناً ڈالر کی اجارہ داری کو کسی حد تک کم کر سکتے ہیں۔ سر دست امریکی ڈالر کو کسی بڑے خطرے کا سامنا نہیں ہے، تاہم یہ ایک شروعات ہے جو مستقبل میں ایک متبادل نظام کی شکل لے سکتا ہے اور ڈالر کے لیے بڑا چیلنج بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ یہی چیز امریکہ کے لیے باعث تشویش ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 جولائی تا 02 اگست 2025