ڈوکلام کا چینی جن پیچھا چھوڑنے کے لیے تیار نہیں

بھوٹان کی بھارت کے دشمن نمبر ایک کے ساتھ پینگیں خطرے کی گھنٹی

ڈاکٹر سلیم خان ،ممبئی

وزیر اعظم بھوٹان لوٹے شیرنگ نے اپنے انٹرویو میں سرحدی تنازع کے متعلق کہا کہ ’اس مسئلے کا حل نکالنا صرف بھوٹان کی ذمہ داری نہیں ہے۔ ہم تین ہیں اور ہم میں سے کوئی چھوٹا یا بڑا ملک نہیں بلکہ ہم سب برابر ہیں‘۔اس طرح کے بیان سے بھارت اور بھوٹان کے درمیان سفارتی تعلقات میں تناؤ فطری ہے کیونکہ ڈوکلام میں چین کی کسی بھی قسم کی موجودگی حکومتِ ہند کے لیے قابلِ قبول نہیں ہے۔ قومی تحفظ کے حوالے سے ڈوکلام کا یہ علاقہ بھارت کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے اس لیے بھوٹانی وزیر اعظم کا یہ کہنا کہ ’ہم بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ جیسے ہی دیگر دو فریق (بھارت اور چین) تیار ہوں گے ہم اس پر بات چیت کر لیں گے۔‘ ایک خطرے کی گھنٹی ہے۔
بھارت کے شمال مشرق میں بھوٹان ایک ایسا ننھا سا ملک ہے جس کو بہت سارے لوگ اپنا حصہ سمجھتے ہیں۔ یہ ملک اپنی بقاء اور ترقی کے لیے بھارت پر اسی طرح منحصر ہے جیسے اسرائیل کا انحصار امریکہ پر ہے۔ ایسے میں بھوٹان کے وزیراعظم لوٹے شیرنگ کا ایک انٹرویو سفارتی حلقوں میں بحث کا موضوع بن گیا۔ بیلجیم کے ایک اخبار سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہہ دیا کہ چین اور بھارت کے درمیان ڈوکلام تنازع کے حل میں چینی حکام کو بھی برابری کا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اس معاملے میں شدو مد کے ساتھ چین کو ملوث کرنا ایک چونکانے والا موقف ہے۔ ہمالیائی مملکت بھوٹان اور بھارت کے درمیان روایتی قربت اور خاص تعلقات ہیں۔ بھوٹان اور بھارت کے درمیان 1949 سے انتہائی مضبوط رشتے رہے ہیں۔ ستمبر 1958 میں پنڈت جواہر لال نہرو نے بھارتی وزیر اعظم کی حیثیت سے بھوٹان کا پہلا سرکاری دورہ کیا تھا۔ 69 سال کی عمر میں نہرو 10 دنوں تک 15000 فیٹ کی اونچائی کو چھونے والے مشکل راستوں پر پیدل چل کر تقریباً 105 کلومیٹر کی دوری طے کرتے ہوئے بھوٹان پہنچے تھے۔ اس کے بعد سے بھوٹان اور بھارت کے درمیان بہترین دو فریقی تعلق رہا ہے جس نے دونوں ممالک کو فائدہ پہنچایا ہے۔
بھوٹان ویسے تو بہت چھوٹا سا ملک ہے مگر اس کی سرحد آسام (267 کلومیٹر)، اروناچل پردیش (217 کلومیٹر)، مغربی بنگال (183 کلومیٹر) اور سکم (32 کلومیٹر) سے متصل ہے۔ بھوٹان کی سرحد مکمل طور پر بند ہے اس لیے غیر ملکی شہریوں کے لیے بھوٹان میں داخل ہونے کے لیے مغربی بنگال ہی واحد زمینی راستہ ہے۔ حکومتِ ہند نے بھوٹان سے متصل اپنی سرحد کی حفاظت کے لیے مسلح سرحدی افواج (ایس ایس بی) کی 12 بٹالین تعینات کر رکھی ہیں اور 132 سرحدی چوکیاں قائم ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان میں سرحد کو محفوظ کرنے اور سیکیورٹی کی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے دو طرفہ بھارت بھوٹان بارڈر گروپ منیجمنٹ قائم کیا گیا ہے۔ بھارت نہ صرف خارجہ امور میں بھوٹان سے مشاورت کرتا ہے بلکہ اس کی افواج کی تربیت بھی کرتا ہے۔ بھوٹان کو بھارت کا تحفظ حاصل ہے۔ اس کی خارجہ پالیسی، دفاع اور تجارت پر بھارت اثر انداز ہوتا ہے۔اس کے باوجود ایک چھوٹے سے ملک کا بھارت کے دشمن نمبر ایک چین کے ساتھ پینگیں بڑھانا اور برابر کے درجہ پر لے آنا حیرت انگیز پیش رفت ہے۔
معاشی اعتبار سے بھی بھوٹان کا اچھا خاصا انحصار بھارت پر ہے۔ مالی سال 2012–13 میں بھارتی بجٹ میں بھوٹان کی معاونت کے لے تقریباً 300 کروڑ روپے رکھے گئے۔ آگے چل کر اس میں بتدریج اضافہ ہوتا چلا گیا اور اب بھارت کی غیر ملکی امداد لینے والا بھوٹان سب سے بڑا ملک بن چکا ہے۔ بھوٹان میں بھارت 1,416 میگاواٹ کے 3 ہائیڈرو پاور منصوبے چلا رہا ہے اور مزید 2,129 میگاواٹ کے 3 منصوبے زیر تکمیل ہیں۔ بھوٹان کی چین کے ساتھ سرحد صرف 477 کلو میٹر طویل ہے مگر بدقسمتی سے وہ بھارت کی ڈھال سلیگوڑی کوریڈور کے قریب ہے۔ اس کو دفاعی ماہرین چکن نیک (مرغے کی گردن) سے تعبیر کرتے ہیں۔ سلیگوڑی کوریڈور کی لمبائی صرف ساٹھ کلو میٹر اور چوڑائی صرف 22 کلو میٹر ہے لیکن اس سرحد کے قریب بھوٹان کے ڈوکلام خطے پر چین اپنا دعویٰ کرتا ہےجو فوجی اعتبار سے بھارت کے لیے بہت اہم ہےکیونکہ شمال مشرق صوبوں کے لیے حمل و نقل اور گزرگاہیں اس کے پاس سے گزرتی ہیں۔ اس میں اگر رخنہ پڑ جائے تو ان ریاستوں سے ملک کا رابطہ ختم ہوجائے گا اس لیے ڈوکلام کے علاقے میں چین کی کارروائیاں خطے میں بھارت کے مفادات کے لیے شدید خطرہ ہیں۔اس تناظر میں بھوٹان کے وزیر اعظم کا مندرجہ بالا بیان وزیر خارجہ جئے شنکر کی سفارتی کاوشوں پر ایک سوالیہ نشان ہے۔
وزیر اعظم لوٹے شیرنگ نے اپنےانٹرویو میں سرحدی تنازع کے حوالے سے کہا کہ ’اس مسئلے کا حل نکالنا صرف بھوٹان کی ذمہ داری نہیں ہے۔ ہم تین ہیں اور ہم میں سے کوئی چھوٹا یا بڑا ملک نہیں بلکہ ہم سب برابر ہیں‘۔اس طرح کے بیان سے بھارت اور بھوٹان کے درمیان سفارتی تعلقات میں تناؤ فطری ہے کیونکہ ڈوکلام میں چین کی کسی بھی قسم کی موجودگی حکومتِ
ہند کے لیے قابلِ قبول نہیں ہے۔ قومی تحفظ کے حوالے سے ڈوکلام کا یہ علاقہ بھارت کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے اس لیے بھوٹانی وزیر اعظم کا یہ کہنا کہ ’ہم (بات چیت کے لیے) تیار ہیں۔ جیسے ہی دیگر دو فریق تیار ہوں گے ہم اس پر بات چیت کر لیں گے۔‘ ایک خطرے کی گھنٹی ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ کیوں کہہ رہے ہیں کہ ’ بھارت اور چین کے درمیان ڈوکلام تنازع کا حل بھوٹان چاہتا ہے کیونکہ وہ تمام مسائل کی جڑ ہے۔‘ ڈوکلام میں چینی مداخلت اس وقت منظر عام پر آگئی جب 2017ء میں وہاں چین نے سڑک کی تعمیر کا کام شروع کیا۔ اس وقت حکومتِ ہند نے اس پر شدید احتجاج کیا تھا۔ بھوٹان نے بھی چین کو معاہدے کی خلاف ورزی سے اجتناب کرنے کے لیے کہا مگر اب اس کے تیور کا بدلنا بھارتی نکتہ نظر سے تشویشناک ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی تو قسم کھائے بیٹھے ہیں کہ چین کو لال آنکھ نہیں دکھائیں گے اس لیے ان کے چیلے امیت شاہ سے بھی کوئی امید رکھنا فضول ہے۔ ویسے لداخ سمیت جموں وکشمیر کی خاطر جان لڑانے کے بیان کا ردعمل وہ گلوان میں دیکھ چکے ہیں۔ اس لیے چین کے معاملہ میں کچھ نہیں بولتے۔ اس بابت کم ازکم وزیر دفاع راجناتھ سنگھ کو لب کشائی کرنی چاہیے۔ وہ ملک کے وزیر دفاع ہیں حکومت کے نہیں؟ کیا ان کا کام صرف راہل گاندھی کے خلاف پارٹی کا دفاع کرنا ہے؟ پچھلے گیارہ سال میں بھوٹان کے اندر چین کا رسوخ خاصا بڑھ گیا ہے۔ 2012ء میں بھارت کی چین سے ایک تحریری مفاہت ہوئی تھی جس کے تحت یہ طے پایا تھا کہ بھوٹان سمیت تینوں ملکوں کی سہ رخی حد بندی کا تعین آپسی صلاح مشورے سے کیا جائے گا۔ اسی سال بھارتی فوج نے بھوٹان-چین سرحد کی حفاظت کے لیے ڈوكلام کے لالٹین علاقہ میں حفظ ما تقدم کے طور پر دو بنکر بنائے تھے۔
پانچ سال بعد 2017 میں ڈوکلام میں چین نے متنازع علاقے میں ایک سڑک کی تعمیر شروع کر کے جب اس معاہدے کی خلاف ورزی تو بھارت نے اس کی مخالفت کی۔ یہ تنازع اتنا بڑھا کہ بھارت اور چین کی افواج کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئی تھیں۔ تقریباً ڈھائی ماہ تک جاری تعطل کے بعد وہ معاملہ ختم ہوا نیز دونوں ملکوں نے اپنی اپنی فوجیں ہٹانے پر اتفاق کر لیا۔ چین اور بھارت کی اس سرحدی کشیدگی کے بعد حکومتِ ہند نے سرحدی چوکیوں کی تعداد میں اضافہ کر دیا ہے۔ بھوٹان کی حکومت نے اس وقت ڈوکلام میں بھارتی اور چینی فوجیوں کے درمیان 73 دن سے جاری تناؤ کے خاتمے کا خیرمقدم کیا تھا اور امید ظاہر کی تھی کہ اس سے تکونا سنگم (ٹرائی جنکشن) زون میں امن کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی۔بھارت اور چین کے درمیان سفارتی پیش رفت کے بعد ڈوکلام سے اپنی اپنی فوجیں ہٹانے پر بھوٹان کی وزارت خارجہ نے کہا تھا کہ یہ معاہدہ بھوٹان، چین اور بھارت کے سرحدی تعلقات کے درمیان امن اور حیثیت کو برقرار رکھنے میں مددگار ثابت ہوگا۔
یہ توقعات دیرپا ثابت نہیں ہوئیں۔ اس کے 6 ماہ بعد خفیہ محکمہ نے انکشاف کیا کہ تبت کے اضلاع لہاسہ اور گونگکا میں فضائی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لیے چین نے 8 جنگی جہازوں کے علاوہ 22 ایم آئی 17 ہیلی کاپٹرز، ایک ایئر بورن کے جے 500 طیارے تعینات کر دیے ہیں۔ علاوہ ازیں چین نے زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل یونٹ سمیت متعدد جنگی ساز و سامان بھی نصب کردیے ہیں۔ اس دوران سکم میں بھی چین کے کئی جنگی جہاز دیکھے گئے اور اس کا یہ مطلب لیا گیا کہ چین کو ڈوکلام میں بھارتی موجود گی پر اعتراض ہے۔ فروری 2018 میں کانگریس نے ڈوکلام اور تبت میں چین کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں پر مودی حکومت پر الزام لگایا تھا کہ وہ عوام سے حقیقت حال چھپا رہی ہے۔ کانگریس کا دعویٰ تھا کہ ڈوکلام کے ساتھ تبت میں بھی چین اپنی فضائیہ کو مضبوط کر رہا ہے۔ اس دوران 3 ہفتوں میں چین کے 51 جنگی جہازوں کو علاقے میں پہنچانے پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔ کانگریس نے پوچھا تھا کہ مودی حکومت وہاں کی صورتحال سے آگاہ کیوں نہیں کرتی؟ وہاں کے زمینی حقائق کی پردہ داری کیوں کرتی ہے؟
مودی سرکار نے حسبِ عادت اس کا کوئی معقول جواب نہیں دیا مگر جولائی 2018 میں چین کی فوج کے بارے میں ریسرچ کرنے والے ٹوئٹر ہینڈل ڈیٹریسفا (detresfa@) نے سٹیلائٹ سے حاصل کردہ تصاویر شیئر کرکے کھلبلی مچا دی۔ ان تصاویر میں دیکھا جا سکتا تھا کہ چین 2020-21 میں ڈوکلام کے نزدیکی علاقے میں تعمیراتی کام کر رہا ہے اور فوجی اسٹرکچر تیار کرچکا ہے۔ اس کے باوجود وزیر اعظم نریندر مودی نے خاموشی اختیار کر رکھی تھی۔ اس لیے کانگریس کے ترجمان رندیپ سنگھ سرجیوالا نے چین کے اس اقدام کو ملک کے لیے بڑا چیلنج بتایا لیکن مودی اس معاملے پر چین کے ساتھ کچھ بھی کہنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ شمالی ڈوکلام میں چینی فوجی سازوسامان اور انفراسٹرکچر کی تصاویر جاری کرکے کانگریس نے دونوں ممالک کے درمیان اس موضوع پر تبادلہ خیال پر مودی کے خاموش رہنے پر تشویش کا اظہار کیا تھا حالانکہ اسی زمانے میں جوہانسبرگ بریکس اجلاس کے دوران مودی سے چین کے صدر کی ملاقات ہوئی مگرانہوں نے اس موقع پر یہ معاملہ نہیں اٹھایا۔ ترجمان نے کہا کہ بھوٹان کی سرزمین سے چینی تعمیرات کے شواہد نے بھارت کو فکرمند کر دیا ہے۔ ان تعمیرات کے ذریعہ چین نے ڈوکلام کے قریب اپنا دعویٰ مضبوط کرنے کی کوشش کی تھی۔
چین کا معاملہ بھی بڑا دلچسپ ہے۔ دنیا میں 14 ممالک کے ساتھ اس کی 22 ہزار 457 کلو میٹر لمبی سرحد ہے لیکن اس کے سرحدی تنازعات صرف بھارت اور بھوٹان کے ساتھ ہیں۔ پہلے بھارت کے ساتھ بھوٹان کے تعلقات بہت قریبی تھے اس لیے فکر کی کوئی بات نہیں تھی لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ بھوٹان کا رخ تبدیل ہو رہا ہے۔ بھارت ان علاقوں میں چینی تعمیرات سے انتہائی پریشان ہے لیکن بھوٹان کا اس پر اعتراض نرم پڑگیا ہے۔ اسی لیے بھوٹان کے وزیر اعظم کا مذکورہ بیان غیر معمولی اہمیت کا حامل ہوگیا ہے۔ بھارت کے ساتھ چین کا سرحدی تنازع ارونا چل پردیش اور لداخ میں بھی ہے جہاں 2020 میں وادی گلوان میں جھڑپ میں چار چینی اور 20 انڈین فوجی مارے گئے تھے۔ بھوٹان اور چین کے درمیان سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔ وہ دونوں نئی دلی میں اپنے سفارت خانوں کے ذریعے روابط رکھتے ہیں۔ پھر بھی چین کے نائب وزیر خارجہ نے بھوٹان کا دورہ کرکے بھارت کی غیر موجودگی میں ڈوکلام معاملے پر مذاکرات کیے اور 14 اکتوبر 2021 کو سرحدی تنازعات حل کرنے کے لیے ایک معاہدے پر دستخط بھی کر دیے۔
چین اور بھوٹان کے مابین سرحدی معاملات پر بات چیت تو 1984 سے جاری ہے مگر مودی جی کے امرت کال میں چینی سفارتکاری نے یہ اہم کامیابی درج کرائی اور ہمارے وزیر خارجہ منہ دیکھتے رہ گئے۔ اس لیے کہ انہیں پاکستان اور راہل گاندھی سے فرصت ملے تو وہ کچھ کریں۔ بھوٹان نے چونکہ چین کے ساتھ ہونے والے تحریری معاہدے کو ظاہر نہیں کیا تھا اس لیے حکومتِ ہند نے چین اور بھوٹان کے معاہدے پر محتاط ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم نے اس کا نوٹس لیا ہے۔ اس موقع پر تین اخبارات کے توسط سے سرکاری موقف سامنے آیا۔ حکومتِ ہند کے حامی ہندی اخبار دینک جاگرن نے لکھا کہ چین نے 2017 میں بھوٹان کی جنگی حکمت عملی کے لحاظ سے اس اہم علاقے کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی تھی اس لیے بھارت مذکورہ معاہدے کو غور سے دیکھ رہا ہے۔ اس کے برعکس چین کے سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز نے اپنے اداریے میں لکھا تھا کہ بھارت دو آزاد ممالک کے درمیان ہونے والے معاہدے پر انگلیاں اٹھا کر اپنی تنگ نظری کا اظہار کر رہا ہے۔ گلوبل ٹائمز کے مطابق بھارتی ردعمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک چھوٹے اور کمزور ملک کی خود مختاری کو کمزور کر رہا ہے۔ ان سرکاری تبصروں سے قطع نظر دلی کے موقر روزنامہ ’ہندوستان ٹائمز‘ کی رائے تھی کہ بھارت کی قومی سلامتی کے لیے بھوٹان بہت اہم ہے۔ سلیگوڑی کوریڈور کا حوالہ دے کر اس نے اس معاہدے سے خطے میں بھارت کے دفاع کو متاثر کرنے کے امکان کا اظہار کیا تھا ۔
2017 کے بعد سے ہونے والی پیش رفت گواہ ہے کہ بھارت اور بھوٹان کے خوشگوار تعلقات کو چین مشکل بنانا چاہتا ہے۔ اس مقصد میں اسے بتدریج کامیابی بھی ملنے لگی ہے۔ وہ اب بھوٹان کے ساتھ آزادانہ طور پر اپنے سرحدی معاملات حل کرنا چاہتا ہے۔ بھوٹان بھی چینی خطرے کے بھارتی دعوے کو بھی مسترد کرنے لگا ہے۔ ایسے میں بھارت کا اپنے اتحادی بھوٹان کی فوجی تیاری میں مدد کرنا بلا واسطہ چین کا تعاون ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھوٹانی وزیر اعظم کے تازہ انٹرویو کے بعد کانگریس کا مرکزی حکومت سے بھوٹان کے ساتھ بھارت کی شراکت داری کو یقینی بنانے کی گزارش معقول معلوم ہوتی ہے۔ کانگریس کے جنرل سکریٹری جئے رام رمیش نے دعویٰ کیا کہ بھوٹان اور بھارت کے درمیان اب تک کے اٹوٹ رشتوں کو جارح چین سے چیلنج مل رہا ہے۔ جئے رام رمیش نے سوال کیا کہ مودی حکومت نے 2017 کے ڈوکلام معاملہ کو ایک بڑی جیت کی شکل میں پیش کیا تھا مگر چین اس خطہ میں ایک غیر معمولی فوجی بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں مصروف ہے۔ اس لیے چین کی اس قولی، جغرافیائی اور فوجی جارحیت کا جواب مودی حکومت کب دے گی؟‘‘ کانگریسی ترجمان نے وزیر اعظم سے گزارش کی کہ وہ پردے کے پیچھے نہ چھپیں اور بھوٹان کے ساتھ طویل مدت سے چلی آ رہی شراکت داری کو مضبوط بنائے رکھیں۔
جی 20 کی صدارت فی الوقت بھارت کے پاس ہے۔ آئندہ ستمبر میں دلی میں ہونے والے جی 20 سربراہی اجلاس سے قبل حکومت نے ماحول سازی کے لیے 50 بڑے شہروں میں درجنوں پروگرام طے کر رکھے ہیں۔ اسی سلسلے کی ایک تقریب کا اہتمام اروناچل پردیش میں ہوا جس میں پچاس سے زیادہ مندوبین نے شرکت کی لیکن چین اس میں شامل نہیں ہوا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چین اروناچل پردیش کو تبت کا ایک حصہ مانتا ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ بھارت نے اس پر غیر قانونی طور پر قبضہ کر رکھا ہے۔ جبکہ بھارت ایسے دعووں کو مسترد کر کے اروناچل پردیش کو اپنا اٹوٹ حصہ قرار دیتا ہے۔ جی 20 کے دوران یہ تنازع بھی ابھر کر سامنے آگیا۔ آج کل جی 20 کے حوالے سے ملک بھر میں مودی جی کا ’ہنستا ہوا نورانی چہرا نظر آتا ہے‘۔ جی 20کے صفر میں مسکراتا ہوا کمل دکھا کر یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ بھارت وشو گرو (عالمی استاد) بن چکا ہے لیکن اس تشہیر کے پیچھے چھپی ہوئی سچائی یہ ہے کہ ملک کے سارے پڑوسی دشمن نمبر ایک چین کے ہمنوا بن چکے ہیں۔ ایسے میں عالمی قیادت کا دعویٰ کھوکھلا نظر آتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر بھوٹان بھی آنکھیں دکھانے لگے تو پاکستان افغانستان اور چین بھارتی قیادت کو کیونکر تسلیم کریں گے؟ یہ سوال خارجہ پالیسی کے حوالے سے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***

 

***

 بھوٹان اور چین کے درمیان سفارتی تعلقات نہیں ہیں ۔وہ دونوں نئی دلی میں اپنے سفارت خانوں کے ذریعے روابط رکھتے ہیں۔ پھر بھی چین کے نائب وزیر خارجہ نے بھوٹان کا دورہ کرکے بھارت کی غیر موجودگی میں ڈوکلام معاملے پر مذاکرات کیے اور 14 اکتوبر 2021 کو سرحدی تنازعات حل کرنے کے لیے ایک معاہدے پر دستخط بھی کر دیے۔ چین اور بھوٹان کے مابین سرحدی معاملات پر بات چیت تو 1984 سے جاری ہے مگر مودی جی کے امرت کال میں چینی سفارتکاری نے یہ اہم کامیابی درج کرائی اور ہمارے وزیر خارجہ منہ دیکھتے رہ گئے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 09 اپریل تا 15 اپریل 2023