دوہری زندگی

حمیرا علیم

امی!امی!۔۔ رشنا پکارتی ہوئی گھر میں داخل ہوئی اور سیدھی امی کے کمرے کی طرف بڑھی۔ امی اس کی آواز سن کر بوکھلائی ہوئی باہر نکلیں اور پوچھا۔
’’ کیا ہوا روشی؟ رو کیوں رہی ہو؟’’
’’ کیا بتاؤں امی میری تو قسمت ہی خراب ہے۔‘‘ اس نے زاروقطار روتے ہوئے کہا۔
’’ پر بیٹا پتہ تو لگے ہوا کیا ہے؟ ‘‘ امی نے اسے صوفے پر بٹھاتے ہوئے کہا اور بہو کو آواز دی۔ خجستہ ذرا پانی کا ایک گلاس لانا روشی کے لیے ۔
خجستہ پانی لےکر آئی تو روشی کو دیکھ کر پریشان ہو گئی مگر کچھ کہا نہیں۔
’’ خجستہ! تم ذرا روشی کا کمرا صاف کردو اور کھانے میں اس کی پسند کا قیمہ مٹر اور گاجر کا حلوہ اور ریشمی کباب بنا لینا اور ساتھ میں رشین سلاد اور رائتہ ضرور بنا لینا۔‘‘
خجستہ نے جی کہہ کر کچن کا رخ کیا۔
روشی پانی پی چکی تو امی نے گلاس اس سے لے کر ٹیبل پہ رکھا اور پوچھا ’’ ہاں اب بتاؤ کیا ہوا ہے؟‘‘
’’ ہونا کیا ہے امی۔ پھر وہی میری نند اپنے میاں سے لڑ کر اپنے میکے رہنے آ گئی ہیں ۔ابھی چند دن پہلے ہی تو گئی تھی ۔پتہ نہیں اپنے گھر سکون سے کیوں نہیں رہتی۔’’اس نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔’’ بس میں نے بھی کہہ دیا ہے یاسر سے اب مجھے الگ گھر لے کر دیں گے تو ہی میں واپس جاؤں گی۔‘‘ اس نے اضافہ کیا۔
’’ بالکل ٹھیک کیا تم نے۔اب اٹھو میرا بچہ منہ ہاتھ دھو کے کچھ دیر آرام کرلو۔اتنے میں کھانا بن جائے گا ۔شام کو تمہارے ابو اور بھائی آئیں گے تو بات کرتی ہوں ان سے یہ کیا مذاق بنا رکھا ہے یاسر نے۔‘‘
رشنا اٹھی اور کمرے میں جا کر سو گئی۔رات کے کھانے پر جب روحیل، خجستہ، جہان صاحب اور ان کی بیگم روبی ٹیبل پر بیٹھے تو روبی نے کہا’’ خجستہ جا کر روشی کو بلا لاؤ ‘‘ خجستہ فوراً سے اٹھ کر اس کے کمرے کی طرف بڑھ گئی تو جہان اور روحیل نے تیوریاں چڑھاتے ہوئے پوچھا’’ کیا رشنا پھر سے لڑ کر آ گئی ہے؟’’
’’ ارے تو کیا کرے میری پھول سی بچی کے ناک میں دم کر کے رکھ دیا ہے ان سسرال والوں نے ۔بس کہہ دیا ہے میں نے آپ اب یاسر کو بلائیں اور صاف صاف بات کریں اگر تو وہ روشی کو الگ گھر لےکر دیتا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ وہ واپس اس گھر میں نہیں جائے گی۔’’
روحیل اور جہان نے ایک دوسرے کو دیکھا اور خاموشی سے کھانا کھانے لگے۔رشنا ٹیبل پر آئی اور سلام کیا۔ سب نے کھانا کھا لیا تو جہان نے روحیل سے کہا’’ روحیل میاں ذرا میرے کمرے میں آئیے مجھے آپ سے بات کرنا ہے۔اور بیگم آپ رشنا کے کمرے میں بیٹھیے ذرا اس کی دلجوئی کیجیے’’ روحیل ان کے ساتھ ان کے کمرے میں گیا۔تقریبا ایک گھنٹے بعد وہ واپس اپنے کمرے میں گیا اور سب سو گئے۔
اگلے دن اتوار تھا اس لیے سب ذرا دیر تک سوتے رہے۔ جب سب بیدار ہوئے تو روبی بیگم نے خجستہ کو آواز دی مگر اس نے نہ تو جواب دیا نہ ہی خود آئی۔انہوں نے حیرت سے کچن میں جھانکا، لان میں دیکھا مگر وہ کہیں بھی نہیں تھی۔پھر اس کے بیڈ روم کا دروازہ کھٹکھٹایا اور اسے آوازدی۔ تو اندر سے روحیل نکلا۔
’’ جی امی!کوئی کام تھا آپ کو؟ ’’ اس نے پوچھا ۔
’’ ہاں بیٹا! اتنی دیر ہوگئی خجستہ اٹھی نہیں ابھی تک نہ ہی ناشتہ بنایا ہے۔’’ انہوں نے غصے سے کہا۔
’’ امی خجستہ تو صبح ہی اپنی امی کے گھر چلی گئی تھی۔،، روحیل نے انکشاف کیا۔اتنے میں جہان صاحب اور رشنا بھی لیونگ روم میں آگئے۔
’’ کیوں بھئی بیگم! آج کیا ناشتہ نہیں ملے گا؟ اتوار کو کہیں ناشتے کی بھی چھٹی تو نہیں’’ انہوں نے شگفتہ لہجے میں پوچھا ‘‘۔
’’ ناشتہ کہاں سے ملے گا آپ کی بہو صاحبہ تو صبح صبح ہی اپنے میکے سدھار گئی ہیں ۔بنا کسی کو کچھ پوچھے بتائے۔’’ انہوں نے غصے سے جواب دیا۔
’’ اچھا یہ کب ہوا؟’’ جہان صاحب نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے پوچھا اور رشنا سے مخاطب ہو کر بولے’’ جاؤ بیٹا سب کے لیے ناشتہ بناؤ ۔اور ہاں میرے لیے پراٹھے مت بنانا میں پورج ہی لوں گا اور ساتھ میں قہوہ۔‘‘
رشنا نے حیرت سے ماں کو دیکھا اور بولی ’’میں؟‘‘
’’ہاں تم رشنا! کیوں میں نے کوئی انہونی بات کہہ دی ہے۔ کیا تم اپنے سسرال میں ناشتہ نہیں بناتی ہو؟’’ جہان صاحب نے استفسار کیا۔‘‘
’’ نہیں ابو وہاں تو میڈ ہے نا وہی سب کام کرتی ہے۔کھانا بھی وہ اور یاسر کی امی ہی بناتی ہیں۔ میں تو یاسر کے جانے کےبعد ہی اٹھتی ہوں’’ اس نے فخریہ بتایا۔
’’ اوہو! آپ بھی بچی کے پیچھے ہی پڑ گئے ہیں بن جائے گا ناشتہ بھی پہلے یہ تو پتہ چلے خجستہ بیگم کس سے پوچھ کر اور کس خوشی میں اپنے میکے گئی ہیں ۔ہاں روحیل تم بتاؤ کیوں گئی ہے وہ؟’’ انہوں نے روئے سخن روحیل کی طرف کیا۔
’’ اصل میں امی وہ بہت ناراض ہو رہی تھی اور کہہ رہی تھی آپ کی بہن ہر چند دن بعد ناراض ہو کر یہاں آجاتی ہے اور پھر کئی کئی دن یہیں رہتی ہے۔ میرا چھوٹا بچہ بھی ہے اور گھر کی ساری ذمہ داری بھی مجھ پر ہی ہے۔ رشنا تو ہل کر تنکا بھی نہیں توڑتی۔ میرا کام بہت بڑھ جاتا ہے۔اب جب تک یہ یہاں ہے میں اپنی امی کے گھر ہی رہوں گی۔’’ روحیل نے ساری رودادسنا دی۔
’’ اسکی یہ مجال میری بچی چند دن اپنے ماں باپ کے گھر رہنے کیا آ جاتی ہے اس کی آنکھوں میں کھٹکنے لگی ہے۔نہیں آتی تو نہ آئے پڑی رہے اپنے ماں باپ کے گھر۔ ہماری بلا سے۔ جب تک روشی کے ماں باپ زندہ ہیں اسے اس گھر میں آنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔‘‘ روبی بیگم نے دعوٰی سے کہا۔
’’ مگر امی وہ کہہ گئی ہے کہ اب وہ اسی صورت میں واپس آئے گی جب میں اسے الگ گھر لے کر دوں گا۔‘‘ روحیل نے ایک اور دھماکہ کیا۔
’’ کیا کہا اس نے؟ اب وہ میرے اکلوتے بیٹے کو ماں سے الگ کرنے کی سازشیں کر رہی ہے۔ دفعہ کرو اسے فورا طلاق دے دو میں اپنے چاند سے بیٹے کے لیےپیاری سی دلہن لاوں گی۔‘‘ روبی نے بیٹے کی بلائیں لیتے ہوئے کہا۔
’’واہ بیگم واہ! جواب نہیں آپ کا بھی۔بیٹی آپ کی اچھے خاصے امیر گھر کی بہو، گھر میں کام کاج کے لیے ملازمائیں بھی اور ساس بھی اچھی بھلی چنگی ۔آپ کی بیٹی کو ہتھیلی کا چھالا بنا کر رکھا ہوا ہے اور اگر ان کی اکلوتی بیٹی سال چھ ماہ میں اپنے والدین سے ملنے آجائے تو آپ کی بیٹی کو یہ ناگوار گزرتا ہے اور وہ میاں سے لڑجھگڑ کر اپنے میکے میں براجمان ہوجاتی ہے۔ اور جب یہ اپنے میاں سے الگ گھر کا مطالبہ کرے تو آپ کو یاد نہیں آتا کہ یاسر بھی والدین کا اکلوتا بیٹا ہے جسے آپ کی بیٹی سازش کر کے والدین سے الگ کرنا چاہتی ہے۔ اور آپ کی بہو جو اس گھر میں ایک چھوٹے بچے کےساتھ سارا کام بغیر کسی مدد کے کرتی ہے۔آپ اور آپ کی یہ بیٹی جو مہینے میں پندرہ دن لڑ کر یہیں رہتی ہے مہارانیاں بنی اسے پانی کے ایک گلاس کے لیے بھی دوڑاتی رہتی ہیں ۔آفرین ہے اس بچی پر کہ کبھی ماتھے پہ شکن نہیں آئی اس کے۔
جب وہ الگ گھر کا مطالبہ کرے تو آپ اسے طلاق ہی دلوانے پر تیار ہیں بغیر یہ سوچے کہ وہ کس قدر فرمانبردار بچی ہے اور آپ کے بیٹے کی محبت اور آپ کے پوتے کی ماں ہے۔سوچیے اگر یاسر میاں آپ کی پھوہڑ اور بد سلیقہ بیٹی کو طلاق بھیج دیں تو آپ کا کیا حال ہو گا؟اسے بھی ایک سے ایک لڑکی مل جائے گی۔کس چیز کی کمی ہے اس کے پاس۔اب تک اگر اس نے آپ کی بیٹی کو برداشت کیا ہے تو صرف اپنی شرافت کی وجہ سے ورنہ اس میں کون سے ایسے گن ہیں کہ کوئی شخص اس کے اتنے نخرے اٹھائے۔اور اس کو سر پہ چڑھانے والی آپ ہیں ۔بجائے اسے سمجھانے کے اس کی بچکانہ سوچوں اور مطالبات کو بڑھاوا دے رہی ہیں آپ۔‘‘ جہان صاحب گرجے۔
روبی بیگم اور رشنا فق چہروں کے ساتھ یہ سب سن رہی تھیں ۔رشنا نے اٹھنے کی کوشش کی تو جہان صاحب نے تحکمانہ انداز میں کہا’’ بیٹھ جاؤ ابھی میری بات پوری نہیں ہوئی۔دیکھو میں تمہارا باپ ہوں دشمن نہیں ۔مانا کہ ہر گھر میں چھوٹی موٹی کھٹ پٹ چلتی رہتی ہے مگر تم نے تو ذرا سی خلاف توقع بات پر گھر چھوڑ کے آنا وطیرہ ہی بنا لیا ہے۔ابھی ایک سال ہوا نہیں اور تم یاسر کےساتھ الگ گھر میں رہنا چاہتی ہو۔کس بنا پر؟ نہ تم اس گھر میں کسی کے کام کرتی ہو حتیٰ کہ میاں کو بھی اس کی ماں اور میڈ کھانا بنا کر دیتی ہیں نہ تم یاسر کے والدین اور اکلوتی بہن کو برداشت کرتی ہو ان سے سیدھے منہ بات نہیں کرتی ہو۔کس چیز کی کمی ہے تمہیں وہاں۔ گھر گاڑی پیسہ نوکر چاکر اتنے اچھے سسرال والے اور پڑھا لکھا خوبرو شوہر۔یاد رکھو اگر آج تم یاسر کےساتھ الگ گھر میں چلی جاؤ تو ایک ہفتے بعد ہی اپنے لچھنوں کی بدولت طلاق لےکر آ جاؤ ۔مگر تمہاری ماں کی عقل پر پتھر پڑ گئے ہیں جو تمہیں ہر وقت الٹی سیدھی پٹیاں پڑھاتی رہتی ہے۔ناشتہ کرو اپنا بیگ اٹھاو اور بھائی کےساتھ اپنے گھر جاو۔
اپنی بھابھی سے ہی سبق سیکھو۔کیسے اچھے برے حالات میں وہ دو سال سے ہم سب کی خدمت بھی کرتی ہے اور تمہاری اور تمہاری ماں کی کڑوی کسیلی باتیں بھی برداشت کرتی ہے۔اس نے تو کبھی تمہارے آنے پر ناک بھوں بھی نہیں چڑھائے کیونکہ وہ جانتی ہے یہ تمہارے والدین کا گھر ہے اور شادی کےبعد بھی تمہارا اس پر حق ہے۔پھر تمہیں اپنی نند کے آنے سے تکلیف کیوں ہوتی ہے۔
اگر تم اپنی روش بدلو گی اور سسرال اور شوہر کےساتھ گھل مل کر رہو گی تو ٹھیک ہے ورنہ آئندہ اس گھر میں آ کر ہمارے گھر کا ماحول خراب کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔سمجھی تم۔
اور آپ روبی بیگم !اب اس گھر میں صرف رشنا ہی نہیں خجستہ بھی آپ کی ہی بیٹی ہے اس کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک ہونا چاہیے جو رشنا کےساتھ ہوتا ہے۔یہ دوہرا معیار نہیں چلے گا۔۔ بیٹی اور داماد کو تو سر آنکھوں پہ بٹھایا ہوا ہے اور بہو کو سارے گھر کی نوکرانی بنا کر رکھ دیا۔‘‘
روبی بیگم نے روتے ہوئے سر اٹھا کر انہیں دیکھا اور گویا ہوئیں’’ آپ نے میری آنکھیں کھول دیں جہان صاحب ۔یہ سب میری بیوقوفی کی وجہ سے ہوا ہے۔مجھے معاف کردیں ۔میں خود روشی کو چھوڑ کر آوں گی اور یاسر سے معافی بھی مانگوں گی اور خجستہ بیٹی کو بھی منا کر لے آوں گی۔‘‘ جہان صاحب اور روحیل نے معنی خیز نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھا اور مبہم سی مسکراہٹ ان کے ہونٹوں پر رینگ گئی۔ یہی تو وہ بات تھی جوان دونوں کے درمیان رات کو طے پائی تھی۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 26 فروری تا 04 مارچ 2023