ڈاکٹر محمد حمیداللہ: مجدد سیرت اور قانون بین الممالک کے ماہر

ریسرچ اسکالرز کی تحقیق غیر جانبدار اور تعصب سے پاک رہے

ڈاکٹر ظفردارک قاسمی

موجودہ صورتحال میں امن عالم کے لیے ڈاکٹر حمید اللہ کی تحریروں میں روشن خطوط موجود
ڈاکٹر محمد حمیداللہ (1908-2002) نے علم و ادب اور سیرت نبوی کے حوالے سے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ ڈاکٹر محمد حمیداللہ کو بین الاقوامی قوانین کے ماہراور مجدد سیرت کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اردو، عربی، انگریزی کے علاوہ فرنچ، ترکی وغیرہ پر بھی وہ قدرت رکھتے تھے۔ ان کی تالیفات و تصنیفات اور تحقیقات و نگارشات کی تعداد خاصی طویل ہے ان میں چند نمایاں کتب کے نام یہ ہیں۔ عہد نبوی کے میدان جنگ، عہد نبوی کا نظام حکمرانی، محمد ﷺ کی سیاسی زندگی، Introduction to Islam اور پیغمبر اسلام جیسی شاہ کار تصنیفات نے علم و ادب کی دنیا کے لیے تحقیق و تدوین اور ریسرچ و تدقیق کے خطوط متعین کیے ہیں۔ ڈاکٹر محمد حمیدللہ نے سیرت نبوی کے ان گوشوں سے ارباب علم و دانش کو متعارف کرایا جن تک کسی کی رسائی نہیں ہوپائی تھی۔ تحقیق کی دنیا میں جس منہاج اور طریقے کو سامنے رکھ کر ڈاکٹر محمد حمیداللہ نے کام کیا آج اس کی ضرورت ہمارے اداروں، جامعات اور مدارس کو ہے۔ تحقیق میں بلا تعصب اور جانب داری سے گریز کرتے ہوئے کوئی علمی کام انجام دینا امانت و دیانت داری کی واضح علامت ہے۔ لیکن آج کا جو منظر نامہ ہے اس میں بہت حد تک چیزوں اور باتوں کو یوں ہی نقل کرنے کی روایت کثرت سے رواج پا رہی ہے۔ اس کا مشاہدہ ہم اپنے معاشرے میں کرتے رہتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد حمیداللہ کی تحریریں اور ان کی علمی و فکری مساعی کا اولین پیغام یہ ہے کہ باحثین و اسکالرس اور محقیقین و مصنفین جب کوئی تحقیق و تدوین پیش کریں تو اس کا انداز خالص علمی، سنجیدہ اور محققانہ ہونا چاہیے۔ جو بات پیش کی جارہی ہے اس میں وزن ہو، معاشرتی سطح پر اس کا اثر اسی وقت مرتب ہوگا جب کہ اس کی پوری طرح تحقیق کرلی گئی ہو۔ برعکس اس کے اگر کوئی تحریر اس طور پر پیش کی جائے کہ اس کے اندر نہ علمی گہرائی ہو، نہ فکری توازن اور نہ معاشرتی تقاضوں کی رعایت تو پھر اس ادب کا اثر دیر پا نہیں رہتا ہے۔ سماج اور معاشرے کو فکری، نظریاتی طور پر ہم آہنگ کرنے کے لیے تحقیق کے مسلمہ اصولوں کی رعایت رکھنی ضروری ہے۔ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ہم جو بھی علمی و تحقیقی عمل انجام دے رہے ہیں اس کا رشتہ سماج سے وابستہ ہونا ضروری ہوتا ہے۔
ڈاکٹر محمد حمیداللہ کے علمی ورثے کا امتیاز یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنی تحریروں میں انسان دوستی اور سماجی تنوع کی روایتوں نیز تہذیبی تنوع کے تمام ضابطوں کو مد نظر ہی نہیں رکھا بلکہ قومی مفاہمت کے عناصر ان کی تحریروں میں ہمیں جابجا ملتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد حمیداللہ چاہتے ہیں کہ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں اس میں علمی فکر و نظر فروغ پائے اور سماج میں کسی بھی نوعیت سے انتشار و افتراق بپا نہ ہو۔ جو بات بھی سماج تک پہنچے وہ حقائق کی آئینہ دار ہو۔ گویا ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے اپنی نگارشات اور علمی ورثے کے ذریعہ جو پیغام دیا ہے اس میں رواداری، اعتدال، توازن اور توسع و ہمہ گیری ہے۔ اسی نظریہ کی ترویج و اشاعت سے علمی و فکری دنیا میں عملی اور سماجی سطح پر استحکام برپا ہوگا۔ انہوں نے مغرب کی سرزمین میں رہ کر سماجی تعدد اور ادیان ومذاہب و افکار و نظریات کی رنگا رنگی اور لسانی و فکری تنوع کو بہت قریب سے دیکھا اور وہاں تبلیغ اسلام کا فریضہ انجام دیا۔ انہوں نے فکری توازن اور سماجی ہم آہنگی کے لیے جو عملی و ادبی اقدامات کیے ہیں انہیں آج کی معاصر دنیا میں زیادہ سے زیادہ نشر و اشاعت کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارا سماج باہم احترام کی کیفیت سے محظوظ ہوسکے۔ علم و ادب کا کوئی بھی گوشہ ہو اس کا واحد مقصد انسانی حقوق کی حفاظت اور سماجی تقاضوں کی رعایت ہونا بہت ضروری ہے لیکن یہاں یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ سماجی تقاضوں کی رعایت کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ مذہب و دین کے مسلمات کو پس پشت ڈال کر سماجی تقاضوں کی رعایت رکھی جائے۔ اس تناظر میں جب ہم ڈاکٹر محمد حمیداللہ کی تحریروں کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے علم و تحقیق کے میدان میں ان رویوں اور رجحانات کو کبھی بھی قابل اتباع نہیں سمجھا جن کی بدولت سماج میں کوئی مسئلہ انتشار کا باعث ہو۔
احادیث کی سب سے اولین کتابوں میں سے ایک کتاب جو ’صحیفہ ہمام بن منبہ‘ کے طور پر جانی جاتی ہے جسے حضرت ابوہریرہؓ نے میں اپنے شاگردوں کو پڑھانے کے لیے تیار کیا تھا، اس عظیم دستاویز کو ڈاکٹر محمد حمیداللہ نے جرمنی میں برلن لائبریری سے دریافت کیا اور شائع کرایا۔ اس دریافت سے بعض لوگوں کا یہ اعتراض مکمل ختم ہوگیا کہ احادیث کی تدوین و تالیف نبی کریم ﷺ کی وفات کے دو سو سال بعد ہوئی۔
ڈاکٹر محمد حمیداللہ کی شخصیت گوناگوں صلاحیتوں کی مالک تھی۔ انہوں نے قرآن و سیرت کے ساتھ ساتھ قانون بین الممالک پر گراں قدر کام کیا ہے اس حوالے سے ان کی تحریریں وقیع، علمی اور فکر انگیز ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد اقوام عالم میں قانونِ بین الممالک کی اہمیت کا شدت سے احساس پیدا ہوا۔ چنانچہ اقوام متحدہ کے قیام کے ساتھ ہی ایک منشور ترتیب دیا گیا، جس میں باہمی تعلقات کی استواری اور دوسرے مسائل اور نزاعات کے حل کے لیے قوانین وضع کیے گئے۔ ڈاکٹر صاحب نے اقوام متحدہ کے اس منشور کو بھی اردو میں منتقل کیا۔
علامہ ابنِ القیم کی کتاب احکام اہل الذمہ ڈاکٹر صجی الصالح کی تحقیق سے شائع ہوئی۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے اس پر جو پُرمغز مقدمہ لکھا، وہ بھی اُن کے قانون بین الاقوامی اور بقائے باہم کے شعور کا بین ثبوت ہے۔ اس میں انہوں نے اسلام کے ملکی اور بین الاقوامی قوانین، غیر مسلم حکومتوں سے تعلقات اور ’اہل ذمہ‘ کے حقوق و معاملات پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ اس موضوع پر قدما میں امام سرخسی کی شرح الکبیر معرکہ آرا کتاب ہے۔ دراصل اس میں صلح و جنگ کے طریقے، غیر مسلم اقوام سے تعلقات اور تجارت وغیرہ پر بحث کی گئی ہے۔ اسلام کے بین الاقوامی قانون کو جاننے کے لیے یہ کتاب بہت اہم ہے۔ امام سرخسی کے زمانے میں، جب کہ صلیبی جنگیں لڑی جارہی تھیں، بین الاقوامی تعلقات اور بین الاقوامی قوانین یقینا زیر بحث رہے ہوں گے۔ اس وقت کے اہم تقاضے کو امام سرخسی نے اس طرح پورا کیا کہ امام محمد کی کتاب’ کتاب السیر ‘کی شرح لکھوائی۔ یہ شرح جو کئی جلدوں پر مشتمل ہے حیدر آباد دکن اور مصر سے کئی بار شائع ہوچکی ہے۔
اسی حوالے سے ڈاکٹر حمید اللہ کی دو حصوں پر مشتمل ایک اور اہم تصنیف الوثائق السیاسیۃ فی العھد النبوی و الخلافۃ الراشدہ بھی ہے۔ اس کتاب میں رسول اللہ ﷺ کے مکتوبات و مراسلات، فرامین، معاہدے، عمّال کا تقرر، اراضی کے عطیات، امان نامے، وصیت نامے وغیرہ شامل ہیں۔ دوسرے حصے میں عہدِ خلافتِ راشدہ کی دستاویزات کو یکجا کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں بین الاقوامی تعلقات یا قانون بین الممالک پر ڈاکٹر محمد حمیداللہ کی تصنیف The Muslim Conduct of State میں قانون بین الممالک پر بڑی علمی گفتگو کی گئی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی ایک اور کتاب First Written Constitution in the World ہے جس میں رسول اللہ ﷺ کے ’میثاق مدینہ‘ پر سیرحاصل بحث کرتے ہوئے اُسے ’پہلا عالمی دستور‘ قرار دیا گیا ہے اور مدلل انداز میں ثابت کیا ہے کہ یہ پہلا کثیر قومی و نسلی اور مذہبی وفاق تھا۔ گویا سماجی ہم آہنگی اور رواداری کا عملی مظاہرہ کیا گیا۔ یہ بات ہم پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ ڈاکٹر محمد حمیداللہ کی کتابوں اور ان کی تحریروں کا پیغام عہد حاضر میں یہ ہے کہ قوموں اور معاشروں کے مابین خوشگوار تعلقات کا وجود، صالح اور صحت مند معاشروں کی علامت ہے۔ انسانیت کی بنیاد پر باہم تعاون و نصرت کی بھی افادیت سے قطعی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ہم آہنگی اور باہمی اخوت و رواداری سے مملکتوں اور ریاستوں کے تعلقات بہتر خطوط پر استوار ہوتے ہیں۔ اگر افکار و نظریات یا معاشرتی تعلقات باہم متصادم و کشیدہ ہوں تو اس سے قوموں اور معاشروں کے مابین بد امنی اور ابتری کے فروغ پانے کا زیادہ امکان رہتا ہے۔ بد عنوانی یا اس سے مشابہ کسی بھی فعل وعمل اور قول و حرف پر قدغن لگانا اس لیے بھی ضروری ہے کہ نوع انسانیت کسی بھی طرح کی زیادتی اور تشدد کا شکار نہ ہوسکے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب قومیں، خاندان اور ریاستیں پر امن روایات کی اتباع کریں۔ سنجیدہ اور بقائے باہم کے لیے درخشاں اصول و قانون مرتب کریں۔ زیادتی کرنے والے افراد کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ سماجی، سیاسی، اقتصادی اور مذہبی رابطوں کے دوام کا انحصار صرف اور صرف باہمی ہم آہنگی اور بین الاقوامی تعلقات پر ہے۔ موجودہ دور میں دنیا نے مادی اعتبار سے ترقی کے منازل تو طے کرلیے ہیں مگر افسوس یہ ہے کہ جو اخلاقی اور روحانی قدریں ہمیں ہماری تہذیب و ثقافت سے ورثہ میں ملی تھیں وہ اب بہت حد تک متاثر ہوچکی ہیں۔ ہماری ہوس اور بد اخلاقی نے بین الاقوامی تعلقات کو بھی بری طرح مجروح کیا ہے۔ بین الاقوامی تعلقات کی بدلتی صورتحال پر کنٹرول کرنا نہایت ضروری ہے۔ یہاں یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ عموماً معاشرتی اقدار اور باہمی الفت و محبت اسی وقت بے اثر ہوتی ہے جب حکومتوں اور قوموں کے مفادات متصادم ہوں۔ نیز انسانیت کی خدمت اور ہمدردی کا جذبہ نابود ہوجائے۔ المیہ یہ ہے کہ جو طاقتیں آ ج اپنی حیثیت کا دعویٰ کرتی ہیں اور اپنے آپ کو حقوق انسانی کا محافظ بتاتی ہیں، انہوں نے ہی اپنے محدود مفادات کی خاطر انسانیت کی بنیاد پر ترتیب دیے گئے رشتوں اور تعلقات میں دراڑ پیدا کی ہے۔ جو مسلسل معاشروں کی تباہی اور غارت گری کا سامان بن رہی ہیں۔ یہ بھی مبنی بر حقیقت ہے کہ جب بھی انسانی رشتوں کو ٹھیس پہنچائی گئی ہے تو اس کے انتہائی ضرررساں نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ مل جل کر رہنا، حسن اخلاق اور خندہ پیشانی سے پیش آنا ہمارے روابط کو بڑھاتا ہے۔ میٹھی زبان کے جو اثرات سماج اور معاشرے پر اثر انداز ہوتے ہیں اس کی خوشبو اور رنگت، نسلیں یاد رکھتی ہیں۔ دوسری چیز یہ بھی ہے کہ جن معاشروں میں باہم اچھے روابط ہوں ان کی شناخت و امتیاز بھلائی اور ایثار و ہمدردی کےطور پر کی جاتی ہے۔
ڈاکٹر محمد حمیداللہ کی تحریروں کی عصری معنویت اس لیے بھی ہے کہ آج پوری دنیا گلوبل ولیج میں تبدیل ہوچکی ہے۔ اس لیے اس موضوع پر لکھنے، بولنے اور فروغ دینے کی ضرورت مزید بڑھ گئی ہے۔ اس کی وسعت و تفہیم اور عصری تناظر میں اس کے فوائد سے عوام کو روشناس کرانا باہمی رابطوں کو جلا بخشے گا۔ بین الاقوامی تعلقات کو فروغ دینے کے لیے، آج بڑے پیمانے پر مذاکرات و مکالمات ہورہے ہیں۔ مقالات و کتب تحریر کی جارہی ہیں۔ ان تمام باتوں کا مقصد صرف یہ کہ قومیں دین، افکار و نظریات کی تفریق و مغایرت کے باوجود باہم دست وگریباں نہ ہوں۔ رواداری اور سلامتی وسکون کے ساتھ زندگی بسر کریں۔ اسی پر بس نہیں بلکہ مکالمات و مذاکرات کے اختتام پر باقاعدہ متفقہ طور پر قراردادیں پاس ہوتی ہیں۔ اس لیے کہ ہم اپنے اپنے عقیدہ اور دین دھرم پر عمل پیرا ہوتے ہوئے، سماجی رشتوں اور باہمی تعلقات کو پائیدار بنائیں گے۔ اس لیے معاشرتی اقدار کو برقرار اور دوام و استحکام بخشنے کے لیے مذاکرات ومکالمات کی معنویت سے انحراف نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم جب ہم اس مسئلہ کا حل اسلام کی مقدس تعلیمات میں دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اسلام نے اقوام کی سلامتی اور امن و امان کے لیے جوقوانین وضع کیے ہیں، وہ اساس و بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اسلام نے باہمی اتحاد واعتبار کی وسعت و کشادگی کا نہ صرف اعتراف کیا بلکہ اس پر قانون سازی بھی کی ہے، اسی قانون سازی کی طرف اشارہ ڈاکٹر محمد حمیداللہ نے اپنی متعدد تصانیف میں کیا ہے۔ موجودہ عہد میں جس تیزی سے ملکوں، معاشروں اور قوموں کے حالات خراب ہو رہے ہیں، اجنبیت بڑھ رہی ہے اس صورتحال میں امن و امان اور اتحاد و اتفاق سے رہنے کے لیے ڈاکٹر محمد حمید اللہ کی تحریروں میں روشن خطوط موجود ہیں۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 24 دسمبر تا 30 دسمبر 2023