ڈاکٹر مجتبیٰ فاروق، حیدرآباد
فلسطین میں خواتین کی جدوجہد
فلسطین میں خواتین نے اسرائیل کے خلاف جدوجہد کا آغاز اسی وقت سے کیا جب اسرائیل نے فلسطین پر ناجائز قبضہ کیا۔ فلسطین میں جہاں مرد اسرائیلی جارحیت اور اس کے ناجائز قبضہ کے خلاف لڑ رہے ہیں وہیں خواتین بھی نہایت اہم رول ادا کر رہی ہیں۔ خواتین صف اول میں اسرائیلی فوج کے خلاف بے باکانہ اور ایمانی قوت کے ساتھ مزاحمت کررہی ہیں۔ فلسطین میں ساٹھ کی دہائی میں خواتین کی جدوجہد کا باضابطہ آغاز ہوا ۔1967ء میں الفتح تحریک سے تعلق رکھنے والی فاطمہ برناوی نے یروشلم کے ایک سینما میں دھماکہ کیا جس میں درجنوں اسرائیلی افواج زخمی ہو گئے۔ پاپولر فرنٹ سے تعلق رکھنے والی سیدہ غزالہ نے جب عسکریت میں شمولیت اختیار کر لی تو انہیں اسرائیلی فوج نے 1968ء میں اپنے آبائی وطن النقصہ میں شہید کیا۔ اس کے دو سال بعد فلسطینی کاز کے لیے لیلیٰ خالد نے ایک جہاز کا اغوا کیا تھا۔ ستر کی دہائی میں بھی خواتین نے اسرائیل کے خلاف مزاحمت جاری رکھی۔2000ء کے بعد خواتین کی مزاحمت میں تیزی آگئی۔ ایمان غزنوی ایک ایسی خاتون ہیں جنہوں نے عسکریت میں حصہ لیا اور عسکری محاز پر اسرائیل سے لڑنا شروع کیا۔اس کے بعد کئی خواتین نے اس سلسلے کو آگے بڑھایا جن میں زرین ابو عائشہ، آیت الاخرس، عندلیپ ،حبا درغیمہ ،حیفاء، زینب ابو سلیم اور فاطمہ النجار قابل ذکر ہیں۔ عسکری میدان خواتین کے لیے سازگار نہیں رہا۔ انہوں نے اسرائیلی ظلم و جبر اور تشدد کے خلاف زیادہ تر احتجاجی مظاہروں میں حصہ لینا شروع کیا، وہ بڑی تعداد میں احتجاجی مظاہروں میں شرکت کرتی ہیں۔ مظاہروں کے علاوہ خواتین صحافت اور سوشل میڈیا کے میدان میں بھی ظلم اور ناجائز قبضہ کے خلاف اپنی آواز بلند کر رہی ہیں۔
فلسطینی خواتین پر ظلم و تشدد
فلسطین میں خواتین اسرائیلی دہشت گردی اور ظلم کا سب سے زیادہ شکار ہو رہی ہیں۔ 1970ء کے بعد سے خواتین کو بے انتہا ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ پندرہ ہزار خواتین جیل کی کال کوٹھریوں میں پابند سلاسل ہیں۔ان میں نو عمر بچیاں بھی شامل ہیں اور بزرگ خواتین بھی۔ خواتین کو جیلوں میں ذہنی طور سے بھی اور جسمانی طور سے تشدد کیا جا رہا ہے۔انہیں حجاب اتار کر اور برہنہ کر کے بے حرمتی کا ارتکاب کیا جا رہا ہے۔ یہ ایسا تشدد ہے جس کو کسی صورت میں برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ 2019ء سے اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ظلم و جبر کے ماحول میں بھی فلسطینی خواتین اپنی بچوں کی تعلیم و تربیت پر بہت توجہ دے رہی ہیں اور ان میں بیت المقدس کی حفاظت اور اسرائیلی ظلم وجبر کے خلاف لڑنے کا جذبہ پیدا کرتی ہیں۔ اولاد کو میدان کار زار کے لیے تیار کرنا کارِ درد والا معاملہ ہوتا ہے اور یہ ایک عظیم قربانی ہوتی ہے۔ اس کی ایک مثال ام رضوان کی ہے جو فلسطین کی ایک عظیم ماں ہے۔ ان کی پانچ بیٹوں نے اسرائیل کے خلاف جہاد کیا اور سب کے سب شہادت کے درجے پر فائز ہوئے. ام رضوان بھی 22 جون 2016ء میں انتقال کر گئیں۔ فلسطینی خواتین حضرت خنساؓ کی مثال پیش کرتی ہیں۔ حضرت خنساؓ عرب کی مشہور مرثیہ گو شاعرہ اور عظیم المرتبت خاتون تھیں۔ حضرت عمرؓ کے زمانہ خلافت میں جب قادسیہ میں جنگ ہوئی تو وہ اپنے چاروں نوجوان بیٹوں کے ساتھ شریک تھیں اور جنگ کے دوران اپنے بیٹوں کو یوں جوش دلایا:
’’پیارے بیٹو! تم نے اسلام اور ہجرت اپنی مرضی سے اختیار کی ہے۔ خدا کی قسم! تم ایک ماں اور باپ کی اولاد ہو، میں نے نہ تمہارے باپ سے خیانت کی اور نہ تمہارے ماموں کو رسوا کیا۔ تم جانتے ہو کہ دنیا فانی ہے اور کفار سے جہاد کرنے میں بڑا ثواب ہے.اس بنا پر صبح اٹھ کر لڑنے کی تیاری کرو اور آخر وقت تک لڑو.“
جب ان کے چاروں بیٹے شہید ہوئے تو اللہ کا شکر ادا کیا۔
فلسطینی خواتین بڑی مصیبتوں کا سامنا کر رہی ہیں اور وہاں ہر طرف خواتین صعوبتیں جھیل رہی ہیں۔خواتین نے فلسطین میں ظلم و جبر اور تشدد کے ماحول اور خطرات میں جینا سیکھا اور دنیا کو دکھا دیا کہ ظلم کے ماحول میں بھی اسلامی کردار کیسے ادا کیا جاتا ہے۔ بقول ایک عربی شاعر :
ابارک فی الناس اھل المطموح
ومن یستلذ رکوب الخطر
ومن لا یحب صعود الجبال
یعش ابد الدھر بین الحفر
یعنی میں بلند عزائم رکھنے والوں اور ان لوگوں کو مبارک باد دیتا ہوں جو اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے خطرات مول لیتے ہوئے لذت محسوس کرتے ہیں۔ جو لوگ پہاڑوں پر چڑھنے کا خطرہ مول لینا پسند نہیں کرتے وہ ہمیشہ پستیوں میں رہتے ہیں ۔
جميلة عبدالله طه الشنطي
ابتدائی احوال و تعلیم
جميلة عبدالله طه الشنطي 15؍ مارچ 1957 کو جبالیہ پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے مختلف تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کی جن میں یونیورسٹی آف دبئی، اسلامک یونیورسٹی آف غزہ اور عین شمس یونیورسٹی شامل ہیں۔ بعد ازاں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے مصر کا رخ کیا جہاں انہوں نے 1980 میں عین شمس یونیورسٹی سے انگریزی زبان و ادب میں میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ وہ طلبائی ایکٹیوازم میں کافی متحرک رہتی تھیں اور حسن البنا شہید اور سید قطب شہید کے افکار سے کافی متاثر تھیں۔ انہوں نے مصر کی عین شمس یونیورسٹی میں حصول تعلیم کے دوران ہی اخوان المسلمون میں شمولیت اختیار کی۔ انہوں نے طالبات میں دینی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لیے کافی جوش و ولولہ پیدا کیا۔ ڈاکٹریٹ کے بعد انہوں نے غزہ کی اسلامی یونیورسٹی میں فیکلٹی ممبر کے طور پر کام کیا۔ تدریسی کام میں انہیں زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔ ان کا رجحان دعوت و تحریک کی طرف تھا، چنانچہ تدریسی کام کو خیر باد کہہ دیا۔
تحریک حماس سے وابستگی
حصول تعلیم کے بعد غزہ پٹی واپس آئیں اور 1990 میں تحریک حماس میں باضابطہ شمولیت اختیار کر لی اور پھر شہادت تک پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ڈاکٹر صاحبہ طالب علمی کے دور ہی سے تحریکی مزاج کی حامل تھیں اور یہ مزاج اخوانی لٹریچر کے مطالعے سے پیدا ہوا۔ فلسطین میں شیخ احمد یٰسین کے افکار اور خدمات کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تو انہیں مزید اطمینان حاصل ہوا۔ تحریک حماس میں شمولیت کے فوراً بعد رکن بن گئی اور جلد ہی اس تحریک کے اہم ارکان میں ان کا شمار ہونے لگا۔ ڈاکٹر جمیلہ نے فلسطینی کاز کو آگے بڑھانے کے لیے ہر قسم کی قربانی دی۔ انہوں نے سیاسی، تعلیم وتدریس اور دینی و سماجی کاموں میں اہم رول ادا کیا۔
تحریک حماس اور فلسطین کی قیادت
ڈاکٹر جمیلہ کا شمار ان چند خواتین میں ہوتا ہے جنہوں نے آغاز ہی سے تحریک حماس میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے ہی حماس کے شعبہ خواتین کو منظم انداز میں قائم کیا۔ وہ اس ونگ کی بانی بھی کہلاتی ہیں۔ ان کو 2006 میں تحریک حماس کے قائدین میں شعبہ خواتین کے نائب کی حیثیت سے منتخب کیا گیا اور 2011 میں جب حماس برسر اقتدار میں آئی تو انہیں وزارت کا عہدہ بھی تفویض کیا گیا۔ انہوں نے نہایت نا سازگار حالات کے باوجو فلسطینی عوام کے لیے اپنے آپ کو وقف کیا۔ وہ فلسطینی قانون ساز کونسل کی رکن کے طور پر 2018 تک کام کر چکی ہیں۔ ڈاکٹر جمیلہ نے حماس کی پہلی خاتون سیاسی بیورو کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ ان کو تحریک حماس نے ان اہم پندرہ رکنی ٹیم میں شامل کیا جو حماس مجلس عاملہ کہلاتی ہے۔ ڈاکٹر جمیلہ اس پندرہ رکنی مجلس میں واحد خاتون تھیں۔ وہ تحریک کے پھیلاؤ، تنظیم سازی اور فیصلہ سازی کے عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھیں۔ انہیں 3 نومبر 2006 کو اس وقت اہمیت حاصل ہوئی جب انہوں نے خواتین کے مارچ کی قیادت کی جس نے شمالی غزہ کی پٹی میں بیت حنون میں ایک مسجد پر اسرائیلی قابض فوج کی طرف سے مسلط کردہ محاصرے کو کامیابی سے توڑا۔
ڈاکٹر عبدالعزیز الرنتیسی سے شادی
ڈاکٹر جمیلہ کی شادی حماس کے اہم ترین رہنما ڈاکٹر عبدالعزیز الرنتیسی سے ہوئی تھی۔ یہ شادی خالص دینی اور تحریکی بنیادوں پر ہوئی تھی جو ایک مثالی شادی ثابت ہوئی۔ شادی ان کی تحریکی و دینی خدمات کو انجام دینے میں رکاوٹ نہیں بنی، بلکہ وہ ایک دوسرے کے معاون بن گئے۔ چونکہ ذہنی وفکری ہم آہنگی پہلی سے تھی اس لیے ان میں کبھی کوئی اختلاف پیدا نہیں ہوا۔ ڈاکٹر جمیلہ تحریکی و دینی خدمات فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ چھ بچوں کی تربیت بھی کرتی تھیں۔ جب مارچ 2004 کو اسرائیل نے حماس کے رہنما شیخ احمد یاسین کو شہید کر دیا تو ان کے بعد حماس نے ڈاکٹر عبدالعزیز الرنتیسی کو متفقہ طور پر امیر اعلیٰ منتخب کیا گیا۔ لیکن اگلے ہی مہینے اسرائیل نے ان کی گاڑی پر میزائل برسا کر انہیں ان کے ایک بیٹے کے ساتھ شہید کر دیا۔ ڈاکٹر جمیلہ پر یہ ایک سخت آزمائش تھی لیکن اس سے ان کا حوصلہ پست نہیں ہوا بلکہ انہوں نے مزید تیز رفتاری کے ساتھ اپنی تحریکی سرگرمیوں کو جاری رکھا۔
شہادت
ڈاکٹر جمیلہ 19 اکتوبر 2023 کو غزہ پر اسرائیلی حملے میں شہادت کے درجے پر فائز ہوئیں۔ یہ ایک ایسی موت تھی جس کی وہ دل میں پہلے ہی سے تمنا رکھتی تھیں۔ انہوں نے یہ آرزو اپنے دل میں پال رکھی تھی کہ انہیں اپنے شوہر کی طرح شہادت نصیب ہو۔ چنانچہ اللہ نے ان کی خواہش پوری کر دی اور انہیں شہادت کا درجہ عطا کیا۔ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات اور شہادت کو قبول فرمائے آمین۔
***
***
ڈاکٹر جمیلہ 19 اکتوبر 2023 کو غزہ پر اسرائیلی حملے میں شہادت کے درجے پر فائز ہوئیں۔ یہ ایک ایسی موت تھی جس کی وہ دل میں پہلے ہی سے تمنا رکھتی تھیں۔ انہوں نے یہ آرزو اپنے دل میں پال رکھی تھی کہ انہیں اپنے شوہر کی طرح شہادت نصیب ہو۔ چنانچہ اللہ نے ان کی خواہش پوری کر دی اور انہیں شہادت کا درجہ عطا کیا۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 28 جنوری تا 3 فروری 2024