دیویندر فڈنویس: کہیں پہ نگاہیں کہیں پہ نشانہ

مہاراشٹر کے استعفیٰ کا اتر پردیش پر اثر انداز ہونے کے قوی امکانات

ڈاکٹر سلیم خان ،ممبئی

آئندہ اسمبلی انتخابات میں اجیت پوار کی این سی پی کے وجود پر سوالیہ نشان لگ سکتا ہے
حالیہ انتخاب میں ملک کے جن چاروں بڑے صوبوں میں دنیا کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی کو کرارا جھٹکا لگا ہے ان میں اتر پردیش سرِ فہرست ہے مگر اس کے پیچھے مہاراشٹر اور مغربی بنگال و تمل ناڈو میں بھی وہ چاروں خانے چت ہوگئی ہے۔ 2019 میں مہاراشٹر میں بی جے پی نے اپنے بل بوتے پر 23 مقامات پر کامیابی حاصل کی تھی اور اس کی حلیف شیوسینا نے 18 نشستیں جیتی تھیں لیکن اس بار 14کے نقصان سے بی جے پی 9 پر پہنچ گئی اور اس کی حلیف نام نہاد اصلی شیوسینا کو 7 مقامات پر کامیابی ملی نیز، دوسری حلیف گھڑی والی اجیت پوار کی راشٹروادی کانگریس پارٹی صرف ایک نشست پر کامیاب ہو سکی ہے۔ اس طرح این ڈی اے 41 سے گھٹ کر 17 پر آگیا ہے۔ اس کے برعکس کانگریس ایک سے چھلانگ لگا کر 13 پر پہنچ گئی ہے اور پرکاش باپو پاٹل نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے جیت کر گھر واپسی کرلی یعنی اسے 13 کا فائدہ ہوا۔ یہ دراصل کانگریس مکت بھارت کا نعرہ لگانے والوں کے منہ پر زور دار طمانچہ ہے۔ ادھو ٹھاکرے کی شیوسینا نے 9 نشستیں جیت لیں اور عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے بھٹکتی آتما شرد پوار کی قیادت والی این سی پی 4 سے بڑھ کر 8 پر پہنچ گئی۔ اس طرح انڈیا محاذ نے جملہ 31 نشستوں پر کامیابی درج کر کے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے۔
یاد رہے کہ این ڈی اے کو 17نشستوں پر کامیاب کرنے میں پرکاش امبیڈکر کی بہوجن وکاس اگھاڑی نے ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس بار یہ محاذ 38 نشستوں پر میدان میں آیا مگر ایک پر بھی کامیابی نہیں درج کروا سکا۔ ونچت بہوجن اگھاڑی کا قیام مارچ 2019 میں انتخابات سے پہلے عمل میں آیا تھا اور اس نے 14.75 فیصد یعنی 41 لاکھ 30 ہزار سے زیادہ ووٹ حاصل کرکے اپنی طاقت کا لوہا منوایا تھا جو 2014 سے 14 فیصد زیادہ تھا۔ اس زبردست فرق کے لیے ایم آئی ایم کے ساتھ اس کا اتحاد اور اس کے توسط سے مسلمانوں کی حمایت ذمہ دار تھی۔ مگر پچھلے انتخاب کی بہ نسبت اس بار اسے 27 لاکھ ووٹوں کا نقصان ہوا کیوں کہ مجلس پارٹی۔ساتھ نہیں تھی۔ اس سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ ان کو اپنے بودھ سماج سے زیادہ مسلمانوں کے ووٹ ملتے تھے اور جب وہ نہیں ملے تو جملہ تعداد ایک تہائی ہو گئی۔ ایسے میں امت مسلمہ پر احسان جتانے کے بجائے یہ اعتراف کرنا چاہیے کہ ان کا مسلمانوں پر انحصار زیادہ ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ ونچت اگھاڑی پہلے دلت سماج میں اپنا اثر و رسوخ بڑھائے۔
مسلمانوں کے منہ پھیر لینے سے یہ فرق بھی ہوا کہ پچھلی بار ونچت نے 8 نشستوں پر مہاراشٹر وکاس اگھاڑی کو نقصان پہنچایا تھا مگر اس بار صرف 4 مقامات پر اثر انداز ہوسکی ہے۔ ان کے سبب 3 مقامات پر شیوسینا (ادھو ٹھاکرے) اور ایک مقام پر کانگریس کا نقصان ہوا۔ ایسا نہ ہوتا تو این ڈی اے صرف 13 پر سمٹ جاتا۔ ونچت کے صدر ڈاکٹر پرکاش امبیڈکر نے اس بار دو کے بجائے ایک حلقۂ انتخاب یعنی اکولہ سے قسمت آزمائی کی اور انہیں 276747 ووٹ ملے جبکہ وہیں پر بی جے پی کے انوپ دھوترے 40626 ووٹ سے کامیاب ہوگئے۔ پرکاش امبیڈکر اگر لمبا چوڑا مطالبہ کرنے کے بجائے صرف اکولہ سے الیکشن لڑتے تو بہت بڑے فرق سے کامیاب ہو سکتے تھے اور انڈیا محاذ کی کامیابی کا کریڈٹ بھی لے لیتے مگر انہوں نے خود اپنی طاقت کا بھرم کھول کر عن قریب منعقد ہونے والے اسمبلی انتخابات میں اپنی دعویداری کو کمزور کر دیا ہے۔ امراوتی میں پرکاش امبیڈکر نے اپنے بھائی آنند راج کی حمایت کا اعلان کیا مگر انہیں صرف 18793 ووٹ ملے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اخبارات میں بیان بازی کرنے والوں کی زمینی پکڑ کتنی ہے۔
بلڈانہ میں انڈیا کا امیدوار صرف 29479 ووٹ سے ہار گیا جبکہ ونچت کے امیدوار نے 98441 ووٹ حاصل کیے ۔ ہاتھ کنگالے میں بھی یہی ہوا۔ ونچت کو 32696 ووٹ ملے جبکہ انڈیا کا امیدوار 13426 ووٹ کے فرق سے ہار گیا۔ سب سے بڑا الٹ پھیر ممبئی نارتھ ویسٹ میں ہوا جہاں انڈیا اتحاد میں شامل شیوسینا (ادھو ٹھاکرے) کے امول کرتیکر کو شیوسینا (شندے) کے رمیش وائکر نے صرف 48 ووٹ کے فرق سے ہرا دیا جبکہ ونچت کو وہاں 10052 ووٹ ملے۔ آگے بڑھنے سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے آخری ہفتے میں جو ممبئی کے دو دورے کیے تھے وہاں کیا حال ہوا؟ پہلے تو انہوں نے ممبئی شمال مشرقی لوک سبھا حلقہ میں اپنا روڈ شو کیا۔ وہاں پر شیوسینا (ادھو ٹھاکرے) نے جملہ 4,50,937 ووٹ حاصل کر کے بی جے پی کے مہر چندر کانت کوٹیچا کو ہرا دیا جنہیں 4,21,076 ووٹ ملے۔ اس کے دو دن بعد وزیر اعظم مودی نے شیواجی پارک پر ایک زبردست جلسہ عام سے خطاب کیا مگر وہاں بھی شیوسینا (شندے) کا امیدوار ہار گیا۔ ممبئی جنوبی وسطی لوک سبھا سیٹ سے شیوسینا (ادھو ٹھاکرے) کے انیل دیسائی نے کامیابی حاصل کرلی۔ انہیں کل 3,95,138 ووٹ ملے۔ ان کا مقابلہ شندے گروپ کے راہل شیوالے سے تھا جنہیں صرف 3,41,754 ووٹ حاصل ہوئے۔ وہ تو اچھا ہوا کہ مودی جی ممبئی نارتھ میں نہیں گئے ورنہ جو ایک سیٹ بی جے پی نے پیوش گوئل کی شکل میں 3 لاکھ 38 ہزار ووٹ سے جیتی ہے وہ بھی ہار جاتی۔ اس کے برعکس انڈیا اتحاد نے اسی دن باندرہ میں اپنا آخری اجلاس عام کیا تھا اور اس حلقہ ممبئی جنوب وسطی سے کانگریس کی ورشا گائیکواڑ نے بی جے پی کے سنجے نکم کو شکست فاش سے دو چار کر دیا۔ ورشا کو 4 لاکھ 45 ہزار اور نکم کو 4 لاکھ 29 ہزار ووٹ ملے۔ ممبئی جنوبی سیٹ پر شیوسینا ادھو کے اروند ساونت نے شیو سینا کی شندے دھڑے کی یامنی جادھو کو شکست دی۔ انہیں ممبادیوی کی مسلم اکثریتی اسمبلی سے 77469 ووٹ ملے۔ اس طرح اروند ساونت نے کل 395655 ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کی جبکہ یامنی جادھو 342928 ووٹ کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہیں۔
مہاراشٹر کی سطح پر شرد پوار کی این سی پی نے غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ مہاراشٹر کی 48 لوک سبھا سیٹوں میں سے اسے صرف 10 پر لڑنے کا موقع ملا اس کے باوجود اس نے آٹھ پر جیت درج کرالی۔ این سی پی (ایس پی) کا یہ بہترین اسٹرائیک ریٹ اس صورت میں ہے جبکہ بی جے پی نے اسے جعلی قرار دے کر پارٹی کے نشان سے بھی محروم کر دیا تھا۔ اسے اپنے نشان گھڑی کے بجائے پنگی پر انتخاب لڑنا پڑا تھا اور 5 مقامات پر اس کے سامنے گھڑی کا نشان لے کر اجیت پوار کے امیدوار کھڑے تھے۔ 2019 میں بی جے پی نے اسمبلی انتخابات کے موقع پر این سی پی کے کئی بڑے لیڈروں کو اپنے ساتھ شامل کر لیا تھا لیکن غیر منقسم این سی پی نے ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں 50 سے زیادہ نشستیں حاصل کیں اور بعد میں ادھو ٹھاکرے کی زیر قیادت ایم وی اے حکومت کا حصہ بن گئی جسے شیو سینا میں بغاوت کے بعد جون 2022 میں وزیر اعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا۔
گزشتہ سال جولائی میں شردپوار کو اس وقت جھٹکا لگا جب ان کے بھتیجے اجیت پوار نے بغاوت کرکے بی جے پی سے ہاتھ ملا لیا اور نائب وزیر اعلیٰ بن گئے۔ اجیت پوار کے ساتھ این سی پی کے آٹھ ارکان اسمبلی نے بھی ایکناتھ شندے حکومت میں وزیر کے طور پر حلف لے لیا۔ان باغیوں میں شرد پوار کے قریبی ساتھی اور سابق مرکزی وزیر پرفل پٹیل شامل تھے۔ 40 ارکان اسمبلی و کونسل کے نکل جانے پر بھی 83 سالہ شرد پوار کے عزم و حوصلہ پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ وزیر اعظم نے انہیں بھٹکتی آتما کہہ کر ان کا تمسخر اڑایا مگر انہوں نے اس کا پر وقار انداز میں جواب دے کر سیاسی فائدہ اٹھا لیا۔ اجیت پوار کا اپنے چچا کے خلاف مسلسل طنز و تشنیع کا بازار جاری رہا مگر شرد پوار اپنے کام میں لگے رہے۔ بی جے پی کی خوشنودی کے لیے اجیت پوار نے اپنی بیوی سنیترا کو کزن اور این سی پی (ایس پی) ایم پی سپریا سولے کے خلاف خاندانی گڑھ بارامتی میں کھڑا کر دیا۔ شرد پوار اپنی درازی عمر اورخرابی صحت کے باوجود نہ صرف بارامتی میں بلکہ ایم وی اے کے نامزد امیدواروں کے لیے بھی ریلیوں سے خطاب کرتے رہے یہاں تک کہ مہاراشٹر میں بی جے پی کو آئینہ دکھا کر انتقام لے لیا۔ اجیت پوار کو ملنے والی 5 نشستوں میں سے پربھنی کو راشٹریہ سماج پکش کے مہادیو جانکر کو دینی پڑی۔ اجیت پوار کی این سی پی اقتدار کے زور اور بی جے پی کی حمایت کے باوجود صرف رائے گڑھ کی ایک سیٹ پر کامیاب ہو سکی ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی حلف برداری کے بعد ناراضی کا پہلا سُر این سی پی کی جانب سے آچکا ہے کیونکہ 71 ارکان پر مشتمل مرکزی وزارتی کونسل میں ایک بھی وزیر اجیت دھڑے کا نہیں ہے۔ این سی پی کا لوک سبھا میں ایک رکن سنیل تٹکرے ہے جبکہ راجیہ سبھا میں پرفل پٹیل کو رکنیت ملی ہوئی ہے۔ وزارت کا معاملہ آیا تو پہلے تٹکرے اور پٹیل آپس میں بھڑ گئے۔ اس کے بعد جب پرفل پٹیل کو وزیر مملکت (آزادانہ چارج) کے عہدے کی پیشکش کی گئی تو انہوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ وہ پہلے حکومت ہند کے کابینی وزیر رہ چکے ہیں۔ ویسے اجیت پوار نے اس بابت اختلافات کی قیاس آرائیوں کی تردید کی مگر اس سے سچائی تو بدل نہیں سکتی۔ پرفل پٹیل نے بھی اختلافات کو مسترد کرنے کے بعد کہا کہ ’’مجھے آزادانہ چارج کے ساتھ وزیر مملکت کے عہدے کے لیے اطلاعات موصول ہوئی ہیں لیکن میں پہلے کابینہ میں وزیر تھا، اس لیے میں نے یہ عہدہ قبول کرنے سے انکار کر دیا۔‘‘
اس موقع پر اجیت پوار نے نہایت بے حیائی سے کہا کہ ’’آج ہمارے پاس ایک لوک سبھا اور ایک راجیہ سبھا ممبر ہے، لیکن اگلے 2-3 ماہ میں ہمارے ممبروں کی تعداد 4 ہو جائے گی‘‘ یعنی خرید و فروخت کے بعد کابینہ کی وزارت پانے کی کوشش کی جائے گی۔ دوسری طرف شرد پوار گروپ کے این سی پی لیڈر روہت پوار نے اجیت پوار پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ “اجیت دادا کی طاقت کم کر دی گئی ہے۔ بی جے پی یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ ہمیں آپ سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اجیت دادا کو آگے بڑھ کر بی جے پی کے نشان پر لڑنا پڑے گا۔ دادا سے سب سے زیادہ فائدہ پرفل پٹیل کو ہوا ہے۔ ای ڈی کی تحقیقات بھی بند ہو گئی اور راجیہ سبھا کی رکنیت بھی مل گئی۔‘‘
مہاراشٹر سیاست کی سچائی یہی ہے کہ فی الحال سب سے زیادہ فکر مندی اجیت پوار کو ہے۔ آئندہ اسمبلی انتخاب میں ان کی این سی پی کے وجود پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے اس لیے بہت سارے ارکان اسمبلی گھر واپسی کی تیاری کر رہے ہیں۔ ایسا ہونے پر مہایوتی کی حکومت پر تو کوئی اثر نہیں پڑے گا مگر عوام میں اس کے خلاف ایک پیغام ضرور جائے گا اور اب وہ جہاں کھڑی ہے اس سے بھی نیچے کھسک جائے گی۔ سنیل تٹکرے اگر مادرِ تنظیم میں لوٹ آئیں تو شیوسینا (ادھو) این سی پی اور بی جے پی کے برابری پر آجائیں گی نیز، اجیت پوار مرکزی وزارت کے بجائے اسمبلی الیکشن کا انتظارکرنے لگیں گے تاکہ پھر پلٹی مار سکیں۔
مہاراشٹر میں اگر شیوسینا کی مشترکہ نشستوں کا جائزہ لیا جائے تو دونوں دھڑوں کو ملا کر کل 16 مقامات پر کامیابی ملی یعنی صرف 3 کا نقصان ہوا۔ این سی پی کے دونوں فریقوں کو ملا لیا جائے تو 5 کا فائدہ ہوا ہے۔ کانگریس کے کھاتے میں پرکاش بابو پاٹل کی نشست بھی ڈال دی جائے کہ جنہوں نے ملک ارجن کھرگے سے دہلی میں ملاقات کرکے گھر واپسی کرلی ہے تو 13 کا فائدہ ہوا اور اتنا ہی بی جے پی کا نقصان بھی ہوا۔ اس طرح پہلے نمبر کی پارٹی تیسرے نمبر پر کھسک گئی۔ مرکز میں بی جے پی کی ناکامی کے لیے جس طرح نریندر مودی ذمہ دار ہیں اسی طرح صوبے میں شکست کی ذمہ داری نائب وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس پر ہے۔ انہوں نے اس کا اعتراف کرکے اپنے استعفیٰ کی پیشکش بھی کردی ہے جو اچھی بات ہے لیکن یہ بی جے پی کی روایت کے خلاف ہے۔ وہاں شکست کا ڈھٹائی سے انکار کرنے کے بعد اوٹ پٹانگ توضیحات کرنے کا رواج ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دیویندر فڈنویس کے استعفیٰ کی بات آئی گئی ہوگئی۔
پچھلے اسمبلی انتخاب سے قبل دیویندر فڈنویس بڑی رعونت سے کہا کرتے تھے کہ ’میں تو ضرور آوں گا‘ لیکن قدرت کا کرنا یہ ہوا کہ ڈھائی گھنٹے کے سیاسی بن باس کے بعد ریاست میں کنول کھلا تب بھی وہ وزیر اعلیٰ کے عہدے پر نہیں آ سکے۔ ان کے استعفیٰ کی سیاسی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ فی الحال ان کے پاس گنوانے کے لیے کوئی کارنامہ نہیں ہے۔ ویسے بھی تین ماہ کے اندر اسمبلی انتخابات کا اعلان ہوجائے گا اور اس کے بعد بی جے پی اقتدار سے محروم ہو جائے گی۔ اس لیے اب نکل لینے میں کوئی خاص نقصان نہیں ہے۔ دیویندر فڈنویس کو اس منافقانہ قربانی کے نتیجے میں پارٹی کے اندر احترام و طاقت مل سکتی ہے اور اس کے ذریعہ وہ اپنے حریفوں کو قابو میں رکھنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ امیت شاہ کے ساتھ فڈنویس کی قربت کے سبب استعفیٰ کو یوگی ادیتیہ ناتھ کے خلاف سازش بھی سمجھا جا رہا ہے کیونکہ یوپی میں بھی جہاں بی جے پی نے 29 نشستیں گنوائی ہیں وہیں سماج وادی پارٹی کو 32 نشستوں کا فائدہ ہوا ہے۔ اسی کے ساتھ کانگریس ایک سے 6 پر پہنچ گئی ہے۔ اس لیے مہاراشٹر کی طرح اتر پردیش میں بھی یوگی کے استعفیٰ کا مطالبہ زور پکڑ سکتا ہے اور اگر ایسا ہوا تو اس میں امیت شاہ کا بہت بڑا فائدہ ہے۔ کل یگ کے چانکیہ سے بعید نہیں کہ وہ فڈنویس کے کندھے پر بندوق رکھ کر یوگی کو نشانہ بنانے کی کوشش کریں۔ سیاست میں رائج منافقت کے پیش نظر وثوق کے ساتھ کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا، ہاں قیاس آرائی ہوسکتی ہے کیوں کہ کسی شاعر نے کہا ہے؎
ادھر ہم سے محفل میں نظریں لڑانا، ادھر غیر کو دیکھ کر مسکرانا
یہ بھینگی نظر کا نہ ہو شاخسانہ، ’کہیں پہ نگاہیں کہیں پہ نشانہ‘
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***

 

***

 مہاراشٹر سیاست کی سچائی یہی ہے کہ فی الحال سب سے زیادہ فکر مندی اجیت پوار کو ہے۔ آئندہ اسمبلی انتخاب میں ان کی این سی پی کے وجود پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے اس لیے بہت سارے ارکان اسمبلی گھر واپسی کی تیاری کر رہے ہیں۔ ایسا ہونے پر مہایوتی کی حکومت پر تو کوئی اثر نہیں پڑے گا مگر عوام میں اس کے خلاف ایک پیغام ضرور جائے گا اور اب وہ جہاں کھڑی ہے اس سے بھی نیچے کھسک جائے گی۔ سنیل تٹکرے اگر مادرِ تنظیم میں لوٹ آئیں تو شیوسینا (ادھو) این سی پی اور بی جے پی کے برابری پر آجائیں گی نیز، اجیت پوار مرکزی وزارت کے بجائے اسمبلی الیکشن کا انتظارکرنے لگیں گے تاکہ پھر پلٹی مار سکیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 جون تا 22 جون 2024