دماغی صحت وقت کی اہم ضرورت

کم عمر لوگوں میں ذہنی و نفسیاتی دباو کا گراف میں روز بروز اضافہ

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

ذہنی ونفسانی مریضوں کو غذائیت سے پراور متوازن غذا پر توجہ ضروری
دنیا بھر میں اداسی، مایوسی اور ذہنی تناو اور بے جا تفکر کو خودکشی اور خود سوزی کی خاص وجہ بتائی جاتی ہے جو 15 سے 29 سال کی عمر کے لوگوں میں زیادہ پائی جاتی ہے۔
دماغی صحت (Mental Health) زندگی کی بہتری اور خوشنمایوں کے پیمانہ کے ساتھ ساتھ سماجی استقلال کی بنیاد بھی ہے۔ جس سماج میں ذہنی مریضوں کی تعداد جتنی زیادہ ہوتی ہے وہاں کی ترقی اور شعبہ زندگی کے ہر نظام پر اتنے ہی منفی اثرات پڑتے ہیں۔ جسمانی صحت کے تئیں حکومت اور سماج بیدار ضرور ہے لیکن ذہنی صحت کے تعلق سے لوگوں میں بیداری کم ہی پائی جاتی ہے۔ آج ہم آزادی کا امرت مہوتسو منارہے ہیں مگر دماغی صحت کو اتنی اہمیت نہیں مل سکی ہے جتنی کی وہ حق رکھتی ہے جو قابل تشویش ہے۔ جبکہ یہ انسانوں کے احساس سمجھ بوجھ، فکر و عمل اور قوت عمل پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہے۔ آج کل مایوسی، اداسی اور نا امیدی سب سے زیادہ ذہنی مرض (Mental Disease) کے طور پر جڑ پکڑ رہی ہے۔ حالانکہ ذہنی بیماریوں کے دائرے میں کمزور یادداشت، نشے کی لت، او سی ڈی، تفکر، آئٹزم، ڈمنیشیا اور بے جاگمان وغیرہ بھی آتے ہیں۔ اس طرح کی علامت متاثرین کے احساس، تخیل اور قوت عمل کو بے حد اور خطرناک حد تک متاثر کرتے ہیں۔ اداسی کی حالت میں رہنا، مایوسی کے دلدل میں غوطہ زن ہونا۔ دوستوں اور رشتہ داروں سے کنارہ کش رہنا، بہت تھکان کا ہونا، نیند کی کمی اور یکسوئی کے فقدان کو نفسیاتی مرض کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ کسی شخص کے نفسیاتی طور سے بیمار ہونے کے پیچھے کئی طرح کے وجوہات اور حالات ہوتے ہیں جن میں خاندانی اور آپسی تعلقات، دماغ میں کیمیاوی تناسب کی کمی، رشتوں میں تلخی، عزت نفس کو ٹھیس لگنا۔ کسی قریبی رشتہ دار کی ناگہانی موت، کاروبار میں خسارہ، محبت میں ناکامی، زوجین میں طلاق وغیرہ۔ چند ادویات، کیمیاوی مادے، شراب نوشی و دیگر نشہ آور اشیا کا استعمال بھی فرد کو نفسیاتی مرض میں مبتلا کردیتا ہے۔ دنیا بھر میں اداسی، مایوسی، ذہنی تناو اور بے جا تفکر کو خود کشی اور خود سوزی کی خاص وجہ بتائی جاتی ہے جو 15 سے 29 سال کی عمر کے لوگوں میں پائی جاتی ہے۔
ہمارے ملک کی آبادی کے آٹھ فیصد لوگ کسی نہ کسی طرح کے نفسیاتی مرض میں مبتلا ہیں۔ عالمی پس منظر میں یہ اعداد و شمار بہت ہی زیادہ ڈراونے ہیں کیونکہ دنیا میں دماغی اور نیورو سے متعلق بیماری سے متاثر آبادی پندرہ فیصد ہے۔ ملک میں تقریباً پندرہ لاکھ لوگ فکری صلاحیت کے فقدان، ذہنی خلجان اور تقریباً ساڑھے سات فیصد لوگ سماجی تناقص کے شکار ہیں۔ ذہنی و نفسیاتی مرض جیسی پریشانیوں، تفکر، تناو، اداسی اور مایوسی کی طرف سے لوگ غیر متعلق رہتے ہیں۔ اس تعلق سے ان کے اندر حساسیت نہیں کے برابر ہوتی ہے، لوگ اسے کسی طرح کی بیماری سمجھتے بھی نہیں ہیں، حالانکہ یہ مرض عام بیماری مثلاً ذیابیطس اور کولیسٹرول کی زیادتی کی طرح ہے۔ بیداری کی کمی اور جہالت کی وجہ سے نفسیاتی مریض سے لوگ غیر انسانی سلوک بھی کرنے لگتے ہیں۔ بعض اوقات لوگ اسے جادو اور آسیب سمجھنے کی بھول بھی کر بیٹھتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے ملک میں نفسیاتی مریضوں کی دیکھ بھال کی ضروری سہولیات دستیاب نہیں ہیں اور تھوڑی بہت ہیں بھی تو وہ بہتر خصوصیات کی حامل نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ کی تنظیم ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کے مطابق وہ دن دور نہیں جب دنیا میں صحت کے مسائل کے لیے افسردگی، مایوسی اور نا امیدی دوسری سب سے بڑی وجہ ہوگی۔ اس لیے 10؍ اکتوبر کو دنیا بھر میں ’’ورلڈ مینٹل ہیلتھ ڈے‘‘ منایا جاتا ہے کہ تاکہ لوگوں کو اس مرض کے تعلق سے بیدار کیا جاسکے۔ ڈاکٹر اور ماہرین نفسیات کا دعویٰ ہے کہ مایوسی دل کی بیماری کی خاص وجہ ہے۔ نفسیاتی مرض، بے روزگاری، غربت اور نشہ خوری سے بھی جنم لیتے ہیں۔ ہمارے ملک میں مینٹل ہیلتھ پر بہت کم دھیان دیا گیا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ کے مطابق 2011 میں ذہنی خلل اور ذہنی تناو سے متاثر ہر ایک لاکھ مریضوں پر محض تین لوگ سائیکو ٹرسٹ اور سات افراد سائیکو لوجسٹ کے پاس گئے۔ جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں ایک لاکھ کی آبادی پر تقریباً سات سائیکوٹرسٹ ہیں۔ مینٹل ہاسپٹلس کی تعداد بھی ہمارے ملک میں بہت کم ہے۔ ذہنی و نفسیاتی مریضوں کی اتنی بڑی تعداد کے باوجود یہاں سرکاری سطح پر کیا جانے والا خرچ بہت ہی کم ہے۔ بہت وقت گزرنے کے بعد مینٹل ہیلتھ پر سرکاری طور پر دھیان دینے کی ضرورت کو سمجھایا گیا اور 1982 کے شروع میں ‘‘نیشنل مینٹل ہیلتھ پروگرام‘‘کی شروعات کی گئی ہے۔ تین دہائیوں بعد اکتوبر 2014 میں نیشنل منٹل ہیلتھ پالیسی کا اعلان کیا گیا اور 2019 میں منٹل ہیلتھ میں بہتری کے لیے ایک ایکٹ بھی لایا گیا جو اس سمت میں نقوش راہ کی حیثیت کا حامل ہے جس سے ذہنی و نفسیاتی مریضوں کو تحفظ فراہم کیا جاسکے گا اور ایسے مریضوں کو باعزت اور باوقار زندگی گزارنے کے حقوق کی ضمانت بھی فراہم کرے گا۔
آج کل کم عمر لوگوں میں ذہنی و نفسیاتی دباو کا گراف روز بروز بڑھتا جارہا ہے۔ اس سے متاثر ہونے کے بعد کم عمر بچے سب سے پہلے اپنے دوست و احباب اور قریبی رشتہ داروں سے کنارہ کش ہوجاتے ہیں۔ ایسے حالات میں بچے کو سماجی علیحدگی سے دور رکھنا ہوگا۔ ان کے لیے دوستوں کی محفل بہت ضروری ہو جاتی ہے۔ ریگولر جسمانی ورزش مینٹیل ہیلتھ کے لیے کارگر نسخہ ہے۔ ایسے نفسیاتی مریض کو کم از کم 9 تا 10 گھنٹے سونے کا موقع دینا ہوگا۔ ایسے بچوں کو سوشل میڈیا سے دور رکھنے کی ہرممکن کوشش کرنی ہوگی کیونکہ سوشل میڈیا سے یہ تخیل پیدا ہوتا ہے کہ دیگر لوگ ہم سے زیادہ خوش ہیں۔ کبھی کبھی سوشل میڈیا پر لوگ بڑے جارحانہ Comment کرتے ہیں جس سے ذہنی تناو بڑھتا ہے۔ ذہنی و نفسیاتی مریضوں کو غذائیت سے پر مقوی اور متوازن غذا فراہم کرنا بہتر ہوگا۔ انہیں Junk Food سے دور رکھنا ہوگا۔ اس کے باوجود ذہنی تناو برقرار رہے تو ڈاکٹر سے مشورہ لینا چاہیے۔ مریض کو باور کرانا چاہیے کہ یہ مرض ناقابل علاج نہیں ہے۔ اس کا علاج بہت ہی معمولی ہے۔ اینٹی ڈپریسنٹ دوا سے کبھی بہت جلد افاقہ بھی ہوجاتا ہے کبھی وقت بھی لگتا ہے۔ مگر مریض دوا کھانے سے اغماض برتتا ہے اور بعض اوقات کونسلنگ کے ذریعے سائیکوٹرسٹ ان کے وہم اور خوف کو دور کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ۔
***

 

***

 ذہنی و نفسیاتی مریضوں کو غذائیت سے پر مقوی اور متوازن غذا فراہم کرنا بہتر ہوگا۔ انہیں Junk Food سے دور رکھنا ہوگا۔ اس کے باوجود ذہنی تناو برقرار رہے تو ڈاکٹر سے مشورہ لینا چاہیے۔ مریض کو باور کرانا چاہیے کہ یہ مرض ناقابل علاج نہیں ہے۔ اس کا علاج بہت ہی معمولی ہے۔ اینٹی ڈپریسنٹ دوا سے کبھی بہت جلد افاقہ بھی ہوجاتا ہے کبھی وقت بھی لگتا ہے۔ مگر مریض دوا کھانے سے اغماض برتتا ہے اور بعض اوقات کونسلنگ کے ذریعے سائیکوٹرسٹ ان کے وہم اور خوف کو دور کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 22 اکتوبر تا 28 اکتوبر 2023