دل کی دھڑکن بند، سیاست شروع۔ ہاسن میں قلبی اموات پر الزامات کی جنگ

کووڈ ویکسین ذمہ دار یا نظامِ صحت کی ناکامی؟ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار

ہاسن (دعوت نیوز بیورو)

مفاد پرست الزامی لڑائی کے بجائے حقیقی مسئلے تک رسائی اور لوگوں کے تحفظ کی کوشش سرکار کی ذمہ داری
جنوبی ہندوستان کی سرسبز وادیوں اور پرامن بستیوں پر مشتمل ریاست کرناٹک کا ضلع ہاسن ان دنوں ایک انجانی بے چینی کی گرفت میں ہے۔ یہاں اچانک اور مسلسل دل کے دوروں سے ہونے والی اموات کی خبریں نہ صرف گھروں میں سوگ کی فضا پیدا کر رہی ہیں بلکہ عوامی اعتماد اور طبی نظام پر بھی سوالات کھڑے کر رہی ہیں۔ ایک ایسا خطہ جو کبھی اپنی خاموش فطرت اور زرعی زندگی کے لیے جانا جاتا تھا، آج صحت عامہ کے ایک سنگین بحران کا مرکز بن چکا ہے۔ جب سائنسی تحقیق ابھی ابتدائی مراحل میں ہے، سیاسی رہنما ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کر رہے ہیں اور اس بیچ عام انسان خوف، شک اور الجھن کے سائے میں زندگی گزار رہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق گزشتہ 20 دنوں کے دوران کم از کم 40 اموات دل کے دورے کی وجہ سے واقع ہوئی ہیں۔ یہ تعداد معمول سے کہیں زیادہ بتائی جا رہی ہے جس کے بعد ریاستی حکومت نے ایک اعلیٰ سطحی تحقیقاتی کمیٹی قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اسی دوران ریاست کے وزیر اعلیٰ سدا رامیا نے اس معاملے پر اپنی ابتدائی رائے دیتے ہوئے ایک نہایت حساس اور متنازع نکتہ اٹھایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ امکان رد نہیں کیا جا سکتا کہ کووڈ ویکسین کی جلد بازی میں منظوری اور اس کی عوام میں تقسیم بھی ان اموات کا ایک سبب ہو سکتی ہے۔ انہوں نے اس بات کا حوالہ دیا کہ دنیا بھر میں حالیہ بعض مطالعات نے اس پہلو پر روشنی ڈالی ہے کہ کووڈ ویکسین کے بعد دل کے دوروں کی شرح میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ سدا رامیا نے بی جے پی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انکار کرنے سے قبل انہیں اپنے ضمیر سے سوال کرنا چاہیے۔
ریاستی حکومت کی قائم کردہ کمیٹی اس وقت اموات کی وجوہات، شرحِ اموات کا دیگر اضلاع سے موازنہ اور جینیاتی عوامل جیسے پہلوؤں کا جائزہ لے رہی ہے۔ ہاسن میڈیکل انسٹیٹیوٹ نے ابتدائی اشارہ دیا ہے کہ علاقے میں کسی ممکنہ جینیاتی مسئلے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس جائزے کے لیے دس دن سے زائد کا وقت درکار ہوگا، تاہم ایک ابتدائی رپورٹ جلد پیش کی جا سکتی ہے۔
دوسری جانب بی جے پی رہنما اشوک گوڈا نے وزیر اعلیٰ سدا رامیا کے بیان کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سدا رامیا خود ڈاکٹر نہیں ہیں اور اگر وہ ویکسین پر سوال اٹھانا چاہتے تھے تو انہیں پہلے کسی ماہر سے رائے لینی چاہیے تھی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ضلع ہاسن میں سرخ گوشت کا استعمال زیادہ ہے، جو دل کے امراض میں اضافے کا ایک ممکنہ سبب ہو سکتا ہے۔
اشوک گوڈا نے مزید کہا کہ دل کے دوروں کی شکایات صرف ہاسن تک محدود نہیں ہے بلکہ ریاست بھر سے ایسی شکایات موصول ہو رہی ہیں۔ انہوں نے ریاستی حکومت پر صحت کے بنیادی ڈھانچے کو نظر انداز کرنے کا الزام لگایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب وہ خود ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی میں شامل تھے تو پتہ چلا کہ اضلاع اور تعلقہ کی سطح کے ہسپتالوں میں ضروری ادویہ کی شدید کمی ہے جو حکومت کی غفلت کو ظاہر کرتی ہے۔
یہ پورا معاملہ اب صرف طبی اور انتظامی تحقیق تک محدود نہیں رہا بلکہ سیاسی الزام تراشیوں کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ کانگریس حکومت جہاں مرکز اور بی جے پی پر ویکسین کی جلد بازی کا الزام لگا رہی ہے، وہیں بی جے پی ریاستی حکومت کی صحت خدمات کی ناکامی ثابت کرنے میں مصروف ہے۔ اشوک گوڈا نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر کانگریس حکومت ریاستی نظم و نسق سنبھالنے سے قاصر ہے تو وہ اقتدار چھوڑ دے۔
بلاشبہ ضلع ہاسن میں دل کے دوروں سے اچانک اموات ایک سنجیدہ عوامی صحت کا مسئلہ ہے، جس پر سیاست سے بالا تر ہو کر سائنسی اور تحقیقی بنیادوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ سدا رامیا ہوں یا اشوک گوڈا، دونوں کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ عوام کی صحت کے مسائل کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرنا عوامی اعتماد کو مجروح کرتا ہے۔
اگر واقعی کووڈ ویکسین سے متعلق کوئی طبی پہلو ہے تو اسے سائنسی تحقیق کے ذریعے سامنے لایا جانا چاہیے، نہ کہ سیاسی بیان بازی کے ذریعے؟ اسی طرح اگر ریاستی سطح پر صحت کے بنیادی ڈھانچے میں کوئی کمی ہے تو اس کی اصلاح کی جانی چاہیے۔
ہاسن کے واقعات نے یہ واضح کر دیا ہے کہ ریاست میں صحت عامہ کے نظام کو از سرنو ترتیب دینے اور تحقیقاتی نظام کو شفاف بنانے کی فوری ضرورت ہے تاکہ آئندہ کسی بھی علاقے میں اس قسم کی اموات سے بچاؤ ممکن ہو سکے۔
نوٹ: یہ رپورٹ جاری تحقیقات اور سیاسی بیانات پر مبنی ہے۔ حتمی نتائج کا انحصار تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ پر ہوگا۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 جولائی تا 27 جولائی 2025