ڈیجیٹل انڈیا کا دائرہ بڑھ رہا ہے

سنٹرل بورڈ ڈیجیٹل کرنسی کے ذریعے خوردہ معاملتوں کے پائیلٹ پراجکٹ کی شروعات خوش آئند

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

ڈیجٹلائزیشن کے تعلق سے عوامی آگہی کی ضرورت۔ آن لائن دھوکہ بازی کے بڑھتے ہوئے واقعات کا سدباب ضروری
یکم دسمبر 2022 سے آربی آئی نے سنٹرل بورڈ ڈیجیٹل کرنسی (سی بی ڈی سی) کے ذریعے خوردہ معاملتوں کا ایک پائیلٹ پراجکٹ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ گزشتہ یکم نومبر کو (سی بی ڈی سی) کا تھوک کاروبار میں علیحدہ سے پائلٹ پراجکٹ شروع کیا گیا ہے۔ اس پراجکٹ کے تحت منتخب لوگ، چنندہ کاروباری، بینکس، بینکنگ مالیاتی کمپنیوں نے سی بی ڈی سی سے لین دین شروع کردیا ہے۔ ایک اندازہ کے مطابق سی بی ڈی سی کے ذریعہ خوردہ اور تھوک معاملتیں رواں مالیاتی سال کے اختتام تک پوری طرح جاری ہوجائیں گی۔ فی الحال، دلی، بنگلورو، ممبئی، بھوبنیشور میں سی بی ڈی سی کے ذریعے خوردہ کاروبار اچھی طرح کیا جا رہا ہے جسے مزید بہتر بنانے کے لیے ایس بی آئی، آئی سی آئی سی آئی بینک، یس بینک اور آئی ڈی ایف سی فرسٹ بینک مدد کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ مزید چار بینکس، یونین بینک آف انڈیا، ایچ ڈی ایف سی بینک، کوٹک مہندرا اور بینک آف بڑودہ اس پراجیکٹ میں شامل کیے جائیں گے۔ تھوک کی بنیاد پر آر بی آئی نے مزید دس بینکوں کا انتخاب کیا ہے جنوری 2023 تک پٹنہ، لکھنو، گوہاٹی، حیدرآباد، اندور، کوچی، گینگٹوک اور احمدآباد جیسے شہروں میں بھی سی بی ڈی سی کا لین دین خوردہ میں کیا جانے لگے گا۔ واضح رہے کہ مالی خواندگی اب بھی ہمارے ملک میں تشفی بخش نہیں ہے۔ اس کے باوجود بھارت ڈیجٹلائزیشن اور ڈیجیٹل ٹرانزیکشن کے معاملے میں عالمی طور پر ایک اہم ملک بن کر ابھر رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہمارے ملک میں ڈیجیٹل اور آن لائن دھوکہ بازی اور دھوکہ دہی کے واقعات میں بڑی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ جو لوگ بھی ان دھوکہ بازوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں ان سے بہت کم لوگوں کو اپنی رقم واپس ملتی ہے، اس لیے اب ضروری ہے کہ سی بی ڈی سی یا دیگر ڈیجیٹل لین دین کو نافذ کرنے سے قبل ڈیجیٹل خواندگی کی مہم بھی چلائی جائے اور سخت قانون سازی کی جائے۔ اسی وجہ سے سی بی ڈی سی کے ساتھ ساتھ پیپر کرنسی کو بھی کاروبار کرنے میں شامل رکھا گیا ہے۔ یہ لین دین انٹرنیٹ کے بغیر بھی ممکن ہوگا تاکہ ملکی حالات میں ایسے لین دین میں کسی طرح کی دشواری نہ ہو۔ اس لیے اسے یونیفائیڈ پیمنٹس انٹرفیس (یو پی آئی) سے بھی منسلک کیا جائے گا چونکہ یہ ٹرانزیکشن الکٹرانکس ہے اس لیے اس سے جعلی کرنسی پر لگام لگایا جاسکے گا۔ حکومت کو کرنسی کی پرنٹنگ پر کسی طرح کا خرچ کرنا نہیں پڑے گا۔ غیرملکوں سے اس لین دین کرنے کی لاگت میں کمی آئے گی کیونکہ پرنٹنگ سے ٹرانزیکشن میں سات فیصد خرچ ہوتا ہے تو اس سے محض پانچ فیصد کی لاگت آئے گی جس سے اربوں ڈالر کی بچت ممکن ہے۔ آر بی آئی کی سخت نگرانی کی وجہ سے منی لانڈرنگ، دھوکہ دہی اور دہشت گردانہ کارروائیوں پر بھی روک لگے گی۔ اس میں پیپر کرنسی کے سارے فوائد ہوں گے اور ضرورت پڑنے پر اسے پیپر کرنسی میں بھی تبدیل کیا جا سکے گا۔ سی بی ڈی سی بلیک چین ٹکنالوجی پر کام کرے گا۔ اس لیے اس میں مڈل مین کے لیے کسی طرح کا کام نہیں رہے گا اس میں اصل حیثیت بینکوں کی ہوگی اس طرح بینکوں پر اضافی کام کا دباو بھی بڑھے گا۔ سی بی ڈی سی کے ساتھ بینکوں کو اچھی طرح چلانے کے لیے مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ لوگ اپنی رقم کو ڈیجیٹل ویلٹ یا موبائل ڈیوائس میں جمع رکھنے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ ڈیجیٹل روپیہ عام نوٹوں کی طرح ہی دکھائی دیتا ہے جسے خوردہ اور تھوک دونوں فارمس میں جاری کیا گیا ہے لیکن اس کی خصوصیت یہ ہے کہ نقد رکھنے کی پریشانی سے نجات مل جائے گی اور اس کا استعمال ہر طرح کی خریداری چھوٹے موٹے لین دین اور زرمبادلہ جیسے کاموں کے لیے کیا جا سکے گا لیکن اسے بینک میں جمع کرنے پر سود نہیں ملے گا۔ اگر کسی سرکاری ایجنسی یا کارپوریٹ کو کسی خاص آدمی کو سی بی ڈی سی دینا ہوگا تو اسے سرکاری یا پرائیویٹ بینک سے رابطہ کرنا ہوگا کیونکہ تقسیم کی ذمہ داری بینکوں کو دی گئی ہے۔ سی بی ڈی سی کو ایک یوزر موبائل، لیپ ٹاپ یا ٹیپ کے ذریعے دوسرے یوزر کو ٹرانزیکشن کرسکتا ہے یا بذریعہ بینک بھی یہ ممکن ہے ۔
آر بی آئی کے اس پائیلٹ پراجیکٹ کے بارے میں لوگوں میں زیادہ جوش نہیں دکھائی دے رہا ہے کیونکہ کسی بھی نئے آئیڈیا کو قبول کرنے میں تھوڑا وقت لگتا ہے، اس لیے اس تعلق سے زیادہ کچھ کہا نہیں جاسکتا وقت ہی اس کا فیصلہ کرے گا۔
اگر آپ نقدی کے استعمال کے طور طریق کو اچھی طرح سمجھ لیتے ہیں تو ہمیں ملک میں ڈیجیٹل کرنسی کا مستقبل بھی سمجھ میں آجائے گا۔ مثلاً ایسا ٹرانزیکشن جو چند ہزاروں کا ہو اس میں نقد کا استعمال تو بہت آسان ہوتا ہے۔ اس میں چیک بک یا اسمارٹ فون جیسے کسی بھی ذرائع کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ ہماری آبادی کے ایک مخصوص طبقہ کے لیے یہ بہت اہم ہے۔ دراصل کچھ لوگوں کی آمدنی ایسی ہوتی ہے جو کہیں درج نہیں ہوتی اور اسے اسی وقت دکھایا جاتا ہے جب کوئی قانونی مجبوری ہو۔ نقد رقم کے لین دین کے علاوہ رقم اپنے پاس جمع بھی کی جاتی ہے۔ مستقبل میں پیپر کیش کا استعمال ای۔روپے میں تبدیل ہوتا جائے گا۔ معمولی لین دین کے لیے جو لوگ اس ٹکنالوجی کو استعمال کرنے سے گریز کریں گے اس میں معمر لوگ یا جو اسمارٹ فون بھی نہیں رکھتے ہیں یا پھر ڈیجیٹل وائیلٹ اور یو پی آئی کو استعمال نہیں کر سکتے، وہ ای۔روپے کو بھی انہیں وجوہات کی بنا پر استعمال نہیں کریں گے۔ آر بی آئی نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ ای روپے میں شناخت پوشیدہ رہے گی۔ کئی مقامات پر ای۔روپے کو یو پی آئی سے بہتر سمجھا جا رہا ہے۔ خوشی کی بات ہے کہ ہمارا ملک ڈیجیٹل بن رہا ہے۔ خوردہ اور تھوک کاروبار کے لیے بھی یونیفائیڈ پے منٹ انٹرفیس (یو پی آئی) ادائیگی مقبول ہورہی ہے۔ اس سے اربوں روپے کے لین دین بھی ہو رہے ہیں۔ مگر آربی آئی نے اس بات کی بھی وضاحت کی کہ لوگ نقدی کا لین دین بھی خوب کررہے ہیں کیونکہ ملک میں عوام کے پاس موجود نقد رقم فی الحال 30.86 لاکھ کروڑ روپے ہے۔ 6 نومبر 2016 کے قبل یہ محض 7.7 لاکھ کروڑ روپے تھے۔ نوٹ بندی کا ایک مقصد کیش لیس یا لیس کیش والی معیشت بنانا تھا جو بن نہیں پائی کیونکہ اتنی بڑی مقدار میں نقد کا پایا جانا بتاتا ہے کہ ڈیجیٹل انڈیا کے چکاچوند کے بیچ لوگوں کی پسندیدہ کرنسی نقدی ہی ہے۔ ملک میں چھوٹے موٹے لین دین تو ڈیجیٹل سے ہو رہے ہیں مگر بڑا کاروباری ٹرانزیکشن نقد میں ہوتا ہے۔ ابھی تک حکومت بڑے لین دین کے لیے تاجر کو ڈیجیٹل ٹرانزیکشن کی طرف راغب کرنے میں پوری طرح ناکام رہی ہے۔
اب ڈیجیٹل ٹرانزیکشن کو تحریک دینے کے عام لوگوں کو انسنٹیو دینے کا لالچ دیا گیا ہے۔ گزشتہ بدھ کو ہوئی مرکزی کابینی میٹنگ میں ڈیجیٹل ٹرانزیکشن کو تحریک دینے کے لیے 2600 کروڑ روپے کی منظوری دی گئی ہے۔ مالی سال 2022-23 میں روپے ڈیبٹ کارڈ اور بھیم یو پی آئی استعمال کرنے والوں کو یہ انسنٹیو دیا جائے گا۔ یہ انسنٹیو 2 ایم (پرسن ٹو مرچنٹ) کی بنیاد پر دیا جائے گا۔ منصوبہ کے تحت بینکوں کو جاریہ مال سال میں روپے اور یو پی آئی کا استعمال کرکے پوائنٹ آف سیل (پی او ایس) یعنی دکانوں پر بھی ادائیگی مشین اور ای کامرس لین دین کی تحریک دینے کے لیے انسنٹیو دیا جائے گا۔ کابینہ کے فیصلہ سے واقف کرواتے ہوئے مرکزی وزیر ماحولیات بھوپیندر یادو نے کہا ہے کہ حکومت کے 2600 کروڑ روپے کے انسنٹیو کے اعلان سے ایم ایس ایم ای، کسانوں مزدوروں اور صنعتوں کو بھیم یو پی آئی کے ذریعہ کی جانے والی ادائیگی پر کچھ چھوٹ ملے گی۔ یہ قدم ڈیجیٹل لین دین کو آسان اور مفید بنانے کے لیے اٹھایا گیا ہے۔ وزیر نے کہا کہ یو پی آئی سے ہونے والے لین دین کی تعداد دسمبر میں 12 لاکھ کروڑ روپے تھی جو ملک کی جی ڈی پی کا تقریباً 54 فیصد تھا۔ مرکزی وزیر نے مزید کہا کہ روپے کارڈ کے ذریعہ ڈیجیٹل ٹرانزیکشن پر 0.4 فیصد اور بھیم یو پی آئی کے ذریعہ دو ہزار سے کم لین دین پر 0.25 فیصد کا انسنٹیو ملے گا۔ بھیم یو پی آئی کے ذریعے میوچول فنڈ، بیمہ، جیولیری، پٹرولیم پیداوار اور دیگر اشیا کے لیے 0.15 فیصد انسنٹیو ملے گا۔
***

 

***

 ہمارا ملک ڈیجیٹل بن رہا ہے۔ خوردہ اور تھوک کاروبار کے لیے بھی یونیفائیڈ پے منٹ انٹرفیس (یو پی آئی) ادائیگی مقبول ہورہی ہے۔ اس سے اربوں روپے کے لین دین بھی ہو رہے ہیں۔ مگر آربی آئی نے اس بات کی بھی وضاحت کی کہ لوگ نقدی کا لین دین بھی خوب کررہے ہیں کیونکہ ملک میں عوام کے پاس موجود نقد رقم فی الحال 30.86 لاکھ کروڑ روپے ہے۔ 6 نومبر 2016 کے قبل یہ محض 7.7 لاکھ کروڑ روپے تھے۔ نوٹ بندی کا ایک مقصد کیش لیس یا لیس کیش والی معیشت بنانا تھا جو بن نہیں پائی کیونکہ اتنی بڑی مقدار میں نقد کا پایا جانا بتاتا ہے کہ ڈیجیٹل انڈیا کے چکاچوند کے بیچ لوگوں کی پسندیدہ کرنسی نقدی ہی ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 جنوری تا 04 فروری 2023