
ڈیفرینشیل پرائزنگ۔آن لائن خریداری میں قیمتوں کی تفریق
قیمتوں کی تعین کے عوامل؛ لاگت، مانگ، مسابقت، نفسیات اور دیگر عوامل کارفرما
زعیم الدین احمد ،حیدرآباد
کسی ایک ایپ سے وفاداری فائدے کے بجائے مزید نقصان کا باعث بن سکتی ہے :ایک تجرباتی تجزیہ
ایپس سے آن لائن خریداری ہماری زندگی کا ایک اہم جزو بن گئی ہے۔ گھر بیٹھے اشیاء کی خریداری آج تقریباً ہر گھر کی ضرورت بن چکی ہے۔ بلنک ایٹ، زیپٹو، زوماٹو، سویگی، اولا، اوبر، ریپیڈو جیسے نہ جانے کتنے ہی ایپ ہیں جو آن لائن سامان پہنچاتی ہیں اور آمد و رفت کی سہولت بھی فراہم کرتی ہیں۔ آج اس طرح کے ایپس مشروموں کی طور اُگ آئے ہیں، یہ سارے ایپس صارفین کو سہولتیں فراہم تو کرتے ہیں لیکن اپنے تمام صارفین کو ایک نظر سے نہیں دیکھتے اور موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان سے علیحدہ چارجیس لیتے ہیں، جسے ڈیفرینشیل پرائزنگ کہا جاتا ہے۔ آئیے جانتے ہیں کہ یہ ڈیفرینشیل پرائزنگ کیا ہے۔
ڈیفرینشیئل پرائسنگ(Differential Pricing)
یہ ایک ایسی چھپی ہوئی اور استحصالی حکمتِ عملی ہے جس میں مختلف صارفین سے ایک ہی پروڈکٹ یا ایک ہی سروس کے لیے مختلف قیمتیں اور مختلف سروس چارجس وصول کیے جاتے ہیں۔ آن لائن ایپس اور ویب سائٹس میں یہ عام طور پر چھ طریقوں سے لاگو کیا جاتا ہے:
1۔لوکیشن بیسڈ پرائسنگ
اگر کوئی شخص کسی ایک شہر سے، ایپ یا ویب سائٹ سے کوئی چیز خریدتا ہے تو اس کو ایک قیمت بتائی جاتی ہے اور اگر وہی شخص اسی چیز کو کسی دوسرے مقام سے منگواتا ہے تو اس کی قیمت مختلف ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ہوٹل اور فلائٹ بکنگ ایپس کو لیجیے، جو مختلف ممالک کے صارفین کو مختلف قیمتیں دکھاتی ہیں۔ اس کو آسان طریقے سے اس طرح سمجھا جا سکتا ہے:
دو دوست ہیں، ایک دوست ممبئی میں رہتا ہے اور دوسرا بنگلور میں، ان دونوں نے ایک ہی ایپ سے ممبئی سے دلی کی فلائٹ بک کی، تو وہ ایپ ان دونوں کی ٹکٹوں کو مختلف قیمتوں پر بتائے گا اور جو جس جگہ پر ہوتا ہے اس کے حساب سے قیمتیں طے ہوتی ہیں۔ فرض کریں کہ آپ کسی مہنگے علاقے میں رہتے ہیں تو آپ کی قیمتیں الگ ہوں گی اور کوئی مڈل کلاس علاقے میں رہتا ہے تو اس کی قیمتیں الگ ہوں گی۔
2. یوزر ہسٹری پر مبنی پرائسنگ
یہ آن لائن ایپ اور ویب سائٹس، براؤزنگ اور خریداری کی ہسٹری کے مطابق قیمتوں کو ایڈجسٹ کرتے ہیں۔ اگر آپ نے کسی پروڈکٹ کو بار بار سرچ کیا ہو تو بعض اوقات اس کی قیمت بڑھ جاتی ہے، تاکہ آپ جلد فیصلہ کریں اور اسے فوری خرید لیں۔
3 ڈیوائس بیسڈ پرائسنگ
آئی فون اور اینڈرائیڈ یوزرز کے لیے مختلف قیمتیں ہوتی ہیں۔ چونکہ آئی فون یوزرز کو زیادہ امیر تصور کیا جاتا ہے، اس لیے کچھ ایپس ان سے زیادہ چارجس لیتے ہیں۔
4. ممبرشپ یا سبسکرپشن بیسڈ پرائسنگ
کچھ پلیٹ فارمس جیسے ایمیزون، نیٹ فلیکس اور دیگر سروسز سبسکرائبرز کو کم قیمت پر یا اضافی فوائد کے ساتھ سروس فراہم کرتی ہیں۔
5 ڈیمانڈ بیسڈ پرائسنگ
یہ طریقے کار سب سے خطرناک ہے، ڈیمانڈ بیسڈ پرائسنگ کا طریقہ کار رائیڈ شیئرنگ ایپس جیسے اولا، اوبر، ریپیڈو میں عام ہے، اس میں زیادہ رش کے وقت، جیسے بارش ہو رہی ہو یا مصروف ترین اوقات (پیک اوورز) ہوں تو اس میں ڈیمانڈ زیادہ ہو جاتی ہے، ایسے وقت میں کرایہ بہت زیادہ بڑھا دیا جاتا ہے۔
6. پرسنلائزڈ ڈسکاؤنٹس
کچھ ایپس اور اسٹورز یوزر کی خریداری کی عادات کو دیکھتے ہوئے خصوصی ڈسکاؤنٹس یا کوپن فراہم کرتے ہیں جو ہر یوزر کے لیے مختلف ہو سکتے ہیں۔ جو کبھی کبھار ہی کام آتے ہیں لیکن لوگ اس کی لالچ میں آکر مزید خریدنے لگتے ہیں۔
یہ حکمتِ عملی کمپنیاں اپنی فروخت بڑھانے اور زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنے کے لیے اختیار کرتی ہیں۔ اگر آپ اس سے بچنا چاہتے ہیں تو "پرائیویٹ براؤزنگ” یعنی ’ان کاگنیٹیو موڈ‘ استعمال کریں اور قیمتوں کا موازنہ مختلف ڈیوائسز اور لوکیشنز سے کر کے دیکھ لیں۔
اب جانتے ہیں کہ قیمتیں کیسے طے ہوتی ہیں:
کسی بھی شئے کی قیمت طے کرنے کا عمل کئی عوامل پر منحصر ہوتا ہے، جنہیں مجموعی طور پر پرائسنگ اسٹریٹجی کہا جاتا ہے۔ عام طور پر قیمتیں سات عوامل پر طے کی جاتی ہیں:
1. لاگت کاسٹ بیسڈ پرائسنگ
یہ سب سے بنیادی طریقہ ہے، جس میں قیمت کا تعین پروڈکٹ بنانے یا سروس فراہم کرنے کی جو لاگت آتی ہے، اس کی بنیاد پر طے کیا جاتا ہے۔ جس میں مینوفیکچرنگ لاگت (خام مال، مزدوری، مشینری) کے اخراجات شامل ہوتے ہیں۔ پھر ڈسٹری بیوشن اور شپنگ کی لاگت کو اس میں شامل کیا جاتا ہے۔ پھر اس میں مارکیٹنگ اور اشتہارات پر جو خرچ آتا ہے اس کو بھی شامل کیا جاتا ہے۔ منافع کا مارجن اس میں شامل کیا جاتا ہے۔ (مثلاً 20 یا 30 فیصد اضافہ کے ساتھ) مثال کے طور پر اگر کسی شئے کو بنانے پر 200 روپے لاگت آتی ہے اور کمپنی 30 فیصد منافع پر اسے بیچنا چاہتی ہے تو اس کی قیمت 260 روپے رکھی جائے گی۔
2. مانگ اور رسد یعنی ڈیمانڈ اینڈ سپلائی
کسی بھی چیز کی قیمت کا دار و مدار اس کی مانگ یعنی ڈیمانڈ اور اس کی دستیابی یعنی سپلائی پر ہوتا ہے۔ یہ بھی حالیہ دنوں میں شروع ہوا ہے، یہ کارپوریٹ کی دین ہے۔
اس کا فارمولا یہ ہے کہ زیادہ مانگ، کم سپلائی قیمت کو بڑھا دیتا ہے۔
پھر اس کے برعکس کم مانگ، زیادہ سپلائی قیمت کو کم کر دیتا ہے۔
اس کی مثال یہ ہے کہ اگر بازار میں شکر کی کمی ہو جاتی ہے تو قیمت خود بخود بڑھ جائے گی۔ اسی طرح اگر کوئی نئی گاڑی بہت زیادہ مقبول ہو جائے لیکن محدود تعداد میں دستیاب ہو تو اس کی قیمت بھی زیادہ ہو جائے گی۔
3. مسابقت یعنی کامپیٹیشن بیسڈ پرائسنگ
مارکیٹ میں موجود دوسری کمپنیوں کی قیمتیں دیکھ کر اپنی قیمت کا تعین کیا جاتا ہے۔ اگر مارکیٹ میں سخت مقابلہ ہو، تو قیمت کم رکھی جاتی ہے۔ اور اگر کوئی منفرد پروڈیکٹ ہو، تو قیمت زیادہ رکھی جاتی ہے۔ اس کی مثال اسمارٹ فون انڈسٹری ہے، اس میں ایپل، سیمسنگ اور ایم آئی کمپنیاں ایک دوسرے کے مقابلے میں قیمتیں مقرر کرتی ہیں۔ اگر ایک کمپنی زیادہ مہنگا فون لانچ کرتی ہے تو دوسری کمپنیاں سستی قیمت میں بہتر فیچرز کے ساتھ دوسرا فون مارکیٹ میں لاتی ہیں۔
4. نفسیاتی قیمتیں یعنی سائیکالوجیکل پرائسنگ
یہ حکمتِ عملی صارفین کی نفسیات کو مدنظر رکھتے ہوئے اختیار کی جاتی ہے اور صارفین کی نفسیات کو دیکھ کر قیمتیں طے کی جاتی ہیں۔ جیسے کسی شے کی قیمت 99 روپے رکھی جاتی ہے، اگر کوئی پروڈکٹ ہزار روپے کا ہے تو اسے ہزار روپے میں فروخت کرنے کے بجائے 999 روپے میں فروخت کیا جاتا ہے تو صارف کو اس کی قیمت کم لگتی ہے۔
ایک اور طریقہ پریمئیم پرائسنگ کا ہے، مہنگی قیمت رکھ کر ایسا تاثر پیدا کیا جاتا ہے کہ یہ پروڈکٹ بہت اعلیٰ معیار کا ہے، بہت اعلیٰ درجے کا ہے۔ اس کی مثال ایپل فون ہے، ایپل، آئی فونز کو مہنگی قیمت پر بیچتا ہے، تاکہ وہ ایک "پریمیم برانڈ” کا تاثر دے سکے۔
5. سیزنل اینڈ جوگرافیکل یعنی موسمی اور جغرافیائی عوامل کے مطابق پرائسنگ
کسی بھی شے کی قیمت موسم، علاقے اور حالات کے مطابق تبدیل ہو سکتی ہے۔ موسمی اعتبار سے قیمتیں ہوتی ہیں، سردیوں میں ہیٹر مہنگے ہو جاتے ہیں اور گرمیوں میں سستے۔ عید پر گوشت اور کپڑوں کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔
اسی طریقے سے مخصوص علاقوں کے اعتبار سے قیمتیں طے ہوتی ہیں، شہروں میں قیمتیں زیادہ ہوتی ہیں، جبکہ دیہات میں وہی چیز سستی ہوتی ہے۔ مختلف ممالک میں ایک ہی چیز کی قیمت مختلف ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر دبئی میں ایپل کا آئی فون سستا ہوتا ہے، جبکہ ہمارے ملک میں اس پر زیادہ ٹیکس ہونے کی وجہ سے مہنگا ملتا ہے۔
6. حکومتی پالیسی اور ٹیکس
حکومتی پالیسی اور ٹیکس بھی قیمتوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ حکومت بعض اوقات قیمتوں پر کنٹرول رکھتی ہے یا ان پر ٹیکس عائد کرتی ہے، جس سے چیزوں کی قیمت بڑھ جاتی ہے جیسا کے گاڑیاں۔ اسی طرح سے اگر حکومت کسی چیز پر سبسڈی دیتی ہے تو وہ سستی ہو جائے گی (جیسا کے پٹرول و ڈیزل وغیرہ)۔
7. برانڈ ویلیو پرائسنگ
اگر کوئی برانڈ مشہور ہے اور معیاری اشیا بناتا ہو تو وہ اپنے پروڈکٹس کو مہنگا بیچتا ہے۔ مثال کے طور پر نائیکی کے جوتے، یہ عام جوتوں سے مہنگے ہوتے ہیں کیونکہ لوگ برانڈ پر اعتماد کرتے ہیں۔ ایک عام ایل ای ڈی ٹی وی سستا ہوتا ہے، لیکن اگر وہی سونی ٹی وی یا سیمسنگ کا ہو تو مہنگا ہوگا۔
ایک صارف کاتجربہ
لِنکڈ اِن پر ایک صارف نے اپنا ذاتی تجربہ بیان کیا ہے اور شواہد پیش کیے ہیں، اس نے زیپٹو پر پانچ مختلف موبائل فون سے پیاز خریدی۔ دو موبائل فون میں اس کی قیمت پینتیس روپے تھی جبکہ باقی تین میں پیاز کی قیمت چوسٹھ روپے تھی۔ دیکھیے کتنا فرق ہے۔ اس میں آئی فون بھی نہیں تھا، لیکن قیمت زیادہ تھی، اس میں ایک بات یہ تھی کہ جو تین فون تھے وہ زپٹو کے لائل یعنی وفادار کسٹمر تھے، یعنی وہ اس ایپ سے وقفے وقفے سے سامان خریدتے تھے، اس سے معلوم ہوا کہ جو لائل کسٹمر ہوگا اس کو زیادہ قیمت پر فروخت کیا جاتا ہے۔
یہ سارے معاملات ان ایپس میں چلتے رہتے ہیں، اسی لیے مشورہ یہ ہے کہ اپنی ضرورت کے وقت ہی اشیاء کو خریدیں اور کچھ محنت لگے گی لیکن مقام پر جا کر ہی خریدیں، تاکہ سامان کو صحیح قیمتوں پر خریدا جا سکے۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 09 مارچ تا 15 مارچ 2025