سپریم کورٹ کے آئینی بنچ کے سامنے سماعت کے لیے درج 25 مقدمات میں نکاحِ حلالہ، تعدد ازدواج اور نوٹ بندی سے متعلق مقدمے بھی شامل

نئی دہلی، اگست 25: سپریم کورٹ نے بدھ کے روز ان 25 مقدمات کی فہرست جاری کی جن کی سماعت 29 اگست سے پانچ ججوں کی آئینی بنچ کرے گی۔

دی انڈین ایکسپریس کے مطابق فہرست میں شامل کچھ معاملات میں، حکومت کی جانب سے 2016 میں نوٹ بندی کے عمل سے متعلق درخواستیں، اقتصادی طور پر کمزور طبقات کو تحفظات اور واٹس ایپ کی پرائیویسی پالیسی کو چیلنج کرنا شامل ہے۔

ان مقدمات کو اس دن درج کیا جائے گا جس دن چیف جسٹس آف انڈیا کے لیے نامزد جسٹس یو یو للت کا پہلا کام کا دن ہوگا۔ موجودہ چیف جسٹس این وی رمنا 26 اگست کو ریٹائر ہو رہے ہیں۔

14 اگست کو جسٹس للت نے انڈین ایکسپریس کے ساتھ ایک انٹرویو میں اہم مقدمات کو عدالتوں میں ترجیحی بنیادوں پر درج کرنے کو یقینی بنانے کی ضرورت کے بارے میں بات کی تھی۔

جسٹس للت نے کہا تھا ’’یہ [مقدمات کی فہرست] ایک ایسی چیز ہے جس کا ادارہ جاتی سطح پر ہمیں حل تلاش کرنا ہوگا۔ پچھلے چند مہینوں یا سالوں میں جو کچھ ہوا ہے وہ یہ ہے کہ معاملات کو نہیں اٹھایا جا رہا تھا، شاید مختلف وجوہات کی وجہ سے، شاید وبائی صورت حال کی وجہ سے، شاید اس لیے کہ جج اصل میں ایک ساتھ نہیں بیٹھ سکتے تھے…‘‘

دی انڈین ایکسپریس کے مطابق سپریم کورٹ کے ریکارڈ کے مطابق یکم اگست تک 342 پانچ ججوں کی بنچ کے مقدمات، 15 سات ججوں کی بنچ کے مقدمات اور 135 نو ججوں کی بنچ کے مقدمات زیر التوا ہیں۔

پانچ ججوں کی بنچ کے جو اہم معاملات سامنے آرہے ہیں ان میں وہ عرضیاں ہیں جو وزیر اعظم نریندر مودی کے 2016 میں اعلیٰ قیمت کے کرنسی نوٹوں پر پابندی لگانے کے اعلان کو چیلنج کرتی ہیں۔ راتوں رات، ہندوستان کی 86 فیصد کرنسی بے کار ہو گئی تھی، جس سے زندگی اور روزی روٹی تباہ ہو گئی تھی۔

وزیر اعظم کے اعلان کے فوراً بعد اس اقدام کے آئینی جواز کو چیلنج کرنے والی متعدد درخواستیں دائر کی گئیں۔ یہ درخواستیں دسمبر 2016 میں سپریم کورٹ کی آئینی بنچ کو بھیجی گئی تھیں اور تب سے ہی زیر التوا ہیں۔

سپریم کورٹ کی طرف سے آئینی بنچ کے سامنے درج دیگر مقدمات میں سے کچھ یہ ہیں:

  • ایوان میں تقریر کرنے یا ووٹ دینے کے لیے رشوت لینے پر فوجداری استغاثہ سے استثنیٰ کا دعوی کرنے والے رکن پارلیمنٹ یا قانون ساز کا مسئلہ۔
  • سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن کے قیام کو چیلنج۔
  • سپریم کورٹ کا، دفعہ 142 کے تحت رضامندی سے فریقین کے درمیان شادی کو ختم کرنے کا اختیار۔
  • پنجاب میں سکھوں کو اقلیت کا درجہ دینا۔
  • نکاح، حلالہ اور تعدد ازدواج کے مذہبی طریقوں کا آئینی جواز۔
  • آندھرا پردیش میں مسلم کمیونٹی کے تمام ارکان کو پسماندہ طبقات کا حصہ قرار دینے والے ریاستی قانون کا جواز