دہلی فسادات: پولیس کے ذریعے قومی ترانہ گانے پر مجبور کیے جانے والے مسلمان شخص کی موت کے معاملے میں ہائی کورٹ نے پولیس کی تحقیقات پر تنقید کی
نئی دہلی، فروری 23: دہلی ہائی کورٹ نے مشاہدہ کیا کہ شہر کی پولیس کی اسٹیٹس رپورٹ جس میں 2020 کے فرقہ وارانہ تشدد کے دوران ایک 23 سالہ مسلمان شخص کی موت کی تحقیقات کی تفصیل دی گئی تھی، اس میں کچھ بھی ٹھوس نہیں ہے۔
شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہروں کے بعد 23 فروری سے 26 فروری 2020 کے درمیان شمال مشرقی دہلی میں پھوٹ پڑنے والے فسادات میں 53 افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں کم از کم 38 مسلمان تھے۔
24 فروری 2020 کو بنائی گئی ایک ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ پولیس اہلکار فیضان نامی شخص اور چار دیگر افراد کو مارتے ہوئے قومی ترانہ گانے اور ’’وندے ماترم‘‘ کہنے کا حکم دے رہے ہیں۔ فیضان کو مبینہ طور پر جیوتی نگر پولس اسٹیشن میں حراست میں لیا گیا تھا۔ رہا ہونے کے فوراً بعد اس کی موت ہو گئی۔
پولیس نے اس کیس کی تحقیقات پر ایک سیل بند لفافے میں اسٹیٹس رپورٹ پیش کی۔
فیضان کی والدہ قسمتن نے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس میں خصوصی تحقیقاتی ٹیم سے انکوائری کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ قسمتن نے دعویٰ کیا کہ پولیس نے اس کے بیٹے کو غیر قانونی طور پر حراست میں لیا تھا اور اسے طبی سہولیات فراہم کرنے سے انکار کیا تھا جس کی وجہ سے وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔
آج ہائی کورٹ کے جسٹس مکتا گپتا نے کہا کہ پولیس کی طرف سے پیش کردہ اسٹیٹس رپورٹ ’’نہ ادھر کی ہے نہ اُدھر کی ہے۔‘‘
عدالت نے پولیس سے کہا کہ وہ اسٹیٹس رپورٹ کو درخواست گزار کے وکیل ورندا گروور کے ساتھ شیئر کرے، جب انھوں نے جج کو بتایا کہ اسے سیل بند لفافے میں داخل کیا گیا تھا، حالاں کہ ایسا کوئی حکم نہیں تھا۔
پولیس نے دعویٰ کیا کہ اس نے رپورٹ سیل بند لفافے میں جمع کرائی ہے کیوں کہ اس میں تفتیش اور کیس کے ملزمین کی تفصیلات موجود تھیں۔
جسٹس گپتا نے پولیس سے کہا کہ وہ بتائے کہ فیضان کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں 20 زخم کیوں درج ہیں، جب کہ پولیس کی حراست سے پہلے کی میڈیکل رپورٹ میں صرف تین زخم درج تھے۔
عدالت نے یہ بھی سوال کیا کہ پولیس نے مارے جانے والے چار دیگر افراد کے بیانات کیوں ریکارڈ نہیں کیے جب کہ وہ گواہ تھے۔ جج نے کہا ’’اس معاملے میں، آپ [پولیس] نے عینی شاہدین کی مدد نہیں لی بلکہ پوری دنیا گھوم لی۔‘‘
گزشتہ سال ایک سماعت میں پولیس نے عدالت کو بتایا تھا کہ وہ اس واقعے کی ویڈیو فوٹیج میں موجود اہلکاروں کی شناخت نہیں کر پا رہی ہے، کیوں کہ وہ ہیلمٹ پہنے ہوئے تھے اور نام کی پٹیاں نہیں پہنی ہوئی تھیں۔ پولیس نے یہ بھی کہا تھا کہ اس نے اس معاملے میں ایک ہیڈ کانسٹیبل سے پوچھ گچھ کی ہے۔
گروور نے عدالت کو بتایا کہ فیضان کو مار پیٹ کے بعد رات بھر ’’غیر قانونی حراست‘‘ میں رکھا گیا۔ انھوں نے الزام لگایا کہ پولیس نے جیوتی نگر پولس اسٹیشن کے ڈیوٹی روسٹر جیسے دستاویزات کو سیل نہیں کیا اور اس رات کون ڈیوٹی پر تھا اس پر کوئی پوچھ گچھ نہیں کی۔
گروور نے یہ بھی کہا کہ پولیس نے فیضان کو کوئی طبی علاج فراہم نہیں کیا اور رہا ہونے کے بعد اس کی موت ہوگئی۔
ہائی کورٹ نے 12 جنوری کو بھی اس کیس سے نمٹنے کے لیے پولیس کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ جسٹس گپتا نے سوال کیا کہ پولیس دو سالوں میں صرف ایک شخص کی شناخت کیوں کر پائی؟
جج نے یہ بھی پوچھا کہ پولیس نے ویڈیو کی اصلیت کا پتہ کیوں نہیں لگایا۔ کیس کے تفتیشی افسر پنکج اروڑہ نے جواب دیا کہ انھیں پتہ چلا ہے کہ ویڈیو ہیڈ کانسٹیبل کے فون پر فلمائی گئی تھی، لیکن پوچھ گچھ کے دوران انھوں نے اسے شوٹ کرنے سے انکار کیا۔
کیس کی مزید سماعت 15 مارچ کو ہوگی۔