دہلی پولیس کی انسانی حقوق کے جہد کار ندیم خان کو ہراساں کرنے کی کوشش

پی یو سی ایل کا ایف آئی آر منسوخ کرنے کا مطالبہ۔ اے پی سی آر کی نمائش کارروائی کا بہانہ!

نئی دلی: (دعوت نیوز نیٹ ورک)

دہلی پولیس کی جانب سے ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سِول رائٹس (APCR) کے قومی جنرل سکریٹری اور انسانی حقوق کے معروف جہد کار ندیم خان کو ہراساں کرنے اور ان کے خلاف منصوبہ بند کارروائی کے الزامات نے شہری حقوق کی تنظیموں میں تشویش کی لہر دوڑادی ہے جس پر مختلف گوشوں سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔
دہلی پولیس نے بنگلورو میں 30 نومبر کو ندیم خان کو بغیر کسی وارنٹ یا نوٹس کے حراست میں لینے کی کوشش کی، جس پر سِول رائٹس گروپوں نے سخت تنقید کی ہے۔ پولیس کا یہ رویہ سوشل میڈیا پر چند صارفین کی شکایات کے بعد سامنے آیا جنہوں نے APCR کی جانب سے جماعت اسلامی ہند کے حالیہ کل ہند اجتماع ارکان میں ’ادراک‘ ایکسپو میں پیش کردہ ’حقائق‘ کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
30 نومبر کی شام پانچ بجے دہلی کے شاہین باغ پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او سمیت چار پولیس اہلکار بنگلورو کے ایک نجی رہائش گاہ پر پہنچے، جہاں ندیم خان مقیم تھے اور انہیں زبردستی دہلی لے جانے کی کوشش کی۔ اس سے قبل 29 نومبر کو دہلی پولیس نے APCR کے دفتر پر بھی چھاپہ مارا۔ یہ سب ایک سوشل میڈیا پوسٹ کے بعد ہوا جس میں نمائش پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ یہ فرقہ وارانہ منافرت کو ہوا دے رہی ہے۔
یہ نمائش اقلیتی کمیونٹیز کے خلاف ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اجاگر کرتی تھی اور حالیہ نفرت انگیز تقاریر اور جرائم کے واقعات کی نشان دہی کرتی تھی۔ اس میں سپریم کورٹ کے اہم فیصلے بھی شامل تھے، جیسے کہ تحسین پونا والا بنام یونین آف انڈیا، جس میں ہجوم کے تشدد سے نمٹنے کے لیے اہم رہنما اصول دیے گئے تھے۔
دہلی پولیس نے دارلحکومت میں 12:48 بجے دن ایک ایف آئی آر درج کی اور اسی شام بنگلورو پہنچ گئی، جبکہ قانونی طور پر نوٹس جاری کرنا یا وارنٹ حاصل کرنا ضروری تھا۔ پانچ گھنٹے تک پولیس نے ندیم خان اور ان کے اہلِ خانہ کو ہراساں کیا اور رات 10:45 بجے ایک نوٹس چسپاں کی، جس میں ندیم خان کو شاہین باغ پولیس اسٹیشن میں پیش ہونے کی ہدایت دی گئی۔
ندیم خان نے پولیس کو ایک خط لکھ کر واضح کیا کہ وہ بنگلورو میں کام کے سلسلے میں موجود ہیں اور انہیں ایف آئی آر کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔ انہوں نے اس بات پر بھی حیرانی کا اظہار کیا کہ سات سال سے کم سزا کی دفعات کے تحت لگائے گئے الزامات کے باوجود پولیس انہیں فوری دہلی لے جانے پر کیوں بضد ہے۔
شہری آزادیوں کے لیے کام کرنے والی معروف تنظیم پیپلز یونین فار سِول لبرٹیز (PUCL) نے پولیس کے اس رویے کو آزادی اظہارِ رائے اور شہری حقوق کے تحفظ کی کوششوں کو مجرمانہ قرار دینے کی کوشش قرار دیا۔ تنظیم کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ دہلی پولیس کے اہلکار بغیر کسی قانونی جواز کے ندیم خان کو دہلی لے جانے پر بضد رہے اور اُنہیں ہراساں کرتے رہے۔
پی یو سی ایل نے اپنے بیان میں کہا کہ تقریباً بیس پولیس اہلکاروں کا ایف آئی آر درج ہونے سے پہلے ہی اے پی سی آر کے دفتر پہنچنا ان کے بدنیتی پر مبنی ارادوں کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ لوگ اے پی سی آر کے آئینی کام کو، خاص طور پر موب لنچنگ اور نفرت انگیز جرائم کے مقدمات لڑنے کے سلسلے میں نشانہ بنا رہے تھے۔ پی یو سی ایل نے کہا کہ پولیس اس ایف آئی آر کو بہانے کے طور پر استعمال کر رہی ہے تاکہ اے پی سی آر کے پیچھے موجود قوتوں کو نشانہ بنایا جا سکے۔
پی یو سی ایل کے مطابق اگلی صبح چند پولیس اہلکار دوبارہ اے پی سی آر کے دفتر آئے اور عہدیداران کے بارے میں پوچھ گچھ کی۔ جب تفتیش کی بنیاد پوچھی گئی تو شاہین باغ پولیس اسٹیشن کے ہیڈ کانسٹیبل یوگیش نے دفتر میں موجود وکلا کو تفصیلات فراہم کرنے سے انکار کر دیا۔ ہیڈ کانسٹیبل نے وکلا کے ساتھ بدتمیزی کی اور انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔ اے پی سی آر کے وکلا شاہین باغ پولیس اسٹیشن بھی گئے تاکہ پولیس چھاپے کی وجوہات کے بارے میں جان سکیں لیکن انہیں کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
ندیم خان کے وکلا نے تشویش ظاہر کی کہ دہلی منتقل کیے جانے کے بعد ان کے خلاف قومی سلامتی ایکٹ یا غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ جیسے سنگین الزامات لگائے جا سکتے ہیں۔ پی یو سی ایل نے ندیم خان کی دہلی پولیس کے اہلکاروں کے ذریعے ہراسانی، دھمکیوں اور غیر قانونی حراست کی مذمت کی۔ "ان کا رویہ تمام بنیادی اصولوں اور مقررہ قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ ہم اس بات پر بھی شدید تشویش کا اظہار کرتے ہیں کہ اس تحقیقات کا آغاز کس طرح ہوا، جہاں ایک جانب دار سوشل میڈیا مہم نے پولیس اور ریاستی حکام پر ان افراد کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جو شہری آزادیوں اور آئینی اقدار کے تحفظ کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں”
پی یو سی ایل نے مطالبہ کیا کہ ایف آئی آر کو فوراً منسوخ کیا جائے اور ندیم خان اور ان کے خاندان کو ہراساں کرنے کا سلسلہ فوری طور پر بند کیا جائے۔ اس ہراسانی پر خاندان کو معاوضہ دیا جائے اور شاہین باغ پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او کے خلاف مجرمانہ دھمکی، ہراسانی اور غیر قانونی دراندازی کے لیے ایف آئی آر درج کی جائے۔ APCR کی مذکورہ نمائش گزشتہ دس سالوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، موب لنچنگ اور دیگر مظالم پر روشنی ڈالتی ہے۔ تنظیم کے وکلا نے اندیشہ ظاہر کیا کہ ندیم خان کے خلاف مزید سخت قوانین، جیسے نیشنل سیکیورٹی ایکٹ یا UAPA، کا اطلاق کیا جا سکتا ہے۔
نمائش میں ان واقعات کی تفصیل پیش کی گئی تھی جو اقلیتوں کے خلاف ہونے والی زیادتیوں کے حقائق کو آشکار کرتے ہیں، جن میں مظلومین کی حصولِ انصاف میں ناکامی اور ریاستی اداروں کی جانب داری جیسے مسائل شامل تھے۔ ندیم خان اور ان کی تنظیم نے ان واقعات کے خلاف آواز بلند کی اور قانونی طور پر ان کے خلاف جدوجہد کی ہے۔ PUCL نے اس پورے معاملے میں دہلی پولیس کے کردار پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ کارروائی نہ صرف غیر قانونی بلکہ جمہوری اقدار کے خلاف بھی ہے۔
اس دوران بھارت جوڑو ابھیان (بی جے اے) کے کنوینرز وجے مہاجن اور یوگندر یادو نے انسانی حقوق کے جہدکار کے خلاف دہلی پولیس کی اس کارروائی کو غیر قانونی اور دھمکی آمیز قرار دیا۔ بی جے اے نے اس واقعہ پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا "ہم دہلی پولیس کی جانب سے ندیم خان کے خلاف غیر قانونی اور خوفزدہ کرنے والے اقدامات کی سخت مذمت کرتے ہیں۔ ندیم خان اقلیتوں کے قانونی و آئینی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے سرکردہ انسانی حقوق کے کارکن ہیں۔”
انہوں نے مزید کہا کہ یہ کارروائی بدنیتی پر مبنی کوشش ہے تاکہ آزادیٔ اظہار کو دبایا جا سکے۔ لہٰذا ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ندیم خان اور اے پی سی آر کے خلاف ایف آئی آر واپس لی جائے اور دہلی پولیس کے ان اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی جائے جنہوں نے دفتر پر چھاپہ مارا اور ندیم خان کو ہراساں کیا۔”
اس واقعے پر عوامی غم و غصہ سوشل میڈیا پر بھی نظر آیا۔ بعض صارفین نے حکومت اور پولیس کے اس رویے کو غنڈہ راج” قرار دیا۔روہت شیٹی نامی صارف ’ایکس‘ پر لکھتے ہیں:”یہ مودی کا بھارت ہے جہاں حکومت کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو ہدف بنایا جاتا ہے” ایک اور صارف تلکا نے لکھا "دہلی پولیس بی جے پی کی آلہ کار بن چکی ہے۔”حیدرآباد سے ڈاکٹر رضا احمد خاں نے ’ایکس‘ پر ٹویٹ کرتے ہوئے ندیم خاں کے خلاف کارروائی کو ’بلڈوزر جسٹس‘ کے خلاف آواز اٹھانے اور مظلومین کی حمایت میں کھڑے ہوکر عدالتوں سے انصاف دلانے کی ان کی کوششوں کا شاخسانہ قرار دیا ہے۔
اس دوران ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سِول رائٹس (اے پی سی آر) نے اپنے قومی جنرل سکریٹری ندیم خان کو بلا جواز ہراساں کرنے اور حراست کی کوشش، نیز دہلی پولیس کی جانب سے دفتر پر بغیر اطلاع یا بلا جواز قانونی تقاضوں کے چھاپہ مارنے کی سخت مذمت کی ہے۔ اے پی سی آر شہری آزادیوں کے تحفظ، انصاف کے قیام اور مساوات کے فروغ کے لیے سرگرم تنظیم ہے جو ملک بھر میں انسانی حقوق اور شہری آزادیوں سے متعلق کئی مقدمات میں قانونی امداد فراہم کر رہی ہے۔
اے پی سی آر مختلف ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں کئی اہم مقدمات میں فریق ہے اور ان میں سے متعدد مقدمات میں سپریم کورٹ نے تنظیم کے موقف کو تسلیم کرتے ہوئے ریلیف فراہم کی ہے۔ قانونی وکالت، استعداد سازی اور کمیونٹی کو تعاون کے ذریعے اے پی سی آر انفرادی و اجتماعی آئینی حقوق کے تحفظ کے لیے کوشاں ہے۔ تنظیم نے کہا ہے کہ اے پی سی آر پولیس کی جانب سے کسی بھی تحقیقات میں تعاون کے لیے تیار ہے لیکن یہ اصرار کرتی ہے کہ تمام تحقیقات قانونی تقاضوں کے مطابق ہوں اور ندیم خان کو ہراساں کرنے کا سلسلہ فوراً بند کیا جائے۔

 

یہ بھی پڑھیں

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 08 دسمبر تا 14 دسمبر 2024