دلی میں تیسری خاتون وزیر اعلیٰ بنیں آتشی اجودھیا میں رام مندر کی صفائی ملازمہ کی اجتماعی عصمت ریزی

یو پی میں ذات پات کی سیاست، ٹھاکر پرستی کا الزام لگانے سے دو صحافیوں پر مقدمہ درج

محمد ارشد ادیب

بہار میں دلت بستی پھونک دی گئی، زمین پر قبضے کا تنازعہ اوڈیشہ میں فوجی افسر کی منگیتر سے پولیس تھانے میں جنسی ہراسانی
کیجریوال کا دلی میں نیا سیاسی داؤ
دلی میں طویل انتظار اور سیاسی اٹھا پٹخ کے بعد عام آدمی پارٹی کے لیڈر اروند کیجریوال نے اپنی کرسی آتشی مارلینا کے حوالے کر دی ہے۔ سشما سوراج اور شیلا دیکشت کے بعد آتشی دلی کی تیسری خاتون وزیر اعلیٰ بن گئی ہیں۔ اروند کیجریوال کے جیل میں رہنے کے دوران انہوں نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے پارٹی کو درپیش چیلنجز کا سامنا کیا اور پارٹی کو جوڑے رکھنے میں اہم کردار نبھایا۔ اس کا انعام انہیں وزیر اعلیٰ کی کرسی کی شکل میں ملا ہے۔اروند کیجریوال نے جیل سے باہر آتے ہی آئندہ انتخابات تک اپنی کرسی چھوڑنے کا اعلان کر دیا تھا۔ کیجریوال نے اپنے سیاسی فیصلوں سے ہمیشہ حریفوں کو چونکا دینے کا کام کیا ہے۔ ان کے حریفوں کے ساتھ سیاسی مبصرین بھی قیاس لگا رہے تھے کہ کیجریوال اپنی جگہ اپنی اہلیہ سنیتا کیجریوال کو وزیراعلی ٰکے عہدے پر بٹھائیں گے لیکن انہوں نے دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سنیتا کی جگہ آتشی کو منتخب کیا۔ دراصل پچھلے دنوں ان پر اور ان کی پارٹی پر بد عنوانی کے جو الزامات لگے ہیں انہیں دھوئے بغیر اقتدار میں واپسی مشکل ہے۔ دلی میں دس سالہ اقتدار کے بعد انہیں اس سال کے آخر میں عوام کی عدالت میں پیش ہونا ہے۔ الیکشن جیتنے کے بعد وہ پھر سے وزیر اعلیٰ بن سکتے ہیں۔ دلی کی نئی وزیر اعلیٰ آتشی نے بھی واضح کر دیا ہے کہ وہ صرف الیکشن تک کے لیے وزیر اعلیٰ بنی ہیں تاہم اقتدار کا مزہ چکھنے کے بعد اسے چھوڑنا اتنا آسان نہیں ہوتا ہے۔
جھارکھنڈ اور بہار کی مثالیں
جھارکھنڈ اور بہار کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ جھارکھنڈ کے وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین جیل جانے سے پہلے بڑے اعتماد کے ساتھ چمپائی سورین کو وزیر اعلیٰ کی کرسی سونپ کر گئے تھے لیکن جیل سے باہر آتے ہی دوبارہ وزیر اعلیٰ کے عہدے پر براجمان ہو گئے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق ہیمنت سورین اگر صبر کا مظاہرہ کرتے اور چمپائی سورین کو الیکشن تک وزیر اعلیٰ برقرار رکھتے تو وہ کبھی بی جے پی میں شامل نہ ہوتے۔ اسمبلی انتخابات میں بھی انہیں اس کا فائدہ ملتا۔ ایک پرانے آدی واسی لیڈر کو اپنا حریف بنا کر انہوں نے اپنا ہی نقصان کر لیا ہے۔
اس سے پہلے نتیش کمار بہار میں جیتن رام مانجھی کو وزیر اعلیٰ بنا کر یہی غلطی کر چکے ہیں۔ آج وہ اپنی سیاسی پارٹی بنا کر اقتدار میں حصہ داری کے دعویدار ہیں۔ سیاسی مبصرین کے مطابق دلی کی نئی وزیر اعلی آتشی کا سیاسی کیریئر جس تیزی سے آگے بڑھا ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ پیچھے ہٹنے کے بجائے آگے بڑھنے کو ہی پسند کریں گی۔ یاد رہے کہ آتشی نے دلی کے سابق وزیر تعلیم منیش سسودیا کی معاون کی حیثیت سے اپنا سیاسی کیریئر شروع کیا تھا اور پہلی بار میں رکن اسمبلی منتخب ہوتے ہی پانچ سال سے پہلے ہی وزیر اعلیٰ کی کرسی تک پہنچ گئیں۔ ان کے ساتھ پانچ نئے وزراء نے بھی کابینہ وزیر کے طور پر حلف لیا ہے ۔
یو پی میں ذات پات کی سیاست کا حال
یو پی میں ذات پات کی لڑائی اقتدار کی اونچی کرسیوں سے ہوتے ہوئے صحافیوں تک پہنچ چکی ہے۔ لکھنؤ کی حضرت گنج کوتوالی میں دو صحافیوں کے خلاف ایف آئی آر کرائی گئی ہے۔ اتفاق سے دونوں صحافی پنڈت برادری سے تعلق رکھتے ہیں اور وزیر اعلی ٰیوگی آدتیہ کی سرکار پر ٹھاکر پرستی کا الزام لگاتے رہے ہیں۔ ابھشیک اپادھیائے اور ممتا ترپاٹھی پیشہ ور صحافی ہیں اور ایکس ہینڈل پر اپنی خبروں اور تبصروں کے لیے مشہور ہیں۔ ابھشیک اپادھیائے نے ایف آئی آر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے ’حضرت گنج کوتوالی کے دستاویزوں میں میرے وقت کے ایشور آپ اپنی سرکار پر ٹھاکرواد کے الزامات سے اتنا ناراض کیوں ہیں؟ کیوں اتنی پریشانی میں ہیں آپ؟ ابھشیک نے اپنی لمبی چوڑی پوسٹ میں یوگی سرکار کے ٹھاکر افسروں سے ایک ایک کر کے سوالات پوچھے ہیں اور کئی افسروں پر فرضی انکاؤنٹر سمیت بدعنوانی کے بے شمار الزامات لگائے ہیں۔ ابھشیک نے ایف آئی آر کی تحریر میں یوگی آدتیہ ناتھ کو ایشور کے سمان لکھنے پر بھی طنز کیا ہے آخر میں انہوں نے فیض احمد فیض کا ایک شعر نقل کیا ہے:
کٹتے بھی چلو بڑھتے بھی چلو بازو بھی بہت ہیں سر بھی بہت
چلتے بھی چلو کہ اب ڈیرے منزل پر ہی ڈالے جائیں گے
ممتا ترپاٹھی نے اپنی پوسٹ میں لکھا ہے کچھ جاہلوں اور گھٹنے میں عقل رکھنے والے خاص برادری کے لوگوں کو لگتا ہے کہ ہم یہاں پر پیسہ کمانے کے ارادے سے لکھتے پڑھتے ہیں جبکہ سرکار کی لگاتار رپورٹنگ کے سبب مجھے ایکس پر اب تک ایک روپیہ بھی نہیں ملا ہے۔ انہوں نے ایف آئی آر پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے تاہم، انہوں نے بھی ایک شعر لکھا ہے:
مسلسل دشمن جاں کی نگہبانی میں رہنا ہے
جہاں گھڑیال رہتے ہیں اسی پانی میں رہنا ہے
اپوزیشن لیڈر اکھلیش یادو نے دونوں صحافیوں کا نام لیے بغیر ایک طنزیہ ٹویٹ کیا انہوں نے لکھا :
’واہ کیا خوب ہے بھاجپا سرکار
سچ کے خلاف جھوٹی ایف آئی آر
مندر کی صفائی ملازمہ کی عصمت دری
اجودھیا کے رام مندر میں صفائی ملازمہ کا کام کرنے والی دلت لڑکی نے نو افراد کے خلاف اجتماعی عصمت دری کی شکایت درج کرائی ہے۔ پولیس نے اب تک چھ افراد کو گرفتار کر لیا ہے ان میں سے ایک بالغ سمیت دو نابالغوں پر عصمت دری کا الزام ہے جبکہ بقیہ پر چھیڑ چھاڑ کا الزام لگایا گیا ہے باقی ملزمین پر ابھی بھی شکوک و شبہات کے بادل پڑے ہوئے ہیں۔ مشہور صحافی و تجزیہ نگار اشوک بان کھیڑے نے دعویٰ کیا ہے ان میں ایک ملزم نین کمل چوہدری بی جے پی لیڈر کا بیٹا ہے جس کے سبب پولیس نے ایف آئی آر درج کرنے سے پہلے معاملہ رفع دفع کرنے کی کوشش کی تاہم پولیس نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔ پولیس کے مطابق لڑکی اپنی مرضی سے اپنے جاننے والے دوست کے ساتھ الگ الگ جگہوں پر گئی جہاں پر یہ واردات پیش آئی۔ متاثرہ لڑکی کا الزام ہے کہ اسے کئی مقامات پر لے جا کر یرغمال بنا کر اس کی اجتماعی عصمت دری کی گئی۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ متاثرہ کے بیان کے باوجود خبر مین اسٹریم میڈیا میں جگہ بنانے میں ناکام رہی، جبکہ اسی ایودھیا میں ایک دلت لڑکی نے جب سماج وادی پارٹی کے مسلم لیڈر پر عصمت دری کا الزام لگایا تو پولیس نے اس ملزم کی بیکری بلڈوزر سے زمین دوزکر دی۔ سوشل میڈیا میں سرکار کے دوہرے رویے پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
بہار میں دلت بستی پھونک دی گئی
بہار کے ضلع نوادہ میں شرپسندوں نے ایک دلت بستی کو آگ لگا دی۔ اطلاعات کے مطابق ضلع نوادہ کرشنا نگر دلت بستی کے ویاس منی نے تھانے میں شکایت درج کرائی کہ علاقے کے کچھ شر پسندوں نے ان کی جھونپڑیوں میں آگ لگا دی ہے۔ پولیس نے اٹھائیس افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے جن میں سے آدھے سے زیادہ ملزمین کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق جھوپڑیوں والی زمین کے مالکانہ حقوق کا مقدمہ چل رہا ہے جس کا ٹائٹل سوٹ نمبر 22/ 1995 ہے اسی تنازعے میں فریق مخالف نے بستی کو آگ لگا دی جس سے غریبوں کی گھر گرہستی سب برباد ہو گئی ہے۔ ضلع انتظامیہ نے متاثرہ خاندان کے لیے کھانے پینے کا بندوبست کیا ہے۔ اس معاملے نے بہار کے ماضی کی یاد تازہ کر دی ہے جب رنبیر سینا جیسی متنازعہ تنظیمیں بڑے پیمانے پر بے زمین مزدوروں اور دلتوں کی جان و مال کا نقصان کیا کرتے تھے۔ بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے اس واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے سخت کارروائی کا یقین دلایا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آخر آزادی کے اتنے سال گزر جانے کے بعد بھی دلتوں کے ساتھ اس طرح کے مظالم کیوں ہو رہے ہیں؟ اے این سی آر بی کے اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں ہر روز ڈیڑھ سو سے زیادہ دلتوں پر مظالم کے معاملے درج کیے جاتے ہیں اور ان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ نوواردہ واقعے پر صوبے میں سیاست شروع ہو گئی ہے، کچھ لوگوں نے یادوؤں پر الزام تراشی شروع کر دی لیکن اب تک جن ملزمین کی گرفتاری ہوئی ان میں پاسبان اور جوہان شامل ہیں۔ ایف آئی آر میں چوہان سر نیم والے کئی ملزمین کے بھی نام ہیں۔
اتر اکھنڈ میں انسداد فساد بل منظور
اتر اکھنڈ کے ریاستی گورنر نے اتر اکھنڈ پبلک و پرائیویٹ پراپرٹی ڈیمج ریکوری بل کو منظوری دے دی ہے۔ اس بل کے منظور ہونے کے بعد ریاست میں سرکار کے خلاف احتجاج کرنا مشکل ہو جائے گا کیونکہ اگر احتجاج کے دوران کسی طرح کی توڑ پھوڑ یا تشدد واقع ہوا تو احتجاجیوں سے ہی معاوضہ اور ہرجانہ وصول کیا جائے گا۔ وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی نے نئے قانون کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس قانون کی سخت دفعات ہڑتالیوں، احتجاجی مظاہروں یا فسادات کے دوران سرکاری جائیداد کو نقصان سے بچانے کا کام کریں گی۔ واضح رہے کہ ہلدوانی کے بن پھول پورہ علاقے میں پرتشدد احتجاج کے بعد اس قانون کو متعارف کرایا گیا تھا۔ اس علاقے میں بڑے پیمانے پر بلڈوزر کارروائی کی گئی تھی جس کے خلاف عوام میں غم و غصہ پھیل گیا اور انہوں نے پولیس کے خلاف پر تشدد احتجاج کیا جس کے کئی ملزمین آج بھی جیلوں میں بند ہیں۔
مدھیہ پردیش کے بعد اوڈیشا میں بھی جنسی ہراسانی کا واقعہ
مدھیہ پردیش میں فوجی اہلکاروں کی خاتون دوست کی عصمت ریزی کے بعد اوڑیشہ میں ایک فوجی افسر کی منگیتر کے ساتھ رہزنی اور جنسی ہراسانی کا واقعہ پیش آیا ہے۔ اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے ایکس پر لکھا کہ ’اوڈیشا کے واقعہ نے ملک کے قانون و انتظام پر سنجیدہ سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ پولیس سے مدد مانگنے کے لیے گئے ہوئے فوجی اہلکار کو بے رحمی سے پیٹا گیا اور اس کی منگیتر کو حراست کے دوران جنسی طور پر ہراساں کیا گیا ہے۔ وہ خاتون ایک فوجی افسر کی بیٹی ہے۔ اس نے اپنے بیان میں پولیس پر زیر جامہ کھولنے اور مخصوص اعضاء پر لات مارنے کا الزام لگایا ہے۔ فوج کے ایک اعلی جنرل شیخاوت نے اس معاملے میں از خود نوٹس لینے کے لیے اوڈیشہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو مکتوب لکھا ہے تاکہ متاثرہ خاتون کو انصاف مل سکے۔
تو صاحبو! یہ تھا شمال کا حال۔ اگلے ہفتے پھر ملیں گے کچھ تازہ اور دل چسپ احوال کے ساتھ۔ تب تک کے لیے اللہ اللہ خیر سلا۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 ستمبر تا 05 اکتوبر 2024