!دلی میں نام بدلنے کی مہم مغل بادشاہوں سے آگے محمد بن تغلق تک جا پہنچی

سنبھل میں ہولی کے موقع پر پولیس افسر کا متنازعہ بیان، ڈی ایم نے کی سرزنش مگر یوگی نے کی تائید!

0

محمد ارشد ادیب

اتراکھنڈ میں مدرسوں کو بند کرنے کا معاملہ، مایاوتی نے کی فیصلے کی مذمت
بہار میں اسمبلی انتخابات کے لیے سیاسی ماحول سازی شروع۔ بھاگیشور بابا کی دستور کے خلاف بیان بازی قابل گرفت
رام پور میں افطار کا اعلان کرنے پر امام سمیت نو افراد گرفتار
دارالحکومت دلی میں 27سال بعد ریاستی حکومت بنانے کے ساتھ بی جے پی ایک بار پھر اپنے سخت گیر ایجنڈے پر آگے بڑھتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ دلی کی نئی حکومت عوام سے کیے گئے ترقیاتی وعدوں کو پورا کرنے کے بجائے ہندو مسلم فرقہ وارانہ ایجنڈے کو آگے بڑھا رہی ہے۔ بی جے پی کے تین ارکان اسمبلی نے مسلم نام اور پہچان والے علاقوں کے نام بدلنے کا مطالبہ کر کے اس کی شروعات کر دی ہے۔ دلی کے مصطفیٰ آباد کا نام شیوپوری، محمد پور کا نام مادھو پورم اور نجف گڑھ کا نام ناہر گڑھ رکھنے کا مطالبہ کیا ہے۔ بی جے پی رکن اسمبلی موہن سنگھ بشٹ نے کہا کہ ہندو آبادی والے علاقے کا نام مصطفی آباد کے بجائے شیوپوری یا شیو بہار کیوں نہیں ہو سکتا؟ اس پر اسمبلی ہاؤس کے اندر اور باہر کافی بیان بازی ہوئی۔ عام آدمی پارٹی کے رکن اسمبلی عمران حسین نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ بی جے پی کام نہ کرنے کے بہانے ڈھونڈ رہی ہے اور نام بدلنے میں تو اسے مہارت حاصل ہے۔
مغلیہ عہد کے نام بدلنے کی مہم محمد بن تغلق تک جا پہنچی
دلی میں مغل حکم رانوں کے نام پر بنی ہوئی شاہراہوں کے نام بدلنے کی مہم محمد بن تغلق تک پہنچ گئی ہے۔ یو پی کے سابق نائب وزیر اعلیٰ دنیش شرما نے دلی میں اپنی سرکاری رہائش گاہ کے باہر لگی نیم پلیٹ پر تغلق لین کے ساتھ سوامی وویکانند مارک لکھوا دیا۔ ان کے پڑوسی وزیر مملکت کرشن پال سنگھ گجر نے بھی اپنے نام کی تختی پر سوامی وویکانند مارگ لکھوا دیا۔ اس پر تنازعہ پیدا ہوا تو دنیش شرما نے کہا کہ گوگل پر بھی سوامی وویکانند کا پتہ دکھائی دے رہا ہے اس لیے میں نے تغلق لین کے ساتھ سوامی مارگ لکھوایا ہے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ راجیہ سبھا رکن ہونے کی حیثیت سے انہیں نام بدلنے کی اتھارٹی تو نہیں ہے لیکن میں نے آس پاس کے گھروں پر لکھے پتوں کی بنیاد پر اپنا پتہ لکھوایا ہے اور ساتھ میں قوسین میں تغلق لین بھی لکھا ہے۔ ان کے اس بھولے پن پر میڈیا میں سوال اٹھائے جا رہے ہیں کہ کیا دنیش شرما کو یہ بھی نہیں پتہ کہ نام بدلنے کا اختیار دلی کی مقامی بلدیہ اور ریاستی حکومت کو ہے نہ کہ گوگل کو؟ عام آدمی پارٹی کے ایم پی سنجے سنگھ نے اس پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے سوال کیا کہ اگر بی جے پی والے نام بدل کر اپنی حب الوطنی کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں تو وزیر اعظم ہر سال شاہجہاں کے بنوائے ہوئے لال قلعہ کی فصیل سے یوم آزدی پر قومی پرچم کیوں لہراتے ہیں اور باہر سے آنے والے سربراہان مملکت کو تاج محل کا دیدار کرانے آگرہ کیوں لے جاتے ہیں؟ یہ بھی تو مغل بادشاہوں نے ہی بنوائے ہیں۔
سنبھل میں ہولی سے متعلق پولیس افسر کا متنازعہ بیان
یو پی کے ضلع سنبھل میں پولیس کے سرکل افسر انوپ چودھری نے ہولی کے موقع پر ایک متنازعہ بیان جاری کر دیا۔ انہوں نے مسلمانوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ جمعہ سال میں 52 مرتبہ آتا ہے جبکہ ہولی تو سال میں ایک بار ہی آتی ہے۔ جسے رنگوں سے پریشانی ہو وہ اپنے گھروں سے باہر نہ نکلے۔” دراصل اس سال رمضان کے دوسرے جمعہ کو ہولی کا تیوہار منایا جا رہا ہے۔ سنبھل کی انتظامیہ اس موقع پر امن برقرار رکھنے کے لیے امن کمیٹیوں کا سہارا لے رہی ہے۔ انوپ چودھری نے امن کمیٹی کی میٹنگ کے بعد ہی یہ بیان دیا ہے جس سے مقامی باشندوں کے ساتھ اپوزیشن میں بھی ناراضگی پائی جاتی ہے۔ سماجوادی پارٹی کے لیڈر پروفیسر رام گوپال یادو نے انوپ چودھری کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ نظام بدلنے پر ایسے لوگ جیل میں ہوں گے۔ سنبھل کے ضلع کلکٹر نے بلا اجازت اس طرح کا بیان دینے والے افسر کی سرزنش کی ہے اور آئندہ ڈی ایم یا پولیس کپتان کے علاوہ تحریری اجازت کے بغیر بیان دینے پر پابندی لگا دی ہے۔ تاہم ریاست کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے ایک نجی ٹی وی چینل کے کانکلیو میں پولیس افسر کے بیان کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ وہ پولیس افسر ایک سابق اولمپین اور پہلوان ہے اس کا بیان کچھ لوگوں کو برا لگ سکتا ہے لیکن بات سچ ہے۔ وزیر اعلیٰ نے ان مسلم علماء کی تعریف بھی کی جنہوں نے ہولی کے مد نظر جمعہ کی نماز دو بجے کے بعد ادا کرنے کی اپیل کی ہے۔ اس سلسلے میں لکھنو میں بھی اسلامک سنٹر آف انڈیا کی جانب سے ایک پہل ہوئی ہے جس میں جمعہ کی نماز میں تاخیر کی اپیل کی گئی ہے، ساتھ ہی ہولی کے موقع پر جلوس نکالنے والی کمیٹیوں نے بھی جمعہ کی نماز سے پہلے جلوس ختم کرنے پر رضا مندی ظاہر کر کے خیر سگالی کا اظہار کیا ہے۔ صحافی ذاکر علی تیاگی نے ایکس پوسٹ میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا جس سی او کا کام سبھی دھرموں کے لوگوں کا بھروسا پیدا کرنا تھا وہی اپنے فرائض کو بھول رہا ہے اور بی جے پی ورکر کی طرح کام کر رہا ہے۔ واضح رہے کہ انوپ کا بھائی امت چودھری مظفر نگر میں بی جے پی کا نائب صدر ہے اور بلاک پرمکھ بھی ہے۔ انوپ چودھری کو پولیس کی نوکری چھوڑ کر بی جے پی جوائن کر لینی چاہیے۔
مسلمانوں کو ہولی کی تقریبات سے دور رکھنے کا مطالبہ
متھرا کے شاہی عیدگاہ مقدمے کے ہندو فریق دنیش شرما نے مبینہ طور پر وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو مکتوب بھیجا جس میں انہوں نے برج کے علاقے میں ہولی کی تقریبات سے مسلمانوں کو دور رکھنے کا مطالبہ کیا ہے۔ دھرم رکھشا سنگھ کے صدر سوربھ گوڑ نے بیان جاری کیا کہ ان کی تنظیم نے بھی فیصلہ کیا ہے کہ برج کے علاقے متھرا، برنداون، نند گاؤں، برسانا، گوکل وغیرہ کی ہولی تقریبات میں مسلمانوں کے داخلے پر پابندی لگائیں گے۔ سوربھ نے مزید کہا کہ ہم بالکل بھی نہیں چاہتے کہ مسلم سماج کا کوئی بھی شخص ہولی کے بہانے رنگ و گلال فروخت کرنے کی تجارت کرے اور ہولی کی بھیڑ میں گھس کر ہنگامہ کرنے کی کوشش کرے۔ اس پر عید گاہ کمیٹی کے پیروکار تنویر احمد نے کہا برج میں ہولی کا تیوہار پیار اور اپنے پن سے منایا جاتا ہے یہاں امن اور ہم آہنگی کا ماحول رہتا ہے صدیوں سے کبھی کسی کو کسی سے کوئی شکایت نہیں رہی ہے اس طرح کے بیانات آپس میں تفریق پیدا کرنے والے ہیں۔ جماعت اسلامی اتر پردیش مغرب کے سابق امیر جماعت احمد عزیز نے ہفت روزہ دعوت کو فون پر بتایا کہ کچھ لوگ مسلمانوں کو سماج سے کاٹ دینا چاہتے ہیں جبکہ جماعت اسلامی ہند برادران وطن کے ساتھ خیر خواہانہ تعلقات رکھنا چاہتی ہے اس لیے ہولی ملن کے پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں کسی کے بائیکاٹ سے ہماری جماعت اپنی پالیسی نہیں بدلتی ہم اپنے ہم وطنوں سے ڈائیلاگ اور بات چیت کے دروازے کھلے رکھنا چاہتے ہیں اس کے لیے ملنا جلنا ضروری ہے۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق کچھ لوگ مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کی مہم چلا رہے ہیں اس لیے مذہب کا سہارا لے کر ان پر پابندی لگانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ چند مسلمان بھی جذبات میں بہہ کر جوابی رد عمل میں رمضان کے دوران غیر مسلموں سے خریداری نہ کرنے کی اپیل کر رہے ہیں۔ ایک ملے جلے جمہوری معاشرے میں اس طرح کی اپیلوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
اتراکھنڈ میں مدرسوں پر پابندی کا معاملہ
اتراکھنڈ کی بی جے پی حکومت ریاست میں یکساں سِول کوڈ نافذ کرنے کے بعد اب مدرسوں کے پیچھے پڑ گئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق دہرادون کے آس پاس کے 11 مدرسوں کو سیل کر دیا گیا ہے۔ سرکاری افسروں کے مطابق مدرسے بغیر کسی منظوری کے، ضابطوں کے خلاف چل رہے تھے۔ 11 میں سے پانچ مدرسے وکاس نگر علاقے میں واقع تھے۔ تین مارچ کو محکمہ اقلیتی فلاح و بہبود، مدرسہ بورڈ اور مقامی انتظامیہ کی مشترکہ کارروائی میں پانچ مدرسوں کو سیل کر دیا گیا ہے، ان میں سے چار کا نقشہ پاس نہیں تھا اور پانچواں مدرسہ غیر رہائشی زمین سے رہائشی نقشہ پاس کروا کر بنوایا گیا تھا۔ اسی طرح صدر اور ڈوی والا علاقوں میں بھی چھ مدرسوں کو بند کر دیا گیا ہے۔ مسلم تنظیموں نے اس کارروائی کی مخالفت کی ہے۔ مسلم سنگٹھن کے نعیم قریشی نے انتظامیہ پر الزام لگایا کہ بغیر کسی نوٹس کے ان مدرسوں کو سیل کر دیا گیا ہے۔ ان کے ساتھ ایک مسجد کو بھی سیل کیا گیا ہے۔ اس کے خلاف کلکٹریٹ میں احتجاج کیا گیا ہے اور مقامی انتظامیہ کو میمورنڈم پیش کرتے ہوئے انتباہ دیا گیا ہے کہ اگر سیلنگ کی کارروائی نہیں روکی گئی تو ریاستی سکریٹریٹ کے باہر احتجاج کیا جائے گا۔ بی ایس پی کی سربراہ مایاوتی نے بھی مدرسوں کو سیل کرنے کی کارروائی کو غیر جمہوری بتایا ہے۔ انہوں نے ایکس پر بیان جاری کرتے ہوئے ریاستی حکومت کو مشورہ دیا کہ حکومت کو مذہبی جذبات کو مجروح کرنے والی کارروائی نہیں کرنی چاہیے۔ انہوں نے اس عمل کو غیر دستوری بتایا ہے۔ واضح رہے کہ اتراکھنڈ میں مسلمان دوہری مصیبت میں ہیں۔ ایک طرف ہندو انتہا پسند تنظیمیں ان کی معاشی ناکہ بندی کی مہم چلا رہی ہیں اور انہیں ریاست سے باہر نکالنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف بی جے پی حکومت ان کے مدرسوں اور عبادت گاہوں کی جانچ کروا رہی ہے۔ ریاستی وقف بورڈ چھوٹے مدرسوں کو بند کر کے بچوں کو سرکاری مدرسوں میں منتقل کرنے کی وکالت کر رہا ہے۔ وقف بورڈ کے چیئرمین شاداب شمس کے مطابق ڈاکٹر اے پی جی عبدالکلام کے نام سے دہرہ دون میں ایک ماڈل مدرسہ بن کر تیار ہو گیا ہے۔ نئے تعلیمی سیشن سے اس میں تعلیمی سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ اس میں دینی تعلیم کے ساتھ قوم پرستی اور سنسکرت کی بھی تعلیم دی جائے گی۔ یعنی مدرسوں میں بچوں کو سرکاری مسلمان بنایا جائے گا۔
بہار کا سیاسی ماحول
بہار میں آئندہ اسمبلی انتخابات کے مد نظر سیاسی ماحول گرم ہو گیا ہے۔ دلی میں کامیابی کے بعد حکم راں جماعت کے لیے کام کرنے والی طاقتیں بہار میں سرگرم ہو گئی ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق بی جے پی اس بار بہار میں نتیش کمار کو اقتدار سے بے دخل کر کے کر خود اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہے اس کے لیے اس نے ابھی سے تیاری شروع کر دی ہے۔ باگیشور بابا ہندتوا کا جھنڈا لے کر بہار پہنچ گئے ہیں۔ کتھا کے نام پر سیاسی ایجنڈا چلانے والے بابا دھیرندر شاستری نے گوپال گنج کے کی کتھا میں ہندوؤں سے کہا کہ اگر ہم متحد رہیں گے تو ہمیں کوئی نہیں توڑ پائے گا۔ انہوں نے ہندو راشٹریہ کے قیام کے لیے بھارت کے دستور میں ترمیم کی وکالت کی۔ آر جے ڈی کے رکن اسمبلی چندر شیکھر نے اس پر سخت عمل ظاہر کرتے ہوئے بابا بھاگیشور کو دستور مخالف قرار دیا اور انہیں آسا رام کی کیٹگری کا سنت بتایا ہے۔ کرانتی کمار نے اپنی ایکس پوسٹ میں بی جے پی اور آر جے ڈی کی مقابلہ آرائی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ بی جے پی نے لالو پرساد یادو کو ہرانے کے لیے نتیش کمار اور جارج فرنانڈیز کو لگایا تھا اب بھاگیشور دھام کا استعمال کر رہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق لالو پرساد کے بیٹے تیجسوی یادو کو ان کے اسمبلی حلقے میں شکست دینے کی حکمت عملی تیار کی جا رہی ہے۔ اس دوران آر جے ڈی نے اسمبلی میں برہمنوں کی بالادستی اور اجارہ داری کا مسئلہ اٹھا کر جوابی حملہ کر دیا ہے۔ آر جے ڈی کے رکن اسمبلی ستیش داس نے ایوان اسمبلی میں ضلع گیا کا معاملہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ بودھ گیا وہار کے لیے 1949 میں بنائے گئے مہا بودھی ٹیمپل ایکٹ کو رد کر دینا چاہیے اس میں بودھ مذہب کے ماننے والوں کے ساتھ ناانصافی کی گئی ہے۔ اس کی گورننگ باڈی میں چار بودھوں کے مقابلے میں پانچ ہندوؤں کو عہدہ دار بنایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ رام جنم بھومی ٹرسٹ میں بھی ہندوؤں کے ساتھ دوسری اقلیتوں کے نمائندوں کو شامل کیا جانا چاہیے۔
رام پور میں افطار کا اعلان کرنے پر پولیس کی کارروائی
رام پور سے رمضان کے دوران ایک حیران کن خبر آئی ہے جب پولیس نے مسجد کے لاؤڈ اسپیکر سے افطار کا اعلان کرنے پر امام سمیت نو افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔ یہ واقعہ ٹانڈا تھانے کے مانک پور بنجریا گاؤں میں پیش آیا۔ اطلاعات کے مطابق گاؤں کے ایک ہندو فریق نے پولیس سے نئی روایت ڈالنے کی شکایت کی جس پر 112 نمبر پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے نو افراد کو گرفتار کر لیا۔ پولیس کے ایڈیشنل ایس پی اتل کمار سریواستو نے اس کی تصدیق کی ہے۔ پولیس نے مقامی لوگوں کی جانب سے نئی روایت ڈالنے کے خلاف شکایت پر یہ کارروائی کی ہے۔ واضح رہے کہ اس گاؤں میں مسلمانوں کی مختصر آبادی ہے اور مسجد بھی تقریبا 20 سال پرانی ہے۔ مقامی مسلمانوں کے مطابق لاوڈ اسپیکر پر روزے یا اذان کا اعلان کوئی نئی روایت نہیں ہے۔ یہ ہر جگہ ہوتا ہے۔ لیکن اب شمالی ہند میں مسلمانوں کی عبادت پر بھی روک ٹوک ہونے لگی ہے جو دستور میں دی گئی مذہبی آزادی کے خلاف ہے۔
تو صاحبو! یہ تھا شمال کا حال، آئندہ ہفتے پھر ملیں گے کچھ تازہ اور دلچسپ احوال کے ساتھ، تب تک کے لیے اللہ اللہ خیر سلا ۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 مارچ تا 22 مارچ 2025