دلی میں بی ٹیم کی اے ٹیم سے نورا کشتی

جمہوریت کے تماشے پر کللن اور للن کے درمیان مکالمہ

ڈاکٹر سلیم خان ،ممبئی

للن کھنہ نے کلن شریواستو سے پوچھا یار اپنی دلی میں یہ کیا ہو رہا ہے؟
کلن بولا ہاں بھیا ایسی ٹھنڈ تو میں نے کبھی نہیں دیکھی۔ سائنسی زبان میں اس کو کلائمٹ چینج کہتے ہیں یعنی موسمی رحجان کی تبدیلی۔
اچھا تو کیا انسانوں کے ساتھ موسم کا رحجان بھی بدلنے لگا ہے؟
جی ہاں کیوں نہیں لیکن یہ ماحولیاتی آلودگی بھی انسانوں کے ہاتھوں کی کمائی ہے۔ ہم جو کچھ بوتے ہیں وہی کاٹتے بھی ہیں۔
یار کمال ہے ہم نے پہلے تو سیاست کو تباہ کیا اور ماحولیات کو بھی برباد کر رہے ہیں۔
بھیا للن! ہم نے کون سا شعبہ حیات چھوڑا جسے تباہ و برباد نہیں کیا؟ اور اب تو اس کا خمیازہ بھگتنے کا وقت آگیا ہے۔
للن نے کہا: جی ہاں درست بات ہے میں بھی تو سیاست کی گرمی کا ذکر کر رہا تھا مگر تم تو کہیں اور نکل گئے۔
سیاست میں تو آئے دن نت نئے گرما گرم شگوفے چھوٹتے ہی رہتے ہیں، تم کس کی بات کر رہے تھے۔
اوہو کلن بھائی، کیا تم نے ایم سی ڈی کی دھینگا مشتی کو ٹیلی ویژن پر نہیں دیکھا؟
ارے بھیا، پہلے میں این ڈی ٹی وی دیکھتا تھا رویش کمار کے بعد وہ بھی چھوڑ چکا ہوں لیکن اخبار میں پڑھا ضرور ہے۔
چلو ٹھیک ہے اخبار ہی سہی، اب تم ہی بتاو کہ کیا اس طرح عام آدمی پارٹی کے کونسلرس کو لہو لہان کرنا مناسب ہے؟
کلن بولا: بھیا اپنے دیس میں ماب لنچنگ کوئی پہلی بار تو نہیں ہو رہی ہے لیکن کیا کبھی جھاڑو والوں کو اس کی مخالفت کرتے دیکھا ہے؟
اوہو کلن بھائی، یہ کوئی ہجومی تشدد تھوڑی ہے؟ یہاں نہ گائے اور نہ جئے شری رام۔ اس کو تم ہجومی تشدد کیسے کہہ سکتے ہو؟
دیکھو ماب لنچنگ کے بہانے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اصل چیز لوگوں کا قانون کو بالائے طاق رکھ کر اپنے مخالف کو مارنا اور اس پر فخر جتانا ہے۔
اچھا تو کیا تم اس کو درست مانتے ہو؟ کیا کسی مہذب ملک میں یہ سب ہونا چاہیے؟
یہ سوال تو اروند کیجریوال سے پوچھنا چاہیے کہ وہ دنیا بھر کے پروچن تو دیتا ہے مگر اس ماب لنچنگ پر تنقید کیوں نہیں کرتا؟
یار تم اس کی مجبوری کیوں نہیں سمجھتے؟ اروند کیجریوال اپنے انتہا پسند ہندو رائے دہندگان کو ناراض کرنے کا خطرہ کیسے مول لے سکتا ہے؟
اچھا اگر وہ ایسا نہیں کرسکتا تو اپنے لوگوں کی دھلائی پر ان انتہا پسندوں کا شکریہ ادا کرے یا کم از کم شکایت نہ کرے بلکہ پہلے کی طرح خاموش بیٹھا رہے۔
للن بولا: یار کسی سڑک پر کوئی ہجوم ہنگامہ کردے یہ اور بات ہے مگر جی ٹوئنٹی ممالک کے سربراہ کی راجدھانی کے ایوانِ بلدیہ میں یہ حرکت شرمناک ہے۔
اچھا، اگر ایسا ہے تو جاکر بی جے پی والوں سے پوچھو کہ انہوں نے مودی جی کی شرمندگی کا سامان کیوں کیا؟
جی ہاں! ابھی کچھ دیر پہلے میں نے کنول والے گڈن سنگھ سے یہ سوال کیا تھا؟
اچھا تو اس نے کیا کہا؟
وہ بولا کہ یہ سب تو جھاڑو والوں کا کیا دھرا ہے۔ ان لوگوں نے ہنگامہ شروع کیا تو ہم نے جواب دیا۔ ہمارے ہاتھ میں مہندی تھوڑی لگی ہے۔
للن بولا میں نے اخبار میں جو کچھ پڑھا ہے اس کے مطابق گڈن کی بات درست معلوم ہوتی ہے۔
یار للن میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ تم کانگریسی ہو کر بی جے پی کی حمایت کرو گے؟
بھیا! اگر اپنا دوست غلطی کرے تو ہم اس پر تنقید کرتے ہیں اور دشمن حق پر ہو تو حمایت کرنے سے پس و پیش نہیں کرتے۔
بہت بڑے ہریش چندر نہ بنو، مجھے تو اب کیجریوال کا یہ الزام درست معلوم ہونے لگا ہے کہ کانگریس نے بی جے پی سے ملی بھگت کرلی ہے۔
اچھا؟ یہ انوکھا الزام کس بنیاد پر لگایا گیا؟
کیجریوال کے مطابق کانگریس کے کونسلرس نے بی جے پی سے رشوت لے کر بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔
یار رشوت دے کر حمایت کرائی جاتی ہے؟ یہ کوشش تو عام آدمی پارٹی نے کی تھی مگر ان کے واپس کانگریس میں چلے جانے سے کھیل بگڑ گیا۔
اچھا چلو تم ہی بتا دو کہ آخر کانگریس بائیکاٹ کیوں کر رہی ہے؟
یار للن میئر کے کل دو امیدوار ہیں ایک طرف عآپ اور دوسری جانب باپ میرا مطلب بھاجپا ایسے میں کانگریس کیا کرے؟
عام آدمی پارٹی کی حمایت کرے اور کیا؟
لیکن بھیا جھاڑو والا تو ویسے بھی میئر بن جائے گا۔ اس کے لیے کانگریس کی حمایت کیوں ضروری ہے؟
اوہو کلن تم اتنا بھی نہیں سمجھتے۔ دلی کی سب بڑی پارٹی عآپ ہے اور فسطائیت کو شکست دینے کے لیے اس کی حمایت ضروری ہے۔
اچھا! اس منطق کے لحاظ سے تو گجرات کی سب سے بڑی حزب اختلاف کانگریس تھی۔ وہاں عام آدمی پارٹی نے کھیل کیوں بگاڑا؟
دیکھو بھائی تم یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ قومی جماعت بننے کے لیے یہ ضروری تھا۔
لیکن اب عآپ کے فاتح ارکان اسمبلی کہاں ہیں؟ وہ دعویٰ کہاں گیا کہ ہمارے لوگ نہیں بکتے۔
بھائی کلن موجودہ سیاست میں سب ابن الوقت ہیں۔ اسی ڈر سے تو عام آدمی پارٹی دلی میں کانگریس کی حمایت چاہتی ہے۔
جی ہاں ویسے دونوں گاندھی کے دشمن اور بھگت سنگھ کے شیدائی ہیں۔
بہت صحیح، اور پھر کیجریوال کو کسی نے سنگھ پر تنقید کرتے ہوئے بھی نہیں دیکھا۔ سنگھ کی دوسری پسند عآپ ہے کیونکہ وہ کانگریس کو کمزور بھی کرتی ہے۔
بھائی کلن! میں ایم سی ڈی میں ہونے والی مارپیٹ کی بات کررہا تھا لیکن تم اسے کہیں اور لے گئے۔
دیکھو للن! میرے خیال میں عام آدمی پارٹی نے بلاوجہ بات کا بتنگڑ بنا دیا ہے۔ نامزد کردہ ارکان کی پہلے حلف برداری میں کچھ بھی غلط نہیں تھا۔
لیکن کیا اس سے منتخب شدہ ارکان کی توہین نہیں ہوتی؟
کیسے ہو سکتی ہے؟ ان کو تو ویسے بھی بزرگ (ایلڈرس) کہا جاتا ہے اس لیے اگر پہلے حلف برداری ہو جائے تو کیا حرج ہے؟
لیکن ان کے تقرر میں ایل جی نے دلی سرکار سے مشورہ تک نہیں کیا اور سارے بی جے پی والوں کو بھر دیا تو کیا وہ بھی درست ہے؟
جی نہیں! یہ تو ایل جی کی دھاندلی ہے۔ ویسے بی جے پی کے پٹھو ایل جی سے کیا توقع کی جائے؟ وہ تو اپنے آقاوں کے اشارے پر یہی سب کرے گا۔
وہی تو میں کہہ رہا تھا کہ کانگریس کو باہر رکھنے کے بعد ان دس ارکان کی مدد سے بی جے پی اپنا میئر تھوپنا چاہتی ہے۔
ارے بھیا، ان نامزد کردہ ارکان کو رائے دینے کا حق ہی نہیں ہے۔ اس لیے یہ کیسے ممکن ہے؟
حق نہیں ہے تو مل جائے گا۔ مودی ہے تو ممکن ہے۔
چلو مان لیا کہ ایسا ہوجائے گا لیکن اس ترمیم سے قبل میئر کا انتخاب ہو چکا ہوگا، اس لیے گھبرانے کی کیا ضرورت؟
اچھا تو یہ بتاو کہ ہمارے اروند کیجریوال نے ملک کو شرمندہ کرنے والا یہ ہنگامہ کیوں کیا؟
ارے بھائی یہ نوٹنکی اپنے حریفوں کو بدنام کرنے اور اپنا سیاسی قد بڑھانے کے لیے کی گئی ہے۔
لیکن اس سے ملک کی جو بدنامی ہو رہی ہے اس کا کیا؟
دیکھو بھیا! ملک کے وقار کا خیال نہ تو سنگھ کو ہے اور نہ اس کی اے یا بی ٹیم کو ہے، اسی لیے ساری دنیا میں فی الحال ہندوستان کا نام خوب روشن ہورہا ہے۔
جی ہاں دلی میں انجنا کی گاڑی سے گھسٹ کر موت سے جو بدنامی ہوئی تھی اس مارپیٹ نے اس کا بھی ریکارڈ توڑ دیا۔
کلن ہنس کر بولا: پہلے بلدیہ کا جھاڑو باہر چلتا تھا اب اندر چلے گا۔ بقول میر تقی میر ؎
راہ دور عشق میں روتا ہے کیا آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
کلن بھیا! تم اس لڑائی جھگڑے میں شعر تک بھول گئے۔ وہ تو ابتدائے عشق ہے۔
جی نہیں راہِ دور عشق ہی ہے مگر ان دونوں کی جعلی دیش بھکتی کی طرح کچھ اور ہی مشہور ہوگیا ہے چلو چلتے ہیں بہت دیر ہو گئی۔
ہاں مجھے بھی ایک ضروری کام تھا لیکن فضول بحث میں الجھ گیا۔
کوئی بات نہیں، ویسے جاتے جاتے دلی کے جھاڑو والے میئر کی پیشگی مبارکباد قبول کرتے جاو۔
جی شکریہ۔ بہت نوازش۔
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 15 جنوری تا 21 جنوری 2023