دلی میں اسمبلی انتخابات کی آہٹ، سیاسی سرگرمیاں تیز

سنبھل کی جامع مسجد پر پولیس چوکی کی تعمیر، وقف کی زمین بتانے پر ایف آئی آر درج

0

محمد ارشد ادیب

مدھیہ پردیش کی کمال مولا مسجد کی کھدائی پر سپریم کورٹ برہم !وارانسی میں دال منڈی کے دکاندار پریشان
پریاگراج کے کمبھ میلے میں مسلمانوں کا کچھ کام نہیں؟ بہار میں بی پی ایس سی کے امیدوار احتجاجی دھرنے پر

 

***

 دارالحکومت دلی میں موسم سرما میں بارش کا سو سالہ ریکارڈ ٹوٹنے کے بعد کڑاکے کی سردی پڑ رہی ہے تو دوسری طرف دلی اسمبلی انتخابات کی آہٹ نے قومی دارالحکومت کا سیاسی ماحول گرم کر رکھا ہے۔ عام آدمی پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیراعلیٰ اروند کیجریوال بی جے پی کو اسی کی پچ پر مات دینا چاہتے ہیں۔ انہوں نے دلی کے پجاریوں اور گرنتھیوں کو ہر ماہ 18 ہزار روپے کا مشاہرہ دینے کا وعدہ کیا ہے۔ کانگریس دلی کے آئندہ انتخابات کو سہ رخی بنانے کے لیے عآپ پر حملہ آور ہے اور اس سے پچھلے انتخابات میں ہاتھ ملانے کو سیاسی غلطی بتا رہی ہے‌۔ دلی وقف بورڈ سے تنخواہ پانے والے ائمہ حضرات بھی عآپ سرکار سے 17 ماہ سے رکی ہوئی تنخواہ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق اس بار دلی کا الیکشن عام آدمی پارٹی کے لیے جیتنا آسان نہیں ہوگا کانگریس کے علاوہ ایم آئی ایم بھی پورے دم خم سے مسلم علاقوں میں انتخاب لڑنے کی تیاری کر رہی ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے عام آدمی پارٹی کو آپدا (آفت) سے تعبیر کیا ہے۔ اروند کجریوال نے وزیراعظم کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے دلی میں جو کام کیے ہیں اسے آپدا نہیں آشیرواد کہتے ہیں۔
سنبھل میں ٹکراؤ جاری
یو پی کے شہر سنبھل میں شاہی جامع مسجد کے معاملے میں تناؤ ابھی بھی جاری ہے، سروے کمشنر نے سیل بند لفافے میں رپورٹ مقامی عدالت میں جمع کر دی ہے۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ لفافہ سیل بند ہونے کے باوجود اس کی تفصیلات قومی میڈیا میں باہر کیسے آ رہی ہیں؟ سنبھل کی ضلع انتظامیہ اور پولیس اپنی بنیادی ذمہ داریاں طاق پر رکھ کر مندروں کے آثار اور قدیم کنوئیں ڈھونڈنے میں مصروف ہے ۔اسی درمیان جامع مسجد کے سامنے ایک ہفتے کے اندر پولیس چوکی بن کر تیار ہو چکی ہے۔ اس پولیس چوکی کی زمین پر متضاد دعوے سامنے آئے ہیں ایم آئی ایم کے صدر بیرسٹر اسد الدین اویسی نے پولیس چوکی کی زمین کو وقف بورڈ کی بتایا جبکہ سنبھل کے ضلع کلکٹر نے دعویٰ کیا کہ یہ زمین بلدیہ کی ملکیت ہے تو پولیس کپتان نے وقف کی زمین بتانے والوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کے احکام جاری کر دیے۔ تازہ اطلاع کے مطابق اس معاملے میں سنبھل کوتوالی میں فرضی کاغذات پیش کرنے والے نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج ہو چکی ہے۔
سنبھل کے رکن پارلیمنٹ ضیاء الرحمن برق کو الٰہ آباد ہائی کورٹ سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔ اگرچہ عدالت عالیہ نے ان کی گرفتاری پر روک لگائی ہے لیکن مقدمہ ختم نہیں کیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ان کے خلاف پولیس تفتیش جاری رہے گی اور وہ جب چاہے انہیں پوچھ تاچھ کے لیے طلب کر سکتی ہے۔
سنبھل میں پولیس کے ایک سی او کی کارستانیاں سرخیوں میں ہیں۔ انوپ چودھری نام کے اس سرکل آفیسر کو اکھلیش یادو کے دور میں اسپورٹ کوٹے سے پرموشن ملا تھا لیکن آؤٹ آف ٹرن پروموشن کے چکر میں ان دنوں یوگی کے لیے کھل کر بیٹنگ کر رہا ہے۔ کرناٹک کے کشکندہا سے سنبھل پہنچنے والی یاترا میں اس افسر کو ہنومان جی کی گدا ہاتھ میں پکڑ کر آگے آگے چلتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔
وسیم اکرم تیاگی نے اپنی ایکس پوسٹ میں سوال کیا کہ سنبھل میں بی این ایس کی دفعہ 163 نافذ ہے، جمعہ کی نماز کے لیے جانے والوں کو سیکیورٹی کے کئی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے پھر کرناٹک سے یہ یاترا سنبھل کیسے پہنچ گئی؟ کیا اس پر سوال نہیں اٹھنا چاہیے؟ سوال تو واجبی ہے لیکن جب ریاست کے وزیراعلیٰ ہی پولیس کارروائی کو ہنومان جی کی گدا کا کارنامہ بتا کر پتھر بازوں اور فسادیوں کو سبق سکھانے کے دعوے کر رہے ہوں تو جواب کون دے گا؟ آر ایس ایس کے سربراہ اپنی لن ترانی کرتے رہیں سپریم کورٹ کے جج صاحبان مذہبی مقامات کے تحفظ سے متعلق ایکٹ پر مرکزی حکومت کے جواب کا انتظار کرتے رہیں اور سروے سے باز رہنے کی ہدایت دیتے رہیں لیکن ہو تو وہی رہا ہے جو اکثریت کی آستھا چاہتی ہے۔ اسی درمیان سابق آئی پی ایس افسر امیتابھ ٹھاکر نے انوپ چودھری کا تبادلہ کرتے ہوئے محکمہ جاتی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
مدھیہ پردیش کی کمال مولا مسجد اور بھوج شالہ کا تنازعہ
مدھیہ پردیش کے شہر دھار میں واقع چشتیہ سلسلے کے بزرگ صوفی کمال الدین کے نام سے موسوم کمال مولا مسجد پر تنازعہ بڑھتا جا رہا ہے حالانکہ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اس کے باوجود ہندو فریق نے مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے فیصلے کا سہارا لے کر سروے کے نام پر کھدائی شروع کروا دی ہے۔ مسلم فریق نے جب اس معاملے میں سپریم کورٹ سے رجوع کیا تو اس نے امتناعی حکم کے باوجود کھدائی پر پرہمی کا اظہار کیا اور توہین عدالت کی کارروائی سے خبردار کیا۔ جسٹس رشی کیش رائے اور اے ایس وی این بھٹی کی بینچ نے ہندو فریق کے وکیل وشنو شنکر جین کی اس دلیل کو مسترد کر دیا کہ اے ایس آئی کی تحویل میں ہونے کے سبب یہ مسجد پلیسز آف ورشپ ایکٹ 1991 سے مستثنیٰ ہے۔ عدالت نے اے ایس آئی کی کھدائی پر توہین عدالت کی کارروائی کرنے کا انتباہ دیتے ہوئے اس معاملے کو چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ کے سامنے پیش کرنے کی ہدایت دی ہے۔
وارانسی کا بابا وشوناتھ کاریڈور اور دال منڈی کی گلی
سپریم کورٹ نے جائیداد کے حق کو آئینی حق قرار دیا ہے یعنی کسی شخص کی نجی جائیداد کو مناسب معاوضہ دیے بغیر سرکاری تحویل میں نہیں لیا جا سکتا۔ اس کے باوجود حکومتیں اپنے پسندیدہ پروجیکٹ پورے کرنے کے لیے زور و زبردستی سے کام لیتی ہیں۔ ایودھیا میں رام مندر کے نام پر سیکڑوں مکینوں کو اجاڑ دیا گیا جو آج بھی معاوضے کے لیے ترس رہے ہیں۔ وارانسی کے بابا وشوناتھ کاریڈور بنانے میں کئی چھوٹے چھوٹے مندر اور شیولنگ ختم ہو گئے۔ مقامی لوگوں نے اس پر احتجاج بھی کیا لیکن کہیں کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ اب گیان واپی مسجد اور بابا وشوناتھ مندر سے متصل تاریخی دال منڈی کو اجاڑنے کی تیاری ہو رہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق وارانسی کی بلدیہ نے دال منڈی کے راستے کو چوڑا کرنے کا منصوبہ بنایا ہے جس کے تحت آٹھ فٹ کی گلی کو 23 فٹ تک چوڑا کیا جائے گا۔ اس توسیعی پروجیکٹ کی زد میں تقریباً 10 ہزار دکانیں آ رہی ہیں۔ مقامی دکانداروں کے مطابق ان میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ یہ بنارس کا سب سے قدیم بازار ہے۔ ایک زمانے میں یہ طوائفوں کے سبب مشہور تھا لیکن اب کاسمیٹک الیکٹرانک اور دیگر ضروری اشیاء کا سب سے بڑا بازار ہے جس سے ہزاروں گھروں کی روزی روٹی چلتی ہے۔ اگر سرکار بازار توڑنے کے عوض معاوضہ بھی دے گی تو وہ کتنے دن چلے گا؟ وہ اب کہاں جائیں گے اور اپنے بال بچوں کا پیٹ کیسے پالیں گے؟ سرکاری حکام تو سڑک کے کنارے غیر قانونی تجاوزات ہٹانے کی بات کہہ رہے ہیں لیکن مقامی باشندوں نے بتایا کہ دراصل اسے بابا وشوناتھ مندر تک جانے والے راستے کو وسیع کرنے کے مقصد سے اجاڑا جا رہا ہے۔ سرکار کی نظر میں باہر سے آنے والے عقیدت مندوں کی اہمیت مقامی آبادی سے زیادہ ہے۔ شاید سرکار یہ بھول رہی ہے کہ مقامی آبادی کو نظر انداز کرنے اور انہیں ستانے کا انجام کیا ہوتا ہے۔ اگر ایودھیا کی طرح وارانسی کے ووٹر بھی برہم ہو گئے تو آئندہ پارلیمانی انتخابات میں وزیراعظم نریندر مودی کو بھی انتخابی حلقہ بدلنا پڑ سکتا ہے۔ سماج وادی پارٹی ابھی سے بلڈوزر کارروائی کو انتخابی موضوع بنانے کی تیاری میں لگ گئی ہے۔ لکھنو میں اس کے کارکنوں نے نئے سال کے موقع پر ایک پوسٹر لگایا جس پر لکھا تھا سپا کے راج میں بلڈوزر جائے گا گیراج میں۔
پریاگ راج میں لگا تمبووں کا شہر
الٰہ آباد کی سنگم نگری پریاگ راج میں 12الہ کمبھ میلہ کی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں۔ گنگا جمنا اور سرسوتی کے سنگم پر تمبووں کا شہر آباد ہو چکا ہے۔ ریاستی حکومت نے کمبھ میلے کے انتظامات پر کروڑوں روپے خرچ کیے ہیں۔ اسے دنیا کا سب سے بڑا مذہبی اجتماع بتایا جا رہا ہے۔ لیکن کچھ لوگ مسلمانوں کو اس سے دور رہنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ کمبھ میلے کا باقاعدہ آغاز تو مکر سکرانتی 14 جنوری سے ہوگا، اس میں شامل ہونے کے لیے دیسی بدیسی سادھو سنت اور مہنت پریاگراج پہنچ چکے ہیں۔ ان میں سے چند مہنتوں نے مسلمانوں کو میلے سے دور رکھنے کا مطالبہ کیا ہے۔ مشہور شاعر اور فلمی گیت کار منوج منتشر شکلا نے اس مطالبے کی حمایت کی ہے۔ انہوں نے اسے سناتن دھرم کے ماننے والوں کی عقیدتوں کا مرکز بتاتے ہوئے سیر سپاٹے یا پکنک کے لیے جانے والوں کو روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔ سابق کرکٹر اور الٰہ آباد کے باشندے محمد کیف نے سنگم میں ڈبکی لگانے کی جو تصویر ایکس پر پوسٹ کی ہے اس پر کئی صارفین نے اپنا رد عمل ظاہر کیا ہے۔ اشونی یادو نام کے صارف نے لکھا کہ محمد کیف کے جمنا اشنان سے کسی کو پریشانی ہو رہی ہے تو یاد رہے کہ اسی جمنا سے انہوں نے تیراکی سیکھی ہے۔ گنگا اور جمنا جتنی ہماری ہیں اتنی باہر سے آنے والے سادھو سنتوں کا لباس پہننے والوں کی نہیں ہیں۔
مسلم جماعت کے مولانا شہاب الدین رضوی نے محمد کیف کی ڈبکی کو مذہبی طور پر غلط بتایا۔ انہوں نے ہفت روزہ دعوت سے فون پر خصوصی بات چیت میں بتایا کہ انہیں نجی ذرائع سے اطلاع ملی ہے کہ کمبھ میلے میں بڑے پیمانے پر گھر واپسی کے نام پر مسلمانوں کا مذہب تبدیل کرانے کی تیاری چل رہی ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں ریاست کے وزیراعلیٰ کو مکتوب بھی لکھا ہے جس میں انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ ریاست میں تبدیلی مذہب مخالف قانون کی موجودگی میں اس طرح کا کوئی بھی پروگرام غیر قانونی ہوگا اس پر پابندی لگنی چاہیے۔ انہوں نے مسلمانوں سے کمبھ میلے کی مذہبی تقریبات سے دور رہنے کا مشورہ دیا ہے البتہ تجارتی مقصد سے میلے میں دکانیں لگانے کو درست بتایاہے۔ مولانا شہاب الدین رضوی اس سے پہلے نئے سال کی تقریبات اور جشن کو اسلامی تعلیمات کے منافی قرار دے چکے ہیں لیکن وقف بورڈ کے معاملے میں ان کی رائے کو علماء کے ساتھ عام مسلمان بھی مسترد کر چکے ہیں۔
بہار میں سیاسی ہلچل اور بی پی ایس سی کے امیدواروں کا دھرنا
بہار میں ایک بار پھر سیاسی ہلچل دکھائی دے رہی ہے۔ آر جے ڈی سربراہ لالو پرساد یادو کے ایک بیان سے ریاست میں قیاس آرائیوں کا بازار گرم ہو گیا ہے۔ وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی خاموشی نے انہیں مزید ہوا دی ہے۔ لالو پرساد یادو نے کہا کہ اگر نتیش کمار ان کے پاس دوبارہ آئیں تو وہ انہیں معاف کر دیں گے، ان کے دروازے نتیش کمار کے لیے کھلے ہوئے ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق بہار میں اس سال ریاستی اسمبلی کے الیکشن ہونے والے ہیں، یہ سب اسی کی پیش بندی ہے۔ آر جے ڈی کانگریس سے گٹھ بندھن میں زیادہ سیٹ چاہتی ہے اور جے ڈی یو بی جے پی پر دباؤ بنانا چاہتی ہے ۔ صحافی آدیش راول نے ایکس پوسٹ میں لکھا کہ بہار میں نتیش کمار کے بارے میں کئی طرح کے قیاس لگائے جا رہے ہیں۔ دراصل یہ پورا معاملہ بہار اسمبلی الیکشن میں سیٹوں کی تقسیم پر ہے۔ نتیش کمار آدھی سیٹیں چاہتے ہیں اس پر بی جے پی بھی راضی ہے لیکن آر جے ڈی کو اس میں این ڈی اے کی دیگر پارٹیوں کو شامل کرنا ہوگا۔ بس اتنی سی بات ہے۔ واضح رہے کہ اس سے پہلے کانگریس کے بہار انچارج شاہنواز عالم نے بھی آر جے ڈی پر دباؤ بنانے کے لیے گٹھ بندھن میں سب برابر والا بیان دیا تھا۔ ایک صارف نے اس پر تبصرہ کیا کہ سیاست میں کوئی کسی کا نہیں ہوتا جہاں جس کو اپنا فائدہ نظر آتا ہے وہ ادھر کود جاتا ہے۔
بہار کے دارالحکومت پٹنہ میں ان دنوں بی پی ایس سی امیدواروں کے احتجاجی دھرنے کے سبب گہما گہمی کا ماحول ہے۔ یہ امیدوار امتحانات میں بدعنوانی کے سبب دوبارہ امتحانات منعقد کروانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں بھی ان کی حمایت کر رہی ہیں لیکن حکومت مظاہرین سے ہی بدعنوانی کے ثبوت مانگ رہی ہے۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے یو پی میں بھی طلبہ کے احتجاج کے بعد امتحانات ملتوی ہو چکے ہیں۔ طلبہ لیڈروں کو امید ہے کہ بہار سرکار کو ان کے مطالبات کے سامنے جھکنا ہی پڑے گا ۔
تو صاحبو! یہ تھا شمال کا حال، آئندہ ہفتے پھر ملیں گے کچھ تازہ اور دلچسپ احوال کے ساتھ۔ تب تک کے لیے اللہ اللہ خیر سلا۔
***


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 جنوری تا 18 جنوری 2024