دہلی: ایل جی نے 2019 میں انڈین آرمی کے بارے میں شہلا رشید کے ٹویٹس کے لیے مقدمہ چلانے کی منظوری دے دی

نئی دہلی، جنوری 10: انڈین ایکسپریس نے منگل کو رپورٹ کیا کہ دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر وی کے سکسینہ نے 2019 کے غداری کیس میں سرگرم کارکن شہلا رشید کے خلاف انڈین آرمی کے بارے میں کیے گئے ان کے ٹویٹس سے متعلق مقدمہ چلانے کی منظوری دے دی ہے۔

18 اگست 2019 کو شہلا نے ٹویٹ کیا تھا کہ بھارتی فوج کے اہلکاروں نے جموں و کشمیر کے شوپیاں ضلع میں چار افراد کو تشدد کا نشانہ بنایا اور ان کے ساتھ ایک مائیکروفون رکھا تاکہ پورا علاقہ ان کی چیخیں سن سکے اور دہشت زدہ ہو جائے۔

اے این آئی کے مطابق دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر کے دفتر نے کہا ہے کہ ہندوستانی فوج کے بارے میں ان کے ٹویٹس کا مقصد ’’مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا‘‘ اور ’’ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے کے لیے منفی کارروائیوں میں ملوث ہونا‘‘ تھا۔

ستمبر 2019 میں دہلی پولیس نے سپریم کورٹ کے وکیل الکھ الوک سریواستو کی شکایت کی بنیاد پر جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سابق طالب علم رہنما کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کیا تھا۔

آرمی نے بھی رشید کی طرف سے لگائے گئے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ بے بنیاد اور غیر تصدیق شدہ ہیں۔

شہلا کے خلاف مقدمہ چلانے کی تجویز دہلی پولیس نے بھیجی تھی اور محکمۂ داخلہ نے اس کی حمایت کی تھی۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق محکمۂ داخلہ نے کہا ’’فوج کے خلاف جھوٹے الزامات لگانا اسے ایک سنگین مسئلہ بنا دیتا ہے۔‘‘

وہیں 2019 میں رشید نے کہا تھا کہ ان کے خلاف یہ مقدمہ انھیں خاموش کرنے کی ’’غیر سنجیدہ، سیاسی طور پر حوصلہ افزائی اور قابل رحم کوشش‘‘ تھا۔ رشید نے کہا تھا ’’میں نے اپنے ٹویٹس میں واضح طور پر ذکر کیا ہے کہ یہ ریاست کے لوگوں سے موصول ہونے والی معلومات پر مبنی ہے۔‘‘

کارکن نے مزید کہا کہ ایسی صورت حال میں جہاں صحافیوں کو رپورٹنگ کرنے کی اجازت نہیں تھی اور مواصلات منقطع ہو گئے تھے، یہ ضروری تھا کہ ’’لوگوں کے بیانیے کو پیش کیا جائے تاکہ باقی ملک کو معلوم ہو سکے کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔‘‘

انھوں نے مزید کہا تھا کہ ’’میں اس جگہ کی صحیح تفصیلات جانتی ہوں جہاں یہ ہوا لیکن میں ان کو نہیں دینا چاہتی۔ وقت ثابت کرے گا کہ کون صحیح ہے اور کون غلط۔ میں جھوٹ نہیں بول رہی ہوں۔ اگر کچھ بھی ہے تو اس سے حکومت کو انسانی حقوق کی اس طرح کی زیادتی سے بچنے کے لیے مزید چوکنا ہونا چاہیے۔‘‘