دہلی حکومت کا ہوگا بیوروکریٹس پر کنٹرول: سپریم کورٹ
نئی دہلی، مئی 11: جمعرات کو سپریم کورٹ کی آئینی بنچ نے ایک تاریخی فیصلہ سنایا کہ دہلی حکومت پبلک آرڈر، پولیس اور اراضی کے محکموں کو چھوڑ کر باقی بیوروکریٹس پر قانون سازی کا اختیار رکھتی ہے۔
چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی زیرقیادت بنچ نے کہا ’’حکومت کی جمہوری شکل میں، انتظامیہ کی اصل طاقت لوگوں کے ذریعہ منتخب کردہ حکومت کے پاس ہونی چاہیے۔‘‘
بنچ نے مرکز اور دہلی حکومت کے درمیان وزیر اعلی اروند کیجریوال کی قیادت میں قومی دارالحکومت میں مرکزی حکومت کے انتظامی اختیارات کے دائرۂ کار اور انتظامی خدمات پر اس کے کنٹرول کے بارے میں تنازعہ پر متفقہ فیصلہ سنایا۔
بنچ نے، جس میں جسٹس ایم آر شاہ، کرشنا مراری، ہیما کوہلی اور پی ایس نرسمہا بھی شامل ہیں، کہا کہ وہ اس معاملے میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس اشوک بھوشن کے پہلے کے فیصلے سے متفق نہیں ہے۔
فروری 2019 میں جسٹس بھوشن اور اے کے سیکری کی ڈویژن بنچ نے الگ الگ فیصلہ سنایا تھا۔ جسٹس بھوشن نے کہا تھا کہ دہلی حکومت کو نوکرشاہوں پر اختیار نہیں ہے۔ جسٹس سیکری نے کہا کہ تھا لیفٹیننٹ گورنر سکریٹری، محکمہ کے سربراہ اور جوائنٹ سکریٹری کے عہدے کے عہدیداروں کے تبادلوں اور تعیناتیوں کا فیصلہ کرسکتے ہیں، جب کہ دہلی انڈمان نیکوبار جزائر سول سروس کیڈر کی فائلوں کو دہلی حکومت کے ذریعہ لیفٹیننٹ گورنر تک پہنچایا جاسکتا ہے۔
مرکزی حکومت دہلی شہر میں نوکرشاہوں کی تقرری اور تبادلے کرتا ہے اور یہ عمل کئی سالوں سے لیفٹیننٹ گورنر اور حکمراں عام آدمی پارٹی کے درمیان جھگڑے کا سبب بنا ہوا ہے۔
2018 میں سپریم کورٹ کی ایک اور آئینی بنچ نے کہا تھا کہ لیفٹیننٹ گورنر اپنے دائرہ اختیار کے تحت تمام معاملات میں دہلی حکومت کے وزراء کی کونسل کی ’’مدد اور مشورہ‘‘ کے پابند ہیں۔
بنچ نے کہا کہ ’’باہمی تعاون پر مبنی وفاقیت میں، یونین اور ریاستی حکومتوں کو مشترکہ مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اپنی تیاری کا اظہار کرنا چاہیے اور اسے حاصل کرنے کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔‘‘
گذشتہ سال 6 مئی کو سابق چیف جسٹس این وی رمنا کی سربراہی میں تین ججوں کی بنچ نے مرکز کی درخواست پر اس کیس کو بڑی بنچ کے پاس بھیج دیا تھا۔ مرکزی حکومت نے استدلال کیا تھا کہ اسے دہلی میں افسران کے تبادلے اور تقرری کرنے کی طاقت کی ضرورت ہے کیوں کہ یہ قومی دارالحکومت ہے۔
جمعرات کو آئینی بنچ نے کہا کہ ایک جمہوری طور پر منتخب حکومت کو اپنے افسران پر کنٹرول ہونا چاہیے۔
بنچ نے کہا "اگر جمہوری طور پر منتخب حکومت کو اپنے افسران کو کنٹرول کرنے اور ان کا احتساب کرنے کی اجازت نہیں ہے، تو مقننہ اور عوام کے تئیں اس کی ذمہ داری کمزور ہو جاتی ہے۔ اگر افسران کو لگتا ہے کہ وہ منتخب حکومت سے الگ ہیں، تو وہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ جواب دہ نہیں ہیں۔‘‘
بنچ نے یہ بھی کہا کہ مرکزی حکومت کی طاقت ایسے معاملات میں جہاں مرکز اور ریاستیں دونوں قانون سازی کر سکتے ہیں اس بات کو یقینی بنانے کے لیے محدود ہے کہ حکمرانی سابق کے ہاتھ میں نہ آئے۔
اس سال اس کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے سوال کیا تھا کہ اگر سرکاری ملازمین کی پوسٹنگ پر مرکز کا کنٹرول برقرار رہتا ہے تو دہلی میں منتخب حکومت کس مقصد کو پورا کرے گی؟
سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے عدالت کو بتایا تھا کہ دہلی ایک مرکز کے زیر انتظام علاقہ ہے اور اس طرح یہ یونین کی توسیع ہے۔
لیکن دہلی حکومت نے دعویٰ کیا کہ اگر اس کے پاس سول سروسز کا انتظام کرنے کا اختیار نہیں ہے تو وہ کام نہیں کر سکے گی۔
سینئر ایڈوکیٹ ابھیشیک منو سنگھوی نے عدالت سے کہا تھا کہ کوئی بھی حکومت جو عوام کی مرضی کو پورا کرنا چاہتی ہے اس کے پاس عہدے بنانے، افراد کی تقرری اور ضرورت کے مطابق تبدیلی کرنے کا اختیار ہونا چاہیے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہندی میں ایک مشہور کہاوت ہے ’’ایک میان میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں۔‘‘
دریں اثنا دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے کہا کہ آئینی بنچ کا یہ فیصلہ ’’جمہوریت کی جیت‘‘ ہے۔ انھوں نے دہلی کے لوگوں کے ساتھ انصاف کرنے کے لیے سپریم کورٹ کا شکریہ ادا کیا۔
عام آدمی پارٹی کے لیڈر راگھو چڈھا نے کہا کہ یہ فیصلہ ایک ’’تاریخی فیصلہ‘‘ ہے۔
انھوں نے کہا ’’…دہلی کی حکومت کے ساتھ کام کرنے والے افسران کا مقصد منتخب حکومت کے ذریعے دہلی کے لوگوں کی خدمت کرنا ہوتا ہے نہ کہ غیر منتخب غاصبوں کی خدمت کرنا۔‘‘
وہیں بھارتیہ جنتا پارٹی کی زیرقیادت مرکزی حکومت نے کہا ہے کہ اس فیصلے سے جموں اور کشمیر جیسے دیگر مرکزی علاقوں پر بھی دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔
بی جے پی کے ترجمان آر پی سنگھ نے کہا ’’ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ یہ فیصلہ جموں و کشمیر کی اس حکومت پر کیا اثر ڈالے گا، جو انتخابات کے بعد تشکیل دی جائے گی۔ دہلی میں بھی، مجھے یقین ہے کہ یہ معاملہ اتنی آسانی سے حل نہیں ہوگا، کیوں کہ مثال کے طور پر چیف سکریٹری کو ان موضوعات سے نمٹنا پڑے گا جو مرکز اور ریاست کے درمیان تقسیم ہیں۔ اس طرح کے مسائل کے حوالے سے جنگ ہو گی۔‘‘