دہلی اسمبلی انتخابات؛ ووٹر لسٹ میں ہیرا پھیری- الزام یا حقیقت؟

ووٹ کٹوانے اور جعلی طور پر بنوانے کا منظم طریقہ جمہوریت کے لیے خطرہ

محمد آصف اقبال، نئی دہلی

سماجی جہد کار، مقامی والینٹرس، بوتھ لیول آفیسرز، این جی اوز اور عوام کا چوکنا رہنا شفاف انتخابات کے لیے ضروری
نئی دہلی اسمبلی سے بی جے پی کے سابق ایم پی امیدوار پرویش ورما کا مئی 2024 سے جنوری 2025 گزشتہ آٹھ مہینے سے ایم پی کے بنگلے پر قبضہ بدستور برقرار ہے اور اسی بنگلے کے پتہ پر 33 ووٹ بنوانے کی انہوں نے درخواست دی ہے۔ ایک اور مرکزی حکومت کے وزیر پنکج چودھری نے اپنے پتہ پر 26 ووٹ بنوانے کی درخواست دی ہے۔ مرکزی وزیر کملیش پاسوان نے بھی اپنے پتہ پر 26 ووٹ بنوانے کی درخواست دی ہے۔ اسی طرح مرکزی وزیر مکھرجی اسمرتی نیاس نے اس پتہ پر 31 ووٹ بنوانے کی درخواست دی ہے۔ جے پرکاش ہردوئی سے ایم پی ہیں، انہوں نے بھی 13 تین مورتی لین کے پتہ سے 25 ووٹ بنوانے کی درخواست دی ہے۔ ساؤتھ ایوینیو میں تریپورا کے ایک سابق ممبر آف پارلیمنٹ ریبتی جی کو انہیں مہمانوں کی رہائش گاہ پر جگہ ملی ہے، انہوں نے 25 ووٹ بنوانے کے لیے درخواست دی ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ تمام نئے ووٹ بنوانے کی درخواست دینے والے لیڈر بی جے پی سے وابستہ ہیں۔ یہ الزامات عام آدمی پارٹی کے راجیہ سبھا ممبر سنجے سنگھ نے باقاعدہ 11 جنوریب2025 کو پریس کانفرنس کے دوران لگائے ہیں۔ انہوں نے با قاعدہ نام لے کر ایک ایک شخص کا پتہ اور نئے ووٹ بنوانے کی درخواستوں کی تعداد میڈیا کے سامنے پیش کیں۔ اس پس منظر میں اب یہ بات کہی جانے لگی ہے کہ انتخابات کے وقت نئے ووٹوں کے بننے اور پرانے ناموں کے ہٹوانے کا عمل معمول کی بات ہے جب کہ اس عمل کے پس پشت بہت ہی منظم اور منصوبہ بند انداز میں ایسے ووٹ بنوانے اور ہٹوانے کا عمل جاری رہتا ہے جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ لیکن چونکہ یہ معمول کے عمل کا حصہ ہوتا ہے لہٰذا درمیان میں جو بد عنوانیاں کی یا کروائی جاتی ہیں وہ آنکھوں سے اوجھل ہوجاتی ہیں نیز، اس کا راست فائدہ اور نقصان مخصوص امیدواروں کو ہوتا ہے، یہاں تک کہ نتائج کو سبوتاژ کرنے میں بھی یہ عمل مدد گار ثابت ہو رہا ہے۔
سنجے سنگھ کے الزامات سے قبل 6 جنوری 2025 کو ایک اور پریس کانفرنس سے مخاطب ہوتے ہوئے دہلی کی وزیر اعلیٰ آتشی سنگھ نے بھی با قاعدہ اعداد و شمار کے ساتھ بتایا تھا کہ ووٹروں کے نام ہٹانے کے سلسلے میں 19 دسمبر کو 1527، 21 دسمبر کو 700، 24 دسمبر کو 518 اور 25 دسمبر کو 675 درخواستیں موصول ہوئیں۔ یہ تمام درخواستیں ووٹ کٹوانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ انہوں نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ جب summary revision ہو رہا تھا اور الیکشن کمیشن کے بوتھ لیول آفیسر گلی اور محلے جا رہے تھے تب یہ لوگ جن کے ووٹ ہٹوانے کی درخواستیں داخل کی گئیں وہاں سے شفٹ ہوتے ہوئے کسی کو کیوں نہیں نظر آئے؟ اس پس منظر میں یہ صاف ہے کہ دہلی میں غلط طریقہ سے ووٹ کاٹنے کی سازش ہو رہی ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی بتایا کہ 6167 ووٹ نئی دہلی اسمبلی سیٹ کے کل 5.77 فیصد ووٹ ہیں، یعنی 10 فیصد ووٹوں کو جوڑنا اور 5.5 فیصد ووٹوں کو کاٹنا یہ سب الیکشن میں ہیر پھیر کرنے کی سازش ہے۔ ایک اور اعداد و شمار کی روشنی میں انہوں نے کہا کہ ووٹر ہٹوانے کی کل درخواستیں جو آئیں وہ 6167 تھیں لیکن اس میں سے 4283 ووٹ ہٹوانے کی درخواستیں صرف 84 لوگوں نے فائل کروائیں۔ یعنی 84 لوگوں نے چار ہزار سے زیادہ ووٹ کاٹنے کی درخواستیں داخل کیں۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ لوگ کون ہیں؟ یہ اعداد و شمار الیکشن کمیشن کے گھر گھر سروے میں سامنے کیوں نہیں آیا، بوتھ لیول آفیسر جو برسوں سے یہ کام کر رہے ہیں کیوں نہیں ڈھونڈ پائے کہ یہ شفٹ ہو گئے یا فوت ہو گئے؟ لیکن 84 لوگوں کے ہزاروں ووٹ کاٹنے کے لیے لوگ ڈھونڈ لیے گئے! ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ وہ کہتی ہیں کہ سب سے بڑا سنسی خیز خلاصہ اس وقت ہوا جب ان 84 لوگوں کو نوٹس دے کر الیکشن کمیشن اور ERO کے ذریعہ پیشی پر بلایا گیا تو سارے لوگوں نے ہاتھ کھڑے کر دیے کہ ہم نے کوئی درخواست فائل نہیں کی۔ مثلاً ترون کمار چوٹالہ، این ڈی ایم سی کواٹرس، خان مارکیٹ میں رہنے والے جن کے نام سے 106 ووٹروں کے نام ہٹانے کی درخواست دی گئی تھی، جب وہ 2 جنوری کو پیشی پر آئے تو انہوں نے کہا کہ میں نے ایک بھی ووٹر کے نام کو ہٹانے کی درخواست فائل نہیں کی۔ اسی طرح دیگر لوگوں نے بھی بیان درج کروایا۔ ان حالات میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ووٹروں کے نام داخل کروانے اور پرانے ووٹروں کے نام ہٹوانے کا معاملہ کس قدر توجہ طلب ہے۔ چند اسمبلی حلقوں میں اس مسئلہ کو اجاگر کرنے میں ذرا سی کوشش کی گئی تو جو تصویر سامنے آئی وہ نہ صرف دھندلی بلکہ کالی پڑتی دکھائی دے رہی ہے۔ اور اگر دہلی کی ان چند مثالوں کو سامنے رکھتے ہوئے پورے ملک میں نئے ووٹروں کے نام داخل اور پرانے ووٹروں کے نام ہٹوانے کے عمل کا حقائق پر مبنی جائزہ لیا جائے تو معلوم نہیں وہ کون سی صورت ہوگی جو سامنے آئے گی جس کے بعد ملک کے شہریوں کا جمہوریت کے نام پر الیکشن کے حالیہ عمل پر اعتماد برقرار رہے گا بھی یا نہیں؟
ووٹروں کی تعداد کا مسئلہ، ووٹروں کے نام داخل و خارج کا مسئلہ، پریسائیڈنگ آفیسر کی ڈائری میں درج شدہ اعداد و شمار کے موقع پر مکمل طور پر نہ مل پانا اور ان جیسے دیگر مسائل، پورے الیکشن کے طریقہ اور اس کے نتائج پر سوالات کھڑے کرتے ہیں۔ اس کے باوجود الیکشن کمیشن کی جانب سے فراہم کردہ کتابچہ (ہینڈ بک) کے ضمیمہ 52 میں وضاحت کی گئی ہے کہ پریسائیڈنگ آفیسر کی ڈائری میں پولنگ اسٹیشن کے بارے میں کئی طرح کی جانکاریاں شامل ہونی چاہئیں، جیسے فراہم کردہ اور استعمال شدہ مواد، فراہم کردہ اور استعمال شدہ مشینیں، موجود پولنگ ایجنٹس، ووٹر ٹرن آؤٹ کی تفصیلات، کتنے کو ’ٹنڈر ووٹ‘ ڈالنے کی اجازت دی گئی، چیلنج کیے گئے ووٹوں کی تعداد اور پولنگ اسٹیشن میں درج ذیل ٹائم سلاٹس کے دوران ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد: صبح 9-7 بجے، صبح 11-9 بجے، صبح 1-11 بجے، دوپہر 3-1 بجے، شام 5-3 بجے۔ ڈائری میں پولنگ کا وقت ختم ہونے کے بعد قطار میں کھڑے ہوئے ووٹروں کو جاری کی گئی سلپس (پرچیوں) کی تعداد درج ہونی چاہیے۔ یہ معلومات سیکٹر آفیسر کی رپورٹ میں بھی درج ہے، جس کا خاکہ سیکٹر آفیسر کی ہینڈ بک کے ضمیمہ VI میں دیا گیا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ابھی چند ماہ پہلے مہاراشٹر میں اسمبلی انتخابات میں بھی ووٹروں کی تعداد کا مسئلہ ایک اہم مسئلہ بن کر سامنے آیا تھا لیکن نتائج آنے، حکومت تشکیل دینے اور حکومت سازی کے بعد وہ دب گیا۔ اس وقت بھی الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق 20 نومبر کو ہونے والے ریاستی انتخابات کے لیے رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد 97,793,350 درج کی گئی تھی جن میں 64,592,508 افراد نے اپنا ووٹ ڈالا۔ اس کے مقابلے میں عام انتخابات کے دوران رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد 92,890,445 تھی اور ڈالے گئے ووٹوں کی کل تعداد 56,969,710 تھی۔ ان اعداد و شمار کی بنیاد پر ریاست میں رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد میں تقریباً 50 لاکھ (49,02,905) کا اضافہ ہوا، جبکہ ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد 75 لاکھ (76,22,7980) سے زیادہ تھی۔ یہ اعداد و شمار بھی عجیب و غریب تھے۔ ان اعداد و شمار کو آپ دیکھیں تو یہاں 50 لاکھ اور 75 لاکھ ووٹ گویا کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتے۔ اس کے باوجود کئی مقامات پر سو سے لے کر ہزار دو ہزار کا فرق عوامی نمائندوں کو کامیابی وناکامی سے دوچار کر دیتا ہے۔ لیکن یہاں 50 لاکھ اور 75 لاکھ ووٹوں کا فرق گویا کوئی بات ہی نہیں ہے۔
اس موقع پر آپ کو وہ واقعہ بھی یاد ہو گا جب 30 جنوری 2024، بی جے پی کے منوج سونکر کو چندی گڑھ کا میئر قرار دیا گیا تھا۔ عام آدمی پارٹی اور کانگریس اتحاد کے ارکان کے آٹھ ووٹوں کو پریسائیڈنگ آفیسر انیل مسیح نے غلط قرار دیا تھا۔ اس وقت متاثرین نے پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور الزام لگایا کہ بیلٹ پیپروں کو کھرچ کر ان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے۔31 جنوری کو ہائی کورٹ نے مرکز کے زیر انتظام علاقے چنڈی گڑھ کو نوٹس جاری کیا، یکم فروری کو درخواست گزاروں نے چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ پٹیشن میں کہا گیا کہ ’’یہ انتخابی تنازعہ کا معاملہ نہیں ہے بلکہ عوامی عہدے کے غلط استعمال کا معاملہ ہے، جس سے افسر کے ایمانی جوہر کو نقصان پہنچتا ہے اور یہ آئینی طور پر غلط اور عوامی اعتماد کے نظریے کی خلاف ورزی ہے”۔ مقدمہ اتنا گھمبیر تھا کہ ہائی کورٹ کو عبوری حکم جاری کرنا چاہیے تھا۔اس وقت جب معاملہ سپریم کورٹ پہنچا تو چیف جسٹس آف انڈیا چندر چوڑ نے عام آدمی پارٹی کے کونسلر کی طرف سے پیروی کرنے والے سینئر وکیل ابھشیک منو سنگھوی کے ذریعہ دستیاب کرائے گئے سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھنے کے بعد کہا کہ "یہ جمہوریت کا مذاق ہے۔ یہ جمہوریت کا قتل ہے۔ کیا یہ ایک ریٹرننگ افسر کا رویہ ہے جو کیمرے کی طرف دیکھ کر بیلٹ پیپر کو خراب کر رہا ہے؟ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ شخص بیلٹ کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ اس شخص کو سزا دی جانی چاہیے”۔
دوسری جانب ابھی چند دن پہلے بیلگاوی میں کانگریس ورکنگ کمیٹی کے اجلاس کے دوران راہل گاندھی نے مہاراشٹر اسمبلی انتخابات 2024 میں دھاندلی کے سنگین الزامات عائد کیے اور الیکشن کمیشن کی شفافیت پر سوال اٹھایا ہے۔ انہوں نے کہا "مہاراشٹر کی 118 نشستوں پر 72 لاکھ نئے ووٹرز شامل کیے گئے، جن میں سے 102 نشستیں بی جے پی نے جیتیں۔ یہ غیر معمولی ہے اور اس میں دھاندلی کا شبہ ہے”۔ کانگریس رہنما نے مزید کہا "ووٹنگ لسٹ میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی گئیں اور اس کے نتیجے میں بی جے پی کو غیر منصفانہ فائدہ ہوا”۔انہوں نے زور دیا کہ اتنی بڑی تعداد میں ووٹروں کا اضافہ عام بات نہیں ہے اس کی تحقیقات ہونی چاہیے۔ یعنی یہ ووٹرس لسٹ میں داخل خارج کا مسئلہ حالیہ دہلی اسمبلی الیکشن اور عام آدمی پارٹی کے لیڈروں کی جانب سے ہی نہیں اٹھایا گیا ہے بلکہ ملک کی دیگر ریاستوں میں بھی یہ اہم مسئلہ بنتا جا رہا ہے اور اس کے نتائج کا منفی اثر عموماً حزب اختلاف کی سیاسی پارٹیوں کو ہی ہو رہا ہے۔بالفاظ دیگر ووٹر لسٹ میں داخل و خارج کے معاملے میں فائدہ برسر اقتدار جماعت اور اس کی حلیف پارٹیوں کو ہو رہا ہے جب کہ حزب اختلاف اور اس کی اتحادی پارٹیوں کو نقصان بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اس پس منظر میں ایک عام ووٹر کو کیا نتیجہ اخذ کرنا چاہیے؟ اور جس نتیجہ پر بھی وہ پہنچے گا اس سے ملک کے جمہوری نظام میں ہونے انتخابی عمل اور اس پر اعتماد کی بحالی میں کون سی تصویر سامنے آئے گی؟
ہندوستان کے انتخابی عمل میں عموماً اس مسئلہ کو اب تک نظر انداز ہی کیا گیا ہے اور اگر توجہ دی بھی گئی تو نتائج آنے کے بعد۔ جس کے بعد عموماً متعلقہ ریاست کے لیے یہ مسئلہ غیر اہم بن چکا ہوتا ہے۔ لیکن اگر دہلی اسمبلی انتخابات 2025 کی بات کی جائے تو ابھی وقت باقی ہے لہٰذا ہر ووٹر کو خود اس جانب توجہ دینی چاہیے کہ آیا اس کا ووٹ محفوظ ہے یا نہیں اور ووٹنگ کے دن اس کا ووٹ کہیں خارج تو نہیں ہو جائے گا؟ ساتھ ہی اس جانب بھی توجہ دینی چاہیے کہ ووٹر لسٹ میں جن لوگوں کے نام ظاہر ہو رہے ہیں اگر وہ آپ کے پڑوس یا گلی میں رہنے والے ہیں تو وہ طویل عرصے سے وہاں رہائش پذیر ہے یا نہیں؟ اور اگر ان کے ووٹ کہیں سے شفٹ ہوئے ہیں تو اس کی حقیقت کیا ہے؟ اگر عوام، والینٹرس، بوتھ لیول آفیسرز، این جی اوز اور دیگر سرکردہ افراد اس مسئلہ پر توجہ دیں تو ممکن ہے کہ فرضی ووٹروں کے داخل و خارج کے مسئلہ سے کسی حد تک بچا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر اِسے عوامی مہم کا حصہ نہیں بنایا گیا، مقامی لوگ متوجہ نہیں ہوئے اور این جی اوز نے اپنی ذمہ داری ادا نہیں کی تو پھر شکایت اور وہ بھی آخری دن یا الیکشن کے نتائج آنے کے بعد، لا حاصل ہی ہو گی۔
مضمون نگار سے رابطہ: [email protected]

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 26 جنوری تا 01 فروری 2025