دلی اسمبلی انتخابات؛ سیاسی وعدے، عوامی مسائل اور زمینی حقائق ایک تجزیہ

آئندہ پانچ سال: انتخابات سے انتخابات تک عوام کی بنیادی ضروریات کو مد نظر رکھا جائے

0

محمد آصف اقبال، نئی دہلی

رائے دہندگان اپنی رائے کا استعمال سوچ سمجھ کر کریں
چند ہی دنوں بعد 5 فروری 2025 آنے والا ہے جب دہلی اسمبلی کے لیے ووٹنگ ہو گی اور دہلی کے شہری جن سیاسی پارٹیوں کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال کرتے ہوئے انہیں کامیابی و ناکامی سے دوچار کریں گے اس کے نتائج بھی جلد ہی آپ کے سامنے ہوں گے۔ فی الوقت دہلی کے شہریوں کے لیے یہ بات طے کرنا اہم ہے کہ وہ دہلی میں آئندہ پانچ سال میں کون سی فلاحی اسکیموں سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں؟ ان کے پیش نظر عوامی مسائل کیا ہیں اور کس حد تک ان مسائل کا خاتمہ چاہتے ہیں؟ نیز، دہلی جو ملک کا دارالحکومت ہے، اس میں رونما ہونے والے معاملات اور واقعات کے اثرات جس طرح پورا ملک قبول کرتا ہے، اس پس منظر میں وہ کیا مثبت تبدیلیوں کے خواہاں ہیں؟ یہ تمام مسائل اور اس کے پس پردہ عوامی رائے عامہ فی الوقت بہت اہمیت رکھتی ہے۔ اور یہ آخری ایام اسی لیے اہمیت کے حامل ہیں کیوں کہ عموماً انتخابات کے آخری دنوں میں ہی تیزی دیکھنے میں آتی ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ سنجیدہ اور فکر مند، انسانیت نواز اور امن پسند عوام اِن آخری ایام کا بھر پور استعمال کرتے ہوئے رائے عامہ کی ہمواری میں مثبت کردار ادا کریں اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو آمادہ کریں کہ وہ 5 فروری کے دن اپنے ووٹ کا حق ادا کرنے کے لیے پولنگ بوتھ پر جائیں اور ایک مناسب اور عوام دوست حکومت کو تشکیل دینے میں اپنا مثبت کردار ادا کریں ۔
دہلی میں گزشتہ دس سالوں سے عام آدمی پارٹی کی حکومت ہے۔ اس حکومت نے اب تک عوامی فلاح و بہبود کے جو کام انجام دیے ہیں ان میں بجلی کی سپلائی قابل توجہ کام ہے جس سے دہلی کے جملہ عوام نے استفادہ کیا ہے۔200 یونٹ تک مفت بجلی ایک ایسا ایشو ہے جس نے غریب اور متوسط طبقہ کو متاثر کیا ہے۔ دوسری جانب کچھ علاقوں میں پانی کی فراہمی، محلہ کلینک، کچھ ہسپتال جہاں مفت علاج اور دوائیں دستیاب ہیں اور چند اسکول آف ایکسلنس وغیرہ۔ اسی کے ساتھ خواتین کو بسوں میں مفت سفر کی سہولت، معمر افراد کو زیارت کے مقامات پر جانے کی آسانیاں اور چند مزید سہولتیں۔لیکن اب جب کہ 2025 کے انتخابات سامنے ہیں تو کچھ مزید وعدوں کے ساتھ وہ سامنے آئے ہیں مثلاً ہر مہینہ ہر خاتون کو 2100 روپے کی امداد، سبھی معمر افراد کو پرائیوٹ اور سرکاری ہسپتالوں میں مفت اور لامحدود علاج کی سہولت، ہر پجاری کو ماہانہ 18000روپے وظیفہ، طلبہ کو بسوں میں مفت اور میٹرو میں 50 فیصد کرایہ میں چھوٹ اور دہلی میں کرایہ پر رہنے والے افراد کو مفت بجلی فراہم کرنے کا وعدہ، آٹو رکشا چلانے والوں کو دس لاکھ روپے کا لائف انشورنس، پانچ لاکھ روپے ایکسیڈنٹ انشورنس، ہر بیٹی کی شادی کے لیے ایک لاکھ روپے اور یونیفارم کے لیے ڈھائی ہزار روپے، بزرگوں کو اولڈ ایج پنشن، اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے بین الاقوامی یونیورسٹیوں میں داخلہ حاصل کرنے والے دلت طلبہ کے لیے فیس اور قیام وسفر کے اخراجات کا احاطہ وغیرہ۔
دوسری طرف بی جے پی نے بھی دہلی اسمبلی الیکشن کو پیش نظر رکھتے ہوئے وہاں کے عوام سے بہت سارے وعدے کیے ہیں، جیسے مفت بجلی جو پہلے ہی سے عوام کو فراہم ہو رہی ہے، اسے جاری رکھیں گے۔ خواتین کو ہر ماہ ڈھائی ہزار روپے، معمر شہریوں اور غریب خاندانوں کے لیے طبی علاج کے لیے دس لاکھ روپے کا ہیلتھ کور، بزرگ شہریوں کی پنشن دو ہزار روپے سے بڑھا کر ڈھائی ہزار روپے اور 70 سال سے اوپر کے شہریوں کی پنشن ڈھائی ہزار سے بڑھا کر 3000 روپے۔ خواتین کا بسوں میں مفت سفر بدستور جاری رہے گا۔ غریب خواتین کو ایل پی جی سلنڈر پر 500 روپے کی سبسڈی اور ہولی اور دیوالی پر مفت سلنڈروں کی فراہمی۔ ہر حاملہ خاتون کو چھ نیوٹریشن کٹس اور اکیس ہزار روپے اور غریبوں کو صرف پانچ روپے میں غذائیت سے بھرپور کھانے کی فراہمی وغیرہ۔
وہیں کانگریس پارٹی بھی سیاسی بساط پر اپنا کھویا ہوا ووٹر اور اسپیس تلاش کرنے میں بظاہر منظم و سنجیدہ نظر آ رہی ہے اور چونکہ عام آدمی پارٹی سے پہلے کانگریس کی شیلا دکشت نے لگاتار 15 سال دہلی میں بحیثیت چیف منسٹر اپنی ذمہ داریاں انجام دی ہیں۔ دہلی کی فلاح و بہبود، ترقی اور وسعت میں مثبت کردار ادا کیا ہے۔ لہٰذا ایک بار پھر کانگریس اپنی گزشتہ پالیسیوں، ترقی اور فلاح و بہبود کے کاموں کو عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے نئے وعدوں کے ساتھ سامنے آرہی ہے جیسے ہر گھر کے لیے 300 یونٹ مفت بجلی، کم آمدنی والے خاندانوں کی خواتین کو ڈھائی ہزار روپے ماہانہ، تمام رہائشیوں کو 25 لاکھ روپے کا ہیلتھ انشورنس کوریج، مفت راشن کٹس کے ساتھ 500 روپے میں ایل پی جی سلنڈر اور ریاست میں ایک سال کے لیے بے روزگار نوجوانوں کو مقامی صنعتوں میں اپرنٹس شپ فراہم کرنے کے ساتھ 8,500 روپے فراہم کرنا وغیرہ۔
یعنی ہندوستان میں الیکشن کے لمحات اور اس کا مختصر دورانیہ وہ وقت ہے جبکہ ریاست میں سیاسی بساط پر کامیابی حاصل کرنے میں مصروف تمام سیاسی پارٹیاں اپنے وعدوں کی پوٹلیاں کھولتی چلی جاتی ہیں اور عوام للچائی نظروں سے ان کو لپکنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ اسی درمیان کچھ حقائق وشواہد اور نظیریں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کو عوام برت چکے ہوتے ہیں، ان کے منفی اور مثبت اثرات سے متاثر ہوچکے ہوتے ہیں۔ مسائل جو گزشتہ الیکشن کے وقت تھے اور آج جب کہ نئے وعدے کیے جا رہے ہیں، ان میں تقابل کرتے نظر آتے ہیں۔ وہیں مختلف سیاسی جماعتوں اور ان کے نمائندوں سے رابطے، تعلقات، مفادات، نظریات، وابستگیاں جو پہلے سے استوار ہیں، اس کے نتیجہ میں بہت سے لوگ الجھ کر رہ جاتے ہیں۔ یعنی ایک عجیب و غریب ماحول ہوتا ہے جس میں عوام کنفیوژن کا شکار نظر آتے ہیں۔ ظاہر کو دیکھنے والے باطن سے نا بلد، موجود ہی کو سب کچھ سمجھتے ہوئے فیصلہ کرتے ہیں اور مختلف سیاسی جماعتوں میں سے کسی ایک سیاسی جماعت کے حق میں اپنا ووٹ کا استعمال کرتے ہیں۔ عوامی نمائندوں کی اکثریت ناکامی سے دوچار ہوتی ہے اور ہر مقام سے کوئی ایک نمائندہ کامیاب ہو جاتا ہے۔ کنفیوژڈ عوام کے کنفیوژن سے بھرپور فیصلے کے نتیجے میں ڈھول تاشوں، مٹھائیوں اور جلوس کے ساتھ عوامی نمائندے اپنی کامیابی کے جوش وخروش میں چہار جانب دیکھنے کو ملتے ہیں۔ کچھ وقفہ بعد یک طرفہ یا جوڑ توڑ سے سیاسی پارٹیاں حکومت تشکیل دیتی ہیں اور اس طرح ملک کا جمہوری نظام رواں دواں رہتا ہے۔ عوام بھی خوش اور جمہور کے نمائندے بھی خوش کہ ہندوستان میں عوام کے ذریعہ، عوام کی پسند کی جمہوری اقدار پر مبنی حکومتیں تشکیل دی جاتی ہیں۔ بر خلاف اس کے واقعہ یہ ہے کہ کبھی 60 فیصد تو کبھی 55 فیصد عوام نے جن نمائندوں اور سیاسی پارٹیوں کے خلاف ووٹنگ کی تھی لیکن چونکہ وہ ووٹنگ متحد اور ایک طرفہ نہیں تھی اس لیے 40 فیصد اور 45 فیصد ووٹ حاصل کرنے والی سیاسی پارٹیاں اور عوامی نمائندے کامیابی سے ہم کنار ہوتے ہیں اور عوام کی نمائندگی کا دم بھرتے ہیں۔
ان حالات میں اور دہلی اسمبلی الیکشن 2025 کو سامنے رکھتے ہوئے ووٹ کے حق کو استعمال کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ وعدے، دعوے، اسکیموں کے اعلانات، بیانوں کی ترنگوں میں الجھے بغیر، ریلیوں و جلسوں کے شور شرابے اور پرانی و نئی وابستگیوں میں مدہوش ہوئے بغیر چند اہم نکات کی جانب توجہ دیتے ہوئے خود بھی مناسب رائے قائم کریں اور عوامی رائے عامہ کو بھی مثبت رخ دینے کی کوشش کریں۔ اس میں پہلی اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ دہلی جو ملک کا دارالحکومت ہے اس میں دو حکومتیں اپنا نظام چلا رہی ہیں۔ایک مرکزی حکومت تو دوسری ریاستی حکومت۔ اس پس منظر میں دیکھنا یہ چاہیے کہ گزشتہ دس سال جب کہ مرکز میں بی جے پی کی حکومت موجود ہے اس نے دہلی میں لا اینڈ آرڈر سے متعلق پیدا ہونے والے واقعات اور مسائل کا کیا حل پیش کیا ہے؟ دوسری جانب دیگر وہ امور ہیں جن میں مرکز اور ریاست دونوں شامل ہیں، اس میں مرکزی حکومت نے دہلی اور دہلی کے عوام کے لیے کون سے فلاح و بہود کے اقدامات اٹھائے ہیں؟ جیسے ایڈمنسٹریٹیو سروسس، آئی اے ایس، آئی پی ایس، آئی ایف ایس سے متعلق انتظامی امور، بیوروکریسی یا نوکر شاہی کو کنٹرول کرنے جیسے مسائل کا حل اور اس کی روشنی میں دہلی کے عوامی مسائل کا حل۔ چونکہ دہلی حکومت ان آفیسروں کو ٹرانفسر نہیں کر سکتی، ان کی خدمات کو حاصل نہیں کر سکتی، نتیجے میں مسائل برقرار ہیں۔ وہیں پبلک آرڈر، پولیس اور زمین کے معاملات راست مرکزی حکومت کے زیر نگرانی ہیں، اس سلسلے میں عوامی مسائل کے حل کے لیے کیا اقدامات اٹھائے گئے ہیں؟ غالباً یہی وجہ ہے کہ ابھی چند دن پہلے اروند کیجریوال نے مرکزی حکومت سے درخواست کی تھی کہ وہ غریب اور معاشی طور پر کمزور صفائی کرمچاریوں کو زمین الاٹ کرے، ہم انہیں رقم فراہم کریں گے اور ان کے گھر کے خواب کو پورا کریں گے اور ان کا گھر بنوائیں گے تاکہ یہ لوگ بھی ریٹائرمنٹ کے بعد ایک چھت کے نیچے اپنی زندگی گزار سکیں۔ یہ اور اس طرح کے دیگر مسائل کے حل میں مرکزی حکومت اور ریاستی حکومت دونوں نے کیا وعدے، دعوے، اسکیمیں، اسکیمیوں کی منظوری اور اقدامات کیے ہیں؟ اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
دوسرا اہم مسئلہ تعلیم کا ہے۔ دہلی کی آبای تین کروڑ سے زائد ہے۔ اگرچہ دہلی حکومت کے ذریعہ اسکول آف ایکسلنس کے بہت چرچے ہیں۔ بر خلاف اس کے دہلی حکومت کے سروے سے معلوم ہوتا ہے کہ 6 تا 17 سال کی عمر کے 2,21,694 بچے (کل کا 9.76 فیصد) اسکول سے باہر ہیں۔ ان میں سے 1,31,584 نے مختلف وجوہات کی بنا پر تعلیم چھوڑ دی اور 90,110 بچے کبھی اسکول ہی نہیں گئے۔ یہ اعداد و شمار سروے پر مبنی ہیں جو دہلی کے مختلف سماجی و اقتصادی اشاریہ کو سمجھنے کے لیے ہیں۔ اس سروے میں 1.02 کروڑ آبادی کا احاطہ کیا گیا تھا۔ یعنی تعلیم کا مسئلہ کل 6 اسکول آف ایکسلنس سے حل ہونے والا نہیں ہے۔اور یہ 6 اسکول آف ایکسلنس بھی ان علاقوں میں ہیں جہاں پہلے سے کافی بہتر اسکول موجود ہیں۔ جیسے کھچڑی پور، روہنی سیکٹر17، کالکاجی، کھادر اور دوارکا۔ لہٰذا یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ تعلیم کے مسئلہ کو جس طرح عام آدمی پارٹی کے لیڈروں نے کیش کرنے کی کوشش ہے، وہ ضرورت کے اعتبار سے بالکل بھی کافی نہیں ہے۔ وہیں اگر پچھڑے، دلت، مسلم علاقوں اور سلم بستیوں کے آس پاس کی بات کریں تو آپ کو ان علاقوں میں اسکول آف ایکسلنس کا نام و نشان تک نہیں ملے گا۔ شاہین باغ اور اس کے اطراف کا علاقہ جسے جامعہ نگر کے نام سے جانا جاتا ہے، ملک میں مسلمانوں کا ایک اہم ترین علاقہ شمار ہوتا ہے، گزشتہ دس سالوں سے عام آدمی پارٹی کا ایم ایل اے یہاں موجود ہے لیکن کوئی ایک بھی اسکول آف ایکسلنس نہیں ہے۔ اسی طرح صحت کے مسائل پر بات کی جائے تو یہاں بھی عام آدمی پارٹی کی حکومت نے مفت علاج، مفت دوائیاں، شان دار ہسپتال اور محلہ کلینک کے نام پر خوب شہرت حاصل کی لیکن واقعہ یہ ہے کہ محلہ کلینک دہلی کے تمام محلوں میں نہیں ہے اور نہ ہی مفت دوا اور مف علاج والے ہسپتال۔ بر خلاف اس کے متذکرہ سروے کی روشنی میں شہر کی کل آبادی کا تقریباً 2.60 فیصد کسی نہ کسی قسم کی دائمی مرض میں مبتلا ہے۔ اعداد و شمار میں 36.33 فیصد آبادی کو ذیابیطس (جس میں صرف 43.34 فیصد وسطی ضلع میں مریض موجود ہیں) تو 21.75 فیصد آبادی کو دل کی بیماریاں لاحق ہیں جس میں ہائی بلڈ پریشر اور خون کی گردش کی بیماری میں لوگ مبتلا ہیں۔ وہیں 9.17 فیصد آبادی کو سانس کی بیماریاں ہیں۔ اسی طرح وزارت صحت کی طرف سے فراہم کردہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ دہلی میں 2020 میں کینسر سے 14,057 اموات ہوئیں۔ 2021 میں 14,494 اور 2022 میں 14,917 اموات ہوئیں۔ فی سال 400 تا 450 لوگوں کی بڑھوتری کے ساتھ کینسر جیسے موذی مرض میں شہر دہلی کے عوام کی اموات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
ایک تازہ ترین سروے سے پتا چلا ہے کہ دہلی-این سی آر میں دس میں سے چار خاندانوں نے پچھلے تین ہفتوں میں آلودگی سے متعلق صحت کی بیماری کے لیے کسی نہ کسی ڈاکٹر یا ہسپتال سے رجوع کیا ہے۔ سروے میں جواب دہندگان میں سے تقریباً نصف خاندانوں نے کہا کہ انہوں نے اسی عرصے میں آلودگی سے متعلق بیماریوں کے لیے ایک یا زیادہ دوائیں یا آلات خریدے ہیں۔ مختصر الفاظ میں کہا جائے تو دہلی نہ صرف جرائم بلکہ بیماریوں کا بھی ہب بنتا جا رہا ہے۔ اور اس کی ایک وجہ حد سے زیادہ بڑھتا پولیوشن ہے تو دوسری جانب معاشی، ذہنی، جسمانی، نفسیاتی، خاندانی اور صحت عامہ کے مسائل ہیں، ساتھ ہی چُرمُراتا اور لڑائی جھگڑوں میں الجھا ہوا مرکز ی و ریاستی حکومتوں کا نظام۔ان حالات میں لازمی ہو جاتا ہے کہ آئندہ پانچ سال کے لیے منتخب کی جانے والی حکومت کے رویوں، معاملات اور کاموں کو پیش نظر رکھا جائے ساتھ ہی یہ بھی دیکھا جائے کہ وہ کس قدر عوام دوست اور امن پسند ہیں۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 02 فروری تا 08 فروری 2025