دلی اسمبلی انتخابات ؛ مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان ووٹوں کی لڑائی اور عوامی جوش

مسلم ووٹ بینک،پوروانچلی،ووٹ کٹواجیسے معاملات کے دوران غائب ہوتے عوامی مسائل

0

محمد آصف اقبال، نئی دہلی

دلی میں موجود اوکھلا اور مصطفیٰ آباد کے اسمبلی حلقوں کے عوام کی رائے دہی پر ملک بھر کی نظریں
دلی اسمبلی انتخابات2025 کی انتخابی مہمات میں تین ’میم ‘پر کافی بحث و مباحثہ ہوا،جن میں مہیلا،مسلمان اور مڈل کلاس زیر بحث رہے۔یعنی یہ تین میم دلی اسمبلی انتخابات میں تین بڑی سیاسی پارٹیوں ،عام آدمی پارٹی،کانگریس اور بی جے پی کےلیےمرکزِ توجہ بنے رہے۔کوشش اس بات کی کی گئی کہ خواتین،مڈل کلاس اور مسلمانوں کے ووٹ کو یا تو کسی مخصوص پارٹی کے حق میں یکجا کردیا جائےیا کوئی ایسا لائحہ عمل تیار کیا جائےجس کے نتیجہ میں ان کو تقسیم کرتے ہوئے کامیابی حاصل کی جائے ۔لیکن اسمبلی انتخابات کے آخری ایام میں ایسا لگ رہا تھا کہ زیادہ زور مسلم ووٹرس کو کہیں متحد تو کہیں منتشر کرنے پر لگانے کی کوششیں کی گئیں ۔خصوصاً ان اسمبلی حلقوں میں جہاں مسلمانوں کے ووٹ اہمیت رکھتے ہیں ۔ دلی میں سات اسمبلی سیٹیں ایسی ہیں جہاں 30سے 60فیصد مسلم ووٹرس موجود ہیں۔ ان میں مٹیا محل 60فیصد،سیلم پور 57فیصد،اوکھلا 53فیصد،بلی ماران 50فیصد،بابرپور 41.10فیصد،مصطفیٰ آباد 40فیصد اورچاندنی چوک میں 30فیصد آبادی ہے۔وہیں چار ایسی اسمبلی سیٹیں ہیں جہاں 19سے25فیصد مسلم ووٹرس موجود ہیں،ان میں کراول نگر 19فیصد،سنگم وہار 22.7فیصد،سیماپوریSC 23.40فیصداور گاندھی نگر میں25فیصد مسلم آبادی ہے۔اس کے علاوہ 16اسمبلی حلقے ایسےہیں جہاں 10سے12فیصد مسلمان ہیں۔ دیکھا جائے تو 7اسمبلی حلقے یکطرفہ مسلم ووٹوں پر منحصر ہیں،اگر ان مقامات پر مسلمان اپنا ووٹ کسی ایک سیاسی جماعت کے حق میں کاسٹ کردیں تو اس کی کامیابی یقینی ہے۔ان سات سیٹوں پر2008سے 2020تک یا تو کانگریس یا پھر عام آدمی پارٹی کامیاب ہوتے آئے ہیں،سوائے بابرپورجہاں 2008اور2013میں بی جے پی کو کامیابی حاصل ہوئی اور2015اور2020میں عام آدمی پارٹی کو کامیابی ملی۔وہیں مصطفیٰ آباد سیٹ پر صرف 2015میں بی جے پی کو کامیابی حاصل ہوئی تھی،اس سے پہلے 2008اور2013میں کانگریس تو 2015اور2020میں عام آدمی پارٹی کامیاب ہوئی۔ان سات اسمبلی سیٹوں کے علاوہ 4 اسمبلی حلقے ایسے بھی ہیں جہاں 19سے25فیصدمسلم آبادی ہے ،اگر یہاں بھی یکطرفہ ووٹ کاسٹ ہوجائےتونتیجہ میں مسلمان جس جانب فیصلہ کریں گے وہی کامیاب ہوسکتا ہے۔نیز 16اسمبلی حلقے ایسے ہیں جہاں مسلمان 10سے12فیصد موجود ہیں۔
لیکن حالیہ انتخابات میں مسلم آبادی کے تناسب اور ووٹ کی حیثیت کے پیش نظر دو اسمبلی حلقے سب سے زیادہ گفتگو کا موضوع بنے رہے جو اوکھلا اورمصطفیٰ آباد کے حلقے ہیں،ان میں بھی ایک واحد سیٹ اوکھلا ایسی انتخابی سیٹ بن گئی ہے جس پر نہ صرف ملی ،ملکی بلکہ عالمی میڈیا ،عوام و خواص،سبھی کی نگاہیں مرکوز ہیں۔درحقیقت یہ ایم آئی ایم کی سیاست ہے جس نے ملک کے کئی مسلم اکثریتی علاقوں،اسمبلیوں اور پارلیمنٹ کی نشتوں کو نہ صرف عوام کے درمیان بلکہ میڈیا میں بھی موضوع بحث بنادیا ہے۔اور اسی نے اوکھلا کی سیٹ کو بھی ہاٹ سیٹ بنادیا ہے۔اوکھلا اسمبلی حلقہ میں امانت اللہ خان عام آدمی پارٹی کا مسلم چہرہ اور آج کل میڈیا کی ٹی آر پی کی ڈیمانڈ ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ بی بی سی نے بھی اس سیٹ کا نوٹس لیتے ہوئے اپنا جائزہ پیش کیا ہے ۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ اوکھلا اسمبلی سیٹ کی کیا حیثیت ہے۔یہ وہی سیٹ ہے جہاں مسلمانان ہند کی مسلم جماعتوں کے ہیڈ کوارٹرس موجود ہیں۔جامعہ ملیہ اسلامیہ جیسی عظیم الشان یونیورسٹی موجود ہےاور اسی جامعہ ملیہ اسلامیہ سے متاثرہونے والی تحریکِ شاہین باغ موجود ہے۔سی اے اے اور این آر سی کے موقع پر اس تحریک شاہین باغ نے نہ صرف دلی میں دسیوں شاہین باغ قائم کردیے تھے بلکہ پورے ملک میں بے شمار شاہین باغ قائم ہوگئے تھے۔یہی وجہ ہے کہ پورا ملک اوکھلا سیٹ کے فیصلہ کو دیکھنا چاہتا ہے۔یہاں تک کہ بی جے پی اور اس کے نمائندے کےاوکھلا حلقہ سے کامیاب ہونے کی خواہش نے اس مقابلے میں حد سے زیادہ اضافہ کردیا ہے۔ بی جے پی کو امید ہے کہ کانگریس کی اریبہ خان، عام آدمی پارٹی کے امانت اللہ خان اور ایم آئی ایم کے شفاء الرحمنٰ کے درمیان ووٹوں کی تقسیم اسے فائدہ پہنچائے گی نتیجہ میں کامیابی ملے گی۔اس موقع پر یہ جاننا بھی اہم ہے کہ اوکھلا اسمبلی حلقہ میں کالندی کالونی،تیمور نگر،خضرآباد،نیوفرینڈ کالونی،مسیح گڑھ،ذاکر نگر،جوگابائی،بٹلہ ہاؤس،عظیم ڈیری،غفور نگر،حاجی کالونی،اوکھلا گاؤں،نورنگر،نئی بستی،ابوالفضل انکلیو ،شاہین باغ، غفار منزل،مجیب باغ،اوکھلا وہار،جسولاگاؤں،جسولاوہار،سریتا وہار،مدن پور کھادر،عالی گاؤں اورعالی وہارجیسی کالونیاں شامل ہیں۔ان میں 53فیصد مسلمان اور 47فیصد آبادی برادران وطن پر محیط ہے۔یعنی اگر اوکھلا میں مسلمانوں کے ووٹ تین بڑی سیاسی پارٹیوں کے درمیان تقسیم ہوجاتے ہیں،تو اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ 47فیصد ووٹ اپنی کرامات دکھاتے ہوئے گزشتہ 30-40سال کے نتائج کو پلٹ سکتے ہیں اور بی جے پی کے حق میں فیصلہ کرسکتے ہیں۔ اس بات میں اس لیے بھی وزن بڑھ جاتا ہے کہ اِسی اوکھلا اسمبلی حلقہ سے گزشتہ 2020کے انتخابات میں بی جے ڈی کے برہم سنگھ نے تقریباً59 ہزارووٹ حاصل کیے تھے اوردوسرے نمبر پر رہے تھے۔
دوسری جانب دلی کی مصطفیٰ آباد اسمبلی سیٹ بھی عوامی گفتگو اور میڈیا میں توجہ کا مرکز بنی رہی کیونکہ یہ وہ علاقہ ہے جہاں سےسال 2020میں عام آدمی پارٹی کے امید وار حاجی یونس کامیاب ہوئے تھے۔اور 2020میں فرقہ وارانہ فسادات کا مرکز بھی یہی علاقہ تھا ۔فسادات کے بعد طاہر حسین پر الزام لگایا گیا کہ تھا کہ انہوں نے فسادات کو بھڑکانے میں اہم کردارادا کیاہے،بعد میں گرفتاری عمل میں آئی ، مقدمہ چلا اور آج کل وہ جیل سے باہر ہیں اور ایم آئی ایم کے امیدوار کی حیثیت سے الیکشن میں سرگرم عمل ہیں۔اسی مصطفیٰ آباد کے لوگوں کا خیال ہے کہ طاہر حسین کےاسمبلی الیکشن میں حصہ لینے سے مسلم ووٹ تقسیم ہوں گے جب کہ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے طاہر کا کہنا ہے کہ "جب بھی کوئی شخص دلتوں، مسلمانوں، محروم اور پسماندہ لوگوں کے حقوق کا مسئلہ اٹھاتا ہے تو اس پر ووٹ کاٹنے کا الزام لگایا جاتا ہے”۔ وہ کہتے ہیں، "اگر ہماری پارٹی ووٹ کاٹ رہی ہے، تو کانگریس اور عآپ نے آپس میں سمجھوتہ کیوں نہیں کیا؟ دوسری جانب عوام کا رجحان بھی کچھ ایسا ہی لگ رہا ہے۔ ایک مقامی خاتون فہمیدہ کہتی ہیں کہ ’’وہ (طاہر)بہت اچھے ہیں، لیکن خواتین صرف اس پارٹی کو سپورٹ کریں گی جو انہیں سہولیات فراہم کرے گی۔‘‘ جان محمد خود کو اویسی کا پرستار کہتے ہیں، لیکن طاہر کے بارے میں ان کی رائے مختلف ہے۔ایک نالے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’یہ وہی نالہ ہے جس میں دلی فسادات کے دوران فسادیوں نے لوگوں کو قتل کر کے پھینک دیا تھا اور بعد میں ان کی لاشیں ملی تھیں۔محمد کہتے ہیں، "ہمارے اندر فسادات کی یاد ابھی بھی تازہ ہے، لیکن ہمیں ڈر ہے کہ اگر ہم پتنگ (طاہر) کو ووٹ دیتے ہیں تو عام آدمی پارٹی ہار جائے گی، جس کا براہ راست فائدہ بی جے پی کو پہنچے گا۔ ہم اپنے ووٹ ضائع نہیں کرنا چاہتے”۔ ایک اورمقامی رہائشی گل محمد کا کہنا ہے کہ ’لوگ طاہر سے ہمدردی تو رکھتے ہیں لیکن انہیں ووٹ نہیں دیں گے ۔سب جانتے ہیں کہ یہ سیٹ صرف مسلمانوں کے زور پر نہیں جیتی جا سکتی۔ ہندوؤں کے ووٹوں کی بھی ضرورت ہے اور ہندو، طاہر کو ووٹ نہیں دیں گے۔‘
یعنی دلی اسمبلی الیکشن 2025میں دو بڑے علاقے ایم آئی ایم اور تین یا تین سے زائد پارٹیوں، ان کے ووٹ بینک اور ہندو -مسلم ایشوز سے متاثر رہے۔جہاں ایک علاقہ دلی فسادات کی بُری یادوں کے ساتھ موجود ہےلیکن ووٹ کو تقسیم ہونے سے روکنا چاہتا ہےوہیں دوسری جانب اوکھلا اسمبلی حلقہ جہاں سی اے اے،این آرسی،جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ کے ساتھ نارواسلوک،زیادتیاں،احتجاجات اور شاہین باغ کے نام سے پورے ملک کو متاثر کرنے والی تحریک اور اس کی یادیں تازہ ہیں۔یہاں بھی ووٹوں کی تقسیم کے امکانات ہیں،عوام میں عام آدمی پارٹی،کانگریس اور ایم آئی ایم کے امیدواروں کے حق میں بڑی حد تک رائے محسوس کی جاسکتی ہے۔لیکن یہاں مصطفیٰ آباد جیسے حالات نہیں ہیں۔یہاں بی جے پی کے امیدوار کے کامیاب ہونے کا وہ خوف اور ڈرنہیں جھلکتا،جس قدر کہ مصطفیٰ آباد علاقہ میں نظر آرہا ہے۔اب امید یہی ہے کہ جب انتخابات کے نتائج سامنے آئیں تو اس میں فرقہ پرست کامیاب نہ ہوسکیں اور مسلمانوں کے اس علاقہ کا کسی حد تک بھرم بھی باقی رہے کہ جامعہ نگر یا اوکھلا کی عوام دلی میں موجود مسلم علاقوں کی تقسیم کے لحاظ سے سب سے زیادہ پڑھے لکھے،سمجھدار،سنجیدہ،حالات سے واقفیت رکھنے والے،ملک اور ملت کی نبض شناس ہیں۔ اس موقع پر ایک اور نکتہ کی جانب توجہ مبذول کرانا اہم معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح 2014سے بی جے پی نے مسلم ووٹروں سے لاتعلقی کا اظہار کیا اور انتخابات میں کامیابی حاصل کی،کچھ اسی طرح دلی میں عام آدمی پارٹی کے اروند کیجروال نے بھی مسلم ووٹروں سے لاتعلقی کا اظہارکیا ہے۔کیونکہ جس طرح مسلم ووٹروں کے تعلق سے نریندر مودی حکومت سمجھتی ہے کہ مسلمان ان کے کرتوتوں کی وجہ سے اسے ووٹ نہیں دیتے اور نہ ہی دیں گے وہیں دوسری جانب عام آدمی پارٹی کے طرز عمل سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ وہ مسلم ووٹروں کو مجبورسمجھتی ہے۔وہ سمجھتی ہے کہ مسلمان لازماً عام آدمی پارٹی کو ہی ووٹ کریں گے،اور اگر ایسا نہیں کریں گے تو بی جے پی کا نمائندہ کامیاب ہوجائے گا۔یہی وجہ ہے کہ دلی اسمبلی الیکشن کا آغاز کانگریس نے جہاں نارتھ ایسٹ دلی کی ریلی سے کیا وہیں اوکھلا اسمبلی حلقہ میں راہل گاندھی آئے اور لوگوں کو خطاب کیا۔برخلاف اس کے بی جے پی یا عام آدمی پارٹی کے لیڈروں میں سے کوئی بڑا لیڈر نہ لوک سبھا انتخابات کے دوران اور نہ ہی اس الیکشن میں اوکھلا آیا ۔
دلی اسمبلی انتخابات 2025میں ایک اور اہم مسئلہ پوروانچلی ووٹر کا بنا ہوا ہے۔بتادیں کہ پوروانچل شمالی ہندوستان کا ایک علاقہ ہے جو صوبہ اتر پردیش کے مشرقی کنارے پر واقع ہے۔اس کی سرحدیں شمال میں نیپال، مشرق میں بہار ،جنوب میں مدھیہ پردیش کے باگھالکھنڈ اور مغرب میں اتر پردیش کے علاقہ اودھ اور جنوب مغرب میں نچلے دو آبہ،کانپور،فتح پور،الٰہ آباد سے ملتی ہیں۔ایک عرصہ سے صوبہ اترپردیش کے اضلاع میں سے 17 کو علیحدہ کرکے پوروانچل کے نام سے ایک الگ صوبہ بنانے کا مطالبہ ہوتا رہا ہے۔ اس وقت خطہ پوروانچل سے لوک سبھا میں 30 ممبر پارلیمینٹ اور اترپردیش کی 403 سیٹوں والی ریاستی اسمبلی میں 117 ممبر ہیں۔شمال مشرقی دلی اور مغربی دلی کے حلقے جن میں پوروانچلی ووٹروں کی کافی تعداد ہے، یہاں ایک جانب بی جے پی کے منوج تیواری لوگوں کی پسند ہیں تووہیں بابرپور، سیلم پور اور مصطفی آباد جیسے علاقے، جن میں زیادہ تر مسلم اکثریت ہے، وہاں کے لوگوں کا جھکاؤ اروند کیجریوال کی زیر قیادت عام آدمی پارٹی کی طرف ہے۔مغربی دلی حلقہ میں عام آدمی پارٹی نے ہری نگر، تلک نگر، راجوری گارڈن اور جنک پوری میں سکھ آبادی کو مدنظر رکھتے ہوئے سابق صحافی جرنیل سنگھ کو میدان میں اتارا ہے۔تو وہیں کانگریس کے موجودہ رکن اسمبلی مہابل مشرا، جو خود ایک مہاجر ہیں، وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ پوروانچلی ووٹروں کی مدد کریں گے۔ یعنی پوروانچل اور پوروانچلی افراد پر توجہ دینا دلی کی سیاست کا ایک اہم جز ہے۔اسی کو پیش نظر رکھتے ہوئے دلی میں کانگریس کی پریس کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے اجے رائے نے کہا ہے کہ ہم پوروانچل کے لوگوں کے مفادات کے پیش نظر دلی میں ایک الگ وزرات بنائیں گے اور ان کے لیے ذیلی منصوبے لائیں گے۔پوروانچل کے لوگوں کی صحت،تعلیم،معاشی ترقی اور طرز زندگی کو اوسط سے بہتر بنانے کے لیے علیحدہ بجٹ مختص کریں گے۔یعنی وہ علاقہ جہاں پروانچلی اپنی مخصوص شناخت کے ساتھ بستے ہیں،جہاں ہندواورمسلم کے نام پر ووٹ تقسیم نہیں کیا جاسکتا،وہاں پوروانچلی کا موضوع گرم ہے۔یہی وجہ ہے کہ کانگریس اور عام آدمی پارٹی کا الزام ہے کہ بی جے پی کے لیڈرپوروانچلیوں کا موازنہ روہنگیا،بنگلہ دیشی اور پارلیمنٹ میں گھنسے والوں سے کرتے ہیں،اور جعلی ووٹ بنوانے والوں کے ساتھ ان کو جوڑ ا جارہا ہے۔اس کے باوجود بی جے پی نے عام آدمی پارٹی کےخلاف مظاہرے کیے اور پوروانچل کے لوگوں نے اروند کیجروال کے خلاف احتجاج کیا۔یہ صورتحال بھی انتہائی عجیب و غریب ہے۔
دلی اسمبلی انتخابات کے اس پس منظر میں دلی کے تمام سنجیدہ اور صاحب بصیرت افراد،گروہوں،سوشل ایکٹوسٹوں،سماجی ایکٹوسٹوں،علماء کرام،دانشواران قوم و ملت،صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ تمام مذاہب اور تمام طبقات کی نمائندگی کرنے والوں کی ذمہ داری تھی کہ وہ ووٹوں کو تقسیم ہونے سے بچانے کی ہرممکن کوشش کرتے۔ 5فروری کے دن زیادہ سے زیادہ ووٹ کاسٹ کرنے کی کوشش تو کی گئی تاکہ دلی میں ایک ایسی حکومت تشکیل پائے جس کے نتیجہ میں ملک میں جاری ظلم و استحصال اور مہنگائی اور بے روزگاری کو ختم کیاجاسکے،نفرت کی سیاست کودھچکا لگے اور امن و مان اور محبت کی فضا کو پروان چڑھانا ممکن ہو۔اب انتظار نتائج کا ہے ،دیکھنا یہ ہے کہ عوام کی کوششیں کہاں تک کامیاب ہوئیں اور کون اگلے پانچ سالوں تک ملک کے دارالحکومت پر حکومت کرے گا اور دلی کا مستقبل کیا ہونے والا ہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 09 فروری تا 15 فروری 2025