![](https://dawatnews.net/wp-content/uploads/2025/02/20250216-3.jpg)
دلی اسمبلی انتخابات،مسائل برقرار، خدشات میں اضافہ
ووٹوں کی تقسیم کا راست فائدہ:دلی میں بی جے پی 27 سال بعد حکومت سازی میں کامیاب
محمد آصف اقبال، نئی دہلی
انتخابات میں آر ایس ایس کانمایاں کردار: سیاست میں نظریاتی تنظیم کی مداخلت
ڈبل انجن سرکار سے دلی کے عوام کی بڑھتی توقعات، کیا فری بیز کا خاتمہ ہوگا؟
دہلی میں بی جے پی کو اپنا وزیر اعلیٰ بنانے اور حکومت تشکیل دینےمیں کامیابی حاصل ہوگئی ہے۔یہ کامیابی کئی حیثیتوں سے قابل توجہ ہے۔اس کامیابی کے پس منظر میں جہاں کئی اہم وجوہات کارفرماہیں وہیں بی جے پی کی سب سے بڑی اور اہم حسرت بھی آخر کارپوری ہوئی۔کیونکہ اس کے بڑے لیڈر جن میں وزیر اعظم مودی ،امت شاہ اور پارٹی صدر نڈا سب کی خواہش تھی کہ جس طرح 2014کے بعد ملکی سطح پر اور مختلف ریاستوں میں وہ کامیاب ہوئے ہیں،ٹھیک اسی طرح دہلی میں بھی کامیابی حاصل ہوتاکہ جو بیانیہ ملک میں نریندر مودی کی قیادت میں سیٹ کیا گیا ہےکہ "مودی ہے تو ممکن ہے”وہ دہلی میں بھی قائم ہوجائے اور آخر کارایک ماہ پر مشتمل الیکشن کیمپین کے بعد وہ خوشی حاصل ہوگئی جس کی امید میں وہ گزشتہ 27سال سے بےقرار تھے۔اس درمیان عام آدمی پارٹی کی 10سالہ حکومت سے پہلے لگاتار15سالہ کانگریس کی حکومت اور اس کو ہٹانے کے لیے سوراج آندولن کاآغازجو ماہرین کے مطابق اِسی امید پے کھڑا کیا گیا تھا کہ بی جے پی کو دہلی میں حکومت بنانے میں مددگار ثابت ہوگی۔لیکن اِسی درمیان ایک نئی سیاسی پارٹی کی تشک یل نے ان کے خواب کو چکناچور کردیا۔لیکن آج جبکہ شاید بہت دیر ہوگئی اس کے باوجود بی جے پی کو دہلی میں حکومت سازی سے اب کوئی نہیں روک سکتا۔وہیں یہ حقیقت بھی ہے کہ17مارچ1952سے لے کر آج تک دہلی میں بی جے پی کو صرف 2 دسمبر1993 تا3دسمبر1998کی مدت،یعنی صرف 5سال اور2دن ہی حکومت چلانے کا موقع ملا ہے،اور اس دوران ایک دو نہیں بلکہ تین تین وزراء اعلیٰ، مدن لال کھرانہ،صاحب سنگھ ورما اور سشماسوراج نے دہلی میں بحیثیت وزیر اعلیٰ عہدہ سنبھالاتھا۔بالفاظ دیگر بی جے پی کو جو اب تک دہلی اوراس کے شہری نظر انداز کرتے آئے ہیں 2025کے اسمبلی الیکشن میں عام آدمی پارٹی اور کانگریس کے درمیان ووٹوں کی تقسیم کے نتیجہ میں راست فائدہ اور تقویت حاصل ہوئی۔
اس موقع پر یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ عام طور پر یہ بات عوامی بیانیہ میں لائی گئی ہے کہ آر ایس ایس ثقافتی اور فلاح و بہبودکی تنظیم ہے جس کا سیاسی نظام سے راست کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ ہاں یہ بات درست ہے کہ آرایس ایس ایک نظریاتی تحریک ہے جس نے بے شمار ذیلی تنظیمیں قائم کی ہیں اور ان ذیلی تنظیموں کے ذریعہ وہ عوامی رائے عامہ کی ہمواری اور اپنے مخصوص مقصد و نصب العین کے لیے ہمیشہ سرگرم عمل رہتی ہے۔ لیکن دہلی اسمبلی الیکشن نے اس مفروضہ کو بھی ٹھیس پہنچائی ہے بلکہ ختم کیا ہے۔ سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ آر ایس ایس نے بی جے پی کی 27 سال کی طویل سیاسی جلاوطنی کے خاتمہ کے لیے دہلی میں تقریباً 50,000 ’ڈرائنگ روم میٹنگز‘ کا اہتمام کیا۔ یعنی سیاسی میدان میں وہ کھل کر سامنے آئے،حکومت تشکیل دینے اور سیاست میں سرگرم کردار ادا کیا۔ رپورٹ کے مطابق آر ایس ایس کے ایک سینئر کارکن نے کہا کہ میرے محکمے میں سنگھ کے رضاکاروں نے تقریباً 2000 ڈرائنگ روم میٹنگوں کا اہتمام کیا ۔ جبکہ دیگر وابستہ تنظیموں جیسے بھارتیہ مزدور سنگھ، سیوا بھارتی، وشو ہندو پریشد، آل انڈیا ایجوکیشنل فیڈریشن، ہندو جاگرن منچ اور دیگر اکائیوں کے کارکنوں کی طرف سے تقریباً 4550 میٹنگیں منعقد کی گئیں۔اسی طرح شہر بھر میں منعقد ہونے والی ان 50000 ڈرائنگ روم میٹنگوں میں 4 لاکھ سے زیادہ لوگوں نے شرکت کی۔ ان میٹنگوں کے دوران، آر ایس ایس نے اپنے ’پنچ تبدیلی‘ (پانچ تبدیلیوں) پر زور دیا اور قومی مفاد میں بی جے پی کے امیدواروں کو ووٹ دینے کی اپیل کی۔ ان میٹنگوں میں ماحولیاتی آلودگی، خاندانی اقدار، بدعنوانی، سماجی ہم آہنگی اور سودیشی پر گفتگو ہوئی۔ آر ایس ایس نے دارالحکومت دلی میں نچلی سطح کے کارکنوں کا نیٹ ورک تعینات کیا۔ چھوٹی گروپ میٹنگوں کے علاوہ سنگھ نے حکمت عملی سے دہلی کو 30 تنظیمی اضلاع میں تقسیم کیا۔ ایک ہی وقت میں انہوں نے 1123 مقامات پر مضبوطی کے ساتھ اپنی موجودگی کا اظہار کیا جسے وہ ’سروس سیٹلمنٹس‘ کہتے ہیں۔ یہ ’سیوا بستیاں‘ سنگھ کے سماجی کام کے مراکز ہیں، جہاں اس سے وابستہ کئی تنظیمیں غریب اور معاشی طور پر کمزور طبقات کے درمیان کام کرتی ہیں۔ ان میں کئی دیگر ہندوستانی سروس تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ سنگھ نے ان علاقوں میں مضبوط مداخلت کی ہے اور مقامی باشندوں کے ساتھ سرگرمی سے رابطہ قائم کیا۔ وہیں دہلی کے علاوہ پچھلے کچھ سالوں میں آر ایس ایس نے بی جے پی کی انتخابی مہمات میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہریانہ کے حالیہ انتخابات میں، بی جے پی نے 90 میں سے 48 سیٹیں جیتیں جب کہ مہاراشٹر میں عظیم اتحاد (بی جے پی، شیو سینا- شندے دھڑے اور این سی پی-اجیت پوار) نے 288 میں سے 237 سیٹیں جیتیں اور حکومت تشکیل دی۔یعنی موجودہ دور میں آر ایس ایس صرف ثقافتی اور فلاح و بہبودکی تنظیم تک محدود نہیں ہے بلکہ راست اس کے ورکر سیاسی میدان میں داخل ہوچکے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں جب کانگریس کے راہل گاندھی یہ کہتے ہیں کہ ہندوستان میں ملکی سطح پر فی الوقت دو نظریات موجود ہیں، ایک آر ایس ایس کا نظریہ اور دوسرا کانگریس کا تو اس بات میں حقیقت کی جھلک بآسانی دیکھی جاسکتی ہے۔
دہلی اسمبلی انتخابات کے نتائج میں پارٹی سپریمو اروند کیجریوال کی نئی دہلی سیٹ سے ہار کا اعلان اورمنیش سسودیا کا جنگ پورہ سیٹ سے شکست کھانا ،واضح کرتا ہے کہ عام آدمی پارٹی، اس کی فری بیز،اس کے گزشتہ دس سالوں پر مبنی کام، اعلانات ،وعدوں اور دعووں میں وہ رمق باقی نہیں رہی جو 2015اور 2020میں دیکھی گئی تھی۔اس صورت میں یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ جس طرح گزشتہ دو-تین سالوں میں عام آدمی پارٹی کے لیڈروں کو گھیرا گیا،ان پر الزامات لگائے گئے، جیلوں میں بھیجا گیا،گھوٹالے کو اجاگر کیا گیا اور بقول عام آدمی پارٹی لیڈر پارٹی کو منتشر کرنے اور توڑنے کی کوششیں کی گئیں تونتیجہ میں کہیں نہ کہیں عام آدمی پارٹی اندرون بیرون ہر دو سطحوں پر کمزور ہوئی ہے۔ساتھ ہی جو اعلانات اور وعدے بی جے پی نے کیے ہیں،جس میں اس بات کی یقین دہانی کرائی گئی کہ فری بیز جو دہلی کے شہریوں کو حاصل ہیں وہ برقرار رہیں گی ساتھ ہی مڈل کلاس کے لیے 12لاکھ روپے تک کی انکم ٹیکس میں چھوٹ اور 8ویں پے کمیشن کا اعلان،انہوں نے بھی دہلی کے مڈکل کلاس کو متاثر کیا ہے۔ تیسری جانب سی اے اے ،این آر سی کے دوران اٹھنے والی ،تحریک شاہین باغ اور اس کے بعد دہلی کے فسادات میں عام آدمی پارٹی کا اقلیتوں کے تعلق سے مثبت کردار کے اظہار کا نہ ہونابھی پارٹی کو کمزور کرنے میں معاون رہا ہے۔ نتیجہ میں بی جے پی کو بڑی کامیابی تو عام آدمی پارٹی کو تکلیف دہ ناکامی سے دوچار ہونا پڑا ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ جس دہلی سے عام آدمی پارٹی وجود میں آئی تھی،اسی ریاست دہلی میں ناکامی کے بعد بقیہ ریاستوں میں وہ کس طرح اپنی شناخت برقرار رکھناچاہے گی؟آیا اس ناکامی کے بعد ایک بار پھر پارٹی اپنی پالیسی میں تبدیلی لائے گی اور پھلے گی پھولے گی یا وہ سمٹتی چلی جائے گی ؟
دہلی اسمبلی الیکشن 2025کے نتائج پر اگر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ 45.56فیصد کے ساتھ بی جے پی کے 48امیدوار کامیاب ہوئے، وہیں43.57فیصد کے ساتھ 22سیٹوں پر عام آدمی پارٹی کامیاب ہوئی ۔اورکانگریس کو 2020کے انتخابات میں جہاں4.26فیصد ملے تھے 2025کے انتخابات میں بڑھ کے 6.34فیصد ہوگئے،یعنی 2.08فیصد کااضافہ تو سامنے آیا لیکن کسی بھی سیٹ پر کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔ اوکھلا سیٹ جوایم آئی ایم پارٹی کے آنے کے بعد بظاہر ہاٹ سیٹ بنتی نظر آرہی تھی وہاں عام آدمی پارٹی کے امانت اللہ خان کو تیسری مرتبہ 88943ووٹ کے ساتھ کامیابی حاصل ہوئی۔برخلاف اس کے دوسرےنمبر پر بی جے پی کو65304، ایم آئی ایم کو 39558 اور کانگریس کو 12739ووٹ حاصل ہوئے۔اور چوتھے نمبر پے نوٹا اور بہوجن سماج پارٹی کے ووٹ چھ اور سات سو کے آس پاس رہے۔اسی طرح ایک اور سیٹ مصطفیٰ آباد جہاں ایم آئی ایم کے ایک اور امید وار نے حصہ لیا تھااسے33474ووٹ حاصل ہوئے برخلاف اس کے کامیاب ہونے والے بی جے پی کو 85215، عام آدمی پارٹی کو67637 اور کانگریس کو 11763ووٹ حاصل ہوئے۔اس پس منظر میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ دہلی میں اگر عام آدمی پارٹی اور کانگریس ایک ساتھ مل کے اسمبلی الیکشن میں حصہ لیتے تو 43.57اور6.34مل کے49.91تقریباً50فیصد ووٹ شیئر ،بی جے پی کے 45.56فیصد سے کہیں زیادہ ہوتا اور کانگریس کاصرف6.34ووٹ شیئر نتائج کو پلٹ سکتا تھا۔اس کے باوجودماہرین کا خیال ہے کہ کانگریس کے ملکی اور ریاستی لیڈر،ان کے لائحہ عمل اور الیکشن میں ایک ساتھ نہ لڑنے کے پیچھےدراصل کانگریس کو اپنے پرانے اسپیس کی تلاش تھی۔یہی وجہ ہےکہ اگرچہ عام آدمی پارٹی انڈیا اتحاد کا حصہ ہے،اس کے باوجود نہ اس نے اور نہ ہی کانگریس نے ایک ساتھ دہلی میں الیکشن لڑنے کی خواہش ظاہر کی۔بلکہ الزامات یہاں تک پہنچے کہ عام آدمی پارٹی انڈیا اتحاد کو کمزور کرنے میں مصروف ہے ساتھ ہی کانگریس کو بھی کمزور کرنے میں اہم کردار اداکررہی ہے،جیسے دہلی اور پنجاب جہاں بی جے پی کوعموماً کامیابی حاصل نہیں ہوتی،وہیں ہریانہ اور گجرات میں بھی کانگریس کا ووٹر ہی عام آدمی پارٹی کو تقویت پہنچاتا ہے۔اس منظر اور پس منظر میں دہلی کی حکومت بی جے پی کی جھولی میں آگئی۔لیکن دیکھنا یہ ہے کہ عوام سے جو وعدے اور دعوے بی جے پی کے مینوفیسٹو میں کیے گئے ہیں،اورجو فلاح و بہبود کے کام گنائے گئے ہیں،مسائل کے خاتمے کی بات کی ہے،پولیوشن اور کچرے کے ڈھیر اور جمنا کی صفائی کا وعدہ کیا ہے،اورسرکاری تعلیمی نظام اور صحت عامہ کے نظام میں جوعام آدمی پارٹی نے بہتری لائی تھی،ان تمام ایشوز میں بی جے جے پی اور اس کی دہلی حکومت کیا کچھ پیش رفت کرے گی؟یعنی کہ اب ڈبل انجن کی سرکار ،لا اینڈ آرڈر،عوامی مسائل اور ریاست دہلی کی فلاح و بہبود اور ترقی کے کاموں میں کتنا اضافہ کریں گے؟اسی کی روشنی میں قائم ہونے والی حکومت کو جانچا اور پرکھا جائے گا اور اسی کی روشنی میں دہلی کے سیاسی میدان میں کانگریس کامستقبل بھی تلاش کیا جاسکتا ہے۔کیونکہ نتائج آنے سے پہلے ہی عام آدمی پارٹی کے لیڈروں نے یہ الزام لگائے تھے کہ بی جے پی 15کروڑ کا آفر دے کر ایم ایل اے کے ہارس ٹریڈنگ میں مصروف ہے۔جس کے بعد نہ صرف کیجریوال پر اے سی بی کی گرفت سخت ہوگئی بلکہ ایل جی کے پرنسپل سکریٹری نے چیف سکریٹری کو ایک خط لکھا جس میں اے سی بی سے تحقیقات کرنے کی درخواست کی گئی نیزجانچ کےحکم دینے کے بعد اے سی بی کی ٹیم کیجریوال کے گھر بھی پہنچ گئی۔یعنی ایک بار پھر عام آدمی پارٹی اور بی جے پی کے درمیان کشمکش شروع ہوچکی ہے،اس کشمکش میں کامیاب ہونے والے عام آدمی پارٹی کے امیدوار اور پارٹی لیڈر مستقبل قریب میں کس حد تک اروند کیجریوال اور پارٹی کا ساتھ دیں گے اس کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔یعنی دہلی اسمبلی الیکشن،نتائج،حکومت سازی،کامیابی اور ناکامی،یہ ساری صورتحال مستقبل قریب میں مزید اہمیت اختیار کرتے ہوئے عام آدمی پارٹی کے سیاسی میدان کو واضح کریں گے کہ آیا پارٹی کا دائرہ وسیع ہوگا یا تنگ ہوتا چلا جائے گا!
[email protected]
***
***
سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ آر ایس ایس نے بی جے پی کی 27 سال کی طویل سیاسی جلاوطنی کے خاتمہ کے لیے دہلی میں تقریباً 50,000 ’ڈرائنگ روم میٹنگز‘ کا اہتمام کیا۔ یعنی سیاسی میدان میں وہ کھل کر سامنے آئے،حکومت تشکیل دینے اور سیاست میں سرگرم کردار ادا کیا۔ رپورٹ کے مطابق آر ایس ایس کے ایک سینئر کارکن نے کہا کہ میرے محکمے میں سنگھ کے رضاکاروں نے تقریباً 2000 ڈرائنگ روم میٹنگوں کا اہتمام کیا ۔ جبکہ دیگر وابستہ تنظیموں جیسے بھارتیہ مزدور سنگھ، سیوا بھارتی، وشو ہندو پریشد، آل انڈیا ایجوکیشنل فیڈریشن، ہندو جاگرن منچ اور دیگر اکائیوں کے کارکنوں کی طرف سے تقریباً 4550 میٹنگیں منعقد کی گئیں۔اسی طرح شہر بھر میں منعقد ہونے والی ان 50000 ڈرائنگ روم میٹنگوں میں 4 لاکھ سے زیادہ لوگوں نے شرکت کی۔ ان میٹنگوں کے دوران، آر ایس ایس نے اپنے ’پنچ تبدیلی‘ (پانچ تبدیلیوں) پر زور دیا اور قومی مفاد میں بی جے پی کے امیدواروں کو ووٹ دینے کی اپیل کی
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 فروری تا 22 فروری 2025