
دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے مقامی افراد کا اعتماد حاصل کرنا اولین شرط ہے
دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے مقامی افراد کا اعتماد حاصل کرنا اولین شرط ہے
تحریر: جیولیوری بیرو (سابق کمشنر پولیس ، ممبئی)
مراٹھی سے ترجمہ: ڈاکٹر ضیاءالحسن، ناندیڑ
پہلگام حملہ کے بعد رد عمل: عوامی یکجہتی اور حکومتی اقدامات کا جائزہ
مودی اور شاہ کی قیادت والی بی جے پی نے تسلیم کر لیا ہے کہ پہلگام حملہ کا انہیں قبل از وقت اندازہ نہیں ہو پایا تھا۔ 24اپریل کو دہلی میں منعقدہ آل پارٹی میٹنگ میں مرکزی وزیر کرن جیجو کا اس غلطی کو تسلیم کرنا ایک اچھا اقدام ہے۔ ورنہ عموماً ایسے موقعوں پر بر سر اقتدار جماعتیں مختلف وجوہات بتا کر اس طرح کے مسئلوں سے دوری اختیار کر لیتی ہیں۔ لیکن پہلی بار کسی سیاسی پارٹی نے اپنی غلطی تسلیم کر کے سارے ملک کو متحد کر دیا۔
۱۹۸۰ء کی دہائی میں پنجاب میں دہشت گرد مخالف کارروائیوں کی اہم ذمہ داری نبھانے والے ایک سابق آئی پی ایس افسر ہونے کے ناطے اس مضمون کی ابتدا میں دہشت گردی کا اصل روپ دکھلاتے ہوئے کر رہا ہوں تاکہ قارئین اسے آسانی سے سمجھ سکیں۔ لفظ دہشت گردی سے ہی یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اس کا اصل مقصد عوام کے ایک بڑے طبقہ میں خوف و ہراس پیدا کرنا ہوتا ہے۔ اس لیے دہشت گرد اکثر بے گناہ افراد کو اچانک نشانہ بنا کر اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ عام انسان فطرتاً بھیڑ میں چرنے والے ان پرندوں کی طرح ہوتے ہیں جو شیر وغیرہ جیسے درندوں سے ہمیشہ دوری بنائے رکھتے ہیں۔ دہشت گرد اس مقام کو اپنا نشانہ بناتے ہیں جہاں سے ان پر حملہ ہونے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔ ۱۹۸۵ء میں پنجاب میں قریبی کارروائیوں کا سلسلہ شروع ہوا تو امرتسر اور ترن تارن شہروں کے حالات ایسی سرگرمیوں کے لیے سازگار تھے۔ لیکن جب سیکیورٹی فورسز نے ان اضلاع کو پوری طرح گھیر لیا تو دہشت گرد وہاں کے اندرونی علاقوں کی طرف بھاگ گئے۔ جموں وکشمیر کے لفٹننٹ گورنر نے اگر پنجاب کی دہشت گردی کی تاریخ کا مطالعہ کیا ہوتا تو پہلگام کے اس متاثرہ مقام کو اس طرح غیر محفوظ نہیں چھوڑ دیا جاتا تھا۔ اس سال پہلگام آنے والے سیاحوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ چونکہ بیسرن کا وسیع و عر یض میدان سیاحت کے لیے جانا جاتا ہے اس لیے اسکولی طلبہ وہاں سیاحت کے لیے آتے رہتے ہیں۔ یہ میدان گھڑ سواری کے لیے بھی نہایت موزوں ہے۔ گشت کرنے والی مقامی پولیس نے اپنی ذمہ داری اگر اچھی طرح نبھائی ہوئی ہوتی اور سیاحوں کی آمد میں اضافہ کی اطلاع حکام بالا کو دی ہوتی تو اس سیاحتی مقام محفوظ کیا جا سکتا تھا۔ اب لگتا ہے کہ جن لوگوں کو یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی انہوں نے بیٹ پٹرولنگ ( گشت کرنے والاپولیس نظام )اور ہیومینٹ (ہیومن انٹیلی جنس) کی اہمیت پر خاص توجہ نہیں دی ہوتی۔ دراصل مقامی افراد ہی اپنے علاقوں میں آئے ہوئے اجنبی لوگوں یا وہاں ہونے والی غیر معمولی سرگرمیوں کے بارے میں اطلاعات فراہم کر سکتے ہیں۔ لیکن اس طرح کی معلومات وہ صرف ان گشتی پولیس والوں کو دیتے ہیں جن سے ان کا اچھا میل جول ہو اور جن پر وہ اعتبار کرتے ہوں۔ مقامی افراد عام دنوں میں بھی پولیسنگ کے لیے اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ دہشت گردی سے متاثرہ ریاستوں میں رہنے والے تو ہمیشہ زندگی اور موت کے بیچ جیتے ہیں۔ جب مقامی افراد کا میل جول دہشت گرد ٹولیوں سے بڑھ جاتا ہے تو انسانی جاسوسی (ہیومینٹ) کی اہمیت دس گنا بڑھ جاتی ہے۔
ایک عام شہری بھی اس بات کی توقع رکھتا ہے کہ اس کے ساتھ عزت و احترام کا سلوک کیا جائے۔ دہشت گردانہ کارروائیوں کے دوران ان باتوں کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے ۔ مقامی باشندے جب یہ محسوس کرتے ہیں کہ اب وہ سرکار کی دہشت گرد مخالف مہم کا اٹوٹ حصہ بن چکے ہیں تو پھر مختلف حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کے لیے وہ ازخود معلومات فراہم کرنے لگتے ہیں۔
دہشت گردوں کے مذہب کا تعلق عموماً اس علاقہ میں رہنے والی اکثریت کے مذہب سے ہوتا ہے۔ اس لیے مقامی باشندوں کے دلوں میں اپنے ہم مذہب بھائیوں کے لیے چھپی ہوئی ہمدردی ہوتی ہے، جو ایک فطری بات ہے۔ لیکن یہ ہمدردی سیکیورٹی فورسز کے کاموں کو مشکل بنا دیتی ہے۔ البتہ دہشت گرد جب عام انسانوں، خصوصاً خواتین کے ساتھ برا سلوک کرنے لگتے ہیں تو یہ ہمدردی ختم ہو جاتی ہے۔
دہشت گردی کو ’کم خرچ کی جنگ ‘بھی کہا جاتا ہے۔ اسے یہ نام یوں ہی نہیں دیا گیا۔ دراصل متصادم گروہوں میں شامل کمزور گروہ دہشت گردی کا راستہ اپناتا ہے۔ چونکہ آمنے سامنے کی لڑائی میں کمزور گروہ اپنے مخالف طاقتور گروہ کو شکست نہیں دے سکتا اس لیے وہ عام شہریوں کو قتل کر کے خوف کا ماحول پیدا کرنا چاہتا ہے۔ حالانکہ ان شہریوں کا مخالف سرگرمیوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے۔ دہشت پسند توقع رکھتے ہیں کہ خوف میں مبتلا عوام سرکار پر دباؤ ڈال کر ان کے دہشت گردوں کے غیر واجبی مطالبات پورے کرائیں۔ یہ بات تاریخ میں کہیں درج نہیں کہ کسی حکومت نے دہشت گردوں سے کبھی ہار مانی ہو۔ انہیں اپنے مقصد میں کبھی کامیابی نہیں ملی۔ لیکن اس کے باوجود یہ روگ اب بھی باقی ہے۔ کم خرچ کی اس جنگ سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے وہ یہ کہ مقامی لوگوں کے دل جیتے جائیں۔ لیکن مقامی افراد اور دہشت پسندوں کا مذہب ایک ہونے کی صورت میں یہ کام آسان نہیں۔ اس لیے مقامی افراد کے ساتھ عزت و احترام کا سلوک اور انصاف اس مسئلہ کو حل کرنے کی شاہ کلید ہے۔ جاٹ سکھ کسانوں نے جب پولیس کو اپنے گاؤں کے دہشت گرد عناصر کی معلومات دینی شروع کیں تو پنجاب کو اس مصیبت سے راحت مل پائی۔ کے پی ایس گِل کی قیادت والی پولیس نے کسانوں پر بہت دباؤ ڈالا جس کے نتیجہ میں انہیں سیکورٹی فورسز سے تعاون کرنا پڑا تھا۔ کسی ریاست میں مسلسل چل رہی دہشت گردی کی روک تھام کے لیے جب کوئی منصوبہ بنایا جاتا ہے تو پہلے وہاں کے مقامی حالات کا جائزہ لینا ضروری ہوتا ہے۔ جموں وکشمیر میں دہشت گردی مخالف مہم اور لا اینڈ آرڈر کی ساری ذمہ داریاں وہاں کے لیفٹیننٹ گورنر کی ہیں۔ مگر اس تعلق سے وہ کچھ زیادہ ہی مطمئن تھے اور یہی بات ایک بڑے نقصان کا باعث بنی۔ جبکہ دہشت گردی سے متاثرہ علاقہ میں آپ ایک پل بھر کے لیے بھی لاپروائی نہیں برت سکتے تھے۔ مرکزی وزارت داخلہ کی ذمہ داری نبھانے والے طاقتور لیڈر امیت شاہ نے تمام ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کو فون کر کے ہدایت دی کہ وہ ویزا پر آئے ہوئے تمام پاکستانی شہریوں کی فہرست تیار کریں۔ وزیر داخلہ نے ان تمام پاکستانیوں کو بھارت سے نکال دینے کا حکم دیا۔ مگر یہ ایک جلد بازی کا ثبوت ہے۔ بالفرض پاکستانی شہریوں پر آئی بی کی نظر ضرور ہوگی۔ انہیں بھارت چھوڑنے کے لیے کہنا مناسب نہیں ہے اور کئی پاکستانی شہری خوار بھی ہو سکتے ہیں۔ ان میں سے بعض اپنے علاج و معالجہ کے سلسلہ میں آئے ہوں گے۔ انہیں ملک سے نکال باہر کر دینے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ ہمارے جاسوسی ادارے اپنے دوست ملکوں کی مدد سے اس حملہ میں شامل افراد اور انہیں مدد دینے والوں کو ڈھونڈ نکالیں گے۔ پاکستانی مجرموں کو ڈھونڈ نکالنے میں دوست ملکوں کے ایجنٹ ہم سے کہیں زیادہ بہتر ہیں۔ چنانچہ اصل قصورواروں کی شناخت کر کے ان کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے۔ اس طرح کی کارروائی پاکستان کی آئی ایس آئی اور ہماری را کے درمیان شطرنج کے مقابلہ جیسی ہوگی۔ اگر پہلگام کا بدلہ لینا ہے تو یہ جنگ جیتنا ضروری ہے۔
را (RAW) اس طرح کی کارروائی کے لیے اہل بھی ہے۔ پہلگام حملہ کے بعد ہمارے ملک میں جتنے بھی رد عمل سامنے آئے وہ یکجہتی کی علامت تھے۔ حالانکہ دہشت گردوں نے کہا تھا کہ وہ کشمیریوں کی خاطر یہاں آئے ہیں۔ لیکن اس حملہ سے خود کشمیری عوام مشتعل ہو گئے۔ کیوں کہ یہ حملہ ان کے روزگار اور روٹی روزی پر تھا۔ اس سلسلہ میں پاکستان کو دیا جانے والا مودی سرکار کا جواب ہمارے ملک کے تمام مذاہب کو ماننے والوں کے غصہ اور ناپسندیدگی کو ظاہر کرنے والا ہونا چاہیے تھا۔ لیکن اس کے بجائے سرکارکی جانب سے مبینہ دہشت گردوں کے مکانات مسمار کرنے کا راستہ اپنایا گیا۔ اس طرح کا شارٹ کٹ حل دراصل حکومت کے ایک خاص طرز عمل کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ سرکار اس بات پر فخر کرتی ہے کہ وہ ایک مضبوط سرکار ہونے کے علاوہ پچھلی سرکاروں سے الگ ہے۔ اس طرح اپنی خود ستائی کر کے وہ بہت خوش ہے۔ موجودہ سرکار کو فوری طور پر جو اہم کام کرنا ہے وہ یہ کہ پولیس والا اپنا سخت مزاج بدلے۔ دہشت گرد گروہ جس علاقہ سے تعلق رکھتا ہے ان کے دلوں کو جیتنا اور ان میں اعتماد پیدا کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ کیوں کہ ماہرین کی رائے کے مطابق دہشت گردی کا خاتمہ کے لیے اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔
بشکریہ روزنامہ لوک ستا، مورخہ2؍ مئی 2025
***
یہ سرکار اس بات پر فخر کرتی ہے کہ وہ ایک مضبوط سرکار ہونے کے علاوہ پچھلی سرکاروں سے الگ ہے۔ اس طرح اپنی خود ستائی کر کے وہ بہت خوش ہے۔ موجودہ سرکار کو فوری طور پر جو اہم کام کرنا ہے وہ یہ کہ پولیس والا اپنا سخت مزاج بدلے۔ دہشت گرد گروہ جس علاقہ سے تعلق رکھتا ہے ان کے دلوں کو جیتنا اور ان میں اعتماد پیدا کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ کیوں کہ ماہرین کی رائے کے مطابق دہشت گردی کا خاتمہ کے لیے اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 18 مئی تا 24 مئی 2025