’’ڈگری نہیں دکھائیں گے‘‘
آئین کی رو سے وزیر اعظم بننے کے لیے ڈگری کی ضرورت نہیں لیکن جھوٹا حلف ناقابلِ معافی جرم ہے
ڈاکٹر سلیم خان ،ممبئی
کیجریوال پر جرمانہ ناقابل فہم۔ گجرات ہائی کورٹ کے فیصلے سے ڈگری پر شبہات مزید بڑھ گئے
ہمارے ملک کے وزیر اعظم ایک طلسماتی شخصیت کے حامل ہیں۔ 2013 کی انتخابی مہم کے دوران عوام کی ہمدردیاں بٹورنے کے لیے انہوں نے یہ دعویٰ کیا تھاکہ وہ چھ سال کی عمر میں ریلوے اسٹیشن پر چائے بیچا کرتے تھے۔ درباری میڈیا نے آنکھیں موند کر اس بات پر یقین کرلیا اور اس کی تشہیر کرنے لگ گئے، لیکن کھوجی میڈیا کے صحافیوں نے اس بیان کی تصدیق شروع کی تو پہلا سوال یہ اٹھا کہ کس سال بال مودی اس پریشانی سے گزرے تھے۔ یہ پتہ لگانے کے لیے کاغذات کی تفتیش کے دوران ایک اختلاف سامنے آگیا۔ الیکشن کمیشن کے مطابق ان کی تاریخ پیدائش 17 ستمبر 1950 ہے مگر ڈگری کے مطابق وہ 29 اگست 1949 ہے۔ اس طرح گول مال کی ابتداء تاریخ پیدائش سے ہوئی۔ اب یہ معلوم کرنا پڑے گا کہ وہ اپنی سالگرہ کب مناتے ہیں؟ ظاہر ہے وہ الیکشن کمیشن والی تاریخ کو منائی جاتی ہے اس لیے ان تیرہ مہینوں کے فرق نے ڈگری کو مشکوک کردیا۔ حیرت کا دوسرا جھٹکا اس وقت لگا جب پتہ چلا کہ مودی جی کے شہر واڈ نگر کا اسٹیشن 1973 میں بنا۔ جب یہ اسٹیشن بنا تو وزیر اعظم کی عمر 23 سال تھی اور وہ سنگھ کی خاطر اپنی زندگی وقف کرنے کے لیے 17 سال کی عمر میں گھر بار چھوڑ کر نکل چکے تھے۔ اب سوال یہ ہے کہ مودی جی کے بچپن میں جس ریلوے اسٹیشن کا وجود ہی نہیں تھا اس پر انہوں نے چائے کیسے بیچی؟ مگر ملک کے عوام نے اس کی پروا کیے بغیر چائے والے مودی کو وزیر اعظم بنا دیا۔
قومی انتخاب میں کامیابی نے وزیر اعظم کو آسمان پر پہنچا دیا اور وہ اڑن کھٹولے میں بیٹھ کر دنیا بھر کی سیر کو نکل کھڑے ہوئے۔ اگلے سال دلی کے صوبائی انتخابات آئے۔ کل یگ کے چانکیہ نے اس میں کامیابی کے لیے ساری طاقت جھونک دی کیونکہ وہ اس وقت نئے نئے پارٹی صدر بنے تھے اور انہیں اپنا جلوہ دکھانا تھا لیکن قدرت کا کرنا یہ ہوا کہ بی جے پی تیس سے تین پر آگئی۔ یہ زبردست ناکامی امیت شاہ سمیت مودی جی کو آکاش سے پاتال میں لے گئی۔ اس طرح عام آدمی پارٹی کو سبق سکھانے کے لیے ڈگری کے کھیل کا آغاز ہوا۔ عام آدمی پارٹی کے سابق وزیر قانون جتیندر سنگھ تومر پر حلف نامہ میں فرضی ڈگری داخل کرنے کا الزام لگا اور انہیں گرفتار کرلیا گیا ۔اس خبر کی تشہیر کے لیے ان کو فیض آباد میں آر ایم ایل اودھ یونیورسٹی اور کے ایس سیکٹ پی جی کالج کے کیمپس لے جایا گیا کیونکہ انہوں نے اسی کالج سے بی ایس سی ڈگری حاصل کرنے کا دعوی کیا تھا۔ وہاں اساتذہ اور ادارے کے عہدیداروں سے ملاقات کروا کے بیانات قلمبند کیے گئے۔ پولیس نے بتایا کہ وہ اپنے کلاس روم، فزکس لیباریٹری اور واش روم کی نشاندہی میں ناکام رہے۔ اگلے دن ان کو بشونت سنگھ انسٹیٹیوٹ آف لیگل اسٹیڈی کالج واقع مونگیر اور بھاگلپور میں تلکاماجھی یونیورسٹی لے جایا گیا۔ یہ خبر ٹیلی ویژن پر خوب چلی اور عام آدمی پارٹی کی زبردست بدنامی ہوئی جس کی وہ مستحق بھی تھی۔
سوال یہ ہے کہ کیا وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی ڈگری کے جعلی ثابت ہو جانے پر جیتندر تومر کی طرح تفتیش سے گزرنا پڑے گا؟ مگر جب اسمرتی ایرانی جیسی معمولی وزیر اس رسوائی سے بچ گئیں تو مودی جی کو کیا ڈر؟ اس بابت پرشانت بھوشن سوال کرتے ہیں سپریم کورٹ نے تمام امیدواروں کو اپنی ڈگریاں ظاہر کرنے کی ہدایت کی تھی۔ کیا وزیر اعظم پر یہ قانون لاگو نہیں ہوتا؟ تومر کا معاملہ جب منظر عام پر آیا تو اس کی کوکھ سے وزیر اعظم نریندر مودی کی ڈگری کے تنازعہ نے جنم لیا۔ عام آدمی پارٹی نے وزیر اعظم نریندر مودی کو اپنی ڈگری دکھانے کا چیلنج کردیا۔ یعنی نہ بی جے پی تومر پر ہاتھ ڈالتی اور نہ یہ پنڈورا بکس کھلتا۔ وزیر اعظم کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایک پرانے انٹرویو میں اینکر راجیو شکلا کے ساتھ کیمرے کے سامنے اعتراف کر چکے ہیں کہ انہوں نے ہائی سکول تک تعلیم حاصل کی تھی اور وہ 17 سال کی عمر میں گھر چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ کنڑ زبان کے جریدے ترنگ کو سنہ 1992 میں انہوں نے خود کو میکنیکل انجینئر بتایا ہے اور انتخابی حلف نامہ میں ’انٹائر پولیٹیکل سائنس‘ میں ڈگری کا انکشاف کر دیا۔ ان متضاد بیانات نے وزیر اعظم کی صداقت کو مشکوک بنا دیا اور لوگ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ آخر سچ کیا ہے؟
وزیر اعظم نریندر مودی نے سال 2014 کے قومی انتخابات میں الیکشن کمیشن کو جمع کرائے گئے حلف نامہ میں پہلے تو یہ کہہ کر ساری دنیا کو چونکا دیا کہ وہ شادی شدہ ہیں۔ اس سے پہلے وہ یہ کالم خالی چھوڑ دیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ فاصلاتی نظام تعلیم کے تحت سال 1978 میں دلی یونیورسٹی سے بی اے اور سال 1983 میں گجرات یونیورسٹی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کرنے کا بھی انکشاف کر دیا۔ جیتندر تومر کی وجہ سے ہاتھ آنے والی رسوائی کا انتقام لینےکے لیے عام آدمی پارٹی نے نریندر مودی کی ڈگری کے حوالے سے وزیر اعظم کے دفتر، الیکشن کمیشن، دہلی یونیورسٹی اور گجرات یونیورسٹی میں آر ٹی آئی دائر کروادی۔ اس کے بعد ایک دلچسپ پنگ پانگ کا کھیل شروع ہوگیا۔ وزیر اعظم کے دفتر نے الیکشن کمیشن سے پوچھنے کی تلقین کر کے اپنا پلہ جھاڑ لیا۔ الیکشن کمیشن نے ویب سائٹ دیکھنے کا مشورہ دے کر جان چھڑائی۔ گجرات یونیورسٹی کا جواب تھا کہ 2005 کے رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت اس معلومات کو عام نہیں کیا جا سکتا۔ سوال یہ ہے کہ آخر یہی جواب پی ایم او اور الیکشن کمیشن نے کیوں نہیں دیا کہ جس سے نہ رہتا بانس اور نہ بجتی بانسری؟ کیا الیکشن کمیشن اور خود وزیر اعظم کے دفتر میں وہ جرأت نہیں تھی جس کا مظاہرہ گجرات یونیورسٹی نے ببانگ دہل کر دیا۔ اس اختلاف نے بھی شکوک و شبہات کو اور بھی بڑھا دیا۔
عام آدمی پارٹی کے حملوں سے پریشان ہو کر مرکزی حکومت کی ایماء پر سنٹرل انفارمیشن کمیشن نے کیجریوال سے ان کی الیکشن آئی ڈی کے بارے میں جانکاری طلب کی۔ یہ بی جے پی کی دوسری غلطی تھی کیونکہ اس کے ردعمل میں اپریل 2016 میں اروند کیجریوال نے چیف سی آئی سی شریدھر آچاریلو کو ایک خط لکھ کر نریندر مودی سے متعلق معلومات کو عام کرنے کی درخواست کی۔ سنٹرل انفارمیشن کمیشن نے اسے آر ٹی آئی کے زمرے میں ڈال کر گجرات اور دلی یونیورسٹی کو وزیر اعظم نریندر مودی کی ڈگری سے متعلق معلومات دینے کا حکم دے دیا۔ مرکزی حکومت اور بی جے پی جب بری طرح گھر گئی تو دونوں کے ایک ایک نمائندے امت شاہ اور ارون جیٹلی نے ٹیلی ویژن پر نمودار ہوکر تیسری بہت بڑی غلطی کر دی۔ ان لوگوں نے ایک پریس کانفرنس میں وزیر اعظم کی بی اے اور ایم اے کی ڈگریوں کو عام کرکے اروند کیجریوال پر ملک کی بدنامی کا الزام لگا کر معافی مانگنے کا مطالبہ کر دیا۔ یہ کام نہایت گھبراہٹ اور جلد بازی میں کیا گیا تھا اس لیے کئی خامیاں رہ گئیں اور ڈگری کا فرضی ہونا واضح ہوگیا۔ وزیر اعظم کی ڈگری کو پیش کرنے میں جو بے احتیاطی کی گئی اس سے سنگھ پریوار اور بی جے پی کی شبیہ پر بہت بڑا سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔
بی جے پی والوں نے وزیر اعظم کے لیے انٹائر پولیٹیکل سائنس کے نام کا ایک مضمون ایجاد کر ڈالا۔ اس میں داخلہ لینے والے اور امتحان دے کر ڈگر ی لینے والے وزیر اعظم تنہا طالب علم تھے اس لیے کسی نے انہیں کالج آتے جاتے نہیں دیکھا۔ اس مضمون کی بابت 2014 سے قبل گجرات یونیورسٹی سمیت کسی کو علم نہیں تھا۔ مودی جی کو اس ڈگری سے وائس چانسلر کے ایس شاستری نے 30 مارچ 1983 کو نوازا جبکہ وہ بیچارے 1981 میں اپنے عہدے سے سبکدوش ہو چکے تھے۔ سنجے سنگھ کے مطابق یونیورسٹی کی ہجے میں ایک جگہ انگریزی حرف ’بی‘ اور دوسرے مقام پر ’وی‘ استعمال کیا گیا ہے۔ اس سے جعلی ڈگری بنانے والوں کی تعلیمی لیاقت بھی مشکوک ہوجاتی ہے۔ ان غلطیوں کو دیکھ کر پوئلو کائیلو کا ناول الکیمیا یاد آجاتا ہے جس میں یہ پیغام دیا گیا ہے کہ خیر کے کام میں فطرت کے سارے عناصر تعاون کرتے ہیں اور یہاں ایسا لگتا ہے کہ شر کے کام میں وہ سارے عناصر مخالفت پر تُل گئے تھے۔
گجرات یونیورسٹی کی ڈگری پر تو عدالتِ عالیہ کا فیصلہ آگیا مگر دلی کی ڈگری والا معاملہ ہنوز زیر سماعت ہے اور وہ ڈگری بھی مختلف نقائص سے اٹی پڑی ہے۔ وزیر اعظم کی دلی یونیورسٹی والی ڈگری میں کئی خامیاں ہیں مثلاً 1978 میں یہ ڈگری انہیں ٹائپ کر کے دی گئی جبکہ اس کے دس سال بعد 1988 تک دلی یونیورسٹی میں دیگر طلباء کی ڈگری پر نام ہاتھ سے لکھے جاتے تھے۔ کون جانے کس انتریامی نے عملہ کو بتا دیا کہ یہ آدمی آگے چل کر وزیر اعظم بننے والا ہے اس لیے ان کی ڈگری کا خاص خیال رکھا جائے۔ مودی جی کا نام لکھنے کے لیے اس فونٹ کا استعمال کیا گیا جو 1992 میں ایجاد ہونے والا تھا یعنی اپنی پیدائش سے بارہ سال قبل اس فونٹ کو مودی جی کی ڈگری میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل ہو گیا۔ اس پر تاریخ ثبت کرنے کے لیے اتوار یعنی چھٹی کے دن کا انتخاب کیا گیا تاکہ کوئی اور خلل اندازی نہ ہو۔ اس میں شک نہیں کہ بھارتی آئین کی کوئی شق یا عوامی نمائندگی ایکٹ کی کسی دفعہ میں رکن پارلیمان یا رکن اسمبلی کے انتخاب کو تعلیمی اہلیت سے مشروط نہیں کیا گیا یعنی بھارت میں پارلیمانی یا اسمبلی کی رکنیت کے لیے ڈگری کی ضرورت نہیں ہے لیکن ارکان کا اپنے انتخابی حلف نامے میں فرضی ڈگری درج کرنا تو ایک سنگین جرم ہے۔
انڈین پینل کوڈ کی دفعہ 191 کے مطابق فرضی ڈگری پیش کرنے کا مطلب امیدوار کے ذریعہ غلط معلومات دے کر رائے دہندگان کو گمراہ کرنا ہے۔ اس قابل سزا جرم کا ارتکاب کرنے والے کی رکنیت منسوخ ہو سکتی ہے۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا کا ضابطہ کہتا ہے کہ اگر اس کے دفتر میں جمع کرائی جانے والی ڈگری جعلی پائی گئی تو رکنیت مسترد ہو سکتی ہے۔ اس فراڈ کا مرتکب ہونے کے بعد نہ تو وہ فرد ایم پی باقی رہے گا اور نہ الیکشن لڑ سکے گا۔ عام آدمی پارٹی کے وزیر قانونجیتندر تومر اس کی سزا بھگت چکے ہیں۔ اس بابت دلی کی عدالت کا فیصلہ اگر گجرات ہائی کورٹ سے مختلف آجائے تو ایک بڑا کہرام مچ جائے گا۔ وزیر اعظم مودی کو اپنی کرسی بچانے کے لیے اندرا گاندھی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ایمرجنسی نافذ کرنے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں بچے گا بشرطیکہ کہ دلی کی عدالت بھی الہ باد ہائی کورٹ کی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے جرأتمندی کا مظاہرہ کرے۔
نریندر مودی کو بچانے کے لیے گجرات ہائی کورٹ کا فیصلہ نہایت مضحکہ خیز ہے۔ اس نے نریندر مودی کی ڈگریوں کی بابت سی آئی سی کے حکم کو گجرات ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ یونیورسٹی نے کمیشن کے حکم کو ناقص قرار دے کر اسے منسوخ کرنے کی عرضی داخل کی ہے۔ سات سال تک یہ معاملہ ٹھنڈے بستے میں پڑا رہا اور راہُل گاندھی سے متعلق سورت مجسٹریٹ کے متنازع فیصلے کے بعد فیصل ہوا جس سے ایک نیا تنازع پیدا ہوگیا۔ اس میں شک نہیں کہ مرکزی حکومت کے ایماء پر یہ جن بوتل سے باہر آیا مگر اس کی حکمت ناقابلِ فہم ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ وزیر اعظم آئندہ قومی انتخاب سے قبل اپنے دامن سے سارے داغ دھبے دھو لینا چاہتے ہوں۔ اس لیے کون جانے آگے یہ موقع ملے یا نہ ملے؟ یہی وجہ ہے کہ گجرات ہائی کورٹ کی سنگل بنچ کے جسٹس بیرین ویشنو سے سی آئی سی کے 2016 میں دیے گئے حکم کو منسوخ کروا دیا گیا لیکن اس کے ساتھ نہ جانے کیوں اروند کیجریوال پر 25 ہزار روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا گیا۔
گجرات ہائی کورٹ میں وزیر اعظم نریندر مودی کی ڈگری معاملے میں مدعی گجرات یونیورسٹی تھی اور مدعا الیہ ایک سرکاری ادارہ سی آئی سی تھا۔ اس لیے یہ فیصلہ وزیر اعلی اروند کیجریوال کے خلاف نہیں بلکہ معلومات فراہمی کے مرکزی ادارے کے خلاف ہے، ایسے میں اروند کیجریوال پر جرمانہ عائد کرنا تعجب خیز ہے۔ اروند کیجریوال کا نریندر مودی کی ڈگری کے بارے میں تفصیلات طلب کرنا سی آئی سی کے نزدیک کوئی جرم نہیں ہے اور وہ عدالت میں بھی نہیں گئے اس لیے ان پر 25 ہزار روپے جرمانے کی منطق ناقابلِ فہم ہے۔ عدالت سوال کرتی ہے کہ وزیر اعظم کی ڈگریوں کے عام ہونے پر بھی ایسے معاملے کو متنازع بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟اپنے حکم نامے میں گجرات کی عدالت نے کہا کہ وزیر اعظم کو کسی بھی بڑے عوامی مفاد کی عدم موجودگی میں اپنی تعلیمی ڈگریاں دکھانے کے لیے آر ٹی آئی ایکٹ کی دفعہ 8 (1) (ای) اور (جے) کی شقوں کی رو سے استثنیٰ حاصل ہے۔ جسٹس ویشنو کے مطابق اروند کیجریوال کا آر ٹی آئی کے ذریعے وزیر اعظم نریندر مودی کی تعلیمی ڈگری حاصل کرنے پر اصرار ان کی دیانتداری اور مقصد کے متعلق شک پیدا کرتا ہے گویا شک کی بنیاد پر انہیں سزا دے کر عوام کو سوال کرنے سے خوفزدہ کیا جا رہا ہے حالانکہ عدالت یہ بھی کہتی ہے کہ اروند کیجریوال کے مقصد میں اس عدالت کو جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر ایسا ہے تو جرمانہ لگانے کی ضرورت کیا ہے؟
گجرات ہائی کورٹ کے اس فیصلے سے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال بالکل خوفزدہ نہیں ہوئے، انہوں نے ایوان اسمبلی میں نریندر مودی کو بھارت کی تاریخ کا سب سے کم پڑھا لکھا اور سب سے زیادہ بدعنوان وزیر اعظم قرار دیا۔ ان کے مطابق اس فیصلے کے بعد ڈگری سے متعلق شکوک وشبہات میں اضافہ ہو گیا ہے۔ عوام کو یہ جاننے کاحق ہے کہ ان کا وزیر اعظم کتنا پڑھا لکھا ہے؟ عوام کے ذہنوں میں یہ سوال ہے کہ یہ جعلی تو نہیں؟ کیجریوال کے مطابق اکیسویں صدی میں وزیر اعظم کاپڑھا لکھا ہونا ضروری ہے۔ ایسا نہ ہونے کے سبب وزیر اعظم نریندر مودی ڈرین گیس سے چائے بنانے اور ہوائی جہاز کے بادلوں کی وجہ سے راڈار میں نہیں دکھائی دینے کی بات کرتے ہیں۔ کیا کوئی پڑھا لکھا وزیراعظم یہ کہہ سکتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ایسی باتیں جگ ہنسائی کا سبب بنتی ہیں۔ اروند کیجریوال کا کہنا ہے کہ بھارت کے وزیر اعظم کو سیکڑوں فائلوں پر دستخط کرنے ہوتے ہیں، اگر وہ پڑھے لکھے نہیں ہوں گے تو ان سے غلط فائل پر دستخط کرائے جا سکتے ہیں۔
اس صورتحال پر ایک نہایت دلچسپ کارٹون ذرائع ابلاغ کے اندر گردش کر رہا ہے جس میں ایک مداری کو دو بندروں کے ساتھ دکھا کر لکھا گیا ہے کہ مداری ان پڑھ ہوتا ہے لیکن پڑھے لکھے لوگوں سے تالی بجواتا ہے اور آخر میں جھولا اٹھا کر چل دیتا ہے۔ تالی بجوانا اور جھولا اٹھا کر چل دینا کس سے منسوب ہے یہ بچہ بچہ جانتا ہے۔ احمد آباد میں کامیابی کے باوجود بی جے پی فی الحال مدافعت کی پوزیشن میں ہے۔ وہ سانس روک کر دلی کے فیصلے کی منتظر ہے۔ ایک زمانے میں بی جے پی والوں نے شہریت کے قانون میں ترمیم کرکے ملک کے باشندوں سے ثبوت مانگا تو اس کے خلاف نعرہ لگا ’کاغذ نہیں دکھائیں گے‘۔ آج وہی بی جے پی والے کہہ رہے ہیں ’ڈگری نہیں دکھائیں گے‘۔ سوال یہ ہے کہ اگر ڈگری اصلی ہے تو چھپاتے کیوں ہو؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ آئین کی رو سے وزیر اعظم بننے کے لیے ڈگری کی ضرورت تو نہیں ہے لیکن دستور ہند کسی وزیر کو حلفیہ کذب گوئی کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ ایک ناقابلِ معافی جرم ہے۔
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***
***
انڈین پینل کوڈ کی دفعہ 191 کے مطابق فرضی ڈگری پیش کرنے کا مطلب امیدوار کے ذریعہ غلط معلومات دے کر رائے دہندگان کو گمراہ کرنا ہے۔ اس قابل سزا جرم کا ارتکاب کرنے والے کی رکنیت منسوخ ہو سکتی ہے۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا کا ضابطہ کہتا ہے کہ اگر اس کے دفتر میں جمع کرائی جانے والی ڈگری جعلی پائی گئی تو رکنیت مسترد ہو سکتی ہے۔ اس فراڈ کا مرتکب ہونے کے بعد نہ تو وہ فرد ایم پی باقی رہے گا اور نہ الیکشن لڑ سکے گا۔ عام آدمی پارٹی کے وزیر قانون جیتندر تومر اس کی سزا بھگت چکے ہیں۔ اس بابت دلی کی عدالت کا فیصلہ اگر گجرات ہائی کورٹ سے مختلف آجائے تو ایک بڑا کہرام مچ جائے گا۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 اپریل تا 22 اپریل 2023