مسعود ابدالی
عقبہ مذاکرات ۔۔ نشستند، گفتند اور برخواستند
قیامِ امن کے لیے فلسطیینیوں اور اسرائیل کے درمیان امن مذاکرات ’خواہش اور آرزو‘ کے حسین اعلان کے ساتھ ختم ہوگئے۔ اتوار چھبیس فروری کو اردن کے سیاحتی مرکز عقبہ پر منعقد ہونے والی اِس بیٹھک کو سیاسی و حفاظتی یا Political-Securityاجلاس کا نام دیا گیا۔ ایک دن پہلے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی AFP سے باتیں کرتے ہوئے اردنی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ سیاسی وحفاظتی گفتگو، جامع امن مذاکرات نہیں بلکہ اسے اسرائیل و فلسطین کے مابین اعتماد سازی کی ایک کوشش سمجھنا چاہیے۔ اردنی سفارتکار کا کہنا تھا کہ اگر کشیدگی پر قابو نہ پایا گیا تو رمضان میں اسرائیل کی جانب سے غربِ اردن اور غزہ پر بھرپور حملوں کا خطرہ ہے۔
عقبہ اجلاس میں اسرائیلی وزیر اعظم کے مشیر قومی سلامتی زکی ہانیزبی (Tzachi Hanegbi) اور خفیہ پولیس شاباک کے سربراہ رونن بر (Ronin Bar) شریک ہوئے۔ فلسطینیوں کی نمائندگی تحریک آزادیِ فلسطین (PLO) کے معتمدِ عام حسین الشیخ، فلسطینی خفیہ ایجنسی کے سربراہ ماجد فراج اور مقتدرہ فلسطین کے ممتاز سفارتکار ماجدی خالدی نے کی جبکہ اردن کے علاوہ مصر اور امریکہ کے نمائندے بطور ثالث و سہولت کار موجود تھے۔
بات چیت کے بعد مشترکہ اعلامیے میں کشیدگی کم کرنے کی ضرورت پر زور دےکر کہا گیا کہ مزید تشدد روکنے کے لیے تمام فریق مل کر کام کریں گے۔ اعلانِ عقبہ میں اسرائیل نے وعدہ کیا کہ اگلے چار ماہ نئی اسرائیلی بستیوں کے قیام کا منصوبہ پیش نہیں ہوگا اور چھ ماہ تک کسی نئی بستی کی منظوری نہیں دی جائے گی۔
اعلامیے کے تجزیے اور تشریح کے لیے بہت زیادہ عرق ریزی کی ضرورت نہیں کہ اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو المعروف بی بی گزشتہ ہفتہ بالکل یہی کہہ چکے ہیں جب انہوں نے اعلان کیاکہ صدر بائیڈن کی درخواست پر مقبوضہ عرب علاقوں میں بنائی گئی فوجی چوکیوں کو اسرائیل کا حصہ قرار دینے کی کوئی نئی تجویز ’’اگلے چند ماہ‘‘ تک منظور نہیں کی جائےگی، تاہم جن نو چوکیوں پر اسرائیلی بستیاں تعمیر کرنے کے اعلان کیا گیا ہے، وہ فیصلہ واپس نہیں ہوگا۔ اس چار سطری بیان سے یہ بات بہت واضح ہوچکی تھی کہ اسرائیل قبضہ گردی کا سلسلہ جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہے اور اور اس حوالے سے اسکی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ آبادکاری میں چند ماہ کا وقفہ صدر بائیڈن کو سفارتی فتح دلانے کی ایک کوشش ہے۔
عقبہ کی سیاسی و حفاظتی بات چیت سے پھولنے والے ’خوش فہمی‘ کے غبارے میں جناب زکی ہانیزبی نے یہ کہہ کر سوئی چبھودی کہ نئی بستیوں کے بارے میں اسرائیل کی پالیسی تبدیل نہیں ہوگی، نو چوکیوں کے اسرائیل سے ادغام اور یہودا السامرہ (عبرانی تلفظ یہودا والشمران) میں نو ہزار پانچ سو نئے مکانات کی تعمیر جاری رہے گی۔ انہوں نے غیر مبہم انداز میں کہا نئی آبادیوں کا کام منجمد نہیں ہوگا اور نہ ہی علاقے میں اسرائیلی فوج کی سرگرمیوں پر کوئی قدغن لگائی جائے گی۔ اسی کے ساتھ انہوں نے یقین دلایا کہ الحرم الشریف المعروف Temple Mount کی موجودہ حیثیت یا Status Que برقرار رہے گا۔
جب 1967 میں اسرائیل نے بیت المقدس پر قبضہ کیا تھا اس وقت مسجد اقصیٰ کی حیثیت تسلیم کرتے ہوئے تحریری ضمانت دی گئی تھی کہ الحرم الشریف مسلمانوں کی عبادت گاہ ہے جہاں حرمِ کعبہ اور مسجد نبوی کی طرح غیر مسلموں کا داخلہ عرب محکمہ اوقاف کی اجازت سے مشروط ہوگا۔ لیکن گزشتہ ماہ حلف اٹھاتے ہی وزیر قومی سلامتی اور عزمِ یہود پارٹی کے قائد اتامر بن گوئر Itamar Ben-Gvir بنفسِ نفیس القدس شریف چلے گئے اور متکبرانہ انداز میں گنبد صخرا کے صحن میں چہل قدمی فرمائی۔ دیکھتے ہیں کہ جناب زکی اس حوالے اپنا یہ نیا وعدہ کیسے نبھاتے ہیں۔
اپنے مشیر سلامتی کے وضاحتی بیان سے بی بی کی مکمل تشفی نہ ہوئی اور انہوں نے ٹویٹر پر فوری ایک پیغام جاری کیا کہ یہودیہ اور سامریہ میں آبادکاری و تعمیرات جاری رہیں گی اور بستیوں کی تعمیر (غیر معینہ مدت کے لیے) منجمد نہیں کی جائے گی۔
مغربی کنارے کو یہودا السامرہ کہنے سے بھی اسرائیلی حکومت کی نیت کا فتور ظاہر ہوتا ہے۔ دریائے اردن اور بحیرہِ مردار کے مغرب میں واقع 5655 مربع کلومیٹر کے اس زرخیز قطعہِ ارض پر اسرائیل نے 1967 میں قبضہ کیا تھا۔ اقوام متحدہ کی دستاویزات میں اس ’مقبوضہ‘علاقے کا نام الضفۃ الغربیہ یا West Bank ہے۔ امریکہ سمیت تقریباً ساری دنیا اسے مغربی کنارہ کہتی ہے۔ اسی بنا پر ’نہر الالبحر فلسطین‘ عربوں کا نعرہ ہے یعنی دریائے اردن سے بحر روم تک فلسطین۔ یہودی روایات کی رو سے یہ علاقہ یہودا والسامرہ ہے جو عظیم الشان سلطنتِ داود (ع) کا حصہ تھا۔ گویا یہ مقبوضہ سرزمین نہیں بلکہ اسرائیل کا اٹوٹ انگ ہے۔ اسرائیلی قیادت کے بیانات سے ان فلسطینی رہنماوں کے موقف کو تقویت ملی ہے جو عقبہ مذاکرات کو ڈھونگ اور پی ایل او کو ایک غیر موثر و مفلوج ادارہ کہہ رہے ہیں۔
ارضِ فلسطین کئی دہائیوں سے مقتل بنی ہوئی ہے۔ نہ بازوئے قاتل میں تھکن کے آثار ہیں اور نہ عشاقان کی جانب سے سینہ و سر کی فراہمی میں کوئی کمی۔ اسرائیلی فوج ہر سال رمضان المبارک سے قبل القدس شریف (مشرقی بیت المقدس) کے قریب پرُ تشدد کارروائیوں میں اضافہ کردیتی ہے۔ لیکن اس بار مسجد اقصیٰ میں دراندازی اور بےحرمتی کے ساتھ دریائے اردن کے مغربی کنارے پر فلسطینیوں کے قتل عام کا جو سلسلہ عیدالاضحیٰ سے شروع ہوا اسکی شدت تھمتی ہوئی نظر نہیں آتی۔ غزہ میں اسرائیلی فوج کو داخلے کی ہمت نہیں اس لیے اکتالیس کلومیٹر لمبی اور نو کلومیٹر چوڑی اس پٹی کو خوفناک بمباروں نے اپنے نشانے پر رکھ لیا ہے۔
فلسطینیوں کو گزشتہ لبرل حکومت میں بھی کوئی راحت نصیب نہیں ہوئی حالانکہ اخوانی فکر سے وابستہ رعم برسراقتدار اتحاد کا حصہ تھی لیکن دسمبر کے اختتام پر جب بی بی نے حکومت سنبھالی، معاملات مزید خراب ہوگئے۔ گزشتہ ڈیڑھ ماہ کے دوران فوج کی فائرنگ اور زیر حراست تشدد سے پینسٹھ فلسطینی جاں بحق ہوئے، جن کی اکثریت سولہ سترہ سال کے بچوں کی ہے۔ بمباری سے غزہ میں جو ہلاکتیں ہوئیں اس کا تخمینہ درجنوں میں ہے۔ ہزاروں نوجوان شدید زخمی ہیں جن میں بہت سوں کو تاعمر معذوری کا سامنا ہے۔
دائیں بازو کی قوم پرست سیکولر جماعت لیکوڈ، خوشنودی رب پارٹی (Noam) جماعت عزمِ یہود (Otzma Yehudit) دینِ صیہون پارٹی (Religious Zionism) پاسبانِ توریت (Shas) پارٹی اور متحدہ توریت یہود پارٹی پر مشتمل حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی مقبوضہ عرب علاقوں میں مکینوں کو بے دخل کرکے وہاں اسرائیلی بستیوں کی تعمیر کا کام تیز کردیا ہے۔ اسی کے ساتھ ایک نیا شوشہ یہ اٹھا کہ حماس، حزبِ جہاد اور فلسطینی محاذ آزادی نے نابلوس میں تخریبی سرگرمیوں کے لیے عرین لاسود یعنی شیروں کی کچھار (Lions’ Den) کے نام سے ایک اڈہ قائم کر لیا ہے جہاں گوریلوں کو تربیت دی جاتی ہے۔ اس قسم کی فتنہ گری نئی نہیں ہے۔ ماورائے ضابطہ قتل کے لیے القاعدہ، داعش اور الشباب جیسے کئی دیومالائی اہداف تراشے گئے ہیں۔ اسرائیلی خفیہ ایجنسی کے مطابق شیروں کی یہ کچھار جولائی 2022 میں سجائی گئی۔ اس وقت سے اس کی بازیابی اور پامالی کے لیے اسرائیلی فوج ایک سو سے زیادہ آپریشن کرچکی ہے اور ہر حملے میں بے گناہ فلسطینی مارے گئے۔
یہاں دہشت گردی کے الزام میں گرفتار ہونے والے فرد کا مکان، الزام ثابت ہونے سے پہلے ہی منہدم کردیا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ اگر وہ شخص کرائے دار ہو تب بھی گھر کا انہدام لازمی ہے۔ اسرائیلی قانون میں فلسطینی باشندوں کی جانب سے ’کارِ سرکار‘ میں مداخلت کا ہر عمل دہشت گردی ہے۔ یعنی قبضے کے خلاف مظاہرہ، عوامی مقامات پر فلسطینی پرچم لہرانا یا آزادی کے گیت گانا دہشت گردی ہے۔ گزشتہ سال دسمبر میں ایک سولہ سالہ فلسطینی بچی جانا ذکرنا جنین میں اپنے گھر کی چھت پر فلسطینی پرچم لہراتے ہوئے آزادی کے گیت گارہی تھی کہ اسرائیلی فوج نے اسے گولی ماردی اور اس معصوم کا تڑپتا لاشہ چھت سے نیچے گر پڑا۔
عرین الاسد کی تلاش میں دس فروری تک فلسطیینوں کے نو سو ترپن گھر منہدم کئے گئے جسکے نتیجے میں ایک ہزار اکتیس بالغ افراد (اٹھارہ سال یا اس سے زیادہ) بے گھر ہوئے۔ اگر بچوں شامل کرلیا جائے تو یہ تعداد کئی ہزار ہے۔ادھر کچھ دنوں سے جنین میں بھی شیروں کی کچھار تلاش کی جا رہی ہے۔ تنظیم آزادی فلسطین کا کہنا ہے کہ ان کارروائیوں کا مقصد زیادہ سے زیادہ گھروں کو مسمار کرنا ہے تاکہ علاقے کو اسرائیلی بستیوں کی تعمیر کے لیے ’صاف‘ کیا جاسکے۔
پندرہ فروری کو کچھار کی تلاش میں اسرائیلی فوج نے نابلوس پر زبردست حملہ کیا جس میں ایک بہتر سالہ بزرگ اور سولہ سالہ بچی سمیت دس فلسطینی بحق ہوئے۔ ڈیڑھ سو سے زیادہ نوجوان شدید زخمی ہیں جنہیں ہسپتالوں میں زنجیروں سے جکڑ کر رکھا گیا ہے۔اس کے دوسرے دن جنین ہدف بنا جسکا اُمّ یوسف محلہ عملاً ملیامیٹ ہوگیا۔ یہاں ہر گھر کی دیوار گولیوں سے چھلنی ہے۔ ضعیف خاتون اور بچوں سمیت نو افراد جاں بحق ہوئے۔ دوسرے دن جب صحافیوں نے علاقے کا دورہ کیا تو گلیوں میں گولیوں کے خول کی تہیں جمیں ہوئی تھیں۔ ٹائمز آف اسرائیل نے فائرنگ سے جاں بحق ہونے والی اکسٹھ سالہ ماجدہ عبید کے پوتے کی تصویر شائع کی جو گولی کا ایک خول دورہ کرنے والے صحافیوں کو فخر سے دکھا رہا تھا۔
ستم ظریقی کے عرین الاسد کے نام پر نابلوس اور جنین میں خون کی ہولی کھیلنے کے ساتھ ان پرتشدد کارروائیوں کو تل ابیب نے مغربی کنارے پر نئی بستیوں کے قیام کا جواز قرار دیا ہے۔ فلسطینیوں کی نجی اراضیوں پر قائم نو فوجی ناکوں کو مستقل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے بی بی نے کہا کہ اسرائیلی فوج اور عوام کو دہشت گرد حملوں سے بچا نے کے لیے ضروری یے کہ ان چوکیوں کو مستقل اور پختہ ٹھکانوں میں تبدیل کردیا جائے جس کے لیے ملکیت کی منتقلی ضروری ہے۔
اسرائیل کے اس اعلان پر سعودی عرب کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا اور وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے غرب اردن (فلسطین) کی نو چوکیوں کو اسرائیل کا حصہ بنانے کے اعلان کی شدید مذمت کی۔ سعودی وزیر کا کہنا تھا کہ اس قسم کی اقدامات سے کشیدگی اور تشدد میں اضافہ ہوگا۔ اسی دن لاطینی امریکہ کے چار ممالک برازیل، ارجنٹینا، چلی اور میکسیکو نے فلسطینیوں کو بے دخل کر کے اسرائیلی آبادیاں بسانے کی شدید مذمت کی۔ برازیل سے جاری ہونے والے مشترکہ بیان میں اس فیصلے کو بین الاقومی قوانین اور سلامتی کونسل کی قرارداد 2334 (2016) کی خلاف ورزی قرار دیا گیا۔ امریکہ بہادر نے بھی اسرائیلی حکومت کے فیصلے پر ‘تشویش’ کا اظہار کیا۔ قصر مرمریں (وہائٹ ہاوس) کی نائب پریس سکریٹری محترمہ کرین جین پئر نے نئی آبادیاں بسانے کے فیصلے کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے علاقے میں پائیدار امن کی کوششوں نقصان پہنچے گا۔ تاہم واشنگٹن نے ویٹو کی دھمکی دے کر سلامتی کونسل میں اسرائیل کے خلاف متحدہ عرب امارات کی مذمتی قرارداد رکوادی،
نئی بستیوں کے اعلان اور کچھار کے بہانے فلسطینیوں کے قتل عام پر مسلم و عرب دنیا کا ردعمل مایوس کن بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے بلکہ اسی دوران عمان نے اپنی فضائی حدود اسرائیلی طیاروں کے لیے کھولنے کا اعلان کردیا۔ دوسری طرف سی این این CNN کو انٹرویو میں بی بی نے بہت ڈھٹائی سے کہا کہ ‘فلسطین میں امن کو اپنے دماغ پر سوار مت کرو۔ جب عرب دنیا اور اسرائیل کے تنازعات ختم اور تعلقات معمول پر آ جائیں گے تو فلسطینیوں سے امن کا ایک “معقول” حل تلاش کرلیا جائے گا’
اردن کی یہ کوششیں قابل تحسین ہیں لیکن امن کی راہ میں رکاوٹ اسرائیل کا متکبرانہ رویہ ہے۔ تل ابیب خود کو دنیا کے کسی بھی ادارے کے سامنے جواب دہ نہیں سمجھتا۔ فلسطینی مکانات کا انہدام اور نئی اسرائیلی بستیوں کی تعمیر کا کام جاری ہے چنانچہ فلسطینی بھی پروقار مزاحمت کرتے رہیں گے اور جواب میں ظالمانہ قوتِ قاہرہ کا استعمال بھی ختم ہوتا نظر نہیں آتا۔ جب تک مہذب دنیا اسرائیلی کو معقولیت کی لگام ڈالنے کی جرات نہیں کرے گی، فلسطینیوں کا قتل عام رکنے والا نہیں۔اس ضمن میں تازہ ترین خبر یہ ہے اسرائیلی کابینہ نے نئے سال کے میزانیے میں وزارت قومی سلامتی کے لیے مختص رقم دو ارب چالیس کروڑ ڈالر بڑھادی ہے۔ اس رقم سے مقبوضہ علاقوں میں آپریشن کے لیے ہلکے ہتھیار خریدے جائیں گے اور جیلوں کے حفاظتی اقدامات کو موثر بنایا جائےگا۔
***
***
ارضِ فلسطین کئی دہائیوں سے مقتل بنی ہوئی ہے۔ نہ بازوئے قاتل میں تھکن کے آثار ہیں اور نہ عشاقان کی جانب سے سینہ و سر کی فراہمی میں کوئی کمی۔ اسرائیلی فوج ہر سال رمضان المبارک سے قبل القدس شریف (مشرقی بیت المقدس) کے قریب پرُ تشدد کارروائیوں میں اضافہ کردیتی ہے۔ لیکن اس بار مسجد اقصیٰ میں دراندازی اور بے حرمتی کے ساتھ دریائے اردن کے مغربی کنارے پر فلسطینیوں کے قتل عام کا جو سلسلہ عیدالاضحیٰ سے شروع ہوا اس کی شدت تھمتی ہوئی نظر نہیں آتی۔ غزہ میں اسرائیلی فوج کو داخلے کی ہمت نہیں ہے اس لیے اکتالیس کلومیٹر لمبے اور نو کلومیٹر چوڑی اس پٹی کو خوفناک بمباروں نے اپنے نشانے پر رکھ لیا ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 05 مارچ تا 11 مارچ 2023