
ڈیپ سیک: کم لاگت، زیادہ طاقت۔ مغربی اجارہ داری خطرے میں
ٹیکنالوجی کے شعبہ میں تہلکہ۔ چین کے نئے اے آئی ماڈل سے امریکہ کو زبردست جھٹکا
پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
چینی اے آئی ماڈلز سے ہوشیار رہیں، ڈونالڈ ٹرمپ کا انتباہ
چین کے اے آئی ماڈل نے چند دنوں سے امریکہ میں تہلکہ مچا رکھا ہے۔ 20 جنوری کو لانچ کیے گئے ڈیپ سیک نامی چین میں تیار کردہ مصنوعی ذہانت (AI-R-1) کو لے کر ٹیکنالوجی سے وابستہ افراد اور سرمایہ کار کافی جوش میں ہیں۔ چند ہفتے پہلے تک انقلابی سمجھی جانے والی جنریٹیو اے آئی کا استعمال کرنے والوں کے لیے ڈیپ سیک (Deep Sake) ایک کفایتی، اوپن سروس اور بآسانی دستیاب ہو گیا ہے۔ یہ ڈیپ سیک ماڈل R-1 کے آغاز سے ہی مصنوعی ذہانت کی صنعت میں ایک نیا پیمانہ (Standard) قائم کر چکا ہے۔ یہ اے آئی ماڈل ایپل اسٹور سے مفت میں ڈاؤن لوڈ کیے جانے والے ایپس میں اول مقام حاصل کر چکا ہے۔ اسے ایک ایسے اسٹارٹ اپ نے تیار کیا ہے جو گزشتہ سال ہی وجود میں آیا تھا۔
دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہ اوپن اے آئی کے جی پی ٹی-4، میٹا کے لاما (LLAMA3) اور گوگل کے جیمینائی سے بہتر مظاہرہ کر سکتا ہے اور وہ بھی بہت کم قیمت پر۔ جو لوگ Android یا ایپل استعمال کرتے ہیں وہ چیٹ جی پی ٹی اور جیمینائی سے واقف ہوں گے۔ اے آئی کا استعمال اب روزمرہ کی زندگی میں بڑھ رہا ہے اور اس پر اربوں، کھربوں روپے خرچ ہوتے رہے ہیں مگر ڈیپ سیک جیسے نئے اے آئی ماڈلز کی بدولت یہ سہولت بہت کم قیمت میں دستیاب ہو رہی ہے۔ اس کی تیاری پر محض 5.6 ملین ڈالر کی لاگت آئی ہے۔
ڈیپ سیک کی وجہ سے تجارتی دنیا میں بھی بھاری اتھل پتھل دیکھنے کو ملی ہے۔ 27 جنوری کو چِپ بنانے والی بڑی کمپنی این ویڈیا (Nvidia) کے بازار کی قیمت میں تقریباً 600 ارب ڈالر کا نقصان ہو گیا جو امریکی شیئر بازار میں ایک دن میں آنے والی سب سے بڑی تنزلی تھی۔ ڈیپ سیک کو ملنے والے ردعمل نے اے آئی کے شعبے میں چین کی تکنیکی عظمت پر قدغن لگانے کی امریکی کوششوں کو شدید جھٹکا دیا کیونکہ گزشتہ چند سالوں میں امریکہ نے چین کو ترقی یافتہ چپس کی برآمد پر پابندی لگا دی تھی۔
ڈیپ سیک کی ایک بڑی خوبی اس کا اوپن سروس ہونا ہے جس کی وجہ سے یہ ٹیکنالوجی اور ریسرچ کے لیے بآسانی دستیاب ہو سکتا ہے۔ ساتھ ہی کوئی بھی شخص یا ادارہ اس تکنیک اور تحقیق کو نئے منصوبوں اور پروگراموں میں آسانی سے استعمال کر سکتا ہے۔ ڈیپ سیک اے آئی ایک چیٹ بوٹ ہے جو بظاہر اور کام کرنے میں چیٹ جی پی ٹی جیسا ہی ہے۔ یہ ریاضی (Math) اور کوڈنگ جیسے اعمال میں اوپن اے آئی کے حالیہ جاری کردہ 0-1 ماڈل جتنا ہی طاقتور ہے۔ اوپن اے آئی کے 0-1 کی طرح R-1 بھی ایک منطقی (Logical) اے آئی ماڈل ہے جو ردعمل دینے میں انسانی لوجک کے قریب تر سمجھا جا رہا ہے۔
ڈیپ سیک کی ایک اور بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ دوسرے ماڈلز کے مقابلے میں کم میموری استعمال کرتا ہے جس کی وجہ سے اس کے اخراجات بھی کم آتے ہیں۔ ہائیڈو کے ارنی بوٹ یا بائٹ ڈانس کے ڈوئباؤ کی طرح ڈیپ سیک کو بھی حساس سیاسی سوالات کو نظرانداز کرنے کی تربیت دی گئی ہے جس کی وجہ سے یہ سیاسی سوالات کے جوابات دینے سے گریز کرتا ہے۔ ڈیپ سیک کے بیس ماڈل کو پروہیبیشن نوٹس پیش کرنے سے روکنے کے لیے مزید ٹیکنالوجیکل حفاظتی اقدامات کے ذریعے تربیت دی گئی ہے۔
ڈیپ سیک کی تیزی سے بڑھتی ہوئی مقبولیت ظاہر کرتی ہے کہ بڑے بجٹ اور مہنگے چپس کے بغیر بھی اے آئی ٹیکنالوجی کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ حالانکہ ڈیپ سیک کی مقبولیت نے اچھے معیاری چپس کے مستقبل پر بھی غیر یقینی کے سائے ڈال دیے ہیں، خاص طور پر اوپن اے آئی جیسی بڑی کمپنی کے لیے، جس کی بازاری سرمایہ کاری 57 بلین ڈالر ہے۔ 27 جنوری کو ڈیپ سیک کے کم لاگت کے اعلان نے دنیا بھر کے مالی بازاروں میں زلزلہ برپا کر دیا جس کے نتیجے میں اوریکل، این ویڈیا، ڈیل اور ٹیسلا کو بھاری خسارے کا سامنا کرنا پڑا۔
فوربس کی ایک رپورٹ کے مطابق سرمایہ کاری کے لحاظ سے این ویڈیا چپ سازی میں سب سے بڑی کمپنی تھی مگر اب یہ مائیکروسافٹ اور ایپل کے بعد تیسرے نمبر پر آ گئی ہے۔ سی این این کی ایک رپورٹ کے مطابق میٹا نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ وہ اے آئی کو بہتر بنانے کے لیے 65 بلین ڈالر خرچ کر چکا ہے۔ اسی طرح اوپن اے آئی کے سی ای او سیم آلٹمین نے گزشتہ سال کہا تھا کہ اے آئی کی ترقی کے لیے کئی ٹریلین ڈالر درکار ہوں گے، مگر ڈیپ سیک جیسے کم لاگت والے اور یوزر فرینڈلی اے آئی ماڈلز اس بیانیے کو چیلنج کر رہے ہیں۔
ویسے ڈیپ سیک ایک نجی ملکیتی کمپنی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ عام سرمایہ کاروں کے لیے دستیاب نہیں ہے۔ امریکہ نے چین کو چپس کی برآمد پر سخت پابندیاں لگا رکھی تھیں۔ ایسے میں چین اور ڈیپ سیک جیسی کمپنیوں کے منتظمین نے چپ پر لگی پابندی کو ایک چیلنج کے طور پر قبول کرتے ہوئے اس موقع کا بہترین استعمال کیا ہے۔ ایم آئی ٹی ٹیکنالوجی ریویو کے مطابق اندازہ ہے کہ پابندی لگنے سے پہلے ہی ڈیپ سیک نے این ویڈیا A100 چپس کا 10,000 سے 50,000 کا ذخیرہ کر لیا تھا۔
عمومی طور پر دنیا کے ترقی یافتہ اے آئی ماڈلز 16,000 خصوصی چپس استعمال کرتے ہیں مگر ڈیپ سیک نے محض 2,000 خصوصی چپس اور ہزاروں کم قیمت چپس کے ذریعے اپنے اے آئی ماڈل کی تربیت مکمل کی ہے۔ ڈیپ سیک کی ابتدائی کامیابی نے چین کو بڑا حوصلہ دیا ہے، جو ہمیشہ امریکہ کا مقابلہ کرنے کے لیے الگ سے نئی ٹیکنالوجیز تیار کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔
ڈیپ سیک کی کامیابی کو چینی اختراعیت 2.5 کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے جو بھارت سمیت دیگر ترقی پذیر ممالک کے انٹرپرینیورز کو بھی ایجادات (Innovation) کے لیے حوصلہ افزائی فراہم کر سکتا ہے۔
ہمارے ملک میں اختراعیت (Innovation) کا دور کب آئے گا؟ کیا ہمارے ملک میں ڈیپ سیک جیسی کوئی کمپنی عالمی سطح پر اپنا لوہا منوا سکتی ہے؟ ہم صرف امریکی کمپنیوں میں بھارتی سی ای اوز کو دیکھ کر خوش ہو جاتے ہیں کیونکہ انہیں ترقی کے مواقع بھارت کے بجائے امریکہ میں ملتے ہیں۔
اسٹارٹ اپ انڈیا یا اسکل انڈیا جیسے نعروں کی نہیں بلکہ ملک میں بہتر تکنیکی ماحول کی ضرورت ہے تاکہ اختراعیت کو فروغ دیا جا سکے اور ہم اپنی ٹیکنالوجی کو عالمی معیار کا بنا سکیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے ملک میں کوئی ایسا قدم اٹھایا جا رہا ہے یا نہیں؟ کیا ہمارے ملک کے ذمہ دار، اسکول یا تعلیمی ادارے، تحقیق پر اتنا فوکس کر رہے ہیں کہ ہم عالمی سطح پر مسابقت کر سکیں؟
یا ہماری تمام تر توجہ صرف مذہبی تنازعات میں الجھی رہے گی؟
ڈیپ سیک کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ اوپن سورس ہونے کے ساتھ ساتھ بہت کم قیمت پر دستیاب ہے۔ ڈیپ سیک R-1 ماڈل کو تربیت دینا اوپن اے آئی جیسے مستحکم ماڈلز کے مقابلے میں 95 فیصد سستا ہے۔ حیرت انگیز طور پر R-1 ماڈل کے اے آئی کی قیمت محض 0.55 فی ملین ٹوکن ہے جو اوپن اے آئی کے کل اخراجات کا صرف دو فیصد بنتا ہے۔ اس کے علاوہ اسے چھوٹے ہارڈویئر پر بھی آسانی سے چلایا جا سکتا ہے۔ ایسے ماڈلز جو 1.5B سے 70B پیرا میٹرز کی صلاحیت رکھتے ہیں اکثر صارفین کے جی پی یو پر جی پی ٹی-4 کی طرح ہی استعمال ہوتے ہیں۔ 1.5B جیسے پیرا میٹرز مستقبل میں تربیتی ماڈلز کی صلاحیت کا پیمانہ طے کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
ڈیپ سیک R-1 ماڈل MVER آرکیٹیکچر، RL-1 تربیت اور GRP الگورتھم کو یکجا کرکے عام صارفین کے لیے زیادہ مفید بناتا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی ضروری پیرامیٹرز کو متحرک کرکے، معیار سے سمجھوتہ کیے بغیر، کمپیوٹیشنل اخراجات کو کم کرتی ہے اور RL-1 تربیتی ماڈل کو زیادہ منطقی اور زیادہ طاقتور بناتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ درست اور منطقی نتائج فراہم کرتا ہے۔
ڈیپ سیک کے بڑھتے اثر و رسوخ سے خوفزدہ ہوکر، امریکہ نے کہنا شروع کر دیا ہے کہ یہ امریکی خفیہ معلومات چین منتقل کر سکتا ہے، اس لیے اس پر پابندی عائد ہونی چاہیے۔ اب امریکی معیشت تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے اور اس کے "اچھے دن” ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ ٹرمپ کی پالیسیاں امریکہ کے دشمنوں کے لیے سازگار بنتی جا رہی ہیں اور وہ ماحولیاتی تبدیلی کے معاہدوں اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن سے علیحدگی کے دباؤ میں ہیں۔
اس کے بعد اب ٹیکنالوجی کا یہ بڑا جھٹکا امریکہ کو مزید بھگتنا پڑے گا۔ ڈیپ سیک کے صرفے کے اعلان نے ایک ہی جھٹکے میں ایک ٹریلین ڈالر کا نقصان پہنچا دیا۔ چین نے نہ کوئی گولہ داغا، نہ کوئی فضائی حملہ کیا، نہ ہی کوئی میزائل چلایا پھر بھی امریکہ کو اتنا بڑا مالی خسارہ ہوا۔
ٹرمپ نے خبردار کیا کہ چینی اے آئی ماڈلز سے ہوشیار رہا جائے۔ انہوں نے ری پبلکن کانگریس میں کہا کہ "ڈیپ سیک اے آئی ہماری انڈسٹری کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔ ہمیں اس میدان میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے پوری توجہ مرکوز کرنا ہوگی اور کمپنیوں کو کم لاگت میں اختراع (innovation) کرنے کے لیے مجبور کرنا ہوگا۔”
اس کے علاوہ چین نے دو اور بڑے اقدامات کر دیے ہیں—اس نے Kimi AI (K-1.5) لانچ کرنے کا اعلان کیا ہے اور علی بابا جیسی بڑی کارپوریٹ کمپنی نے Qwen 2.5 جیسا جدید مصنوعی ذہانت ماڈل متعارف کروا دیا ہے۔ لہٰذا مغربی ممالک نے چین پر الزامات کی بوچھاڑ شروع کر دی ہے۔ ان دونوں ماڈلز کو ڈیپ سیک اے آئی ماڈل سے زیادہ طاقتور قرار دیا جا رہا ہے۔
***
ڈیپ سیک کے بڑھتے اثر و رسوخ سے خوفزدہ ہوکر، امریکہ نے کہنا شروع کر دیا ہے کہ یہ امریکی خفیہ معلومات چین منتقل کر سکتا ہے، اس لیے اس پر پابندی عائد ہونی چاہیے۔ اب امریکی معیشت تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے اور اس کے "اچھے دن” ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ ٹرمپ کی پالیسیاں امریکہ کے دشمنوں کے لیے سازگار بنتی جا رہی ہیں اور وہ ماحولیاتی تبدیلی کے معاہدوں اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن سے علیحدگی کے دباؤ میں ہیں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 09 فروری تا 15 فروری 2025