دین و دنیا کی فلاح کی ایک جامع دعا

0

ڈاکٹر ساجد عباسی، حیدرآباد

دعا کا آخری جملہ نہایت پُرمعنی اور دل کو چھو لینے والا ہے، جس میں اللہ تعالیٰ سے یہ التجا کی گئی ہے کہ موت کو تمام شرور سے نجات اور راحت کا ذریعہ بنادے۔ یہ اس وقت کی دعا ہے جب حالات اس حد تک بگڑ جائیں کہ زندگی بوجھ بن جائے اور موت نجات کی صورت نظر آنے لگے۔ ایسی کٹھن گھڑیوں میں بندۂ مومن کو یہی دعا سکھائی گئی ہے اور یہی دعا آج اہلِ غزہ کے حالِ زار پر پوری طرح صادق آتی ہے۔
حدیث شریف :وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «اللَّهُمَّ أَصْلِحْ لِي دِينِي الَّذِي هُوَ عِصْمَةُ أَمْرِي وَأَصْلِحْ لِي دُنْيَايَ الَّتِي فِيهَا مَعَاشِي وَأَصْلِحْ لِي آخِرَتِي الَّتِي فِيهَا مَعَادِي وَاجْعَلِ الْحَيَاةَ زِيَادَةً لِي فِي كُلِّ خَيْرٍ وَاجْعَلِ الْمَوْتَ رَاحَةً لِي مِنْ كُلِّ شَرٍّ»۔ (رَوَاهُ مُسلم)
حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ دعا کیا کرتے تھے ’’اے اللہ! میرے دین کی اصلاح فرما جو کہ میرے تمام معاملات کا محافظ ہے ، میری دنیا کی اصلاح فرما جس میں میری معاش ہے ، میری آخرت کی اصلاح فرما جہاں مجھے لوٹ کر جانا ہے ، زندگی کو ہر قسم کی خیر و بھلائی میں اضافہ کا باعث بنا اور موت کو ہر قسم کے شر سے راحت کا باعث بنا‘‘
یہ ایک نہایت جامع دعا ہے۔ اس دعا میں نبی کریم ﷺ نے اپنی امت کو یہ سکھایا ہے کہ بندے کو اللہ تعالیٰ سے اپنے دین، دنیا اور آخرت کی بھلائی کے لیے دعا کرنی چاہیے، کیونکہ یہی تینوں پہلو انسان کی زندگی کے مکمل نظام کو تشکیل دیتے ہیں۔
نبی کریم ﷺ نے سب سے پہلے دین کی اصلاح کی دعا کی، کیونکہ دین ہی انسان کے تمام معاملات کی بنیاد اور محافظ ہے۔ اگر دین درست ہو تو زندگی کے باقی پہلو بھی درست ہو جاتے ہیں۔دین میں بنیادی چیز عقیدہ ہے ۔اسلامی عقائد کی خصوصیت یہ ہےکہ ان عقائد کو دلوں میں راسخ کرنے کے لیےقرآن میں جگہ جگہ دلائل دیے گئے ہیں ۔اسی لیے فرمایا گیا ہے کہ قرآن کو سمجھ کر تلاوت کرنے سے ایمان بڑھتاہے(سورۃ الانفال :۲) ۔اسلام اور غیر اسلام میں سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ اسلام میں ایمانیات کی بنیاد دلائل پر رکھی گئی ہےجبکہ دوسرے مذاہب میں ان کے عقائد کی بنیاد اندھے یقین ،آستھا اور اندھی تقلید پر رکھی گئی ہے۔اسلام کے تین بنیادی عقائد ہیں :توحید ،رسالت اور آخرت ۔ان عقائد کو ثابت کرنے کے لیے آفاق وانفس اور تاریخ سے دلائل پیش کیے گئےہیں ۔ان عقائد پر عبادت ،اخلاقیات ،معاملات کا نظام قائم کیا گیا ہے۔عبادات کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے بندے کا تعلق مضبوط ہو، اس کے اندر تقویٰ کی صفت پیداہواوروہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا خوگربنے۔دینِ اسلام ،علم اور عمل پر مشتمل ہے ۔ تقویٰ ایسی صفت ہے جو علم کو عمل کا جامہ پہناتی ہے۔اس لیے تقویٰ کا دین میں بہت اہم مقام ہے۔تقویٰ ایسی جامع صفت ہے جس سے سارے معاملات درست ہو سکتے ہیں ۔اللہ اور بندوں کے حقوق اسی صورت میں ادا ہوسکتے ہیں جب دلوں میں تقویٰ موجود ہو۔
پھر آپ نے دنیا کی اصلاح کی دعا مانگی، کیونکہ دنیا سے ہی انسان کی معاش اور ضروریاتِ زندگی وابستہ ہیں۔ دنیا کی اصل بھلائی یہ ہے کہ انسان کو سکون اور عزت کے ساتھ حلال رزق مہیا ہو ۔دنیا وی امورکا اہم ترین شعبہ معاش ہے ۔معاشیات میں کمائی ،خرچ اور لین دین سے متعلق تمام معاملات شامل ہیں ۔حلال رزق سے طیب شخصیت بنتی ہے اورزندگی میں برکتوں کا ظہورہوتاہے۔حرام رزق جب جسم کا حصہ بنتا ہے تو دعائیں بھی آسمان میں پروازنہیں کرتیں اور شرف قبولیت سے محروم رہ جاتی ہیں ۔علامہ اقبال نے کیا خوب کہا :
اے طائرلاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پروازمیں کوتاہی
اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ حرام رزق سے روحانی ترقی رک جاتی ہے اور انسان مادہ پرستی کا شکار ہوجاتا ہے ۔دنیاوی امورمیں اللہ تعالیٰ نے معاشرت کو بھی بہت اہمت دی ہے ۔شوہر اور بیوی دونوں کے ذمہ ہے کہ وہ خاندانی نظام کو مستحکم رکھیں اورمیاں بیوی کے درمیان باہمی اعتماد قائم رہے ۔ والدین پر ذمہ داری ڈالی گئی کہ وہ بچوں کی اچھی تربیت کریں تاکہ دینِ اسلام کے سایہ میں ان کی تربیت ہو۔بچوں پر ذمہ داری ڈالی گئی کہ وہ والدین کی اطاعت اورخدمت کریں بالخصوص جب وہ بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائیں ۔رشتہ داروں ،یتیموں اور مسکینوں کے حقوق بتلائے گئے ہیں تاکہ معاشرہ میں کوئی احساسِ محرومی کا شکارنہ ہو۔مفلس ترین اور بے حد محتاج بھی اپنے آپ کو غم خواروں کے درمیان محسوس کرے۔دنیا وی امور میں اخلاقیات کا بہت بڑا مقام ہے۔اخلاق کا یہ معیاررکھا گیا ہے کہ جوچیز اپنے لیے پسند کرے وہی دوسروں کے لیے بھی پسند کرے ۔اسلام کی خوبی یہ ہے کہ ایمانیات یعنی اعتقادی نظام کو زندگی کےدوسرے تمام نظام ہائے حیات سے جوڑاگیا ہے۔مثلاً یہ فرمایا گیا کہ اس شخص کے دل میں ایمان نہیں ہے جو اپنی خواہشِ نفس کو دین وشریعت کا تابع نہ بنائے ۔وہ شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے اسی طرح خیر وبھلائی پسند نہ کرے جس طرح اپنے لیے کرتا ہے (نسائی) وہ شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک رسول اسے اس کے اہل وعیال اور مال و متاع اور سب لوگوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہوجائیں (نسائی) جتنا ایمان مضبوط ہوگا اسی قدر معاملات ،اخلاقیات اورمعاشرت میں اس کے مثبت اثرات ظاہر ہوں گے۔
اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے آخرت کی بھلائی کی دعا کی، کیونکہ انسان کو بالآخر اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے، اور دائمی زندگی آخرت کی زندگی ہے۔ آخرت میں جہنم سے نجات اور جنت میں داخلہ ہی اصل کامیابی ہے۔ آخرت کا عقیدہ انسان کے اندر ایسا حوصلہ پیداکرتا ہے کہ وہ عدل وانصاف کی خاطر ہر طرح کی تکلیف اٹھانے کے لیے تیار ہوجائے گا۔دنیا کی عارضی آسائشوں کے مقابلے میں آخرت میں جنت کی نعمتوں کا حصول اس کی زندگی کا مقصدبن جاتا ہے ۔دنیا کی عدالتوں کے غلط فیصلوں سے دنیاوی زندگی میں قیدوبند اور موت کی سزابھی اس کے اندر ذراسی مایوسی بھی پیدانہیں کرتی اس لیے کہ اس کو یقین ہوگا کہ آخرت میں اس ناانصافی کا حساب ہوگا اور وہاں حقیقی انصاف ہوگا۔حق پرستی کے جرم میں دنیا میں خوفناک اذیتیں دی جاتیں ہیں۔جب تک آدمی کو آخرت میں ملنے والے انصاف اور وہاں کے اجر کی قوی امید نہ ہوتوکوئی آدمی ظالموں کے ظلم کے مقابلے میں زیادہ دیر تک ٹک نہیں سکتا ۔ایک وقت پر انسان کی ہمت ٹوٹنے لگتی ہے لیکن ایمان بالآخرت اس کو اتنا مضبوط بنادیتا ہے کہ وہ ظالم کے مقابلے میں ڈٹ جاتا ہے اور دنیا کی کوئی طاقت اورخوفناک اذیت بھی اس کے قدموں کو ڈگمگانہیں سکتی ۔
دعا کا آخری حصہ بہت دل آویز ہے جس میں یہ دعا مانگی گئی ہے کہ اے اللہ میری زندگی میں اضافہ فرمادے ہر خیر کے لیےاور موت اس وقت عطا فرما جس کی بدولت مجھے ہر شر سے راحت ملے۔زندگی بہت بڑی نعمت ہے لیکن یہ عارضی ہے ۔اس عارضی زندگی کی نعمت کا اس طرح استعمال ہو جس سے ہمیں آخرت کی ابدی زندگی میں لازوال نعمتیں ملیں ۔اگر یہ عارضی زندگی اللہ کی ناراضگی میں گزرے ہو تو اس صورت میں ایسی زندگی ہر روز ہمارے لیے اخروی زندگی کو پرخطر بناتی رہے گی اور ہمیں جہنم کے عذاب کا مستحق بناتی رہے گی ۔ایسی صورت میں عمر کا درازہونا فائدے کے بجائے نقصان کا باعث ہوگا۔اس لیے مہلت عمر میں اضافے کی تمنا کے ساتھ ساتھ اس بات کی کوشش کی جائے کہ ہر دن صبح سے شام تک ہمارے اعمال نامے میں نیکیوں کا اضافہ ہوتا رہے اور ہر آن اللہ کی خوشنودی کے حصول میں گزرے ۔یہاں تک کہ ہمیں موت آئے تو اس حال میں آئے کہ اللہ ہم سے راضی ہو اور ہم اللہ سے راضی ہواور اس سے ملاقات کے متمنی ہوں ۔
دعا کا آخری ٹکڑا بہت ہی معنی خیز ہے کہ اے اللہ موت کو تمام امورِ شر سے نجات اور راحت کا ذریعہ بنادے ۔اگرحالات اتنے خراب ہوجائیں کہ زندگی سے موت بہتر محسوس ہو تو ایسی صورت میں جو دعا مانگنی چاہیے اس کو یہاں پیش کیا گیا ہے ۔اہلِ غزہ نے شہادت کو غلامی پر ترجیح دی ہے ۔اس لیے ان پر عرصۂ حیات اس قدرتنگ کردیا گیا ہے کہ ظالم صہیونی حکومت نے ان کو مکانوں سے ،پانی ،غذااور ادویات وعلاج سے تک محروم کردیا ہے تاکہ وہ بھوک ،پیاس اورزخموں کی تاب نہ لاکر ان کے آگے گھٹنے ٹیک دیں۔ ایسی صورت میں موت ان کے لیے سب سے بڑی راحت بن چکی ہے ۔چونکہ یہ موت ان کو شہادت کے اعزاز سے نوازنے والی ہے توموت ان کے لیے جنت میں داخلہ کا ایک دروازہ ہے ۔ایک طرف زندگی جہنم بن چکی ہے اور موت جنت میں داخلہ کے لیے ایک دروازہ بن چکی ہے تو وہاں ہر شخص موت سے بے خوف ہوکر اس کو اللہ کی ملاقات کا ذریعہ سمجھ کر موت کو گلے لگارہا ہے۔جہاں کھانے پینے کے سامان کی امداد کے نام پر موت کو تقسیم کیا جارہا ہو، وہاں انہیں دونوں میں ایک کوئی چیز دستیاب ہے۔یاتو انہیں کھانا ملے گا یا گولی۔ایسی صورت میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ موت سے ڈرسے کوئی کھانا لینے کے لیے امداد کے مرکز پر نہیں پہنچتا ۔لیکن ان کو معلوم ہے کہ موت اس وقت ایک ایسی راحت (luxury) ہے جو نہ صرف اس عارضی جہنم سے نجات کا ذریعہ ہے بلکہ ابدی جنت کا راستہ بھی ہے ۔اس تصورکو لیے ہوئے اہلِ غزہ موت سے بے خوف ہوکر امدادی مراکز پر پہنچتے ہیں۔آسمان نے ایسامنظر کبھی نہ دیکھا ہوگا کہ امداد کے ساتھ موت کو بھی تقسیم کیا جارہا ہو۔اہلِ غزہ کی موت ،صہیونیوں کے لیے ایک تفریح کا سامان بن چکی ہے ۔ اہلِ غزہ کو بدترین محاصرہ میں رکھ کر دراصل اللہ تعالیٰ دنیا کے تمام انسانوں کا امتحان لے رہا ہے ۔عرب حکم رانوں کا امتحان تو بہت شدید ترین ہے ۔ان حالات سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ دنیا کے انسانوں کی اکثریت حسِ انسانیت کو کھودیا ہے ۔افسوس کی بات ہےکہ جو لوگ جانوروں کے حقوق کے بارے میں اتنے حساس ہوتے ہیں کہ ان پر ذراسا بھی ظلم محسوس ہوتو آسمان سر پر اٹھالیتے ہیں لیکن بچوں اور خواتین پر بم پھینکے جاتے ہیں اوران کو بھوک اور پیاس کے ذریعے تڑپایا جاتا ہے ان کے لیےبالکل بے حس ہوچکے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو امتحان کے لیے پیدافرمایا ہے ۔عام انسانوں کی انسانی غیرت کا بھی امتحان ہے اور مسلمانوں کی ایمانی غیرت کا بھی امتحان ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے کہ وہ دعوائے ایمان کی بھی آزمائش کرکے رہے گا(سورۃ العنکبوت :۲)۔
یہ دعا ہمیں سکھاتی ہے کہ زندگی کے ہر پہلو میں اللہ کی مدد اور رہنمائی کی ضرورت ہے۔ ایک مومن کی کامیابی اسی میں ہے کہ وہ ہر وقت اللہ تعالیٰ سے دین، دنیا اور آخرت کی بھلائی مانگتا رہے اور زندگی اور موت دونوں میں خیر کو تلاش کرے ۔اللہ سے دعا یہ ہے کہ ہمارے لیے زندگی خیر و برکت کا ذریعہ بنے اور موت ہر قسم کی برائیوں سے نجات اور راحت کا سبب ہو۔
اہلِ غزہ کی موت ،صہیونیوں کے لیے ایک تفریح کا سامان بن چکی ہے ۔ اہلِ غزہ کو بدترین محاصرہ میں رکھ کر دراصل اللہ تعالیٰ دنیا کے تمام انسانوں کا امتحان لے رہا ہے ۔عرب حکم رانوں کا امتحان تو بہت شدید ترین ہے ۔ان حالات سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ دنیا کے انسانوں کی اکثریت حسِ انسانیت کو کھودیا ہے ۔افسوس کی بات ہےکہ جو لوگ جانوروں کے حقوق کے بارے میں اتنے حساس ہوتے ہیں کہ ان پر ذراسا بھی ظلم محسوس ہوتو آسمان سر پر اٹھالیتے ہیں لیکن بچوں اور خواتین پر بم پھینکے جاتے ہیں اوران کو بھوک اور پیاس کے ذریعے تڑپایا جاتا ہے ان کے لیےبالکل بے حس ہوچکے ہیں ۔
***

 

***

 اہلِ غزہ کی موت ،صہیونیوں کے لیے ایک تفریح کا سامان بن چکی ہے ۔ اہلِ غزہ کو بدترین محاصرہ میں رکھ کر دراصل اللہ تعالیٰ دنیا کے تمام انسانوں کا امتحان لے رہا ہے ۔عرب حکم رانوں کا امتحان تو بہت شدید ترین ہے ۔ان حالات سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ دنیا کے انسانوں کی اکثریت حسِ انسانیت کو کھودیا ہے ۔افسوس کی بات ہےکہ جو لوگ جانوروں کے حقوق کے بارے میں اتنے حساس ہوتے ہیں کہ ان پر ذراسا بھی ظلم محسوس ہوتو آسمان سر پر اٹھالیتے ہیں لیکن بچوں اور خواتین پر بم پھینکے جاتے ہیں اوران کو بھوک اور پیاس کے ذریعے تڑپایا جاتا ہے ان کے لیےبالکل بے حس ہوچکے ہیں ۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 03 جولائی تا 09 اگست 2025