سید اسعد گیلانی
بچوں کی دینی و اخلاقی تربیت کے لیے والدین عملی نمونہ بنیں۔ اجتماعی مطالعہ ایک کارآمد طریقہ
دین اسلام مردوں اور عورتوں دونوں کو مساوی طور پر ایمان لانے کی دعوت دیتا ہے۔ ان کے ذمے انفرادی فرائض لگاتا ہے اور دین کے قیام کی جدو جہد کے لیے دونوں کو یکساں پکارتا ہے۔ ایمان قبول کرنے، اس پر عمل پیرا ہونے اور اپنے رب کے سامنے اپنے اعمال کی جواب دہی میں دونوں برابر ہیں۔ نہ کوئی ایک دوسرے کے لیے چھٹکارے کا باعث بن سکتا ہے اور کسی ایک کی خدمات کا حوالہ دے کر کوئی دوسرا چھوٹ سکتا ہے۔ یہی وہ چیز تھی جس کی وضاحت کے لیے حضرت محمد (ﷺ) نے اپنے گھر کی دو نہایت عزیز خواتین کو ان الفاظ میں مخاطب فرمایا تھا۔
’’ اے محمد کی بیٹی فاطمہ اور اے رسول کی پھوپھی صفیہ دوزخ سے چھٹکارا پانے کی کوشش کرو، کیوں کہ میرا رشتہ تمہارے لیے خدا کے ہاں مفید نہیں ہو سکتا‘‘
آخرت میں سرخروئی اور مالک سے مغفرت پالینے کی جد و جہد مرد اور عورت دونوں کے لیے ضروری ہے اور دونوں ایک دوسرے کے ساتھ باہمی تعاون کے ذریعے اپنے اعمال میں اضافہ تو کرسکتے ہیں لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ آخرت میں اپنے نامہ ہائے اعمال بدل لیں یا اپنی نیکیاں یہاں سے وہاں منتقل کرکے ایک دوسرے کو بچالیں۔ رب کے سامنے اپنے اعمال کی جواہ دہی ایک ایسا خالص انفرادی معاملہ ہے جس میں کوئی کسی کی مدد نہیں کر سکتا، کوئی کسی پر الزام دھر کر بچ نہیں سکتا اور نہ کوئی کسی سے کچھ لے دے کر جان نہیں چھڑا سکتا۔ مالک کی طرف سے عائد شدہ فرائض کو پورا کرنا مالک کے ہر اطاعت گزار اور وفادار غلام کا اپنا کام اور مطیع فرمان اور وفادار لونڈی کا اپنا معاملہ ہے اس میں کسی کے لیے کوئی رعایت اور تخصیص نہیں ہے، وہ فرائض بھی جو مالک نے اپنے غلاموں اور اپنی لونڈیوں پر ان کی انفرادی حیثیت میں عائد کیے ہیں اور وہ فرائض بھی جو مالک نے ان پر اجتماعی حیثیت سے عائد کیے ہیں اور درحقیقت اجتماعی فرائض بھی انفرادی جد و جہد کے ذریعے ہی ادا ہو سکتے ہیں جن میں سب سے زیادہ اہم اور سب سے بڑا اجتماعی فریضہ دین کی سربلندی کی جد و جہد ہے۔ اللہ تعالی اپنے بندوں کو یا ایھا الناس کہہ کر اپنی بندگی کی طرف بلاتا ہے
اور اس میں مردوں و عورتوں کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ پھر ایمان والوں کو یا ایھا الذین امنوا کہہ کر پکارتا ہے اور ان پر فرض عائد کرتا ہے اور ان میں بھی عورتوں اور مردوں کی کوئی تخصیص نہیں کرتا۔ سب سے پہلے یہ بات ذہن سے نکال دینے کی ہے کہ دین کو سر بلند کرنے اور اسے قائم کرنے کا فریضہ صرف مردوں پر ہے۔ عورتوں پر اول تو ہے ہی نہیں اور اگر کسی درجے میں ہے بھی تو کس بلکے پھلکے انداز میں محض اضافی اجر حاصل کرنے کی خاطر ہے ورنہ عورت تو مرد کے تابع فرمان ہونے، کمزور جسم ہونے اور بچوں میں مصروف ہونے کے سبب ان ساری ذمہ داریوں سے بالکل بری الذمہ ہے۔ ان کی طرف سے ان کی دینی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے مرد کافی ہیں اور وہ جس نوعیت کی بھی ذمہ داری ادا کرلیں، اس کے سوا بھلا کیا چارہ کار ہو سکتا ہے۔
ظاہر ہے کہ دین کے ساتھ طرز عمل کا یہ تصور کسی صنف کے لیے بھی درست نہیں ہے۔ اگر مردوں کی طرف سے کیا ہوا دینی کام ہی عورتوں کے لیے کافی ہوتا تو حضرت نوح (علیہ السلام) کی صدیوں کی پر مشقت دعوت دین ان کی بیوی کو ضرور بچا لیتی لیکن قرآن گواہ ہے کہ وہ نہ بچا سکی۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کے اپنے مالک کی راہ میں اُٹھائے ہوئے مصائب ان کی بیوی کو بچالیتے لیکن عذاب ناک پتھروں کی مار سے اسے نہ بچا سکے۔ اسی طرح اگر عورتوں کا دین مردوں کے حوالے ہی ہوتا تو فرعون کی بیوی کو کیا ضرورت پڑی تھی کہ اپنے علیحدہ دین حق کا اظہار کر کے آزمائشوں میں مبتلا ہوتیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح ہر ہر مسلمان مرد کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی آخرت کی فکر کرے اور اپنے دینی فرائض کو خود ادا کرے اور ان فرائض میں سب سے بڑا فریضہ دین کو قائم کرنا اور اس کی عمل داری کے اجراء کا فریضہ ہے جس کی طرف سے جو جتنی غفلت برتے گا اپنے نامہ اعمال کو اسی قدر ہلکا اور بے وزن بنائے گا اور آخرت کی باز پرس کا اسی قدر مستحق ٹھہرے گا۔ اپنے گھروں میں خواتین کے نان و نفقہ اور دیگر مسائل سے جس طرح مرد پہلو تہی نہیں کرسکتے اس لیے کہ انہیں گھروں میں قوام کی حیثیت دی گئی ہے اور ان کے اثرات غالب تر رکھے گئےہیں۔ اسی طرح خواتین کی دینی تعلیم و تربیت اور ان کے دینی مسائل کے بارے میں بھی وہ کلیتہ بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔ خود ان کے دین نے ان کو یہ حکم دیا ہے کہ قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا (تحریم) ’’اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاؤ‘‘
اور ظاہر ہے کہ آگ سے بچانے کے لیے ان میں اللہ کی اطاعت و خشیت، دینی احکام کی پابندی اور اسلامی ذمہ داریوں کو ادا کرنے پر آمادہ کرنا ہے تاکہ وہ اللہ کے غضب کی آگ سے بچ سکیں اور اسی اسلامی تربیت کے لیے ان کو یہ دعا سکھائی گئی ہے۔
رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا (الفرقان)
’’اے ہمارے رب عطا فرما تو ہمیں اپنے اہل خانہ اور اولادوں کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک اور ہمیں نیک لوگوں کا پیشوا بنا‘‘
یعنی انہیں اتنی توفیق عطا فرما کہ ہمارے زیر اثر جو لوگ بھی ہوں، وہ نیک اور خدا سے ڈرنے والے ہوں ۔
خواتین اور تربیت اولاد
اسی طرح اولاد کے معاملے میں ان کی دینی تربیت کی ذمہ داری مردوں سے بڑھ کر عورتوں کی ہے۔ اس لیے کہ بچوں کی تربیت میں باپ سے بڑھ کر ماں کے اثرات کام کرتے ہیں۔ چوں کہ چھوٹے چھوٹے ذہنوں میں اولین اثرات ان کی ماؤں کی طرف سے قائم ہوتے ہیں۔ جیسے کسی چھوٹے پودے کے تنے پر کوئی نقش بنا دیا جائے تو وہ پودے کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اسی طرح ابتدائی زندگی کے نقوش بعد میں آنے والی زندگی کے مستقل نقوش کی صورت میں بچوں کی شخصیت پر نقش ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ماں اور باپ دونوں میں جو بھی اپنے دینی اور اخلاقی کردار میں کوئی کمزوری رکھتا ہے، بالعموم وہ کمزوری اولاد میں نمودار ہوکر رہتی ہے۔ انسانی فطرت سہولت پسند واقع ہوئی ہے اور اگر دونوں میں سے کسی ایک کی زندگی دینی حدود و قیود کی پابندیوں سے جس جس درجے میں آزاد ہوتی ہے اسی درجے میں بچے اس سہولت سے غیر شعوری طور پر فائدہ اُٹھاتے اور اسے نمونہ بنا کر اس کی پیروی کرتے ہیں۔ اگر دینی امور کی انجام دہی میں باپ کے اندر کوتاہیاں ہیں تو بچے اس سے وہ کوتابیاں اخذ کر لیتے ہیں اور اگر ماں کے اندر کمزوری ہے تو وہ کمزوری ماں سے قبول کر لیتے ہیں، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ چاہے بچے ماں باپ کی ساری خوبیوں کے حامل نہ ہوں لیکن بالعموم دونوں کی کمزوریاں چن چن کر وہ اپنے اندر ضرور جمع کر لیتے ہیں۔ اس لیے والدین میں سے بھی جو اپنے اندر دین کی طرف سے لاپروائی یا اخلاقی حدود کی عدم پابندی کا شکار ہوتا ہے وہ دراصل اپنی اولاد کو بھی اس کوتاہی کا پروانہ رخصت دینے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔
قرآن نے مرد و زن کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا ہے ۔
هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمُ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ (بقره)
وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو۔
اگر لباس کے تقاضوں کا اہتمام دونوں میاں بیوی باہم ایک دوسرے کے لیے نہیں کرتے، ایک دوسرے کی اخلاقی ستر پوشی ایک دوسرے کی خرابیوں کو رفع کرنےکی کوشش اور ایک دوسرے کی عزت واخلاق اور آبرو کی حفاظت کا اہتمام نہیں کرتے تو پھر خرابی ضرورہی اولاد کی طرف منتقل ہو کر رہتی ہے۔ گویا جو ناقص اخلاقی بیج ہوگا وہ بھی بچوں کی معصوم فطری کھیتی میں جڑ پکڑ کر رہے گا، اور اگر میاں بیوی اپنی کمزوریوں کی پردہ پوشی کے لیے فریق ثانی کی کمزوریاں بیان کرنے لگیں پھر تو امی ابا کی کمزوریاں کھل کر اولاد کے سامنے آتی ہیں اور سند جواز بن کر کردار میں محفوظ ہوجاتی ہیں۔ اس طرح باہمی لڑائیوں اور تنازعات سے بھی والدین کی کمزوریاں اولاد کے سامنے آتی ہیں اور ان کی ہوا اکھڑتی اور اولاد پر رعب زائل ہوتا ہے جو تربیت میں بگاڑ کا بڑا سبب بنتا ہے۔
اجتماعی دینی مطالعہ
اس سلسلے میں گھر کے اندر اجتماعی مطالعہ کا اہتمام بچوں اور اہل خانہ کی اخلاقی تربیت میں بہت مددگار ثابت ہوتا ہے۔ اگر دوسرے کاموں کی طرح اس کام کے لیے بھی نماز فجر یا عشاء کے بعد خصوصیت سے کچھ وقت نکالا جائے جس میں سب افراد خاندان جمع ہو کر بیٹھیں اور چند آیات قرآنی کا ترجمہ و تفسیر اور چند احادیث نبوی کا مطالعہ اجتماعی طور پر روزانہ کرلیا کریں تو اس سے بچوں کے بنیادی اخلاقیات میں قرآن وحدت کے احکام کے اثرات، نہایت تدریج کے ساتھ آہستہ آہستہ اترتے چلے جاتے ہیں اور جو باتیں سادہ نصیحت کے خشک الفاظ میں بیان کرنے سے بچوں پر بعض حالات میں ردعمل کے سبب الٹے اثرات ڈالتی ہیں وہی باتیں مطالعہ کی غیر جانب دارانہ اور غیر ناصحانہ فضا میں زیادہ کشادہ دلی سے قبول کرلی جاتی ہیں ۔
اہل خانہ کی تربیت کے چند پہلو
تربیت کا حق ادا کرنے کے لیے مختلف اوقات میں خصوصی وقت وقف کرنا بہت ضروری ہے۔ ان کے خیالات معلوم کرنا، ان کے جذبات، ان کی ضروریات اور ان کی دلچسپیوں کا اندازہ لگانا اور ان کی ذہنی مشکلات میں رہنمائی اور مشورے دینا نہایت مفید اثرات رکھتا ہے جس سے تکلف اور بوجھل بزرگی کی فضا کی بجائے بے تکلفی اور اپنائیت کی فضا پیدا ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ اہل خانہ کے ساتھ زیادہ سے زیادہ فراخ دستی اور کشادہ دلی سے پیش آنے کی ضرورت بھی مسلم ہے۔ ان میں بالکل یہ احساس نہ پیدا ہونے پائے کہ آمدنی کے موجودہ وسائل کے مقابلے میں ہمارے ساتھ تنگ دلی کا سلوک کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ماحول اور معاشرے کی طرف سے داخل ہونے والی برائیوں کو بھی بروقت ٹوکا جائے اور اس سلسلے میں پُر حکمت سختی کی جائے تاکہ اہل خانہ کے فرد فرد کو یہ اچھی طرح معلوم ہو کہ ہمارے لیے فلاں فلاں حدود مقرر ہیں۔ مادی آسائشوں میں امکانی حد تک رعایت ہوگی۔ اخلاقی خوبیوں کی تعریف اور ہمت افزائی ہوگی اور اخلاقی برائیوں میں شدت اور سختی ہوگی اور ان میں کوئی رعایت نہ ہوگی۔ گھر میں ایسی جانی بوجھی فضا بنا دینے سے تربیت کی بہت کچھ فضا بن جاتی ہے جس میں برائی کے روکنے اور بھلائی کے پرورش پانے کا امکان قائم رہتا ہے۔ گھر کے داخلی ماحول کی تشکیل اور بچوں پر اثر انداز ہونے میں مردوں سے کہیں زیادہ عورتوں کی ذمہ داری ہے۔ ان کا کام صرف امور خانہ داری کو سر انجام دینا ہی نہیں ہے جو کوئی ملازمہ بھی سر انجام دے سکتی ہے بلکہ ان کی اصل ذمہ داری آئندہ اُٹھنے والی ایک عظیم قوم کی چھوٹی نرسری اور پنیری کی نگہداشت ہے جو ہر گھر میں علیحدہ علیحدہ پرورش پا رہی ہے اور انفرادی توجہ اور عمدہ تربیت کی مستحق ہے۔ اس کی مشفقانہ نگہداشت، عمدہ اٹھان صالح پرورش، دیانت دارانہ اخلاق محنت و مشقت کی عادت، بڑوں کا ادب چھوٹوں پر شفقت، انفاق فی سبیل اللہ کا جذبہ، خدا اور رسول کی اطاعت اور ان کی عظمت کا گہرا تصور، دوسرے انسانوں سے ہمدردی، اخوت اور فراخ دلی، معروف سے محبت اور منکر سے اجتناب کا جذبہ ایک ماں ہی اپنی اولاد کے اندر مختلف تدابیر سے آہستہ آہستہ پیدا کر سکتی ہے۔ ہوش مند دین دار مائیں اپنے بچوں کے ہاتھوں سے محتاجوں کو صدقات دلواتی ہیں۔ بچوں کی صداقت اور دیانت داری کی ہمت افزائی کرتی ہیں، ان کے کیے ہوئے اچھے کام کو سراہتی اور انہیں انعام دیتی ہیں۔ بڑے بچوں کو کچھ زیادہ دے کر بھی آمادہ کرتی ہیں کہ وہ اپنے حصے میں سے اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو فراخ دلی سے دیں اور ان پر ایثار کریں۔ گالی گلوج پر سختی سے روکتی ہیں، نمازوں کے لیے اکساتی اور بچوں کے روزے رکھنے پر تقریبیں منعقد کرتی ہیں۔ صفائی اور ستھرائی کا اعلی سبق دیتی ہیں۔ قرآن اور حدیث میں سے چھوٹی چھوٹی اور اچھی اچھی باتیں بتاتی ہیں۔ صحابہ اور بزرگوں کے دین کے لیے ایثار و قربانی اور جاں فروشی کے واقعات قصہ کہانی کی صورت میں سناتی ہیں اور جن باتوں کی تلقین کرتی ہیں ان کا سختی سے خود بھی اہتمام کرتی ہیں اور اس کا احساس رکھتی ہیں کہ بچے کے دل و دماغ کی لوح پر اس کی آنکھوں کا کیمرہ اپنے بڑوں کے سارے کردار اور ایک ایک حرکت کی تصاویر نہایت خاموشی سے اتارتا چلا جاتا ہے اور پھر اسی البم سے زندگی کے سبق سیکھتا ہے۔ چنانچہ ماؤں کے پیہم عمل صالح کے نتیجہ میں بچوں کے اندران باتوں کی سچائی کا یقین بیٹھتا چلا جاتا ہے اور ماؤں کی عمدہ تربیت بچوں کے اندر میٹھے دودھ کی طرح اترتی رہتی ہے۔ اسی لیے جو لوگ بے حد بگڑ جاتے ہیں، ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ تو پوتڑوں کے ہی بگڑے ہوئے ہیں یعنی ان کی فطرت میں اس وقت ہی بگاڑ ڈال دیا گیا تھا جب وہ ماں کی گود میں تھے اور انہیں کسی برائی بھلائی کا ہوش نہ تھا۔
تربیت میں عملی نمونہ
بچوں کے سامنے عملی مثال سے بڑھ کر تربیت کا کوئی عمدہ ذریعہ نہیں ہے۔ اس لیے کہ عمل ہی الفاظ میں تاثیر اور تلقین میں جذبہ قبولیت پیدا کرتا ہے۔ اسی حکمت کے پیش نظر ایک مشہور بزرگ نے ایک بچے کو اس وقت تک نصیحت نہ کی تھی جب تک خود بھی عملی طور پر اس نصیحت پر عامل نہ ہو گئے تھے ۔
بچوں کے ساتھ اس سے بڑا ظلم اور کوئی نہیں ہے کہ ان کو ایسی باتوں کی نصیحت کی جائے جن پر والدین خود عامل نہ ہوں۔ اس سے نہ صرف بچوں پر ایسی نصیحت کا کبھی اثر نہیں ہوتا بلکہ ان کے اخلاق میں نفاق کا بیج پیوست ہو جاتا ہے اور وہ عمر بھر اپنے قول کے خلاف عمل کرتے رہتے ہیں اور انہیں اس برائی کا شعور تک نہیں ہوتا۔ یہی وہ چیز ہے جس نے قرآن وحدیث کی موجودگی اور حضرت محمد (ﷺ) اور صحابہ کی تاباں زندگیوں کے مکمل ریکارڈ کے باوجود مسلمانوں میں بے عملی اور نفاق کا مرض عام کر دیا ہے۔
صحابیاتؓ کا طریقہ بھی یہی تھا کہ وہ بچوں میں اپنے عمل سے دین کی تعلیم اتارتی تھیں۔ بچوں کو اپنے گھروں میں دین حق صرف کتابوں میں ہی نہیں بلکہ زندگی میں بھی انسانوں کی صورت میں چلتا پھرتا نظر آتا تھا۔ البتہ اس کے خلاف عمل کرنا یا سوچنا بچوں کے لیے مشکل ہوتا تھا۔ صحابیات اپنے بچوں کو حضور کی خدمت میں لاتیں اور اُن کے لیے دعائیں کرواتیں اور ان کے اچھے اچھے نام رکھتیں، ان کو دین کی تعلیم دیتیں، ان کے اندر جہاد میں شہادت پانے کا جذبہ ابھارتیں، خود حضور کی مجالس میں جاکر دین کی تعلیم حاصل کرتیں، سوالات کے ذریعہ اپنی ذہنی مشکلات کو حل کرتیں، اپنے اجتماعات کے لیے حضورؐسے خصوصی وقت طلب کرتیں اور دین سیکھنے کے لیے پوری سرگرمی اور تن دہی دکھاتیں۔ آج ہمارے پاس عائلی اور معاشرتی زندگی کا ایک منضبط جامع ور بہترین نظام موجود ہے۔ اس کی ترتیب میں ان محترم خواتین کا بھر پور حصہ ہے جنہوں نے عائلی زندگی کے بارے میں مختلف سوالات پوچھ پوچھ کر اور نبی کریم (ﷺ) سے احکام حاصل کر کے دین کے اس پہلو کی تشکیل و تشریح میں اپنا بہترین حصہ ادا کیا۔
(کتاب ’’عورت اور اسلامی انقلاب سے ماخوذ )
***
***
گھر کے داخلی ماحول کی تشکیل اور بچوں پر اثر انداز ہونے میں مردوں سے کہیں زیادہ عورتوں کی ذمہ داری ہے۔ان کا کام صرف امور خانہ داری کو سرانجام دینا ہی نہیں ہے جو کوئی ملازمہ بھی سرانجام دے سکتی ہے بلکہ ان کی اصل ذمہ داری آئندہ اُٹھنے والی ایک عظیم قوم کی چھوٹی سی نرسری کی نگہداشت ہے، جو ہر گھر میں علیحدہ علیحدہ پرورش پا رہی ہے اور انفرادی توجہ اور عمدہ تربیت کی مستحق ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 13 اگست تا 19 اگست 2023