’’کرناٹک کے زیر قبضہ مہاراشٹر‘‘ کو مرکز کا زیر انتظام علاقہ قرار دیا جائے: ادھو ٹھاکرے
نئی دہلی، دسمبر 26: مہاراشٹر کے سابق وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے نے پیر کے روز ریاستی قانون ساز کونسل سے کہا کہ مرکز کو ’’کرناٹک کے زیر قبضہ مہاراشٹر‘‘ کے علاقوں کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ قرار دینا چاہیے۔
شیوسینا (ادھو بالاصاحب ٹھاکرے) کے رہنما کے تبصرے مہاراشٹر اور کرناٹک کے درمیان ایک دہائیوں پرانا سرحدی تنازعہ پھر بھڑک اٹھنے کے درمیان آئے ہیں۔
یہ تنازعہ یکم مئی 1960 کو مہاراشٹر کے قیام کے بعد سے اس مطالبے سے متعلق ہے کہ بیلگام (اب بیلگاوی)، کاروار اور نپانی سمیت 865 گاؤں، جو اس وقت کرناٹک میں ہیں، کو اس کے ساتھ ملا دیا جائے۔ تاہم کرناٹک کا دعویٰ ہے کہ 1956 میں لسانی خطوط پر کی گئی حد بندی حتمی ہے۔ کیس سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔
ٹھاکرے نے کہا ’’جب کہ کرناٹک کے وزیر اعلی [بسواراج بومائی] سرحدی تنازع پر جارحانہ ہیں، وہیں مہاراشٹر کے وزیر اعلی [ایکناتھ] شندے خاموش ہیں۔ جب تک سپریم کورٹ اس معاملے پر فیصلہ نہیں دیتی، کرناٹک کے زیر قبضہ مہاراشٹر کے اس پورے علاقے کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ قرار دیا جانا چاہیے۔ اسے اس تجویز میں شامل کیا جانا چاہیے جو کونسل میں منظور کی جانی ہے۔‘‘
پیر کے اسمبلی اجلاس کے دوران مہاراشٹر کے نائب وزیر اعلی دیویندر فڑنویس نے کہا کہ ریاستی حکومت منگل کو سرحدی تنازع پر ایک قرارداد پیش کرے گی۔ بی جے پی لیڈر نے اسمبلی کو بتایا ’’ہم ہر انچ کے لیے لڑیں گے۔ ہم وہ سب کچھ کریں گے جو کرناٹک میں مراٹھی بولنے والی آبادی کے ساتھ انصاف کے لیے ضروری ہے، چاہے وہ مرکزی حکومت کے سامنے ہو یا سپریم کورٹ کے سامنے۔‘‘
22 دسمبر کو کرناٹک اسمبلی نے مہاراشٹر کے ساتھ جاری سرحدی تنازع کے درمیان ریاست کے مفادات کے تحفظ کے لیے ایک قرارداد منظور کی تھی۔ یہ قرارداد کرناٹک کے وزیر اعلی بسواراج بومائی نے پیش کی تھی اور اسے صوتی ووٹ سے منظور کیا گیا تھا۔
14 دسمبر کو مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا تھا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکمرانی والی کرناٹک اور مہاراشٹر کی حکومتیں، ان کے درمیان سرحدی تنازعہ میں اس وقت تک کوئی دعویٰ نہیں کریں گی جب تک سپریم کورٹ اس کیس میں اپنا فیصلہ نہیں سناتی۔