’’ دعوت، اصلاح، تزکیہ نفس اور خدمت کو اپنے معمولات کا حصہ بنالیں‘‘
اسلام کے تعلق سے عوامی رائے میں مثبت تبدیلی میقاتِ نو کا ہدف
رحمت النساء
(سکریٹری جماعت اسلامی ہند ، شعبہ خواتین)
منافرت و نانصافی کے خاتمے اور دستوری حقوق کی لڑائی سول سوسائٹی کے ساتھ مل کر لڑی جائے گی
تیز رفتار دنیا سے ہم آہنگی کے لیے تحریکی کارکن ایمانی و روحانی ارتقا کے ساتھ ساتھ نئے ہنر اور نئی تکنیکیں سیکھیں
نئے چار سالہ میقاتی پروگرام کے تناظر میں امیر جماعت اسلامی ہند جناب سید سعادت اللہ حسینی سے انٹرویو
سوال:جماعت اسلامی کی نئی میقات کے آغاز کے بعد جماعت کی پالیسی اور پروگرام کو حتمی شکل دینے میں ڈھائی ماہ سے زیادہ وقت لگا۔ ویسے بھی جماعت ہر چار سال بعد ایک مرتبہ اپنی پالیسی اور پروگرام کی تجدید چند ضروری تبدیلیوں کے بعد کرتی ہے۔ کیا ہر میقات میں جماعت کو اپنی پالیسی اور پروگرام پر نظر ثانی کے بعد اس کی تجدید کرنا ضروری ہوتا ہے؟
جواب:جماعت اسلامی ایک نظریاتی تحریک ہے۔ بنیادی طور پر ہم عوامی رائے اور ملک کے مجموعی سماجی اور سیاسی منظرنامے پر اثر انداز ہونا چاہتے ہیں۔ ہم جو بھی پروگرام ترتیب دیتے ہیں، چاہتے ہیں کہ وہ ملک کے موجودہ حالات سے مطابقت رکھتا ہو یعنی آج کل کن موضوعات پر مذاکرے یابحثیں ہورہی ہیں، کس قسم کی سیاسی صورت حال کا ہمیں مقابلہ کرنا ہے وغیرہ۔ یہی وہ بنیادی نکات ہیں جو ہماری پالیسی اور پروگرام کی ترتیب پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ملک میں دن بہ دن تبدیل ہونے والے حالات کی مناسبت سے ہمیں پالیسی اور پروگرام میں بھی تبدیلی کرنی پڑتی ہے اور اسی مناسبت سے ہمیں اگلا قدم اٹھانا پڑتا ہے۔ الحمدلِلہ آج بھی ہم اسلامی بنیادی اقدار، ملی مقاصد اور دعوتی مشن پر مضبوطی سے قائم ہیں البتہ عملی طریقہ کار اور مستقبل کی سرگرمیوں پر عمل آوری کے لیے پروگرام میں مناسب تبدیلی بھی لازمی ہوجاتی ہے۔ چنانچہ ہر نئی میقات کے آغاز پر ہم اپنے ملک کے موجودہ حالات کا تجزیہ کرتے ہیں۔ اب تک طے شدہ سفر کا تجزیہ بھی کرتے ہیں اور اسی کی روشنی میں نئی میقات کی پالیسی اور پروگرام کو حتمی شکل دیتے ہیں۔ اس میقات میں جماعت کے انتخابات میں رمضان المبارک کی وجہ سے بھی تھوڑی سی تاخیر ہوئی۔ امیر جماعت اور شوریٰ کے انتخاب کے بعد پروگرام اور پالیسی سازی کا عمل شروع ہوا۔ اس کے لیے ہم نے اپنے کیڈر کے ساتھ چند بنیادی باتوں پر بات چیت، مشورے اور مباحث کرنے کی کوشش کی۔ جماعت، مختلف مسلم اور غیر مسلم دانشوروں، صحافیوں، سماج کے مختلف طبقات کے ذمہ داروں کے ساتھ بھی صلاح و مشورہ کرتی ہے۔ اس طویل مشق، وسیع تر گفتگو، بحث اور باہمی مشاورت کے بعد خاص طور پر تشکیل کردہ کمیٹی، مسودے کو حتمی شکل دیتی ہے۔ اس مسودے کو اگر ضرورت ہو تو کچھ ضروری تبدیلیوں کے بعد شوریٰ میں منظوری کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔ یہ عمل ہر میقات کے لیے حسب معمول جاری ہے۔ عموماً اس پوری کارروائی کو مکمل ہونے میں ایک سے ڈیڑھ ماہ کا وقت لگتا ہے۔ اس مدت کے دوران جماعت ایک عبوری پروگرام ترتیب دیتی ہے اور میقاتی پروگرام کو حتمی شکل دینے کے بعد حسب معمول جماعت کی عام سرگرمیوں کا آغاز ہوتا ہے۔
سوال:آپ نے کہا کہ جماعت کی پالیسی اور پروگرام کی تشکیل سے پہلے ملک کے موجودہ حالات کا جائزہ لیا جاتا ہے۔اس ضمن میں جماعت نے کون سے نکات نوٹ کیے جن کی بنیاد پر پالیسی اور پروگرام ترتیب دیا گیا؟
جواب: ملک کے موجودہ حالات یقیناً تحریک اسلامی کے لیے موزوں اور مناسب کہے جا سکتے ہیں۔ آج بھارت دنیا میں سب سے زیادہ آبادی والے ملک کا درجہ حاصل کرچکا ہے جس نے تحریک کو ایک بہت بڑا انسانی وسائل کا ذخیرہ فراہم کیا ہے۔ اس کے علاوہ دنیا کے بیشتر ممالک میں بھارتی کاریگروں اور فنی ماہرین کی موجودگی خود اس بات کا ثبوت ہے کہ ہندوستانی مزدور، فنی کاریگر، ٹکنیکل ماہرین، دنیا کے ہر بڑے ترقی یافتہ اور امیر ملک میں کام کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے دنیا کے دیگر ممالک میں بھارت کے باشندوں کی آبادی اور افرادی قوت ایک بہت بڑی اقتصادی قوت بن کر ابھری ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ملک میں جو معاشی ترقی ہوئی ہے اور بیرونی زر مبادلہ پیدا کرنے میں ہم کامیاب ہوئے ہیں، اس صورت حال نے فطری طور پر تحریک کو ایک اچھا موقع فراہم کیا ہے۔ ہم ضرور اس بات کا اعتراف کریں گے کہ دنیا کے ہر ملک میں بدعنوانی، اخلاقی انحطاط اور شخصی خود مختاری کے باوجود بھارت میں آج بھی قائم ثقافتی اقدار نے مادہ پرستی اور شخصی خود مختاری کی لہر سے ہمیں حتی الامکان محفوظ رکھا ہے۔ ہم محسوس کرتے ہیں کہ یہ صورتحال تحریک اسلامی کے لیے اثاثہ ثابت ہو سکتی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر ان طاقتوں کو صحیح ڈھنگ سے استعمال کیا جائے تو ہم پوری دنیا کے لیے ان کی دینی و دنیوی تربیت کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمیں یہ موقع اس وقت ہاتھ آیا ہے جب ہمارے وطن میں فرقہ پرستی، فسطائیت کا زہر اور نفرت کی سیاست چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے۔ انسانوں کو ایک دوسرے سے الگ کرنے، انہیں بانٹنے کی پالیسی، ملک کی ترقی کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جب تک اس شیطانی مسئلے سے نمٹا نہیں جاتا، ہم فاشزم سے بھی نمٹ نہیں سکتے، جس کی وجہ سے ہم نہ آگے بڑھ سکتے ہیں نہ ملک کو خوش حالی کے راستے پر ڈال سکتے ہیں۔ ہم فرقہ پرستی اور فاشزم کو آج کے سنگین، نہایت اہم اور نازک مسئلے کے طور پر پہچانتے ہیں جس کا ہمارا ملک سامنا کر رہا ہے۔
امت مسلمہ کے بارے میں اتنا ضرور کہنا ہے کہ اسے ہر حال میں ملک میں انصاف کا علم بردار، امن کا مشعل بردار ہونا چاہیے۔ اگر امت مسلمہ نے فی الواقع اپنی ہمہ گیر طاقت میں اضافہ کیا ہوتا تو یقیناً وہ ملک کی ترقی اور حالات کی تبدیلی کی نقیب بن سکتی تھی جس سے ملک کو فرقہ واریت، انتشار، معاشی بدحالی، عدالتی ناانصافی اور اسی طرح کے دیگر داخلی مسائل سے نجات مل سکتی تھی۔
بدقسمتی سے امت مسلمہ خود داخلی مسائل کا شکار ہے جن میں اخلاقی پستی و کمزوری بھی شامل ہے۔ ان مسائل کے علاوہ دیگر طبقات کی جانب سے مسلمانوں کے حقوق کا استحصال، جبر و زیادتی، ناانصافی اور محرومیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے جو بلا جھجک اور علانیہ امت مسلمہ کے خلاف ہو رہا ہے۔ آج امت مسلمہ نہایت کمزور، بے اختیار و بے بس ہو کر رہ گئی ہے۔ ان پریشان کن حالات کے تناظر میں امت مسلمہ، اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ عدل و انصاف کی علمبردار بن سکے۔ چنانچہ ہم محسوس کرتے ہیں کہ سب سے پہلے ہمیں امت مسلمہ کو مضبوط، باہمت بنانے اور اسلامی اقدار کے مشعل بردار کے طور پر اپنا کردار نبھانے کے قابل بنانے کی ضرورت ہے۔ وطن کا موجودہ منظر نامہ، امت مسلمہ کے مسائل کو پیش کرتا ہے اور وطن کی اسی صورت حال کو پیش نظر رکھ کر ہم نے اپنا میقاتی پالیسی اور پروگرام ترتیب دیا ہے۔
سوال: جماعت اسلامی کوئی ایسی تنظیم نہیں ہے جو محض ’تبدیلی برائے تبدیلی‘ پر یقین رکھتی ہو۔ جماعت کا نظریہ و مقصد اقامت دین ہے۔ میرے خیال میں سیاق وسباق کی تبدیلی اس معیاد کے بعد شروع ہونے والی ہے۔ کیا آپ اس معیاد کے مشن کی وضاحت کریں گے؟
جواب: جی ہاں ضرور! ایک نئی چیز، جسے جماعت نے اس میقات سے شروع کیا ہے وہ یہ ہے کہ اس میقات کا پورا منصوبہ جماعت نے ایک ہی مشن کی بنیاد پر ترتیب دیا ہے۔ طویل مدتی مشن کے علاوہ جماعت کے پاس ایک میقاتی مشن بھی ہے جس کا مقصد ملک کی رائے عامہ کو اسلام کی طرف متوجہ اور راغب کرنا ہے۔ ہمیں اس بات کا بھی پورا احساس ہے کہ عالمی سطح پر بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا کی وجہ سے خود بھارت میں فاشست اور فرقہ وارانہ رجحانات کی حامل طاقتیں، بڑی شدت کے ساتھ سر اٹھا رہی ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر کئی اسباب ہیں جن کی وجہ سے اسلام کے بارے میں وسیع پیمانے پر غلط فہمیاں پیدا کی جا چکی ہیں۔ بھارت میں بسنے والے کچھ طبقات کے ذہنوں میں اسلام کے خلاف سخت نفرت پائی جاتی ہے۔ مختلف طبقات کے درمیان سماجی تنازعات اور انتشار کی وجہ سے نئے نئے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ فرقہ پرست عناصر اور سیاسی طاقتیں، اسی بنیاد پر مسلمانوں کے خلاف دیگر طبقات کے ذہنوں میں بد اعتمادی اور غلط فہمیاں پھیلانے کی مسلسل کوششیں کررہی ہیں۔ ان مسائل کو حل کرنا ہماری ترجیحات میں شامل ہے اور اسلام کے بارے میں عوام میں پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرنا بھی ایک اہم ترین کام ہے۔ اس میقات کا مشن، مسلمانوں کے تعلق سے ملک کے مختلف طبقات میں رائج رائے عامہ میں مثبت تبدیلی پیدا کرنا بھی ہے۔ اس کے لیے ہمیں اسلامی تعلیمات کی مناسب وضاحت اور ضروری تشریح کرنی ہوگی اور ساتھ ساتھ امت مسلمہ کے معاملات میں اصلاح کی کوشش بھی کرنی ہوگی۔ اس طرح ہم اسلام اور اسلامی تعلیمات کے بارے میں ملک کے دیگر طبقات کی موجودہ منفی اور غلط رائے عامہ کو مثبت طور پر بدلنے کی حتی الامکان کوشش کریں گے۔
سوال:رائے عامہ کو بدلنے کے لیے بعض کاموں کی انجام دہی کو بنیادی اور لازمی قرار دیا ہے یعنی جماعت کے ہر رکن کے لیے بالخصوص اور امت مسلمہ کے لیے بالعموم، ان پر عمل کرنا لازمی ہوگا۔ کیا آپ وضاحت کریں گے کہ ان بنیادی اور لازمی کاموں کا تعلق کن امور سے ہے اور ان کی ترجیحات کیا ہیں؟
جواب: ہم خاص طور پر جماعت کے کیڈر سے اور امت مسلمہ سے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ اپنے غیر مسلم بھائیوں و بہنوں کے ساتھ اپنے سماجی اور شخصی تعلقات کو وسعت دیں گے اور انہیں مزید مضبوط بنائیں گے۔ ان کے ساتھ خوش گوار روابط رکھیں گے اور عام غیر مسلم سماج کے افراد کے ساتھ مثبت رابطے کو یقینی بنائیں گے، اس کام کو ہم ’دعوت‘ کہتے ہیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے قول اور فعل کے ذریعے عملی طور پر اپنے غیر مسلم بھائیوں و بہنوں کو اسلام کی حقیقی تعلیمات اور ہدایات سے روشناس کروانے کی کوشش کریں۔ بھارت میں غیر مسلموں کے درمیان بھارتی میڈیا جس انداز اور جس ڈھنگ سے اسلام کی غلط تصویر پیش کررہا ہے اس کے جواب میں انہیں نکات کی بنیاد پر اسلام کا صحیح تعارف بہتر انداز میں پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ یعنی اسلام کے جن اصولوں کو میڈیا توڑ مروڑ کر اپنے حساب سے پیش کر رہا ہے ہمیں ان باتوں کی حقیقت پیش کرنی ہوگی۔ اس کے علاوہ جماعت اسلامی اور اس سے وابستہ کیڈر، اسلامی تعلیمات کا صحیح اور عملی شعور پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ ہمیں زیادہ سے زیادہ غیر مسلم بھائیوں و بہنوں کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھانا ہوگا، ان سے بہترین سماجی تعلقات استوار کرنے ہوں گے۔ اسی کوشش کے ذریعے ہم انہیں اسلام کی حقیقی ہدایات و تعلیمات براہ راست پہنچانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
اسلام کا پیغام پہنچانے کے لیے ہمارا صرف زبانی الفاظ کے ذریعے بات چیت کرنا کافی نہیں ہوگا بلکہ ہمارا عمل اور ہمارا سلوک و رویہ بھی اس بات کی عکاسی کرے کہ ہم کس بات کا پیغام دے رہے ہیں۔ اس بات چیت کے بعد وہ ضرور محسوس کریں کہ جو کچھ کہا جا رہا ہے وہ واقعتاً امن و سلامتی کا پیغام ہے اور اسلام بلا لحاظ مذہب و ملت، معاشرے کے ہر فرد اور ہر طبقے کے لیے انصاف اور سماج میں مساوات چاہتا ہے اور اس سماج میں رہنے والے تمام طبقات میں وسائل کی منصفانہ تقسیم بھی چاہتا ہے۔ اسلام تمام انسانوں کی، جو کہ اللہ کے بندے ہیں، ان کی بھلائی چاہتا ہے اور جو باتیں ان سے کہی جارہی ہیں وہ اسلام اور اس کی تعلیمات کی خصوصیات ہیں۔ ہمارا انفرادی، شخصی اور اجتماعی طرز عمل ایسا ہونا چاہیے جو اسلام کی فطرت اور تعلیمات کی موثر عکاسی کرتا ہو۔بالفاظ دیگر، اسے اعمال کے ذریعے حق کی گواہی دینا کہتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ عام زندگی میں ہمارا طرز عمل، طرز زندگی، طرز معاشرت اور ہماری تمام تر مصروفیات، اسلامی تعلیمات کا منہ بولتا ثبوت ہوں۔ ہمارے تنظیمی اور سماجی اداروں کا بھی فرض ہے کہ وہ اس بات کو نمایاں کرنے کی کوشش کریں کہ ملک میں قائم ہمارے تعلیمی ادارے اعلی قسم کی مہذب نسل تیار کر رہے ہیں۔ ہمارے دواخانوں کو بھی اس بات کو واضح کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ اسلام کس قسم کے نظام صحت کو فروغ دیتا ہے۔ ہمارے مالیاتی اداروں کا بھی کام ہے کہ وہ بلا سودی اسلامی معاشی نظام کے فوائد کی عکاسی کریں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم زندگی کے انفرادی اور اجتماعی، دونوں پہلوؤں سے اسلامی تعلیمات کا عملی ثبوت پیش کریں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا کیڈر بالخصوص اور مسلمان بالعموم، ان تمام ترجیحات پر عملی نمونہ پیش کریں۔ اس مشن کی کامیابی کے حصول کے لیے بنیادی طور پر ہمیں خود اپنے اعمال، افعال اور باتوں کا جائزہ لینا چاہیے، جسے عام اصطلاح میں اصلاح کہتے ہیں اور روحانی ترقی اور نشو و نما کو تزکیہ کہتے ہیں۔ ہمارا کام بلا لحاظ مذہب و ملت، انسانیت کی خدمت کرنا ہے۔ مختصر یہ کہ ہم میں سے ہر فرد کو اپنی ذاتی جد وجہد کے طور پر چار چیزیں انجام دینی ہوں گی یعنی دعوت، اصلاح، تزکیہ اور خدمت۔ یہی وہ چار کام ہیں جو ہر فرد کو اپنی زندگی میں بحیثیت فرمان جاری رکھنے چاہئیں۔
سوال:آپ کی یہ باتیں بلاشبہ جامع لگتی ہیں لیکن کیا آپ بتائیں گے کہ یہ چاروں کام ایک ہی وقت میں کیسے انجام دیے جاسکتے ہیں؟ اور کیا آپ سمجھتے ہیں کہ جماعت کے کیڈر کے ساتھ ساتھ مسلم سماج اور دیگر طبقات کو بھی اسلام کی ان بنیادی سرگرمیوں کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنا چاہیے؟
جواب:جی بالکل! تعارف اسلام کے سب کام ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں کیوں کہ جب تک ہماری زندگی اسلامی تعلیمات کا نمونہ نہیں بنتی، آپ اپنے ہم وطنوں میں اسلام کا تعارف موثر طریقے سے نہیں کرواسکتے۔ جب آپ لوگوں سے کہیں گے کہ اسلام پاکیزہ مذہب ہے اور پاکیزگی کو پسند کرتا ہے اور خود پاکیزگی سے کوسوں دور ہوں گے، اسلام خواتین کے ساتھ انصاف کرنے کا حکم دیتا ہے لیکن اگر خود مسلم معاشرہ اپنی خواتین کے ساتھ عملی طور پر ناانصافی کریں گے، انہیں ان کا حق نہیں دیں گے، دیگر سماجوں کے افراد کی طرح، اپنی خواتین کے ساتھ ناروا سلوک کرنے لگیں گے تو ظاہر ہے کہ دیگر اقوام پر ہماری باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ اسلام کے خلاف پھیلائی جانے والی موجودہ رائے عامہ کو اسلام کے حق میں بدلنے کے لیے ان کے ذہنوں میں اسلام کے متعلق مثبت خیالات پیدا کرنے کے لیے ہمیں خود اسلام کا عملی نمونہ بننا پڑے گا۔ عالمی سطح پر میڈیا اور اسلاموفوبیا نے عوام کے ذہنوں میں اسلام کے خلاف منفی رائے پیدا کرنے میں بہت بڑا رول ادا کیا ہے۔ ہماری دوسری بڑی کمزوری خود ہمارا دینی تعلیمات سے انحراف ہے۔ مسلم معاشرے میں پائے جانے والے تمام انحرافات، خود اسلام اور اسلامی تعلیمات کے بارے میں محض غلط فہمی کا نتیجہ ہیں۔ جب تک ان کمزوریوں کو درست نہیں کیا جائے گا تب تک امت مسلمہ کی اصلاح نہیں ہو پائے گی اور مسلمانوں کے بارے میں موجود منفی رائے عامہ کو ہم بدل نہیں پائیں گے۔ اس کے لیے صرف زبانی بات چیت کافی نہیں ہے۔
امت مسلمہ، اسلام کی ہدایات کے مطابق اپنی زندگی گزارنے اور اسلام کی ہدایات پر زندگی میں عمل کرنے کا عہد کرے۔ دعوت دین اور شخصی اصلاح، دونوں ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں۔ چنانچہ معاشرے کے وہ لوگ جو اس میدان میں سرگرم عمل ہیں، انہیں خود عملی نمونہ بننا چاہیے، اس کے بعد انشاء اللہ کامیابی کی کرنیں نظر آنا شروع ہوں گی۔ سب سے پہلے ہمارا اپنا شخصی تزکیہ ضروری ہے۔ جہاں تک خدمت خلق کا تعلق ہے، جب تک آپ معاشرے کے خیر خواہ نہیں بن جاتے اور ان کی ضروریات اور پریشانیوں کے وقت ان کے مسائل کو حل کرنے میں تعاون کے لیے موجود نہیں رہتے ہیں تب تک یہ تصویر نہیں بدلے گی۔
اگر آپ ایسا نہیں کرتے ہیں تو لوگ آپ کو اور آپ کی باتوں کو قبول کرنے کے لیے ہرگز تیار نہیں ہوں گے۔ یہاں پر ہم کو اس بات کا شدید احساس ہوتا ہے کہ دعوت، اصلاح، تزکیہ نفس اور خدمت یہ تمام کام ایک دوسرے مربوط ہیں اور یہی چار کاموں کے اشتراک سے ایک کامیاب مکمل تحریکی کام تشکیل پاتا ہے جسے ہمیں اور ہماری تحریک کو انجام تک پہنچانا ہوتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ کام جماعت کا ہر رکن، ہر کارکن اور ہر متفق انجام دے بلکہ وہ یہ کام اپنے معمولات کا حصہ بنالے۔ جماعت کے ہر مقامی دفاتر میں اس کام پر لازمی طور پر عمل کیا جانا چاہیے۔ جماعت کی اصلی شناخت بھی یہی ہونی چاہیے جو رائے عامہ کو مناسب ڈھنگ سے بدلنے اور عام لوگوں کو اسلام کی حقیقی تعلیمات سے روشناس کرنے میں مصروف ہیں۔
سوال:جماعت کے میقاتی پروگرام کو دیکھ کر کوئی بھی بہ آسانی یہ رائے قائم کرسکتا ہے کہ یہ مشن بہت ہی ولولہ انگیز اور اہم ہے۔ جماعت کے پاس ملک کی آبادی کے اعتبار سے ارکان، کارکنان اور متفقین کی تعداد بہت محدود ہے۔ آپ کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ اس قلیل افرادی قوت کے ساتھ آپ ان سارے اہداف کو حاصل کر پائیں گے؟ اس صورت حال کے پیش نظر، اہداف کے حصول کے لیے جماعت کے کیڈر کو کس قوت اور کس انداز سے کام کرنا چاہیے؟ نیز اس ضمن میں جماعت کے کیڈر سے آپ کی کیا توقعات ہیں؟
جواب:جماعت کے کیڈر کو اپنے اہداف کے حصول کے لیے ان تھک محنت کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف غیر شائستہ منفی پروپگنڈے اور رکیک حملے اب بہت شدت سے اور متواتر ہونے لگے ہیں۔ ان حالات میں جب تک آپ اسی رد عمل، اسی طاقت، اسی درجہ کی سرگرمی اور اسی سطح کی توانائی کے ساتھ میدان میں نہیں اتریں گے، ایسی صورت حال کا مقابلہ کرنا آسان نہیں ہوگا۔ اس ضمن میں سب سے پہلا اور اہم نکتہ یہ ہے کہ اراکین، کارکنان، متفقین، ہمدردان اور جماعت سے ذہنی طور پر وابستہ افراد کو ان تھک محنت کرنی ہوگی۔ یہ کام بنیادی طور پر ان کے اپنی شخصی ایجنڈے میں شامل ہونا چاہیے۔ ہماری سرگرمیاں صرف ترتیب شدہ پروگرامس، تقریبات، مہمات اور اجتماعات تک محدود نہ ہوں بلکہ ہماری دن رات کی مصروفیات کے دوران جو لوگ ہمارے ربط میں آتے رہتے ہیں، ہمیں ان پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرنی چاہیے۔ بحیثیت رکن جماعت یا متفق، آپ کو اپنا زیادہ سے زیادہ وقت اور اپنے وسائل کو اس مقصد کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو ظاہر ہے کہ اس مشن کی یہ بہترین عملی ترتیب ہوگی۔ یعنی اگر آپ تین برادران وطن تک اسلام کا تعارف، مختصر تعلیمات و ہدایات پہنچاتے ہیں اور وہ تین افراد اگر مزید تین تین افراد تک یہ بات پہنچادیں اور یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے تو ہندسی علم کے اعتبار سے ہمارے خیالات و نظریات انشاء اللہ معاشرے میں مسلسل گردش کرتے رہیں گے جو محدود افرادی تعداد کے ذریعے ہی شروع ہوگا اور مسلسل کوششوں کی صورت میں مثبت اثرات بھی مرتب ہونے لگیں گے۔ جب ان کوششوں کے اثرات مرتب ہونا شروع ہو جائیں گے تو سمجھیے کہ بات عوام میں پھیلنی شروع ہوچکی ہے جس کے بعد آہستہ آہستہ رائے عامہ بھی ہموار ہوگی۔ہمیں اس تبدیلی کا ذریعہ بننا ہوگا۔ یہ کام اپنی ذات کی حد تک محدود نہ رہے بلکہ کوشش کرنی چاہیے کہ امت مسلمہ کے زیادہ سے زیادہ لوگ، غیر مسلم بھائیوں و بہنوں کو اپنے مشن کی خوبیوں سے مسلسل آگاہ کرتے رہیں۔ یاد رکھیے کہ یہ حق کا پیغام ہے اور ہمیں معلوم ہے کہ جو کچھ بھی ہم کہہ رہے ہیں وہ انسانیت کے مفاد میں بھلائی کے سوا کچھ نہیں۔ غیر مسلم معاشرے میں بھی ضرور بہت سے ایسے لوگ ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ واقعتا سچ ہی ہے اور آج کل ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ملک کے مفاد میں نقصان دہ ہی ہے۔ لہذا اگر ہم انہیں اس طرح متحرک کریں گے اور انہیں ہمارے ساتھ کام کرنے کی ترغیب دیں گے تو یقیناً ہمارے پاس مزید افرادی قوت یکجا ہوسکتی ہے جو ہمارے کیڈر کی طاقت سے کئی گنا زیادہ ہوگی۔ ہمیں چاہیے کہ برادران ملک کے شریف النفس اور مثبت سوچ رکھنے والے افراد کا مشترکہ ایجنڈا بنانے کی کوشش کریں۔
سوال:جیسا کہ آپ نے کہا کہ ہمارے سامنے سب سے بڑا کام تعارف اسلام کے لیے امت مسلمہ کو متحرک کرنا ہے لیکن ملک کے بیشتر حصوں میں مسلمانوں کی دینی و اخلاقی حالت قابل رحم ہے، ایسی صورت حال میں انہیں بااختیار اور بحیثیت خیر امت، اپنا فرض منصبی نبھانے کے قابل بنانے کے لیے جماعت نے کیا عملی منصوبہ تیار کیا ہے؟
جواب: ایک بہت اہم کام جو ہم نے اس میقات کی پالیسی پروگرام میں شامل کیا ہے وہ امت مسلمہ کی مجموعی ترقی سے متعلق ہے۔ ہم نے تعلیم، معیشت، سیاست اور ہر طرف سے امت مسلمہ پر پڑنے والے دباو کی وجہ سے اس کی بری حالت کو بہتر بنانے کے لیے کچھ اہم نکات پر غور کیا ہے۔ سچر کمیٹی کے مطابق ملک میں امت مسلمہ ترقی کے بجائے تنزلی کی طرف جا رہی ہے جو ہم سب کے لیے گہری تشویش کا باعث ہے۔ اس ضمن میں ہمارے کارکن غور و فکر کریں گے امت مسلمہ کی تعلیمی ترقی اور معاشی بہتری کے لیے بھی کام کریں گے۔ اس مہم کے لیے کارکنوں کے کرنے کے بے شمار کام ہم نے شامل کیے ہیں مثلاً ملک میں تین سو بلاسودی سوسائٹیاں قائم کی جائیں گی جو تجارت یا صنعت شروع کرنے میں دلچسپی رکھنے والے ضرورت مند افراد، پسماندہ طبقات اور معاشی طور پر کمزور سماج کے افراد کو بلاسودی قرض جاری کریں گی۔ ہم اس بات کا بھی خاص لحاظ رکھیں گے کہ امت مسلمہ کے مستحق افراد کو ان بلا سودی اداروں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ ہو۔ اس پروگرام کے ذریعے امت مسلمہ کو مالیاتی معلومات، سرمایہ کاری اور capital market وغیرہ کے بارے میں بھی آگاہ کیا جائے گا۔ امت مسلمہ کی اقتصادی ترقی، تعلیمی ترقی اور ان کو سیاسی حیثیت سے بااختیار بنانے کو، جماعت کی پالیسی اور پروگرام میں نمایاں اہمیت کے ساتھ شامل کیا گیا ہے۔
سوال: جماعت اسلامی ہند وہ واحد مسلم تنظیم ہے جس نے شروع ہی سے خواتین کو تمام تحریکی سرگرمیوں میں شامل کرنے کی کوشش کی ہے۔ گزشتہ میقات میں آپ نے کہا تھا کہ تعارف اسلام کے لیے ہمیں پورے مسلم معاشرے کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے اور ہمارا اگلا چیلنج، زیادہ سے زیادہ خواتین کو تحریکی سرگرمیوں میں شامل کرنا ہے۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلم معاشرہ اور تنظیمیں خواتین کو اس میدان میں اتارنے کی حامی نہیں رہیں۔ ایسی صورت حال میں جماعت کے کیا منصوبے ہیں جس کے تحت تحریک سے وابستہ خواتین کی صلاحیتوں کو بروئے کار لایا جا سکے؟
جواب:بلاشبہ تحریک اسلامی کے میدان میں خواتین کیڈر کی طاقت میں اضافہ ہونا چاہیے کیوں کہ ہمیں سماج کی خواتین کے درمیان بھی تحریک کا کام کرنا ہے۔ تحریک کی قائدانہ ذمہ داریوں، مشاورتی اداروں، عملی گروپس اور دیگر شعبہ جات میں خواتین کی تعداد، نمائندگی اور قوت میں اضافہ ہونا چاہیے۔ ہمیں اس ہدف کے حصول کے لیے سنجیدگی کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج باصلاحیت، تعلیم یافتہ، فعال اور پرجوش خواتین کی کوئی کمی نہیں ہے۔ اگر ہم ان کی صلاحیتوں اور طاقت کو بروئے کار لائیں گے تو یقیناً تحریک کا کام مزید کئی گنا تیزی سے آگے بڑھ سکتا ہے۔ اسی لیے میں یہ کہتا آرہا ہوں کہ تحریک کی توسیع، استحکام اور مطلوبہ اہداف کے حصول کے لیے یہ کامیاب شارٹ کٹ ہے۔ خدمت خلق اور دیگر سماجی کاموں میں خواتین، مردوں کے مقابلے میں نہایت فراخ دل واقع ہوئی ہیں۔ ہمیں خواتین کو تحریکی کاموں میں شامل نہ کرنے کے تصور کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ اسلام نے خواتین کو بہت اعلی اور باوقار مقام عطا کیا ہے۔ اسلام نے خواتین کو زندگی کے مختلف میدانوں میں کام کرنے کی آزادی دے رکھی ہے۔ ہمیں انہیں ان کے تمام حقوق دینے میں آگے رہنا چاہیے۔ تاریخ اسلام کے تمام سنہری ادوار میں خواتین، تمام خاندانی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ سماجی خدمت میں بھی آگے رہتی تھیں۔ کئی مرتبہ خواتین نے قائدانہ کردار بھی ادا کیا ہے۔ مختلف تہذیبی ثقافتوں کے اثرات نے مسلم خواتین کے شاندار و مثبت کردار کو مسخ کرنے کی کوشش کی ہے نتیجے میں آج وہ تاریخ کا حصہ بن کر رہ گئی ہیں۔ معاشرے میں غلط تصورات اور غلط فہمیوں نے جگہ لے لی ہے جس کی وجہ سے سماج میں خواتین کے ماضی کے شاندار کردار کی گونج ماند پڑ گئی ہے اور ان کے کارنامے گمنامی کے اندھیروں میں چھپ گئے ہیں۔ چنانچہ جب تک ان غلط تصورات و غلط عقائد سے مناسب طور پر نمٹا نہیں جائے گا، خواتین کی تنظیمی اور سماجی صلاحیتوں کا صحیح طور پر استعمال نہیں ہوگا۔
ہم خواتین کے حقوق کے بارے میں لوگوں کو ہمیشہ سے مسلسل آگاہ کرتے آرہے ہیں کہ خواتین ہی کے حوالے سے ہمیں اسلام پر کیسے عمل کرنا چاہیے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ اب لوگ اس پر غور کرنے لگے ہیں۔ اگر ہم لوگوں میں صحیح دین کی شعور بیداری کا کام جاری رکھیں گے تو امید ہے کہ ہماری خواتین کی مضبوط اور فعال، ورک فورس بن سکتی ہے۔ ہم جس مقصد کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں، ایسی تبدیلی لانے میں ہماری یہ کوششیں ضرور کارگر ثابت ہوں گی۔ایک قابل غور اور خاص نکتہ یہ بھی ہے کہ خواتین میں کسی سماجی یا مذہبی عہدے اور مقام، ذاتی مفاد یا سیاسی فائدے حاصل کرنے کا رجحان نہیں پایا جاتا جو عام طور پر مردوں میں فطری طور پر ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ خواتین اپنے عقائد میں پختہ، عمل میں مخلص، فطرتاً معصوم، رحم دل اور کام میں سچی ہوتی ہیں۔ اگر ہم ان کو اسلامی تعلیمات کی حقیقت اور سچائی، دین کی صحیح آراء کے بارے میں قائل کریں تو وہ بڑی آسانی سے قائل ہو سکتی ہیں اور مجموعی رائے عامہ کو تبدیل کرنے کے موقف میں بھی ہوتی ہیں۔
سوال:کیا جماعت اسلامی ہند گزشتہ میقات کی طرح اس میقات میں بھی زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو شامل کرنے کی کوشش جاری رکھے گی؟ اس کے علاوہ جماعت کے کیڈر کو متحرک رکھنے کے لیے آپ نے کیا منصوبہ بندی کی ہے؟
جواب: اس میقات میں بھی نوجوانوں کو شامل کرنے کی کوششیں حسب معمول جاری رہیں گی۔ آبادی کے تناسب سے ہماری افرادی قوت ملت کی مکمل نمائندگی نہیں کرتی۔ جس طرح سماج کے افراد میں عمروں کا فرق ہوتا ہے وہی فرق جماعت کے کیڈر میں بھی ہے۔ نوجوان جماعت سے میری مراد ارکان کی عمروں کا فرق ہے جو عموماً موجودہ معاشرے کی عکاسی کرتا ہے۔ ہمارے ملک میں پینتیس سال سے کم عمر والے افراد کا تناسب دو تہائی ہے۔
اگر ہم صرف بالغ آبادی کو شمار کریں تو پچاس فیصد آبادی کی عمر پینتیس سال سے کم ہے۔ یہی رجحان عام آبادی کا بھی ہے لیکن جماعت میں ایسا نہیں ہے۔ جماعت کے تمام مقامی دفاتر میں ارکان یا کارکنان میں بہت کم تعداد نوجوانوں کی ہے۔ عمر رسیدہ اور ضعیف ارکان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ جب تک ہمارا کیڈر، آبادی کے ساتھ مطابقت نہیں پیدا کرلیتا، تب تک ہم پورے معاشرے کو متاثر نہیں کر پائیں گے۔ بالفاظ دیگر ہمیں اپنے کیڈر میں نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کا کام جاری رکھنا ہوگا۔ اصولی طور پر ہر ابھرتی ہوئی تحریک میں نوجوانوں کی تعداد زیادہ سے زیادہ ہونی چاہیے۔ عموماً اس نکتے کی تشریح کے لیے میں ایک عام خاندان کی مثال دیتا ہوں کہ کسی بھی عام خاندان میں ایک دادا اور دادی ہوتے ہیں جو پہلی نسل کے دو افراد ہیں جبکہ دوسری نسل میں بیٹوں بہوؤں، بیٹیوں اور دامادوں کو ملا کر چھ سے آٹھ افراد ہوئے، ان کے علاوہ بارہ سے سولہ سال کی عمر کے پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں ہوتے ہیں۔ جوں جوں نسل جوان ہوتی جاتی ہے، افراد کی تعداد بھی بڑھتی جاتی ہے۔ چنانچہ ترقی پذیر ممالک میں یہی نظام زندگی جاری ہے۔ لہذا کسی کامیاب ابھرتی ہوئی سماجی یا مذہبی تحریک کو بھی اسی کی عکاسی کرنی چاہیے یعنی تعداد کے اعتبار سے کم عمر والوں کی نمائندکی زیادہ ہونی چاہیے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ کی تحریک کامیابی کے ساتھ ابھرتی ہوئی ایک کامیاب تحریک ہے جو بالآخر نئی نسل کو متاثر کرنے کا عملی ثبوت ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ بڑے بزرگ تحریک کے لیے اہم یا موزوں نہیں رہے، بلاشبہ وہ ہمارے لیے بہت اہم اور قیمتی اثاثہ ہیں۔ عملی میدان میں ان کے تجربات، مشاہدات اور ان کی رائے یقیناً نوجوانوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔ایک طرف ہمارے بزرگ ارکان نوجوانوں کے لیے طاقت، تحریک کے کاموں میں ہمت افزائی اور رہنمائی کا موجب بنتے ہیں تو دوسری طرف جدید تربیت یافتہ نوجوان نسل، تحریک کا سرمایہ بنتی ہے۔ عملی تحریک کا یہ ایک بہترین سلسلہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج بھی ہمیں نوجوانوں کو جماعت کے دائرے میں مشغول اور متحرک کرنے اور تحریک کو زیادہ سے زیادہ نوجوان دوست بنانے کی کوششوں کو تیز تر کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنی صفوں میں زیادہ سے زیادہ نوجوان مرد و خواتین کو شامل کرنے کا عمل جاری رہنا چاہیے۔
سوال: اس کا مطلب ہے کہ نئی پالیسی و پروگرام میں تحریک اسلامی میں نوجوانوں کی شمولیت کو اہمیت دی گئی ہے؟
جواب: جی ہاں! اس بار جماعت کی نئی پالیسی اور پروگرام میں ہم نے ہدف دیا ہے کہ ہمارے کیڈر میں نئے شامل کیے جانے والے افراد میں کم از کم تیس فیصد افراد ایسے ہوں جن کی عمریں چالیس سال سے کم ہوں۔
سوال: پچھلی میقات میں جماعت نے طالبات کے لیے جی آئی او کی نیشنل فیڈریشن قائم کی، چنانچہ آج بیشتر علاقوں میں طالبات پہلے سے زیادہ فعال ہیں۔ دوسری طرف طلبا تنظیم ایس آئی او بھی فعال ہے،جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ طلبا و طالبات، تحریکی سرگرمیوں میں پوری طرح شامل ہیں۔ نئی میقات میں ان سے کیا توقعات ہیں؟
جواب: ایس آئی او اور جی آئی او، اپنے اپنے میدان میں کام کرنے کے لیے ان کی اپنی پالیسی اور پروگرامس کے تحت پوری طرح آزاد ہیں۔ وہ مستقبل کے پروگرامس کی منصوبہ بندی خود کرتے ہیں کیوں کہ ہم نے انہیں منصوبہ بندی اور اس پر اپنے حساب سے عمل آوری کے لیے آزادی دے رکھی ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ وہ جماعت کے مرکزی ویژن اور میقاتی مشن سے تسلی بخش حد تک متاثر ہیں اور اپنا مستقبل کا لائحہ عمل، انہی خطوط پر ترتیب دیتے ہیں جو ان نوجوان طلبا و طالبات کے ویژن سے عین مطابقت رکھتا ہے۔ تحریک اسلامی کی روشنی میں رائے عامہ کو تبدیل کرنا ان کے لیے بھی ایک ضروری کام ہے کیوں کہ ہمارے ان نوجوانوں کا تعلق بھی راست اسی مشن سے ہے۔ ہم بھی ان نوجوانوں سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ ہمارے سماج کی مختلف برادریوں کے نوجوانوں کے درمیان، انہیں خطوط پر کام کریں گے اور انہیں اسلام کی حقیقی تعلیمات سے واقف کروانے کی کوشش کریں گے، اسلام کے تعلق سے ان کے ذہنوں میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کریں گے، تاکہ ملک میں امن و انصاف کی فضا قائم ہو۔ ہم نے اپنے پالیسی و پروگرام میں بین المذاہب مصروفیات، مکالمات، مذاکرات اور سماجی سرگرمیوں کے ذریعے مختلف طبقات اور تنظیموں کے افراد سے منسلک ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ملک کے حالات میں بہتری کے لیے مشترکہ کوششیں کریں۔ ہم نے سماج کے مختلف دانشوروں پر مشتمل فورمس بھی تشکیل دیے ہیں، مذہبی قائدین کے لیے ’’دھارمک جن مورچہ‘‘ قائم کیا ہے اور بنیادی سطح پر ہم نے ’’سدبھاونا منچ‘‘ قائم کیا ہے جو آج کامیابی کے ساتھ سماج میں مصروف کار ہے۔ اسی میقات میں ہم ان سرگرمیوں کو نوجوانوں تک وسعت دیں گے۔ ایس آئی او اور جی آئی او کے لیے بھی اسی قسم کے فورمس تشکیل دیے جائیں گے کیوں کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے نوجوان طلبا و طالبات، ان کوششوں میں ہمارا مکمل تعاون کریں اور جماعت کے اس مشن کو سماج کے دیگر نوجوانوں تک لے جانے کے قابل بنیں۔
سوال: جماعت اسلامی ہند کے تحت یا جماعت سے وابستہ افراد کے ذریعے بہت سے اشاعتی ادارے قائم کیے گئے ہیں۔جماعت کے بہت سے رسالے، رسائل، ماہنامے اور اخبارات وغیرہ مستقل شائع ہوتے آرہے ہیں۔ اس کے علاوہ میڈیا کی دیگر متوازی سرگرمیاں بھی جاری ہیں۔ کیا آپ جماعت کے موجودہ اشاعتی نظام اور میڈیا کی کارکردگی سے مطمئن ہیں؟ جماعت نے اس میقات میں جو کام شروع کیے ہیں، ان کی بنیاد پر آپ اس میں کیا تبدیلیاں لانا چاہتے ہیں؟
جواب: ان تمام اشاعتوں کا اہتمام اور انتظام، مختلف تنظیمیں، ٹرسٹ اور سوسائٹیز، اپنے طور پر کرتی ہیں۔ ان میں سے کسی بھی اشاعت میں مکمل طور پر جماعت کا یا جماعت کے کسی شعبے کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ یہی ٹرسٹ اور سوسائٹیز، اپنی تمام اشاعتوں کا کام آزادانہ طور پر چلاتی ہیں، البتہ اب جماعت صرف ان اشاعتوں پر اثر انداز ہونا چاہتی ہے جن میں ارکان جماعت یا جماعت کا کیڈر کسی ادارے کے بورڈ میں بطور رکن، شامل ہو۔ اس کے علاوہ ان اشاعتوں پر بھی جماعت اثر انداز ہونا چاہتی ہے جو ٹرسٹ کی جانب سے عام موضوعات پر شائع کی جاتی ہیں تاکہ ان ذرائع سے بھی جماعت زیادہ سے زیادہ قارئین تک پہنچ سکے۔ البتہ موجودہ سوسائٹیز اور ٹرسٹس کی جانب سے جو کچھ مواد شائع ہو رہا ہے، جن کے ادارتی بورڈ میں جماعت کے افراد بھی شامل ہیں، ہم ان کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں اور ان کے معیار اور کارکردگی کو بہتر بنانا چاہتے ہیں۔ بہت سی ریاستوں میں ان مجلات اور اشاعتوں کی عوام تک پہنچ بہت محدود ہو گئی ہے۔ اسی طرح الکٹرانک یا ریڈیائی مواصلات کی صورت حال بھی بہت کمزور ہے۔ ہمیں ان کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اس میقات میں ہم نے جماعت کے میڈیا ڈپارٹمنٹ کو مضبوط کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ موجودہ میڈیا ڈپارٹمنٹ میں بہت سے نوجوان اور اس پیشے کے ماہرین، شامل ہیں۔ انشاء اللہ اس ڈپارٹمنٹ کے ذریعے ہم تمام مطبوعات کے میڈیا ٹرسٹس اور سوسائٹیز کا ادارتی تعاون کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ ان پلیٹ فارمس کو مواصلات کے پلیٹ فارم کے ذریعے، زیادہ موثر طریقے سے مربوط کیا جاسکے۔
سوال: جیسا کہ آپ کہہ چکے ہیں کہ اقامت دین کا کام صرف جماعت اسلامی پر ہی فرض نہیں ہے بلکہ یہ کام ہر مسلمان پر فرض ہے، لیکن چونکہ ہمیں ابھی مزید لمبا سفر طے کرنا ہے لہٰذا اس کام کے لیے سب سے پہلے ملت کا تعاون، آپسی اتحاد اور مشترکہ مسلم پلیٹ فارمس کو مضبوط کرنا بہت ضروری ہے۔ آپ آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈ کے نائب صدر بھی ہیں۔ آپ کے خیال میں مسلمانوں کے ایسے مسائل کو حل کرنے کے لیے کیا یہ پلیٹ فارمس مددگار ثابت ہوں گے یا مزید پلیٹ فارمس قائم کرنے کی ضرورت ہے؟ اس کے علاوہ کیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی جانب سے ملک میں اسلام کے خلاف دیے جانے والے بیانات اور تبصروں کو چیلنچ کیا جاسکتا ہے؟ کیا رائے عامہ کو تبدیل کرنی کی کوشش کی جاسکتی ہے؟اس بارے میں آپ کی منصوبہ بندی کیا ہے؟
جواب: مسلم پرسنل بورڈ کا دائرہ کار اپنے مقاصد کے اعتبار سے محدود ہے۔ اسے صرف مسلم پرسنل لا کی فکر ہوتی ہے۔ اس کا مرکزی دائرہ کار بھی مسلمانوں کے چند ملی مسائل تک محدود ہے۔ ہم بورڈ سے ہرگز یہ توقع نہیں کرسکتے کہ وہ مسلمانوں کے تعلق سے موجودہ عوامی رائے بدلنے کے کسی مشن کے لیے کام کر سکتا ہے۔ مسلمانوں کی موجودہ صورت حال کے تعلق سے رائے عامہ پر اثر انداز ہونے اور تحریک کے کام کو انجام دینے کی تمام تر ذمہ داری، خود جماعت کو اور جماعت کے کارکنوں کو اپنے کندھوں پر اٹھانا ہوگا البتہ عام مسلمانوں کو ملی ذمہ داریوں کا احساس دلانا ہوگا۔ اس اہم بنیادی کام کو انجام دینے کے لیے جماعت کے کیڈر کو اپنی تمام توانائیوں اور تمام وسائل کا استعمال کرنا ہوگا۔ ہم کسی بھی متحدہ فورم پر اکتفا نہیں کرسکتے کیوں کہ دیگر فورمس اپنے چند محدود محاذوں ہی کام کرتے ہیں۔
سوال: ملک کے عام شہریوں کی توجہ ملک میں قیام امن اور انصاف کے قیام پر مرکوز ہے جبکہ موجودہ حکومت کی کوشش ہے کہ مسلمانوں کو دیگر برادریوں سے بالکل الگ تھلگ کر دیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ اس نفرت انگیز ماحول میں جماعت اسلامی ہند ملک کے باشندوں کے ساتھ ہم آہنگی کیسے پیدا کرے گی اور اس زہریلی فضا میں جماعت کا کیڈر کس طرح قدم بڑھائے گا؟
جواب: اس کے لیے ہم اپنے غیر مسلم بھائیوں و بہنوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ ربط وتعلق استوار کریں گے۔ ہمیں یہودیوں کی طرح سماج کے دیگر طبقات سے الگ تھلگ ہو کر نہیں رہنا ہے، ورنہ آپ کا سماجی اور شخصی رابطہ ٹوٹ جائے گا اور آپ صرف اپنی کمیونٹی تک سمٹ کر رہ جائیں گے اور آپ کو عام معاشرے، ملک کے مسائل اور معاملات سے کوئی سروکار نہیں رہے گا۔ اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو ہم فرقہ پرست طاقتوں کے انتشار پسندی کے ایجنڈے کو تقویت پہنچانے والے ہوں گے۔ فاشسٹ طاقتیں تو امن پسند عوام کو آپس میں تقسیم کرنا چاہتی ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ مسلم معاشرے کو ان کی شخصی سلامتی اور ذاتی شناخت تک محدود کرکے انہیں ملک کے مسائل، وسائل اور معاملات سے دور رکھا جائے گا۔ وہ یہ بھی چاہتی ہیں کہ کسی بھی صورت میں مسلمان، مرکزی دھارے کا حصہ نہ بنیں۔ وہ یہ نہیں چاہتیں کہ مسلمان ملک کے منظر نامے کی تشکیل میں اپنا کوئی کردار ادا کریں۔ ان حالات پر قابو پانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم برادران وطن کے ساتھ زیادہ سے زیادہ ربط میں رہیں۔ اپنے غیر مسلم بھائیوں و بہنوں کو ہمارے مسائل میں شامل کریں۔ ہمیں اپنے حقوق کے لیے تنہا نہیں لڑنا ہے بلکہ سیول سوسائٹی کی دیگر غیر مسلم سماجی تنظیموں کے ساتھ شامل ہونا ہے۔ عدل و انصاف کے قیام اور دستوری حقوق کے کے لیے مشترکہ طور پر جدوجہد کرنا ہے۔ معاشی انصاف، ذات پات کا استحصال، عدم مساوات اور خواتین کے استحصال جیسے مسائل پورے ملک کے مسائل ہیں، ہمیں ان مسائل کو حل کرنے کے لیے آگے آنا ہوگا۔ اس طرح عام معاشرے میں آپ کی مصروفیت صحیح سمت اور صحیح خطوط پر ہوگی۔ سماج کے دوسرے لوگ خود بخود اس کام میں آپ کی مدد کے لیے آگے آئیں گے۔ اسی بنیاد پر آپ فرقہ واریت اور سماج کو تقسیم کرنے کی کوششوں سے نمٹ سکتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان تمام میدانوں میں ہر سطح پر جماعت کے کیڈر کے ساتھ مل کر پوری امت مسلمہ کو کام کرنا چاہیے۔
سوال: سماجی، اصلاحی اور دینی پروگراموں پر عمل آوری اور منصوبوں کو نافذ کرنے کے لیے ہمیں ایک ٹیم کی ضرورت ہے، کیا اس ٹیم کی مرکز کی سطح پر توقع کی جا سکتی ہے یا علاقائی سطح پر تشکیل دینے کی وکالت کی جا رہی ہے؟
جواب: مرکز کی سطح پر ہم نے اس ٹیم کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ الحمدللہ اس میں مختلف صلاحیتوں کے حامل افراد شامل ہیں۔ اس ٹیم میں تیس سے لے کر ستر سال کی عمر کے لوگ موجود ہیں، اسی طرح مختلف شعبوں میں مختلف مہارتوں، تخصص، تعلیمی اور علمی پس منظر کے حامل افراد اس ٹیم میں شامل کیے گئے ہیں۔ ہمیں توقع ہے کہ ریاستی اور علاقائی سطح پر بھی اسی طرح کی ٹیمیں تشکیل دی جائیں گی۔ ہمارے پاس بزرگوں کے ہوش اور تجربات کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کا جوش اور توانائی ہونی چاہیے۔ ہماری ٹیموں میں سینئر تجربہ کار اصحاب کے ساتھ ساتھ نوجوان اور توانا، بہترین نظریات اور اخلاقی اقدار کے حامل، تربیت یافتہ افراد بھی ہونے چاہئیں۔ ہماری اس ٹیم کے افراد کو جدید اور عصری ٹکنالوجی اور نئے نئے طریقوں کی تربیت بھی ملنی چاہیے۔ ہمیں جدید آلات اور نئی تکنیک سے استفادہ کرنے کی صلاحیت بھی پیدا کرنی چاہیے۔ ہماری ٹیم ہر قسم کی خوبیوں والے ماہرین کا مجموعہ ہو۔ ہم نے مرکزی ٹیموں کو انہیں خطوط کی بنیاد پر تشکیل دینے کی کوشش کی ہے اور توقع کرتے ہیں کہ ریاستی اور علاقائی سطح پر بھی ایسی ہی ٹیمیں تشکیل دی جائیں گی۔
سوال: آپ جماعت کے کیڈر کو خاص طور پر اور امت مسلمہ کو عام طور پر کیا پیغام دینا چاہیں گے ؟
جواب: ہر مسلمان کی سب سے بڑی اور اہم طاقت، اللہ پر ایمان اور اس پر بھروسا ہے۔ سب سے پہلے ہمیں اپنے ایمان کو مضبوط کرنا چاہیے۔ ایمان ایک ایسی طاقت ہے جو آپ کے کردار، رویے، ذہنیت اور سوچ و فکر کے انداز کو بدل کر رکھ دیتی ہے۔ یہ صرف ایک بیان نہیں ہے بلکہ یہ برائے عمل ہے کہ ایمان آپ کے عقیدے، نظام حیات اور زندگی کے پورے لا شعوری نظام کو بدل دیتا ہے۔ جب تک ایمان پختہ، صحیح، مستحکم اور زندہ حقیقت نہیں بن جاتا، اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالی ہمیں ایک نڈر، بہادر اور بے خوف مسلمان بنائے۔ اللہ پر پختہ یقین کی بنیاد پر ہی ہمارا ذہن مثبت انداز میں سوچتا ہے، مزاج میں خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے اور انسان متحرک، چست اور چاق و چوبند رہتا ہے۔ یہی خصوصیات اور عقائد ایک مسلمان کے ایمان کا جز ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم تیز رفتاری کے ساتھ بڑھتی اور بدلتی ہوئی دنیا میں رہ رہے ہیں لہذا آج ہر فرد کے لیے سیکھنا، پرانے سیکھے ہوئے کو بھولنا اور پھر کچھ نیا سیکھنا ضروری ہے۔ جو لوگ سماج میں مناسب اور ضروری تبدیلیاں لانے میں دل چسپی رکھتے ہیں اور عملی طور پر اس کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں، ان کے لیے ضروری ہے کہ نئی تکنیک سیکھ کر اس میں مہارت حاصل کریں۔ آپ اپنے اندر نئی باتوں کو سیکھنے کی عادت ڈالیں ورنہ تیز رفتاری سے بدلتی ہوئی دنیا کو آپ متاثر نہیں کر سکیں گے۔ دنیا بہت تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے اور اگر آپ اپنے خول میں بند رہیں گے اور نئی چیزیں نہیں سیکھیں گے اور اپنی وہی پرانی رفتار سے چلیں گے تو آپ دنیا کے ساتھ آگے نہیں بڑھ پائیں گے۔ پھر آپ کے لیے سماج پر اثر انداز ہونا ممکن نہیں ہوگا۔ہمیں نئی چیزیں، نئی تکنیک، لوگوں کے ساتھ بات چیت کے نئے طریقے سیکھنے اور لوگوں کو متاثر کرنے کے ڈھنگ سیکھنے ہوں گے۔ اپنی تربیت اور خود کو معاشرے کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لیے مستقل اور مسلسل کوششوں کی ضرورت ہے۔ تحریک اسلامی کے ہر کارکن کے لیے ضروری ہے کہ وہ بنیادی عقیدہ، قرآن و سنت اور اسلامی تعلیمات وغیرہ کو سمجھے، اپنے نفس کا تزکیہ کرے اور اللہ کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط کرے۔
***
طویل مدتی مشن کے علاوہ جماعت کے پاس ایک میقاتی مشن بھی ہے جس کا مقصد ملک کی رائے عامہ کو اسلام کی طرف متوجہ اور راغب کرنا ہے۔ ہمیں اس بات کا بھی پورا احساس ہے کہ عالمی سطح پر بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا کی وجہ سے خود بھارت میں فاشست اور فرقہ وارانہ رجحانات کی حامل طاقتیں، بڑی شدت کے ساتھ سر اٹھا رہی ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر کئی اسباب ہیں جن کی وجہ سے اسلام کے بارے میں وسیع پیمانے پر غلط فہمیاں پیدا کی جا چکی ہیں۔ بھارت میں بسنے والے کچھ طبقات کے ذہنوں میں اسلام کے خلاف سخت نفرت پائی جاتی ہے۔ مختلف طبقات کے درمیان سماجی تنازعات اور انتشار کی وجہ سے نئے نئے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ فرقہ پرست عناصر اور سیاسی طاقتیں، اسی بنیاد پر مسلمانوں کے خلاف دیگر طبقات کے ذہنوں میں بد اعتمادی اور غلط فہمیاں پھیلانے کی مسلسل کوششیں کررہی ہیں۔ ان مسائل کو حل کرنا ہماری ترجیحات میں شامل ہے اور اسلام کے بارے میں عوام میں پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرنا بھی ایک اہم ترین کام ہے۔ اس میقات کا مشن، مسلمانوں کے تعلق سے ملک کے مختلف طبقات میں رائج رائے عامہ میں مثبت تبدیلی پیدا کرنا بھی ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 جولائی تا 22 جولائی 2023