دعوت غور و فکر

مذہب، سائنس اور توہم پرستی: ’ایکس ‘ پر ایک بحث

0

(دعوت سوشل میڈیا ڈیسک)

اب جب کہ بھارت میں جلد ہی امرناتھ یاترا منعقد ہونے جارہی ہے سوشل میڈیا کے پلٹ فارم ’ایکس‘ پر ایک بار پھر مذہب، سائنس اور توہم پرستی کے حوالے سے بحث چھڑ گئی ہے۔ ہر سال لاکھوں عقیدت مند امرناتھ نام کے غار کا رخ کرتے ہیں جہاں قدرتی طور پر بننے والا برف کا پِنڈ ان کے عقیدے کے مطابق بھگوان شیو کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ تاہم، حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر اس پِنڈ کے سائنسی پہلو اور مذہبی تشریح کے درمیان ایک نئی بحث نے جنم لیا ہے۔
سوامی اگنی ویش کے ایک پرانے بیان کو تازہ کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر ارون پرکاش مشرا نے سوال اٹھایا کہ جو چیز ایک سادہ سائنسی عمل کا نتیجہ ہے، کیا اسے مذہب کے لبادے میں لپیٹ کر عقیدت کا کاروبار نہیں بنایا جا رہا ہے؟ اس پر جغرافیہ اور ارضیات کے ایک ماہر نے اس قدرتی مظہر کے حوالے سے اپنی رائے دی ہے جس سے نہ صرف سوامی اگنی ویش کے موقف کی تائید ہوتی ہے بلکہ بھارت کے مذہبی رجحانات اور سائنسی شعور کے درمیان ایک واضح خلیج کی نشاندہی بھی ہوتی ہیں۔
یہ بحث نہ صرف امرناتھ یاترا بلکہ بھارت میں مذہب اور سائنس کے توازن پر بھی سوالیہ نشان کھڑا کرتی ہے۔ کیا ہمارے معاشرے کو توہم پرستی کے بجائے سائنسی شعور کی روشنی میں حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے؟ اس سوال نے ایک نئی دعوت فکر پیش کی ہے جو ’ایکس‘ (سابقہ ٹویٹر) پر زیر بحث ہے۔
مذہب، سائنس اور توہم پرستی کے حوالے سے پہلا ٹویٹ پروفیسر ڈاکٹر ارون پرکاش مشرا کا ہے جنہوں نے لکھا:
"سوامی اگنی ویش نے کہا کہ امرناتھ کی غار میں بنا ہوا برف کا پِنڈ بھگوان نہیں ہے بلکہ یہ ایک سیدھا سا سائنسی عمل ہے۔ اگر اتنی اونچائی اور کم درجہ حرارت میں غار کی چھت سے پانی ٹپکے گا تو وہ برف کے پِنڈ کی صورت اختیار کر لے گا۔ اس قدرتی عمل کی پوجا کرنا، یاترا کے دوران ہر سال متعدد اموات اور اس کے لیے فوج کی تعیناتی سراسر توہم پرستی ہے۔”
دوسرا ٹویٹ شمو پٹوا دِگھواڑا والا کا ہے وہ لکھتے ہیں:
’’جغرافیہ اورعلم الارض کا طالب علم ہونے کے ناطے میں ایسی بے شمار جگہوں سے واقف ہوں۔۔۔ لیکن اس قدرتی منظر کی پرستش صرف بھارت میں کی جاتی ہے۔
یہ تصویر آسٹریا کی نہیں بلکہ آسٹریلیا میں "وائٹر” نامی مقام کی ہے جہاں سردیوں میں جب برف گرتی ہے اور پہاڑوں کی دراڑوں سے پانی قطرہ قطرہ ٹپکتا ہے تو ایک غار میں برف کے گولے (ice caves) بنتے ہیں۔
یہاں لوگ تفریح کے لیے آتے ہیں اور مقامی افراد بچوں کو سائنسی نقطہ نظر سے یہ سب کچھ سکھاتے ہیں۔ اسی لیے وہاں اتنی سائنسی ایجادات ہوتی ہیں۔ اگر وہاں بھی ہمارے ملک کی طرح توہم پرست ہوتے تو اب تک اس جگہ کو مذہب کے نام پر دکان بنا کر لوٹ مار شروع کر چکے ہوتے۔
سوئٹزرلینڈ، آسٹریا، سلوواکیہ اور الاسکا میں بھی آپ کو کئی ایسی جگہیں مل جائیں گی۔
پتھر میں بھگوان ہے، یہ مذہب انسان کو سمجھانے میں کامیاب رہا، مگر انسان میں انسانیت ہے، یہ سمجھنے میں انسان ناکام رہا۔‘‘
دعوتِ فکر:
یہ دونوں ٹویٹس ہمارے معاشرے میں سائنس اور مذہب کے بیچ پائے جانے والے تضاد کو اجاگر کرتے ہیں۔
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں قدرتی مظاہر کو سائنسی شعور کے ساتھ سمجھایا جاتا ہے، جہاں بچے ان مظاہر کے پیچھے کارفرما اصولوں کو سیکھتے ہیں اور یوں ایجادات اور معاشرتی ترقی میں آگے بڑھتے ہیں۔
اس کے برعکس، ہمارے یہاں قدرتی واقعات کو مقدس رنگ دے کر ان سے عقیدت کا کاروبار چمکایا جاتا ہے۔
تصاویر

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 09 مارچ تا 15 مارچ 2025