
پروفیسر محسن عثمانی ندوی
دین کی دعوت امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے، یہ وہ ذمہ داری ہے جو اس امت مسلمہ کے کندھوں پر ڈالی گئی ہے۔ اس ذمہ داری کو ادا نہ کرنے کی وجہ سے امت مسلمہ پر آفات وبلیات کا نزول ہوتا رہتا ہے۔ کم از کم اس راقم السطور کے نزدیک یہ پورا مسئلہ واضح ہے اور قرآن کی آیات سے ثابت ہے۔
پہلے قرآن کی اس آیت کو دیکھیے ’’وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’میں نے تمام انسانوں و جنوں کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔‘‘ اس آیت سے انسانوں اور جنوں کی وجہ تخلیق معلوم ہو جاتی ہے اور وہ ہے اللہ کی عبادت۔ اس بات کو ذہن میں رکھیے۔ اس کے بعد تخلیق کائنات کے سلسلے میں اللہ کی پوری اسکیم کو نظر میں رکھیے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور ابلیس کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرے، یعنی اسے حضرت آدم کا ماتحت اور تابع دار ہونا تھا، کیوںکہ منشائے الٰہی کے اعلان اور اجراء ونفاذ اور عبادت کے پیغام کو پہنچانے کی ذمہ داری حضرت آدم اور ان کی ذریت پر ڈالی جانے والی تھی۔ کیونکہ مٹی ہی اس قابل تھی کہ اس مبارک بوجھ کو اٹھا سکے، بھڑکنے والی آگ میں اس بوجھ کے اٹھانے کی صلاحیت ہی نہ تھی۔ ’جن‘ وہ مخلوق تھی جسے آگ سے پیدا کیا گیا تھا۔ شیطان نے کہا تھا: خلقتنی من نار وخلقتہ من طین۔ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو (یعنی آدم کو) مٹی سے۔ مٹی کا وصف تواضع وانکساری ہے، شیطان کو جب آدم کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا یعنی اطاعت کا تو اس نے سرتابی دکھائی اور حکم ماننے سے انکار کیا اور دھمکی دی کہ وہ آدم کی ذریت کو تا قیامت گمراہ کرتا رہے گا اور گمراہ کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھے گا اور ہر سمت سے اسے گھیرے گا اور آدم کی ذریت کے لیے اس کے چنگل سے بچ نکلنا مشکل ہو جائے گا۔ یہ دھمکی دی تھی شیطان نے آدم کے اور خود کے اور اس کائنات کے خالق یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ کو۔
تمام جن و انس کی تخلیق اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے ہوئی تھی، اس کے بعد جن و انس کو اس مقصد کی راہ دکھانے کا کیا انتظام کیا گیا۔ انتظام یہ کیا گیا کہ انبیاء کو سلسلہ وار اس دنیا میں بھیجا گیا تاکہ اس روئے زمین پر اللہ کی عبادت واطاعت ہوتی رہے۔ دوسری طرف ابلیس کی ذریت نے بھی بنی نوع انسان کو گمراہ کرنے اور عبادت سے روکنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ خیر و شر کی کشمکش اور حق و باطل کی آویزش جاری رہی، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اب اپنا آخری پیغمبر بھیجا۔
اللہ تعالیٰ نے آدم کی ذریت کو شیطان کے کید سے بچانے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں پیغمبر بھیجے جو شیطان کے ورغلانے سے انسانوں کو نجات دلاتے تھے، تاکہ انسان توحید کے صحیح عقیدہ پر قائم رہے اور اللہ کی عبادت روئے زمین پر ہوتی رہے اور انسانوں اور جنوں کی جو وجہ تخلیق ہے وہ بھی پوری ہوتی رہے، اس میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو اور ہزاروں پیغمبروں کے آنے کا سلسلہ جاری رہا، یہ سلسلہ ہزاروں سال تک چلتا رہا، یہاں تک کہ آخری پیغمبر حضرت محمد ﷺ کو مبعوث کیا گیا اور اس کے بعد پیغمبروں کے آنے کا سلسلہ بند ہو گیا، لیکن شیطان کی دھمکی تو باقی تھی، وہ تو ختم نہیں ہوئی۔ پیغمبروں کا سلسلہ رک گیا لیکن اللہ تعالیٰ نے اب ہدایت کی ذمہ داری خیر امت کے سر پر ڈال دی، تاکہ انسان گمراہ نہ ہوں اور ہدایت کا سلسلہ دنیا میں جاری رہے: کنتم خیر امت أخرجت للناس تأمرون بالمعروف وتنہون عن المنکر وتومنون باللہ۔ یعنی ’’تم خیر امت ہو جسے بنی نوع انسان کے لیے مبعوث کیا گیا ہے، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘ اب قیامت تک کے لیے امت اور بنی نوع انسان کی ہدایت کی ذمہ داری خیر امت کے سر پر ڈال دی گئی ہے، تاکہ روئے زمین پر اللہ کی عبادت ہوتی رہے اور انسانوں اور جنوں کے لیے جو کام وجہ تخلیق ہے وہ پورا ہوتا رہے۔
خیر امت پر اس چیز کی ذمہ داری ڈالی گئی کہ خلق خدا صرف اکیلے اللہ کی عبادت کرے اور کسی دوسری مخلوق کی عبادت نہ کرے۔ لیکن ہوا یہ کہ کچھ عرصہ بعد خیر امت کا تمغہ جس امت کو دیا گیا تھا، اس نے اس ذمہ داری کو ادا کرنا چھوڑ دیا اور غیراللہ کی عبادت کرنے لگے۔ حکم خداوندی سے سر تابی کے نتیجے میں اس امت پر آفات وبلیات کا نزول ہوتا رہا، لیکن یہ امت سمجھی ہی نہیں کہ مصائب کے بادل کیوں امنڈ امنڈ کر آرہے ہیں؟ کیوں مسلمانوں کی حکومت ختم ہوگئی، کیوں انگریزوں کا اقتدار قائم ہو گیا، کیوں مسلم حکومتوں کے چراغ بجھا دیے گئے، مسلم قوم دوسری ترکیبیں کرتی رہی اور نئے طریقے آزماتی رہی، جنگ آزادی کی ہل چل قائم رہی، جماعتوں پر جماعتیں اور ادارے قائم کرتی رہی، مدرسے بھی قائم کیے جاتے رہے، کبھی مسلم بورڈ بنانے کا تجربہ ہوتا رہا، کبھی کوئی جماعت کبھی کوئی امارت، ہزاروں تنظیمیں ہزاروں نام، لیکن مسلمانوں کا کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا، بلکہ مصائب وآلام کی شدت میں مزید اضافہ ہی ہوتا گیا لیکن مسلمانوں کا ذہن ادھر منتقل نہیں ہوا کہ تمام آلام ومصائب کی اصل وجہ کیا ہے؟ دعوت سے دست بردار ہونے کی سزا یہ ملی کہ روز بروز حالات خراب ہوتے گئے اور اب دعوت کا نام لینے سے بھی لوگ ڈرنے لگے ہیں، لوگوں کو دعوت کے الزام میں قید کیا جاتا رہا، دار ورسن کی منزل جیسے قریب آگئی ہو۔
جب ایسے حالات پیش آئیں اور دعوت کا کام کرنے والوں کو تعذیب کا نشانہ بنایا جاتا رہے تو ایسے موقع پر ہمارے سامنے صحابۂ کرام کے جو نمونے ہیں ان کو سامنے لانے کی ضرورت ہوتی ہے اور قرآن کے واقعات کو بیان کرنے کی ضرورت ہے، لیکن خوف پھیلتا گیا اور خوف کا علاج نہیں ہوا۔ آج بھی خوف سے کوئی دعوت کا نام نہیں لیتا ہے۔
قرآن میں اصحاب الاخدود کے قصے کو بطور مثال پیش کیا گیا ہے کہ انہیں آگ کے الاؤ میں ڈال دیا گیا اور انہوں نے اس طرح جان دینی گوارا کر لی مگر دین سے نہ پھرے۔ ان کے واقعے میں ہے کہ ایک عورت آگ میں جانے سے کترا رہی تھی۔ اللہ نے اس کے شیر خوار بچہ کو گویائی دے دی اور بچہ بول پڑا: امی صبر کرو آپ حق پر ہیں۔
حبیب بن زید انصاریؓ کا واقعہ ہے کہ مسیلمہ کذاب نے ان سے کہا کہ کیا تم گواہی دیتے ہو کہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔ انہوں نے کہا ہاں۔ پھر اس نے کہا کیا تم گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ تو انہوں نے کہا۔ میں نہیں سنتا۔ وہ سوال کرتا جاتا اور ان کے جسم کا تھوڑا تھوڑا حصہ کاٹتا جاتا۔ لیکن وہ اپنے عقیدے پر قائم رہے اور ذرہ برابر مداہنت سے کام نہیں لیا۔
دورِ فاروقی میں عبداللہ بن حذافہ سہمیؓ کو ایک جنگ میں رومیوں نے قید کر لیا۔ انہیں شاہ روم کے سامنے پیش کیا گیا۔ بادشاہ نے ان سے کہا تم نصرانی بن جاؤ، میں تم کو اپنی بادشاہت میں شریک کرلوں گا اور اپنی بیٹی سے تمہاری شادی کر دوں گا تو انہوں نے جواب دیا تم اگر پوری سلطنت دے دو اور عرب کی پوری ملکیت دے دو تو بھی میں دین محمدی سے ایک لمحہ کے لیے بھی نہ پھروں گا۔ اس جواب کو سن کر بادشاہ نے دھمکی دی کہ پھر میں تم کو قتل کر دوں گا۔ وہ بولے تم جو چاہو کرو۔ اس کے بعد انہیں سولی پر لٹکا دیا گیا اور تیرانداز انہیں تیر مارنے لگے اور ساتھ ہی نصرانیت قبول کرنے کی ترغیب دیتے رہے۔ لیکن وہ انکار کرتے رہے۔ اس کے بعد بادشاہ نے ان کو سولی سے اتارنے کاحکم دیا۔ انہیں اتار دیا گیا پھر کیا ہوا ان کی نظروں کے سامنے ایک مسلمان قیدی کو لایا گیا اور اسے کھولتے پانی میں ڈال دیا گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کا گوشت ہڈیوں سے الگ ہو گیا۔ یہ منظر دکھا کر حضرت عبداللہ سے کہا گیا۔ نصرانیت قبول کرو، ورنہ تمہارا بھی یہی حشر ہوگا۔ مگر وہ ذرہ برابر بھی متزلزل نہ ہوئے اور کسی نرمی کا مظاہرہ نہ کیا۔ اس کے بعد ان کو بھی کھولتے ہوئے پانی میں ڈالنے کے لیے اٹھایا گیا۔ اس وقت ان کی آنکھ سے آنسو نکل گئے یہ دیکھ کر بادشاہ کو خیال ہوا کہ اب یہ آدمی ڈر گیا ہے۔ لہٰذا نصرانیت قبول کرنے کے لیے آمادہ ہو جائے گا۔ فوراً حکم دیا کہ اس آدمی کو میرے پاس لایا جائے۔ وہ لائے گئے اور نصرانیت قبول کرنے کی بات دہرائی گئی، تو بھی ان کی کیفیت میں کسی طرح کی تبدیلی نہیں پائی۔ جب رونے کا سبب بادشاہ نے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ میں صرف اس لیے رویا کہ میرے پاس ایک ہی جان ہے، جو اِس وقت ختم ہو جائے گی۔ اے کاش! میرے جسم میں جتنے بال ہیں اتنی ہی جانیں ہوتیں، جن کو فی سبیل اللہ یہ سزا دی جاتی۔ یہ جواب سن کر بادشاہ حیرت زدہ رہ گیا اور نہایت متاثر ہوا اور کہا کہ میرے سر کو تم بوسہ دو، میں تم کو آزاد کر دوں گا۔ حضرت عبداللہ نے کہا تمام مسلمان قیدیوں کو آزاد کر دو گے؟ بادشاہ نے کہا: ہاں! اس کے بعد انہوں نے اس کے سر کو بوسہ دیا اور سب مسلمان آزاد ہو گئے۔
عبداللہ بن حذافہؓ جب آئے تو بڑی گرم جوشی سے ان کا استقبال کیا گیا۔ حضرت عمر فاروقؓ نے کہا ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ عبداللہ بن حذافہؓ کے سر کو بوسہ دے اور سب سے پہلے میں ان کے سر کو بوسہ دیتا ہوں۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ایمان ویقین کی وہ کون سی منزل ہے جہاں ہمارے اسلاف پہنچے ہوئے تھے کہ حیرت میں ڈال دینے والے اعمال کا ان سے صدور ہوتا اور جان دے دینا ان کے لیے آسان تھا۔ حکمت اور مصلحت کے نام پر کوئی حیلہ بہانہ کرنے کے لیے آمادہ نہ ہوتے۔ رخصت، جواز اور گنجائش تلاش کرنے کے بجائے مشکلات اور خطرات کو جیسے خود دعوت دے رہے ہوں اور باطل کے مقابلے میں نرمی اور مداہنت کو غیرت ایمانی کے منافی سمجھتے تھے۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ حبشہ کی جانب ہجرت کی نیت سے نکلے۔ ایک مقام برک غماد تک پہنچے تو قبیلۂ قارہ کا سردار ابن دغنہ ملا۔ اس نے پوچھا کہاں کے ارادے ہیں؟ حضرت صدیقؓ نے کہا: میری قوم نے مجھے نکال دیا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ زمین میں جہاں چاہوں پھروں اور اپنے رب کی عبادت کروں۔ ابن دغنہ نے کہا آپ جیسا آدمی جو مصائب میں لوگوں کی مدد کرتا ہے، صلہ رحمی کرتا ہے، مجبور کا بوجھ اٹھاتا ہے، محتاج کی حاجت روائی کرتا ہے اور مہمان کی ضیافت کرتا ہے، اس کو کیسے نکالا جاسکتا ہے۔ آپ کو میں پناہ دیتا ہوں۔ اس کے بعد ابن دغنہ حضرت صدیقؓ کو مکہ واپس لائے اور کہا کہ آپ یہاں اپنے رب کی عبادت کیجیے۔ ساتھ ہی ابن دعنہ نے پورے مکہ میں اعلان کر دیا کہ ابوبکرؓ کو میں نے پناہ دی ہے۔ یہ سن کر قریش نے کہا: ٹھیک ہے، لیکن ابوبکر سے کہو کہ اپنی نماز اور عبادت خاموشی سے ادا کریں۔ اعلان نہ کریں اور ہمیں تکلیف نہ دیں۔ اندیشہ ہے کہ ہمارے بچے اور عورتیں فتنہ میں پڑ جائیں گے۔ حضرت صدیقؓ اس طرح سے اپنے دن گزار رہے تھے۔ قریش کے بچے اور عورتیں حضرت کی قرأت سنتے، نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے، اس سے قریش کو پریشانی شروع ہوگئی اور بار بار ابن دغنہ سے شکایت کرنے لگے۔ آخر کار اس نے حضرت صدیقؓ سے کہہ دیا کہ اگر آپ خاموشی سے نہیں رہنا چاہتے تو میرا ذمہ واپس کر دو اور جہاں مرضی ہو چلے جاؤ۔ پھر کیا تھا بلا تامل حضرت صدیقؓ نے اس کا ذمہ واپس کردیا اور کہا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی پناہ کافی ہے اور میں اس کی مرضی پر راضی برضا ہوں۔ ظاہر ہے ان کے لیے کوئی محفوظ مقام نہیں تھا۔ کوئی پناہ گاہ نہ تھی لیکن غیرت ایمانی نے کسی طرح کی بے مائیگی کا اظہار نہ کیا اور انہیں یہ برداشت نہ ہوا کہ محض سہولت وآسائش کی خاطر اہل مکہ کے خوف کو اپنے اوپر اثر انداز ہونے دیں اور حالات کے دباؤ کے تحت کوئی حکمت عملی اپنانے کے لیے آمادہ ہو جائیں۔
حضرت عمرؓ جب ایمان لائے تو لوگوں سے پوچھا کہ کسی بات کو بہت زیادہ عام کرنے والا کون ہوسکتا ہے؟ لوگوں نے بتایا جمیل بن عامر۔ حضرت فاروقؓ جمیل کے پاس گئے۔ اس سے کہا کہ تمہیں معلوم ہے کہ میں نے محمد کا دین قبول کر لیا ہے اور میں مسلمان ہو گیا ہوں؟ یہ سنتے ہی جمیل سیدھے خانۂ کعبہ کی طرف روانہ ہو گیا۔ وہاں پہنچ کر خانۂ کعبہ کے دروازہ پر کھڑا ہو کر بلند آواز سے پکارا۔ قریش کے لوگو! تمہیں معلوم ہے ابن خطاب بے دین ہو گیا ہے۔ حضرت فاروقؓ بھی اس کے پیچھے تھے زور دار آواز میں بولے۔ اس نے جھوٹ کہا میں مسلمان بن گیا ہوں۔ یہ سنتے ہی کئی لوگ حضرت عمرؓ سے ہاتھا پائی کرنے لگے اور حضرت بھی اپنی مدافعت کرنے لگے۔ یہ سلسلہ دیر تک جاری رہا۔ حضرت اکیلے تھے، تھک کر بیٹھ گئے اور لوگ گھیرے ہوئے تھے۔ حضرت نے کہا اس وقت تم جو چاہو کر لو لیکن اگر ہم تین سو ہو گئے تو خدا کی قسم تمہاری مجال نہیں کہ تم کچھ کر سکو۔ یہ تنازعہ چل ہی رہا تھا کہ قریش کا ایک معمر آدمی آگیا اور اس نے بیچ بچاؤ کرادیا اور کہا کہ ایک آدمی نے اپنے لیے ایک چیز پسند کرلی ہے، اس کو اس کے حال پر چھوڑ دو۔ کیا تم سمجھتے ہو کہ بنی عدی کے لوگ اپنے ایک آدمی کے ساتھ تمہارے اس سلوک کو گوارا کرلیں گے۔
حضرت فاروقؓ کے اس طرز عمل کی کیا توجیہ کی جائے۔ ہمارے ذہنوں میں دعوتی حکمت اور حکمت عملی کا جو تصور جما ہوا ہے اس سے اس طرز عمل کا کوئی میل نہیں ہے۔ ہمارا دانشور تو یہی کہے گا کہ یہ طرز فکر تو ’’آ بیل مجھے مار‘‘ کے مترادف ہے۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ کسوٹی ہماری دانشوری اور حکمت عملی نہیں ہے بلکہ نمونۂ عمل سلف صالحین کے عمل کو ہی بنانا زیادہ صحیح ہے۔ اس اصول کے تحت ہم یہ نتیجہ نکالنے پر مجبور ہیں کہ ایمان آگ کی ایک ایسی چنگاری ہے جو دیر تک راکھ میں دبی نہیں رہ سکتی۔ اور دبانے پر شعلہ بن جانے سے اسے کوئی چیز روک نہیں سکتی۔ ساتھ ہی یہ کہنا پڑتا ہے کہ ایمان ویقین کا جہاں عقل وخرد اور دانشوری کے جہاں سے بہت آگے ہے۔ شاید یہی بات ہے جو علامہ اقبالؒ کہنا چاہتے ہیں:
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
دیکھیے! ایک روز اصحابِ رسول جمع ہیں۔ گفتگو چل رہی ہے کہ قریش نے ابھی قرآن نہیں سنا ہے، کون ہے جو ان کو سنانے کی ہمت کرے۔ عبداللہ بن مسعودؓ بول پڑے ’’میں‘‘۔ ساتھیوں نے کہا تمہاری جان کو خطرہ ہے۔ اس کے لیے کسی ایسے آدمی کو اٹھنا چاہیے جس کے قبیلہ کے لوگ اس کی حفاظت کر سکیں۔ انہوں نے کہا چھوڑو یہ بات، میری حفاظت میرا اللہ کرے گا۔ اس کے بعد خانہ کعبہ کے قریب جا کر کھڑے ہوئے اور بسم اللہ کر کے ’’الرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ‘‘ پڑھنا شروع کر دیا۔ یہ دیکھ کر قریش کے لوگ ان پر ٹوٹ پڑے اور خوب خوب مارا۔ مار کھا کر جب وہ واپس آئے تو ساتھیوں نے کہا اسی چیز کا ہمیشہ اندیشہ تھا۔ انہوں نے کہا اس سے کیا ہوتا ہے۔ اگر تم چاہو تو کل میں پھر ان کو سناؤں گا۔ لوگوں نے کہا نہیں نہیں اتنا کافی ہے۔ گویا مار کھا کر، اذیت برداشت کر کےکافرانہ ذہنیت پر ضرب لگائی جا رہی ہے اور انسانی ضمیر کو بیدار کیا جا رہا ہے اور دعوت توحید کو عنوان بنایا جا رہا ہے۔ سوچنے کا ایک رخ یہ ہے۔ اور دوسرا رخ یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ ہم آہنگی پیدا ہو جائے اور باطل کو چھیڑا نہ جائے اور دعوت کا نام بھی نہ لیا جائے ورنہ ماحول میں اضطراب پیدا ہوگا اور مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑے گا اور پھر دعوت کا موقع باقی نہ رہے گا۔ ان دونوں میں سے کون سارخ صحیح ہے کون بتائے؟ ہم رات دن اپنے پیغمبر کا نام لیتے ہیں اور ان پر درود بھیجتے ہیں، پیغمبر کو جب دعوت کے کام سے روکنے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے کہا کہ خدا کی قسم! اگر لوگ میرے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے پر چاند لا کر رکھ دیں گے تو بھی میں دعوت کے کام سے باز نہیں آؤں گا۔ قرآن میں دعوت کا حکم دیا گیا ہے، اب اس کے لیے دلیلوں کی ضرورت نہیں۔ بے شمار آیتیں ہیں جو دعوت کی فرضیت پر شاہد ہیں اور یہی اللہ کی نصرت ہے جس پر نصرت کا وعدہ کیا گیا ہے۔ قرآن کی آیت ذہن میں رکھیں کہ تمام انسانوں اور جنوں کا مقصد وجود اللہ کی عبادت ہے اور اسی کوشش کا نام پیغمبرانہ مشن ہے، جس پر اللہ کی طرف سے نصرت کا وعدہ ہے: إن تنصروا اللہ ینصرکم ویثبت اقدامکم، اگر کوئی شخص دعوت کے کام سے خوف زدہ ہے اور کہتا ہے کہ دعوت کے لیے ابھی حالات سازگار نہیں ہیں تو اسے اس میدان میں اترنے کی ضرورت نہیں اور نہ وہ نصرت خداوندی کا مستحق ہے۔ ع
یہ قدم قدم بلائیں یہ سواد کوئے جاناں
جسے زندگی ہو پیاری وہ یہیں سے لوٹ جائے
یاد رکھیے! دعوت کے میدان میں اترنا اپنے آپ کو مقصد کائنات سے اور انسانوں اور جنوں کی تخلیق کے اس مقصد سے ہم آہنگ کرنا ہے، جس کا ذکر قرآن کریم میں آیا ہے اور اس کام پر اللہ کی نصرت نازل ہوتی ہے اور اس کام کے نہ کرنے پر آزمائشوں کا نزول بھی ہوتا ہے۔ آج اگر کچھ لوگ افتاں وخیزاں، پابہ جولاں پس زنداں لے جائے جارہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی مدد نازل ہونے والی ہے، بشرطیکہ یہ کام جاری رہے۔ اگر یہ کام ملک میں نہیں ہوا تو ہر ادارہ، ہر جماعت، ہر امارت، ہر تنظیم اور ہر بورڈ کے لیے اس ملک میں ناکامی مقدر ہے۔
مسلمانوں کے ذہن پر کبھی اس خوف کا گزر نہیں ہونا چاہیے کہ ابھی ملک کے اندر حالات سازگار نہیں ہیں، اس لیے ابھی دعوت کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ مسلمانوں نے بھی کئی سو سال اس ملک میں حکومت کی ہے۔ بالکل آخری مغلیہ دور میں ۱۸۳۰ء کے آس پاس مسلمان تقریباً ۱۶ فیصد تھے اور انگریزوں کے دور اقتدار میں ۱۹۴۱ء میں مسلمانوں کی تعداد ۲۵ فیصد ہو گئی۔ یعنی ایک سو دس سالوں میں مسلمانوں کی آبادی میں تقریباً پچاس فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ ۱۶ فیصد سے ۲۵ فیصد تک وہ پہنچ گئے۔ یعنی مسلمانوں کی حکومت کے زمانے میں ۱۵-۱۶ فیصد مسلمانوں کی آبادی تھی۔ انگریزوں کی حکومت کم وبیش نوے برس رہی اور بغیر کسی زور زبردستی کے ۱۶ فیصد سے ۲۵ فیصد ہو گئی۔ یہ اعداد وشمار ہندوستان کے نامور مؤرخ ہرنس لکھپا نے پیش کیے ہیں۔
اسلام کی اشاعت کے بہت سے اسباب ہوتے ہیں، اگر مسلمان اللہ کے حکم کے پیش نظر اور آخری پیغمبر حضرت محمد ﷺ کی دعوت پر عمل کرتے رہے، اگر اس دعوت وتبلیغ کے کام کو انجام دیں گے تو عجب نہیں کہ کوئی انقلاب آجائے اور مستقبل کا مؤرخ یہ لکھے کہ اسلام اس دور میں سب سے زیادہ پھیلا، جب اس کے پھیلنے کے ظاہری امکانات بہت کم تھے۔ جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے کہ انسانوں اور جنوں کی وجہ تخلیق اللہ کی عبادت بتائی گئی ہے۔ دین کی دعوت کا مطلب ہے اس کائنات کی وجہ تخلیق کی معاونت۔ اس کام پر اللہ کی مدد نازل ہوگی اور ہر طرف اسلام کا بول بالا ہوگا۔
***
دعوت کے میدان میں اترنا اپنے آپ کو مقصد کائنات سے اور انسانوں اور جنوں کی تخلیق کے اس مقصد سے ہم آہنگ کرنا ہے، جس کا ذکر قرآن کریم میں آیا ہے اور اس کام پر اللہ کی نصرت نازل ہوتی ہے اور اس کام کے نہ کرنے پر آزمائشوں کا نزول بھی ہوتا ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 07 اگست تا 13 اگست 2025