دستور ساز کمیٹی کی دور اندیشی ۔تنوع میں اتحاد لازمی

جمہوریت کے تین ستون: مقننہ، عاملہ اور عدلیہ کی از سر نو بازیافت ضروری!

0

نوراللہ جاوید

دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے باوجود عوام سماجی، معاشی اور معاشرتی ناانصافی کے شکار کیوں؟
تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ بھارت دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک ہے جہاں ”تنوع میں اتحاد“ اور تہذیبوں و ثقافت کا احترام پایا گیا ہے۔ یہاں مختلف تہذیبوں کا جنم ہوا اور مختلف ثقافت کی حامل اقوام نے اس کو اپنا مسکن بنایا اور اس زمین نے ہر ایک کو قبول بھی کیا۔ چنانچہ برسہا برس کی جدوجہد اور آزادی کے وقت خوں ریز تقسیم کے بعد ملک کے معماروں کے سامنے سب سے بڑا یہی چیلنج تھا کہ مختلف تہذیبوں و تمدن، زبان و نسل اور ثقافت کے حاملین قوموں اور نسلوں کو ایک لڑی میں کس طرح پرویا جائے؟ کیا ان سب کو ایک ہی رنگ میں رنگ دیا جائے اور انہیں اپنی زبان و ثقافت اور شناخت کو ترک کرکے ِایک شناخت اور ایک تہذیب اور ایک زبان بولنے اور اختیار کرنے پر مجبور کیا جائے یا پھر تنوع و اختلافات کا احترام کرتے ہوئے اتحاد قائم کرنے کی کوشش کی جائے؟ دونوں راستے چیلنج سے بھرے تھے۔ ایک طرف جہاں تہذیبی، مذہبی شناخت اور معاشرتی ورثے کو ترک کرنے پر مجبور کرنے کی صورت میں ملک کے اتحاد کو شدید نقصان پہنچنے اور تقسیم ہونے کا خطرہ تھا وہیں تنوع میں اتحاد قائم کرنے کی صورت میں اکثریتی طبقے کے غلبے کے امکانات بھی کچھ کم نہیں تھے۔ چنانچہ 76 برس قبل جب قوم کے معماروں اور مجاہدین آزادی نے اس نئے ملک کے آئین کو مرتب کرنے کے لیے دستور ساز کمیٹی کی تشکیل کی تو اس چیلنج کو قبول کیا۔ رواداری اور یکجہتی کی راہ ہموار کرنے کے طریقے تلاش کیے۔تنوع میں سب کو متحد کیسے رکھا جا سکتا ہے اور مختلف زبان و نسل اور تہذیبی و مذہبی شناخت کو تسلیم کرتے ہوئے کس طرح اتحاد قائم کیا جاسکتا ہے اس پر غور و فکر کرنے لگے۔ نو زائیدہ ملک کے ہیروؤں نے ذات، زبان اور مختلف مذہبی شناخت کی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے ثقافتی اختلافات کا جشن منایا اور عدم رواداری، اکثریتی طبقہ کے زعم پر قابو پانے کے لیے اقدامات کیے۔چنانچہ 22 جنوری 1947 کو دستور ساز کمیٹی نے بھارتی آئین کے مقصد قرارداد کو متفقہ طور پر منظور کیا اور یہی بھارتی آئین کا متاثر کن اور طاقتور تمہید بن گئی اور اب یہی اس کے مستقبل کے لیے انتہائی اہم ہے۔ تمہید یہ طے کرتی ہے کہ ہم ”فرد کے وقار، قوم کے اتحاد اور سالمیت کو یقینی بناتے ہوئے بھائی چارہ قائم کریں گے۔ ہر ہندوستانی کے لیے یہ دستاویز آزادی، مساوات اور انصاف کے ساتھ جینے کے حق کی ضمانت دیتا ہے۔
آئین کی ترتیب میں قائدانہ کردار ادا کرنے والے بی آر امبیڈکر نے آئین ساز اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے سوال کیا تھا کہ برسہا برس کی جدوجہدِ آزادی کے بعد ہم نے جو آزادی حاصل کی ہے اس کے بعد ہمارے پاس دو امکانات ہیں۔ ہم اپنے مذہبی روایات اور مسلک کو ملک سے اوپر رکھیں یا پھر مذہبی و ثقافتی شناخت کے ساتھ ملک کے مفادات کو آگے رکھیں۔ آگے وہ متنبہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ مستقبل میں کیا ہوگا لیکن یہ بات یقینی ہے کہ اگر فریقین نے مذہب کو ملک سے بالاتر رکھا تو ہماری آزادی دوسری بار خطرے میں پڑ جائے گی اور شاید ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گی۔اس صورت حال سے ہم سب کو مضبوطی سے بچے رہنا چاہیے۔“۔ اسی طرح ملک کے دوسرے صدر جمہوریہ ایس رادھا کرشنن جو خود ایک فلسفی اور ماہر تعلیم تھے، انہوں نے اس سے زیادہ محتاط رہنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ تنگ نظری اور تعصب جب بھی حاوی ہوجائیں اور جب طاقت قابلیت سے آگے نکل جائے تو ہمارے برے دن آجائیں گے۔
 آزادی، مساوات، خودمختاری، بھائی چارہ، سیکولرازم، انصاف، رواداری، اجتماعی ذمہ داری اور عوامی آواز کا احترام ہماری جمہوریت کی اہم خصوصیات ہیں۔ جمہوریت کا مفہوم صرف سیاسی جمہوریت تک محدود نہیں ہے بلکہ جمہوریت کی ایک جامع شکل ہے اور وہ مختلف شعبہ ہائے زندگی پر مشتمل ہے۔ جامع جمہوریت کا مطلب ہے کہ سماج، معاشی اور معاشرتی طرز زندگی پر مشتمل ہے۔چنانچہ جب یہ کہا جاتا ہے کہ بھارت ایک جمہوری ملک ہے تو اس کا مطلب صرف یہ نہیں کہ اس کے سیاسی ادارے اور عمل جمہوری ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ بھارتی معاشرہ اور ہر ہندوستانی شہری جمہوری ہے اور سماجی ماحول اور انفرادی رویے میں بھی اہم جمہوری اقدار کی عکاسی کرتا ہے۔ آزادی کے بعد ملک نے مرکز اور ریاستوں دونوں میں 70سے زیادہ کامیاب انتخابات اور حکومتوں کی پرامن تبدیلی دیکھی ہے۔ جمہوریت صرف انتخابی عمل تک محدود نہیں ہے بلکہ عوام کی سماجی اور معاشی خواہشات کی تکمیل بھی ہے۔ سیاسی جمہوریت کی کامیابی کے لیے اس کا معاشی اور سماجی جمہوریت کے ساتھ اتحاد ضروری ہے۔ معاشی جمہوریت کا مطلب یہ ہے کہ معاشرے کے ہر فرد کو اس کی ترقی کے لیے یکساں سہولتیں میسر ہوں۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق ہمارے ملک کے ایک فیصد امیروں کے پاس ملک کی 85 فیصد سے زیادہ دولت ہے جو کہ بد ترین معاشی عدم مساوات کو ظاہر کرتی ہے۔ ہمارے ملک میں سب کو مساوی سماجی حقوق حاصل ہیں۔ معاشی عدم مساوات، ذات پات اور مذہب کی تفریق، غربت، استحصال ہندوستانی جمہوریت کے لیے بڑے چیلنجز ہیں۔
آئین کی یہی وہ بنیادی خصوصیات ہیں جنہوں نے ہمیں 76 برس بعد بھی ایک کامیاب سیاسی جمہوری ملک کے طور پر اپنی شناخت قائم کرنے کے مواقع دیے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ انتخابات کی آزادی کے ساتھ کیا ہمیں سماجی، معاشرتی اور معاشی آزادی حاصل ہے، اور کیا ہر ایک شہری کو باوقار زندگی، سماجی تحفظ، مذہبی آزادی اور فکر کی آزادی حاصل ہے، اور کیا ہمارا یہ مقدس آئین ہمارے حقوق کی ضمانت دیتا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو آج سب سے زیادہ موضوع بحث بنے ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ کے نامور وکیل مہر دیسائی کہتے ہیں کہ آئین میں حقِ زندگی، مساوات، مذہب کی آزادی اور احتجاج کا حق شامل ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ ملک فاشزم کی راہ پر نہیں جائے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر انصاف کے لیے جدوجہد کی راہ ترک کردی جائے تو آئین کے ذریعہ فراہم کردہ ضمانت کے باوجود ملک کے فاشزم میں تبدیل ہونے کا خطرہ موجود رہے گا۔ سوال یہی ہے کہ آئین کے باوجود فرقہ وارانہ اور ذات پات پر تشدد والے واقعات رونما ہوئے ہیں۔اور یہ سب آج نہیں بلکہ آزادی کے بعد سے ہی ہو رہا ہے۔ احمد آباد 1969، نیلی 1983، دہلی 1984، ممبئی 1992، گجرات2002، جمشید پور اور بھاگلپور میں فرقہ وارانہ فسادات اور اب ایک سال سے جاری منی پور میں بدامنی وغیرہ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آئین کی موجودگی کے باوجود سماجی انصاف میسر نہیں ہے۔ ترقی پسند آئین کے باوجود ان فسادات کے متاثرین کو انصاف نہیں مل سکا ہے۔ 1991 میں بابری مسجد کی شہادت، بابری مسجد پر سپریم کورٹ کا فیصلہ، سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد حکومت کے ذریعہ ایودھیا میں پران پرتشٹھا کا انعقاد جیسے عوامل ترقی پسند آئین کی بے بسی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
مودی حکومت انتخابی جمہوریت کے ذریعہ اقتدار میں آئی ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ جمہوریت اپنی تمام تر خصوصیات اور تقاضوں کے ساتھ رواں دواں ہے۔ معنوی لحاظ سے ملک اب بھی سیکولر اسٹیٹ ہے جہاں مساوات اور عدم امتیاز کے حق، مذہب کی آزادی، زندگی کا حق، متحرک پارلیمانی جمہوریت، اقلیتوں کے تحفظ کی ضمانت اور پیدائشی شہریت وغیرہ موجود ہیں مگر آئین کے بنیادی ڈھانچے میں چھیڑ خانی کیے بغیر گزشتہ 11 برسوں میں جمہوریت اکثریتی طبقے کی خواہشات اور اس کے رحم و کرم پر ہی ہے۔ جو کچھ ہو رہا ہے وہ آئین کی موجودگی میں ہی ہو رہا ہے بلکہ آئین کی بالا دستی کے نام پر ہی جمہوریت کو ہی اغوا کرلیا گیا ہے۔ آئین کہتا ہے کہ مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ نا انصافی نہیں کی جائی گی اور حکومت اس بنیاد پر کوئی تفریق نہیں کرے گی مگر جمہوریت کے اہم اسٹیک ہولڈروں نے پارلیمنٹ کے ذریعہ ہی آئین کو پامال کرتے ہوئے شہریت کو مذہب کے ساتھ مشروط کر دیا ہے۔ نفرت انگیز تقاریر اور موب لنچنگ کو قانونی حیثیت دی جا رہی ہے، الیکشن کمیشن، سی اے جی اور مختلف احتسابی ٹربیونلز جیسے اداروں کی آزادی کو مکمل طور پر کھوکھلا کر دیا گیا ہے۔ عدلیہ پر اعتماد قائم بہر صورت رہنا چاہیے مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس ملک کی عدلیہ جمہوریت کے درمیان توازن قائم رکھنے میں کامیاب رہی ہے؟ کیا یہ مقننہ اور ایگزیکٹیو کو ماورائے آئین اقدامات سے روک سکی ہے؟ یہ حقیقت ہے کہ مضبوط آئین کے بغیر ایک متحرک پائیدار جمہوریت ممکن نہیں ہے مگر اس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ آئین خود آمرانہ طرز عمل اختیار کیے ہوئے ہے، یہاں تک کہ یہ نسل کشی کے خلاف بھی کوئی ضمانت نہیں دیتا ہے۔ چنانچہ گزشتہ 11 برسوں میں مودی حکومت کے ذریعے کیے گئے آئینی ترمیمات کا ہی جائزہ لیا جائے جس میں کئی ایسی ترمیمات کی گئی ہیں جو آئین کی تمہید اور اصولوں کے خلاف ہے۔ ان میں شہریت ترمیمی ایکٹ، وقف ترمیمی بل، اصلاحات اراضی بل، زرعی بل اور تین طلاق پر بل وغیرہ شامل ہیں۔ ان ترامیم میں آئین کی بنیادی روح اور مقصد کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جمہوریت کے تین اہم ستون ہیں اور آج یہ تینوں ستون اس وقت کام کس طرح کر رہے ہیں وہ اپنے آپ میں سوال ہے۔ پارلیمنٹ جو قانون سازی کا پلیٹ فارم ہے مگر وہ اس وقت جس طرح سے کام کر رہی ہے اس میں اختلافات رائے کی کوئی گنجائش نہیں ہے، اقلیتوں کی رائے اور ان کے خدشات کوئی معنی نہیں رکھتے۔ سوال یہ ہے کہ اگر جمہوریت میں اکثریت کی رائے ہی سب کچھ ہے تو پھر پارلیمنٹ میں اپوزیشن کا وجود ہی کیوں ہو؟ ظاہر ہے کہ یہ پارلیمانی جمہوریت قطعی نہیں ہے۔ پارلیمانی جمہوریت میں تو فیصلے ووٹوں کی بنیاد پر ہوتے ہیں مگر آئین سازوں نے اقلیتوں کی آواز کو سننے اور ان کے خدشات کو دور کرنے کے لیے پارلیمنٹ میں کئی لیئر بنائے ہیں اور آج وہ تمام لیئرز ختم کردیے گئے ہیں۔آزادی کے بعد ملک کے اتحاد و سالمیت کو قائم کرنے کے لیے کئی ایسے دفعات شامل کیے گئے تھے جس سے صوبوں کا مرکز سے الحاق مضبوطی سے قائم رہے۔ اس میں کشمیر کے خصوصی اختیارات والی دفعہ 370 بھی شامل تھی مگر اس کو پارلیمنٹ نے جس انداز سے ختم کیا ہے وہ جمہوری اصولوں کے خلاف تھا۔پارلیمنٹ اب ایک ایسے ادارے میں تبدیل ہوگئی ہے جہاں صرف اکثریت کی آواز ہی معنی رکھتی ہے۔ قائد حزب اختلاف کی اصطلاح قائم تو ہے مگر اس کو کوئی بھی ساختی حق نہیں دیا جا رہا ہے۔ آدھار جیسے بل کو منی بل کے طور پر پاس کر کے راجیہ سبھا کی ضرورت کو ہی ختم کر دیا گیا ہے۔ خود راجیہ سبھا اس وقت کس طرح سے کام کر رہی ہے وہ ہمارے سامنے ہے جہاں چیئرمین جو ملک کا نائب صدر بھی ہے اور جس کی کسی بھی سیاسی جماعت سے وابستگی نہیں ہوتی، وہ ملک کے دو بڑے عہدوں میں سے ایک پر فائز ہے مگر اس وقت اس کی جس حیثیت سے جس طرح راجیہ سبھا کو چلایا جا رہا ہے اس کو جمہوریت نہیں کہا جا سکتا۔ چار زرعی قوانین، لیبر کوڈز، ایف سی آر اے ایکٹ میں ترامیم وغیرہ نہ صرف آئینی روح کو بگاڑتے ہیں بلکہ لاکھوں غریبوں کی روزی روٹی اور حالات کو براہ راست متاثر کرتے ہیں۔
جمہوریت کا دوسرا سب سے بڑا ادارہ ایگزیکٹیو ہے جو پارلیمنٹ اور عدالت کے سامنے جواب دہ ہے مگر ایگزیکٹیو نے اختیارات کو چند گنے چنے ہاتھوں میں مرکوز کر دیا ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ کابینی وزراء اپنے محکمات کے فیصلے اپنے صوابدید پر نہیں کر سکتے ہیں۔ محکموں کے سکریٹریوں کو براہ راست وزیر اعظم کے دفتر کو رپورٹ کرنے کی ہدایت دی جاتی ہے۔ ایگزیکٹیو نے کمپٹرولر اور آڈیٹر جنرل، الیکشن کمیشن اور دیگر مختلف کمیشنوں کو کھوکھلا کر کے آئینی روح کو توڑ دیا ہے۔ تعلیم کا مکمل ‘بھگوا کرن’، تاریخ کو افسانوں سے بدلنا اور نفرت انگیز تقریریں، موب لنچنگ جیسے بدبخت واقعات، مذہبی اور دیگر اقلیتوں کو بدنام کرنے کی سازش، سماج میں مخصوص طور پر کسی طبقے کو نظر انداز کرنا، حقیقی معنوں میں سیکولرازم، مساوات اور عدم امتیاز کے آئینی مینڈیٹ کے مکمل خلاف ہے۔ سِول سوسائٹی کے خلاف یو اے پی اے اور بغاوت جیسے سخت قوانین کا استعمال اور قومی تحقیقاتی ایجنسی، سی بی آئی، انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ، انکم ٹیکس اتھارٹیز جیسی ایجنسیوں کا سیاسی اور دیگر مخالفین کے خلاف غلط استعمال ایک بار پھر آئین کی جمہوری اقدار پر حملہ ہے۔ مزید برآں، موجودہ مقننہ اور ایگزیکٹو ہمارے آئین کے ایک انتہائی مرکزی پہلو یعنی وفاقیت پر حملہ کر رہا ہے۔ ریاستوں کے اختیارات سلب کیے جا رہے ہیں اور جو ریاستیں مرکز کے سامنے سرنگوں نہیں ہوتیں ان کا ناطقہ بند کر دیا جاتا ہے۔ اپوزیشن کے زیر اقتدار ریاستوں کی فنڈنگ روک دی گئی ہے۔
جمہوریت کا تیسرا ستون ہے عدلیہ
عدلیہ عوام کی امیدوں کا آخری مرکز ہوتی ہے۔ عدلیہ سے عوام جب بے زار ہو جاتے ہیں تو پھر انارکی ہی آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام میں ابھی مایوسی اور نا امیدی کی وہ سطحیں نہیں آئی ہیں جہاں سے انارکی کی شروعات ہوتی ہے۔مگر مختلف سروے بتاتے ہیں کہ عوام کے اعتماد اور یقین میں کمی آتی جا رہی ہے اور اگر اس پر کام نہیں کیا گیا تو خطرہ ہے کہ اس میں مزید اضافہ ہی ہوگا۔ عدالتوں کا بنیادی کام انصاف کی فراہمی ہے۔ چنانچہ ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے۔ اس کی ذمہ داری قانون کی تشریح اور آئین کے بنیادی ڈھانچوں کی حفاظت ہے۔ سپریم کورٹ کے پاس اتنے اختیارات ہیں کہ وہ ایسے آئینی ترمیم کو مسترد کردے جو آئین کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوں۔ لیکن حالیہ برسوں میں عدلیہ، مقننہ اور ایگزیکٹو کے کئی غیر آئینی اقدامات سے مؤثر انداز میں نمٹنے میں ناکامی ثابت ہوئی ہے۔ کئی ایسے آئینی ترمیم ہیں جنہیں عدالت میں چیلنج کیا گیا ہے مگر عدالتیں اس کی فوری سماعت نہیں کر رہی ہیں۔ شہریت ترمیمی ایکٹ، ایف سی آر کی دفعات میں ترمیم اور مختلف ریاستوں کے ذریعہ تبدیلی مذہب کے خلاف جو قوانین بنائے گئے ہیں وہ آئین کے ذریعہ فراہم کی گئی مذہبی آزادی کو روندنے والے ہیں مگر عدالتیں اس کی سماعت کرنے میں تساہل سے کام لے رہی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان ترامیم سے متاثر ہونے والے افراد سالوں سے انصاف سے محروم ہیں۔
حالیہ برسوں میں سپریم کورٹ نے کئی ایسے مقدمات جن کی آئینی حیثیت تھی، جس سے فرد کی آزادی کا سوال وابستہ تھا، انہیں اس طرح سے نمٹایا ہے گویا کہ وہ اپنے اختیارات سے دستبردار ہو رہی ہے اور ایگزیکٹیو کے سیاسی بیانیہ کے سامنے سر تسلیم خم کر لیا ہے۔ بابری مسجد کی ملکیت پر سپریم کورٹ کا فیصلہ اس کی سب سے واضح مثال ہے۔سبری مالا کیس، ہادیہ جس نے اسلام قبول کرلیا تھا، کورونا کے دوران حکومت کی جواب دہی سے متعلق مقدمات اور پیگاسس اسنوپنگ کیس سے نمٹنے میں عدالت نے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا اور دھرم سنسد جس نے ملک کے مسلمانوں کے خلاف نسل کشی کی اپیل کر کے آئین اور قانون کا مذاق اڑایا، اس معاملے میں بھی عدالت نے جواب دہی طے کرنے میں قیل و قال سے کام لیا۔ یہ وہ چند مثالیں ہیں جس سے یہ پیغام جاتا ہے کہ عدلیہ نے موجودہ حکومت کو ایک نو فاشسٹ، آمرانہ ہندو راشٹر کے مقصد کی طرف ڈھٹائی کے ساتھ آگے بڑھنے کی اجازت دے دی ہے۔
آخر جمہوریت ناکام کیوں ہو رہی ہے؟
مذکورہ بالا سطور میں جمہوریت کے تین اہم ستون مقننہ، عاملہ اور عدلیہ کے حالات کی جو عکاسی کی گئی ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ اس وقت ملک میں جمہوریت اپنی روح سے محروم ہوتی جا رہی ہے۔ سیاسی جمہوریت ہے، اقتدار کا تبادلہ ہو رہا ہے مگر جمہوریت اپنی جامع تعریف کے ساتھ ملک میں نافذ نہیں ہے۔ سماجی انصاف، سیکولرازم کی جگہ ہندو راشٹر اور اشرافیہ کا دبدبہ قائم ہوتا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جمہوریت آخر ناکام کیوں ہو رہی ہے؟ ماہر سیاست یوگیندر یادو کہتے ہیں کہ جمہوریت کی ناکامی کی ایک وجہ یہ ہے کہ سیکولر لبرلز نے قوم پرستی، تہذیبی فخر اور مذہب کو ایسے لوگوں کے حوالے کر دیا ہے جو ان کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔ہماری قومی تحریک نے ہمارے ماضی سے بہترین چیزیں اٹھائیں اور جو قابل قبول نہیں تھا اسے ترک کر دیا۔ ہماری لبرل، تعلیم یافتہ، جدید اشرافیہ نے ماضی سے منہ موڑ لیا ہے اور صرف اپنے مفادات اور حقوق کی حفاظت کی طرف توجہ دے رہے ہیں۔ یوگیندر یادو کہتے ہیں کہ جمہوریت کی ناکامی کے لیے صرف دائیں بازو کے افراد ذمہ دار نہیں ہیں۔ آر ایس ایس اور ہندتوا کے حامیوں کو قصوروار ٹھیرانا آسان ہے مگر وہ لوگ جو آئین اور جمہوریت کے علم بردار ہیں انہوں نے کیا کیا ہے؟ انہوں نے بھی اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے آئین کی روح کو پامال ہی کیا ہے۔ چنانچہ 6 دسمبر 1992 کو جب ہندوؤں کے ایک ہجوم نے دن کے اجالے میں آئین اور قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے بابری مسجد کو شہید کر دیا تھا اور 2019 نومبر جب بابری مسجد کی ملکیت کا فیصلہ سنایا گیا تھا۔ اس طویل عرصے میں زیادہ تر تو سیکولرزم کے دعویداروں کی حکومت رہی ہے، انہوں نے اس غنڈہ گردی کو روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے۔بابری مسجد کی شہادت کے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں وہ کیوں ناکام رہے۔ اگر اس وقت قانون اور آئین کی بالا دستی قائم کر دی جاتی تو آج شاید کسی میں اتنی جرأت نہیں ہوتی کہ وہ ملک کے مساجد کو کھودتے پھریں۔ حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت کی ناکامی کے لیے صرف ایک گروہ ذمہ دار نہیں ہے بلکہ ہر ایک نے اس میں حصہ ادا کیا ہے۔ یہ بھی واضح ہے کہ جمہوریت کی ناکامی سے صرف ملک کے مسلمان اور کم زور طبقات ہی متاثر نہیں ہوں گے بلکہ وہ لوگ بھی متاثر ہوں گے جو آج جمہوریت کو ختم کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں ملک کو قیمت بھی چکانی پڑے گی جس کی طرف امبیڈکر نے اشارہ کیا ہے۔
ملک کے موجودہ حالات نے ایک بار پھر جمہوریت کی از سر نو بازیافت کی ضرورت کو اجاگر کر دیا ہے۔ جسے آج جمہوریت سمجھا جا رہا ہے وہ جمہوریت نہیں ہے بلکہ جمہوریت کا محض ایک پہلو ہے۔ جمہوریت کے لیے ضروری ہے کہ آئین صرف کاغذوں تک محدود نہ رہے بلکہ عملی طور پر بھی متحرک رہے۔ غربت، عدم مساوات اور سماجی نا انصافی جیسے عوامل یہ اشارہ کر رہے ہیں کہ اس وقت جمہوریت بحران کا شکار ہے۔ یہ بحران فکر و اظہار کی آزادی، باوقار زندگی اور سماجی تحفظ کے حق کے مکمل طور پر دبانے سے پیدا ہوا ہے۔ آبادی کے ایک بڑے حصے میں ایک مضبوط اکثریتی رجحان پیدا ہو رہا ہے جس کی عکاسی بڑھتے ہوئے فرقہ وارانہ اور ذات پات کے رجحانات، کھانے کی مخصوص عادات، عبادت کی جگہوں پر حملے، دلتوں کے خلاف بڑھتی ہوئی امتیازی کارروائیوں سے ہوتی ہے۔ بی جے پی اور ہندتوا کے حاملین اس وقت جو اپنا گھناؤنا کردار پیش کر رہے ہیں وہ صرف ریاست کو ’تھیوکریٹک‘ اور اکثریتی مذہب کو ’سیاسی‘ نہیں بنا رہا ہے بلکہ یہ ایک ایسی قوم میں غیر جہتی ثقافت پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو مختلف تہذیبوں و ثقافتوں اور شناخت کی حامل ہے۔ ہندتوا کی کوششوں کی سیاسی نوعیت ہمارے کثیر جہتی تخیل کو ختم کرنا ہے۔ ایک قوم، ایک بازار، ایک رنگ، ایک زبان، ایک انتخاب اور یقیناً ایک سرکاری مذہب کے نام پر اکثریتی مذہب جس میں کبھی بھی قوانین کا ایک مجموعہ نہیں رہا ہے، تابع بنانا مقصود ہے۔ظاہر ہے کہ اس مہم کو ناکامی کا سامنا کرنا ہی پڑے گا۔ یہی وجہ ہے کہ دستور ساز اسمبلی میں یہ سمجھنے کی حکمت اور صلاحیت تھی کہ یہ برصغیر جسے بھارت کہا جاتا ہے، اسی وقت زندہ رہے گا جب اس کے تمام شہریوں کا یکساں احترام ہو۔ یہ اس کے اصولوں میں رواداری کا عزم شامل ہو جو متعصبانہ مذہبی اظہار اور عدم تحفظ کے چیلنج پر قابو پانے میں مدد کرتا ہے۔ یہ مذہبی اختلافات اور وسیع اور پیچیدہ تاریخ، فن تعمیر اور ثقافت کو شامل کرنے اور قبول کرنے کے قابل بناتا ہے جو ہندوستان کو دنیا میں منفرد بناتا ہے۔ اس سے ہندوستان کو تیزی سے سکڑتی ہوئی عالمی معیشت اور ثقافت میں ایک بے بس ذرہ بننے کی بجائے حقیقی معنوں میں ’ایک خاندان ایک دنیا‘ کے طور پر سارے عالم میں اپنی جگہ برقرار رکھنے میں بھی مدد ملے گی۔
گزشتہ ۷۶ سالوں سے اگر ہمیں کوئی سبق ملتا ہے تو وہ یہ ہے کہ لوگ آسانی سے آئین کو اس کے خط اور روح دونوں میں نظر انداز نہیں ہونے دیں گے۔ تاہم ایسی صورت میں سیاسی حزب اختلاف اور سِول سوسائٹی دونوں کے لیے یہ انتہائی ضروری ہے کہ وہ مستقل جدوجہد کریں جو مساوات، آزادی، بھائی چارے، جمہوریت، سیکولرازم اور وفاقیت کے حوالے سے آئین کی اصل روح کو پیش نظر رکھے۔ آئین کی روح کو برقرار رکھنا عوام کے ہاتھ میں ہے کیونکہ عوام نے ہی اس کو تیار کیا ہے۔
***

 

***

 گزشتہ ۷۶ سالوں سے اگر ہمیں کوئی سبق ملتا ہے تو وہ یہ ہے کہ لوگ آسانی سے آئین کو اس کے خط اور روح دونوں میں نظر انداز نہیں ہونے دیں گے۔ تاہم ایسی صورت میں سیاسی حزب اختلاف اور سِول سوسائٹی دونوں کے لیے یہ انتہائی ضروری ہے کہ وہ مستقل جدوجہد کریں جو مساوات، آزادی، بھائی چارے، جمہوریت، سیکولرازم اور وفاقیت کے حوالے سے آئین کی اصل روح کو پیش نظر رکھے۔ آئین کی روح کو برقرار رکھنا عوام کے ہاتھ میں ہےکیونکہ عوام نے ہی اس کو تیار کیا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 19 جنوری تا 25 جنوری 2024