
دستور ساز اسمبلی میں اقلیتی تعلیمی حقوق پر بحث
مذہبی آزادی بمقابلہ ریاستی کنٹرول: دفعہ 26اور 28کی تشکیل
ڈاکٹر محمد اقبال صدیقی
مذہبی آزادی کو غیر ضروری ریاستی مداخلت سے بچانا جمہوری اقدار کے بقا کی جنگ!
ہندوستانی دستور کی تشکیل محض ایک قانونی عمل نہیں تھا بلکہ یہ ایک فکری، سماجی اور سیاسی جدوجہد تھی، جس میں بنیادی حقوق، مذہبی آزادی اور ریاستی اختیارات کے درمیان نازک توازن قائم کرنا ایک بڑا چیلنج تھا۔
ان مباحث میں سب سے زیادہ توجہ مذہبی اور اقلیتی تعلیمی اداروں کے حقوق پر مرکوز رہی۔ اصل سوال یہ تھا کہ کیا مذہبی گروہوں کو اپنے ادارے چلانے کی مکمل آزادی ہونی چاہیے یا ریاست کو ان پر کسی حد تک اختیار حاصل ہونا چاہیے؟ کیا حکومت کو مذہبی تعلیم کے نصاب میں مداخلت کرنی چاہیے یا اسے مکمل طور پر مذاہب کے ذمہ داروں کے سپرد کر دینا چاہیے؟
یہ محض نظریاتی بحثیں نہیں تھیں بلکہ ہندوستان کی سیکولر شناخت اور اس کے جمہوری تشخص کی بنیاد رکھنے والے سنگ ہائے میل تھے۔ یہی وہ نکات تھے جنہوں نے یہ طے کیا کہ ملک کا مستقبل کس رخ پر گامزن ہوگا—ایک ایسا مستقبل جہاں تنوع کو جگہ ملے، اختلافات کا احترام کیا جائے اور سب کو برابری کے مواقع فراہم ہوں۔
ان مباحث سے دو اہم دفعات سامنے آئیں:
دفعہ 26 جو مذہبی گروہوں کو اپنے ادارے قائم کرنے اور چلانے کا حق دیتی ہے۔
دفعہ 28 جو تعلیمی اداروں میں مذہبی تعلیم کے اصولوں کو وضع کرتی ہے۔
یہ دفعات دستور ساز اسمبلی میں شدید بحث و مباحث کے بعد طے ہوئیں، جہاں اراکین ایک ایسا ہندوستان بنانے کی کوشش کر رہے تھے جو سیکیولر بھی ہو اور مذہبی آزادی کا تحفظ بھی کرے۔ آج بھی مذہبی آزادی اور ریاستی مداخلت کے درمیان کشمکش ہندوستان میں سیکیولرزم اور اقلیتی حقوق پر بحث کا ایک اہم موضوع ہے۔
تاریخی پس منظر: یہ مباحث کیوں اہم تھے؟
ہندوستان میں مختلف مذاہب اور ثقافتیں موجود ہیں، اس لیے تعلیمی اور ادارتی انتظام میں مذہبی اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ ضروری تھا۔ برطانوی دورِ حکومت میں کئی مذہبی اور لسانی برادریوں نے اپنی ثقافتی شناخت کے تحفظ کے لیے مخصوص تعلیمی ادارے قائم کیے۔ لیکن آزادی کے بعد خدشہ تھا کہ آیا یہ ادارے اپنی خود مختاری برقرار رکھ سکیں گے یا ریاستی کنٹرول میں آ جائیں گے۔
دستور سازوں کے لیے ایک بڑا چیلنج یہ تھا کہ:
مذہبی برادریوں کو اپنے معاملات چلانے کا حق دیا جائے، ایسا نظام بنایا جائے کہ کوئی بھی طبقہ دوسرے پر حاوی نہ ہو،
سیکیولرزم کی ایک ایسی تعریف متعین کی جائے جو مذہبی شناخت کو بر قرار رکھتے ہوئے ریاست کی غیر جانبداری کو یقینی بنائے۔
دفعہ 26 پر بحث: مذہبی گروہوں کے حقوق
ڈرافٹ دفعہ 20، جو بعد میں دفعہ 26 بنا، مذہبی خودمختاری سے متعلق گفتگو کا مرکز تھا۔ اس میں درج تھا:
"ہر مذہبی گروہ یا اس کا کوئی بھی ذیلی طبقہ درج ذیل حقوق رکھتا ہے—
مذہبی اور فلاحی مقاصد کے لیے ادارے قائم کرنے اور انہیں چلانے کا حق، اپنے مذہبی معاملات کو آزادانہ طور پر منظم کرنے کا حق، منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد رکھنے اور حاصل کرنے کا حق اور اپنی جائیداد کو قانون کے مطابق چلانے کا حق۔”
یہ دفعہ مذہبی اداروں کی خود مختاری کو یقینی بنانے کے لیے تھی، مگر اس پر شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا کہ اگر ریاستی کنٹرول نہ ہو تو مذہبی ادارے بے قابو ہو سکتے ہیں۔
اہم نکات پر بحث
ڈاکٹر بی آر امبیڈکر، جو ہندوستانی دستور کے معماروں میں سے ایک تھے، نے کہا کہ مذہبی اداروں کے حقوق کو "عوامی نظم، اخلاقیات اور صحت” سے مشروط ہونا چاہیے تاکہ یہ ادارے قومی مفاد سے باہر نہ نکلیں۔
نظیرالدین احمد جیسے کچھ اراکین نے کہا کہ ریاست کو یہ اختیار ہونا چاہیے کہ وہ عوامی نظم و اخلاقیات کے تحفظ کے لیے قوانین بنا سکے۔
لوکناتھ مشرا نے موقف اختیار کیا تھا کہ مذہبی گروہوں کو ادارے قائم کرنے اور انہیں چلانے کی مکمل آزادی ہونی چاہیے، بشرطیکہ وہ عوامی اخلاقیات کی خلاف ورزی نہ کریں۔
سید عبدالرؤوف نے تجویز دی کہ "تعلیمی مقاصد” کو بھی اداروں کے حقوق میں شامل کیا جائے، لیکن اسمبلی نے فیصلہ کیا کہ اقلیتوں کے تعلیمی حقوق کو علیحدہ سے شامل کیا جائے گا۔
نتیجہ: دستور ساز اسمبلی نے امبیڈکر کی ترمیم کے ساتھ دفعہ 26 کو منظور کیا، جس کے مطابق مذہبی ادارے خود مختار ہوں گے، لیکن ان پر معقول ریاستی نگرانی بھی ہوگی تاکہ وہ قومی مفاد کے خلاف کام نہ کریں۔
یہ مباحث آج بھی ہندوستان میں مذہبی آزادی، اقلیتی حقوق اور ریاستی کنٹرول کے حوالے سے جاری ہیں۔ دستور سازوں نے ایک ایسا توازن قائم کرنے کی کوشش کی تھی جس سے نہ تو مذہبی برادریوں کے حقوق پامال ہوں، نہ ہی ریاست کو بے لگام مذہبی کنٹرول کی اجازت دی جائے۔ مگر موجودہ حالات میں یہ توازن خطرے میں پڑتا نظر آ رہا ہے، اس پر سنجیدہ بحث درکار ہے۔
دفعہ 28 پر بحث: تعلیمی اداروں میں مذہبی تعلیم
ڈرافٹ دفعہ 22، جو بعد میں دفعہ 28 بنا، اسکولوں میں مذہبی تعلیم کے متنازع مسئلے سے متعلق تھا۔ اصل مسودے میں درج تھا:
ریاست کے مکمل مالی تعاون سے چلنے والے کسی بھی تعلیمی ادارے میں مذہبی تعلیم فراہم نہیں کی جائے گی۔ کسی بھی شخص کو، جو کسی سرکاری طور پر تسلیم شدہ یا سرکاری امداد یافتہ تعلیمی ادارے میں زیر تعلیم ہو، بغیر اس کی مرضی کے مذہبی تعلیم یا عبادت میں شرکت کے لیے مجبور نہیں کیا جائے گا۔
اس دفعہ میں کوئی شق کسی بھی کمیونٹی کو اسکول کے اوقاتِ کار کے بعد مذہبی تعلیم فراہم کرنے سے نہیں روکے گی۔
گرما گرم بحث
اس شق پر دستور ساز اسمبلی میں شدید بحث ہوئی۔ محمد اسماعیل صاحب نے مؤقف اختیار کیا کہ ریاستی فنڈ سے چلنے والے اسکولوں میں مذہبی تعلیم کو مکمل طور پر ممنوع قرار نہیں دیا جانا چاہیے کیونکہ اخلاقی تربیت کے لیے مذہبی تعلیم ضروری ہے۔ انہوں نے یورپ کے کئی سیکیولر ممالک کی مثال دی جہاں مذہبی تعلیم کو اختیاری بنیادوں پر اجازت دی گئی ہے۔
تاہم، شبّن لال سکسینہ اور کے ٹی شاہ نے خبر دار کیا کہ عوامی فنڈ سے چلنے والے اداروں میں کسی بھی شکل میں مذہبی تعلیم کی اجازت دینے سے سماجی تقسیم پیدا ہو سکتی ہے۔ کے ٹی شاہ نے تجویز دی کہ دفعہ میں "یا جزوی طور پر” (or partly) کے الفاظ شامل کیے جائیں، تاکہ جزوی طور پر بھی سرکاری امداد حاصل کرنے والے اداروں میں مذہبی تعلیم نہ دی جائے۔ لیکن یہ ترمیم مسترد کر دی گئی، جس کی وجہ سے امداد یافتہ تعلیمی اداروں کے لیے مخصوص شرائط کے تحت مذہبی تعلیم دینے کی گنجائش باقی رہی۔
ڈاکٹر بی آر امبیڈکر نے ایک وضاحتی ترمیم پیش کی، جس میں "ریاست کے ذریعے” (By the State) کے الفاظ نکال دیے گئے تاکہ یہ واضح ہو جائے کہ کوئی بھی ادارہ، جو مکمل طور پر ریاستی فنڈز سے چلتا ہو، چاہے وہ سرکاری ہو یا نجی، وہ مذہبی تعلیم نہیں دے سکتا۔
نتیجہ: دستور ساز اسمبلی نے دفعہ 28 کو اس شکل میں منظور کیا کہ ریاستی فنڈز سے چلنے والے اداروں میں مذہب اور حکومت کے درمیان سخت علیحدگی برقرار رہے، لیکن نجی تعلیمی اداروں کو کچھ شرائط کے تحت مذہبی تعلیم کی اجازت دی گئی۔
مذہب اور قانون میں توازن: دستور ساز اسمبلی کی تعلیمات
ہندوستان کا سیکیولرزم لچک دار ہے: مغربی ممالک میں سیکولرزم کا مطلب مذہب اور ریاست کی مکمل علیحدگی ہے، لیکن ہندوستان نے سیکیولرزم کا ایک ایسا ماڈل اپنایا ہے جو مذہبی اداروں کو خود مختاری دیتا ہے، تاہم انہیں معقول ضابطوں کے دائرے میں رکھتا ہے۔
خود مختاری اور ریاستی نگرانی میں توازن: اقلیتی برادریوں کو اپنے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور چلانے کا حق حاصل ہے، لیکن ریاست کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ ان اداروں کو قانونی اور اخلاقی اصولوں کے اندر رکھنے کو یقینی بنائے۔
امبیڈکر کی حکمتِ عملی: انہوں نے مذہبی آزادی کے تحفظ کی ضرورت کو تسلیم کیا، لیکن اس بات کو بھی یقینی بنایا کہ مذہبی ادارے ریاستی نگرانی سے باہر ایک آزاد طاقت کے مراکز نہ بن جائیں۔
اقلیتوں کی تعلیمی خود مختاری کا دفاع
مذہبی اور لسانی اقلیتوں کو اپنے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور انہیں چلانے کا حق کسی مراعات (Privilege) کے تحت نہیں، بلکہ ایک جمہوری ضرورت کے طور پر دیا گیا ہے۔ دفعہ 30 اقلیتوں کو یہ واضح حق دیتی ہے کہ وہ اپنے ادارے بغیر کسی غیر ضروری مداخلت کے چلا سکیں۔ لیکن ضرورت سے زیادہ حکومتی ضابطے (Regulations) کے ذریعے ان حقوق کو محدود کرنے کی کوششیں، ہندوستان کو سیکیولر ملک بنانے کے عزم کو کمزور کر سکتی ہیں۔
اقلیتی تعلیمی ادارے نہ صرف ثقافتی شناخت کے تحفظ کا ذریعہ ہیں، بلکہ تعلیمی ترقی کے مراکز بھی ہیں۔ انہیں اپنی منفرد تہذیب و ثقافت کی عکاسی کرنے والے نصاب مرتب کرنے کی آزادی ہونی چاہیے، جبکہ وہ قومی تعلیمی معیار پر بھی پورا اتریں۔ ریاست کا کردار ایک معاون (Facilitator) کا ہونا چاہیے، نہ کہ کنٹرولر کا، تاکہ ان اداروں پر غیر ضروری پابندیاں عائد نہ کی جا سکیں۔
کسی بھی ایسی کوشش کی مزاحمت ضروری ہے، جو ضابطے کے نام پر اقلیتی اداروں کی خود مختاری کو محدود کرے۔ ایک حقیقی جامع جمہوریت میں تمام برادریوں—چاہے وہ اکثریتی ہوں یا اقلیتی—کو اس حق کی ضمانت ہونی چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو ایک ایسے تعلیمی ماحول میں تعلیم دیں جو ان کی مذہبی و ثقافتی اقدار کا احترام کرتا ہو اور ساتھ ہی آئینی اصولوں سے بھی ہم آہنگ ہو۔ ہندوستانی ریاست کو اس حق کے تحفظ کے لیے پوری سنجیدگی کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔
مذہبی آزادی کو در پیش خطرات
دفعہ 26 اور 28 کی شمولیت محض ایک قانونی کارروائی نہ تھی، بلکہ یہ ایک دانشمندانہ کوشش تھی کہ مذہبی آزادی اور ایک جدید جمہوری ریاست کے تقاضوں میں ہم آہنگی پیدا کی جائے۔ دستور ساز اسمبلی، اگرچہ سیکولر طرزِ حکم رانی کی حامی تھی، مگر اس نے یہ بھی محسوس کیا کہ ہندوستان جیسے کثیر المذاہب ملک میں مذہبی اکثریت پسندی (Majoritarianism) اور ریاست کے غیر ضروری کنٹرول دونوں سے تحفظ فراہم کیا
جانا ضروری ہے۔ مقصد یہ نہ تھا کہ مذہب کو عوامی زندگی سے نکال دیا جائے، بلکہ یہ کہ اسے آئینی اصولوں کے دائرے میں رکھا جائے۔
مگر آج یہ توازن بگڑتا نظر آ رہا ہے۔ اقلیتی تعلیمی اداروں میں ریاست کی بڑھتی ہوئی مداخلت، مذہبی تعلیم کو جبری تبدیلیٔ مذہب (Forced Conversion) کے الزامات سے جوڑنے کا رجحان اور مذہب سے وابستہ فلاحی اداروں کی سیاست کاری، آئینی نقطہ نظر سے ایک واضح انحراف ہے۔ وقف (ترمیمی) بل 2024 جیسے اقدامات، مدارس اور اقلیتی تعلیمی اداروں پر سخت نگرانی، اور تعلیمی اداروں کی خود مختاری کو محدود کرنے کی کوششیں درحقیقت ہندوستان کے آئینی اصولوں کے منافی ہیں۔
یہ سب ایک خاص ایجنڈے کے تحت منصوبہ بند طریقے سے کیا رہا ہے۔ ریاست کا کنٹرول بتدریج بڑھ رہا ہے، کبھی قومی سلامتی کے نام پر اور کبھی سماجی اصلاح کے بہانے، اور اس کا نتیجہ ان اداروں پر غیر متوازن اور سخت پابندیاں لگانے کی شکل میں ظاہر ہو رہا ہے جو دستور کی رو سے خود مختار ہیں۔ مدارس کو ’دہشت گردی کے مراکز‘ کے طور پر پیش کرنا، مذہبی تنظیموں پر غیر ملکی فنڈنگ پر روک، اور عقیدے پر مبنی تعلیمی اداروں پر مزید قانونی بوجھ ڈالنا اس بات کی علامت ہے کہ آئینی بنیادوں کو کمزور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، جو ہمارے دستور سازوں کی اصل منشا کے بر عکس ہے۔
یہ محض مذہبی اداروں کی خود مختاری کا معاملہ نہیں بلکہ ہندوستان کے سیکولر نظام کے مستقبل کا سوال بھی ہے۔ دستور ساز اسمبلی نے ان پیچیدگیوں کو سمجھتے ہوئے ایسا آئینی ڈھانچہ تشکیل دیا تھا جو مذہبی تنوع کو تسلیم کرتا ہے اور ساتھ ہی ریاستی مداخلت کی حدود بھی متعین کرتا ہے۔ مگر آج کے حالات اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ یہ حفاظتی دیواریں کمزور ہو رہی ہیں اور ریاست ایک معتدل نگراں (Regulatory) کے بجائے ایک نظریاتی کنٹرول (Ideological Control) کے راستے پر گامزن ہے۔
آئینی توازن کی حفاظت
اس توازن کو برقرار رکھنے کے لیے سِول سوسائٹی، قانونی ماہرین اور سماجی تنظیموں کی مسلسل کوششیں ناگزیر ہیں۔ دفعہ 26 اور 28 کے ذریعے دی گئی آئینی ضمانتوں کو محفوظ رکھنے کے لیے قانونی جدوجہد، پالیسی پر مباحث اور عوامی شعور کی بیداری ضروری ہے۔
ایسے قوانین اور انتظامی فیصلوں کو چیلنج کیا جانا چاہیے جو مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بناتے ہیں۔
سیکیولر جمہوریت میں مذہب کی حیثیت پر کھلی بحث کو فروغ دینا ہوگا، تاکہ ریاست اور مذہب کے درمیان توازن قائم رہے۔
بین المذاہب ہم آہنگی اور ادارہ جاتی مزاحمت (Institutional Resistance) کو مضبوط کرنا ہوگا، تاکہ ریاستی تسلط کو روکا جا سکے اور ہندوستان کی کثیر الثقافتی شناخت محفوظ رہے۔
یہ لمحہ ہندوستان کے آئینی استحکام (Constitutional Integrity) کے امتحان کا ہے۔ مذہبی آزادی کو ریاست کی غیر ضروری مداخلت سے بچانا صرف اقلیتوں کے حقوق کا دفاع نہیں، بلکہ یہ جمہوری اقدار کی بقا کی جنگ بھی ہے۔ دستور سازوں نے جو توازن قائم کیا تھا، اسے ریاست کے غیر ضروری تسلط (State Hegemony) کی بھینٹ چڑھنے نہیں دینا چاہیے، کیونکہ اس کا اثر صرف اقلیتوں پر نہیں بلکہ بنیادی انسانی حقوق پر بھی پڑے گا۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 13 اپریل تا 19 اپریل 2025