دس سال بعد کشمیر میں انتخابات

سیکولر ووٹوں کی تقسیم کا کھیل شروع ہوچکا ہے۔عوام میں سیاسی بصیرت ضروری

احمد ربی، کشمیر

جموں و کشمیر میں مثبت تبدیلی کے لئےمخلص امیدواروں کی جدوجہدبھی جاری
دس سال بعد دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والے ملک نے وادی کشمیر میں انتخابات کا بگل بجا دیا ہے۔جمہوریت میں جمہوری عمل کو ایک دہائی تک بجبر و اکراہ روکے رکھنا، مزعومہ جمہوریت پر سوال قائم کرتا ہے۔ وادی میں بعض پارٹیاں پوری دہائی سے الیکشن کی بھیک مانگ رہی تھیں اور دفعہ ٣٧٠ اور ریاستی درجہ کی بحالی پر زور دے رہی تھیں۔ کبھی ڈرا دھمکا کے تو کبھی ناراضگی کا مظاہرہ کرکے، لیکن ارباب حل و عقد کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ بہرکیف الیکشن کرانے پر آمادگی کا اظہار کیا گیا۔
الیکش کا اعلان ہوتے ہی بعض پارٹیاں جوش و خروش سے اپنے بِلوں سے نکل کر وادی کے یمین و یسار میں خوشیاں منا رہی ہیں۔ ابھی جبکہ یہ سطور رقم ہو رہے ہیں کشمیر میں الیکشن کے تئیں شاید پہلی دفعہ ایک تیوہار کا سا سماں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ صبح سے رات گئے تک پارٹیاں شاہراہوں، پگڈنڈیوں، بازاروں، گلی کوچوں، شہروں اور دیہاتوں میں چکر لگا رہی ہیں۔ مسابقت، رسہ کشی اور اخلاقی و غیر اخلاقی نعروں کی بھرمار ہے۔
پہلے مرحلے کے لیے 18 ستمبر 2024 کو جموں و کشمیر کے 24 اسمبلی حلقوں میں ووٹ ڈالے گئے۔ ان 24 انتخابی حلقوں میں 219 امیدواروں کے درمیان مقابلہ رہا۔ پہلے مرحلے میں میڈیا رپورٹس کے مطابق تقریباً 59 فیصد ٹرن آؤٹ درج کیا گیا جوکہ گزشتہ سات انتخابات میں سب سے زیادہ ہے۔ گزشتہ پارلیمنٹ الیکشن میں بھی لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے ووٹ ڈالے تھے اور اسمبلی کے پہلے مرحلے پر بھی شرح اچھی رہی۔ کشمیر میں 2019 سے قبل عمومی طور پر بائیکاٹ دیکھنے کو ملتا تھا۔ عوام کی اکثریت ووٹنگ کے عمل سے دور رہتی تھی لیکن گزشتہ پارلیمانی الیکشن سے رجحان تبدیل ہوچکا ہے۔ جموں و کشمیر کے سابق وزیر حسیب درابو نے انگریزی روزنامہ "گریٹر کشمیر” کے ایک کالم میں لکھا: ’اب ووٹ احتجاج کا ایک آلہ بن چکا ہے۔ اب ووٹ نیا پتھر ہے۔ یہ مثبت تبدیلی ہے کہ پتھر پھینکنے والے، جنہیں حکومت کی طرف سے احتجاجی دہشت گرد کہا جاتا تھا وہ جمہوریت کی ڈومین میں لوٹ رہے ہیں‘
وجہ صاف ہے کہ دفعہ 370 کی منسوخی سے قبل کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو ذہن میں رکھ کر عوام الیکشن میں حصہ نہیں لیتے تھے اور منسوخی کے بعد اب مرکز کے تئیں عدم اعتماد اور غصہ کی علامت کے طور پر ووٹنگ میں حصہ لیا جا رہا ہے تاکہ مرکز کی بے جا مداخلت وادی میں ختم ہو اور لوکل حکم راں مسندِ اقتدار سنبھال کر عوام کے زخموں پر قدرے مرہم لگا سکیں۔
اس بار جموں کے ساتھ ساتھ کشمیر میں بھی بڑے پیمانے پر الیکشن ریلیاں منعقد ہو رہی ہیں، اس دوران تہاڑ جیل میں نظر بند انجینئر رشید کو بھی رہا کیا گیا ہے۔ جب سے وہ کشمیر لوٹے ہیں الیکشن ریلیوں میں نوجوانوں کی بھاری اکثریت میں جوش و خروش سے دیکھا جارہا ہے۔ انجینئر رشید کی ریلیوں میں تو ایسے بھی نعرے لگ رہے ہیں جن پر کشمیری نوجوانوں کو پہلے گرفتار کیا جاتا تھا۔
جماعت اسلامی جموں و کشمیر پر مرکزی حکومت نے پانچ سال قبل پابندی لگائی ہے جس کو چند ماہ قبل مزید پانچ سال کے لیے بڑھایا گیا لیکن الیکشن سے پہلے جماعت اسلامی کے رہنماؤں کی طرف سے بیان آیا کہ اگر ہم پر سے پابندی اٹھالی جائے گی تو ہم الیکشن میں بھر پور حصہ لیں گے لیکن جب پابندی برقرار رکھی گئی تو جماعت اسلامی کے نو حمایت یافتہ امیدواروں نے فارم بھرا، جنوبی کشمیر میں ان کی الیکشن ریلیوں میں کافی لوگوں نے شرکت کی۔ اس بار جماعت اسلامی نے وادی میں نو امیدوار کھڑے کیے ہیں اور انجینیر رشید اور جماعت نے انتخابی گٹھ جوڑ کر رکھا ہے۔ اس طرح انجینیئر رشید اور جماعت اسلامی کشمیر کی روایتی سیاسی جماعتوں کو 47 میں سے 40 سیٹوں پر چیلنج کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر طلعت مجید (جو کہ جماعت اسلامی کی حمایت سے اس بار الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں) نے کہا کہ سال 2014 کے انتخابات کے بعد کی صورتحال 2019میں ہند و پاک سیاست میں تبدیلیاں اور اور جموں و کشمیر میں پیدا ہونے والے مسائل نے انہیں اس بات پر مجبور کیا کہ انہیں اور جماعت اسلامی اور اس کے ارکان کو جمہوری عمل میں شرکت کرکے عوام کو درپیش مسائل کے حل کے لیے آگے آنا چاہیے۔ ان کے بقول جماعت کبھی بھی انتخابات کے خلاف نہیں تھی لیکن 1987 کے انتخابات میں ایک علاقائی جماعت کی جانب سے دھاندلی کے بعد اس عمل سے ہی بھروسا اٹھ گیا اور جماعت نے دوری اختیار کرلی۔ ان کے بقول اب انتخابات شفاف اور منصفانہ ہو رہے ہیں اس لیے انہوں نے جماعت اسلامی کی حمایت سے اس میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ اپنے لوگوں کے مسائل حل کر سکیں۔
دوسری طرف بی جے پی کی کوشش ہے کہ کسی طرح جموں و کشمیر میں اقتدار حاصل کیا جائے۔ اس سلسلے میں ان کی کوشش ہے کہ جموں میں 35 سیٹوں پر جیت یقینی بنائی جائے اور کشمیر سے چھوٹی چھوٹی تنظیموں اور آزاد امیدواروں سے دس سیٹوں پر حمایت مل جائے، بی جے پی نے اس سلسلے میں کشمیر کے ہر انتخابی حلقہ سے بکثرت امیدواروں کو کھڑا کیا ہے۔ واضح رہے کہ اس سے کشمیر کی روایتی تنظیموں کے ووٹ تقسیم ہو سکتے ہیں۔
چونکہ جموں و کشمیر پورے ملک میں واحد خطہ ہے جہاں پہلے ہی انتخابی حلقوں کی نئی حدبندی مکمل کی جا چکی ہے، نتیجتاً علاقہ چناب میں اس کا فائدہ بی جے پی کو ہو سکتا ہے۔
کالم نویس مبشر نائیک کے مطابق وادی چناب کی چھ سیٹوں میں جن دو سیٹوں ڈوڈہ ویسٹ اور پاڈرناگ سینی حلقوں کا اضافہ کیا گیا ہے، ہندو اکثریتی علاقے ہیں اور حدبندی کی وجہ سے کشتواڑ سے چند حصہ کاٹ کر اسے بھی ہندو اکثریتی اسمبلی حلقہ بنایا گیا۔ بی جے پی نے انتخابی عمل سے قبل ہی چانکیائی سیاست کا کھیل کھیل کر اپنی فیلڈنگ مضبوط کی ہے۔ واضح رہے کہ 2014 میں بی جے پی نے وادی چناب میں چھ میں سے چار سیٹوں پر جیت درج کی تھی۔ ایک تجزیہ نگار لکھتے ہیں "2011 کی مردم شماری کے مطابق جموں و کشمیر میں مسلم آبادی 68۔3 فیصد اور ہندوؤں کی 28۔2 فیصد ہے مگر 2022 کے حد بندی کمیشن نے مسلم اکثریتی خطہ، وادی کشمیر میں جہاں ریاست کی 56۔15 فیصد آبادی رہتی ہے، کے حصہ میں اسمبلی کی 47 نشستیں اور ہندو اکثریتی جموں کی 43۔85 فیصد آبادی کے لیے 43 نشستیں رکھی ہیں۔
ریاست کے سابق وزیر خزانہ حسیب درابو کا کہنا ہے کہ وادی کشمیر کا ایک ووٹر جموں خطے کے 0۔8 ووٹروں کے برابر کر دیا گیا ہے۔ یہ انتخابی عصبیت نہیں ہے تو کیا ہے؟ اس سے بھی مطمئن نہ ہوکر جموں ڈویژن کے ہندو بیلٹ کی سیٹوں کی تعداد 25 سے بڑھا کر 31کر دی گئی، تاکہ ہندو آبادی کی نمائندگی میں مزید اضافہ ہو۔
اس 90 رکنی اسمبلی میں اب 28 فیصد ہندو آبادی کو 34۔44 فیصد نشستیں حاصل ہوجائیں گی۔جموں ڈویژن میں گو کہ ہندو اکثریت میں ہیں، مگر مسلمانوں کی آبادی بھی 34۔21 فیصد ہے۔ غیر منصفانہ حد بندی کے ذریعے اس علاقہ کے مسلم اکثریتی حلقوں کو 12 سے کم کرکے اب 9 کر دیا گیا ہے۔ اسمبلی میں اس خطے کی مسلم نمائندگی 32۔43 فیصد سے کم ہو کر 20۔93 فیصد ہو جائےگی۔ پچھلی اسمبلی میں جموں کی کل 37 سیٹوں میں سے 12 مسلم اکثریتی نشستیں تھیں۔”
کشمیر کے یہ انتخابات اہم ہیں کیونکہ دفعہ 370 ختم ہونے کے بعد یہ پہلے اسمبلی انتخابات ہیں اور مقامی پارٹیاں انتخابات میں کامیابی کو آرٹیکل کی منسوخی کے خلاف ریفرینڈم سمجھتی ہے۔ انہوں نے اپنے manifesto میں دفعہ 370کی بحالی بھی رکھا ہے۔ ایسے میں ضرورت تھی کہ مقامی پارٹیاں ایک ساتھ مل کر انتخاب لڑتیں۔ اگرچہ وادی کی قدیم بڑی پارٹیوں نیشنل کانفرنس اور کانگریس نے اس بار اتحاد کیا ہے البتہ پی ڈی پی اور اے آئی پی کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ اس سے ریاست کے سیکولر ووٹ تقسیم ہوسکتے ہیں، نتیجے میں بی جے پی کو فائدہ ہو سکتا ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ عوام اپنے زخموں کو مندمل کرنے اور ریاست میں گزشتہ دس برسوں سے پائی جانے والی بے چینی، بے اطمینانی اور ڈر کے ماحول کو ختم کرنے کے لیے اپنے ووٹوں کا مناسب استعمال کریں گے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 ستمبر تا 05 اکتوبر 2024