دس اضلاع میں منظم مسلم پسماندگی آشکار: اسپیکٹ فاونڈیشن کی رپورٹ

مسلم اکثریتی اضلاع کے تحقیقاتی جائزے میں تمام سرکاری اسکیمات میں مسلمانوں کے ساتھ امتیاز کی نشاندہی

نئی دلّی :

مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے دعووں کے برعکس بھارت کے مسلمان ترقی کےتمام اشاریوں پر پچھڑے ہوئے ہیں۔ یہ حقیقت بہار، مغربی بنگال، آسام اور اترپردیش کے 10کثیر مسلم آبادی والے اضلاع کی ایک آڈٹ رپورٹ کے ذریعہ دوبارہ سامنے آئی ہے۔ یہ رپورٹ دانشوروں، جہد کاروں اور میڈیا کے نمائندوں کی ایک کہکہشاں کی موجودگی میں گزشتہ دنوں پریس کلب آف انڈیا میں جاری کی گئی۔ یہ رپورٹ ریسرچ اسکالر ساجد علی اور ڈاکٹر بانو جوتسنا کی جانب سے اسپیکٹ فاونڈیشن کی زیر نگرانی تیار کی گئی۔ اس تحقیقاتی رپورٹ کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے سینیر صحافی پرشانت ٹنڈن نے کہا کہ مسلمان بھارت کے سب سے زیادہ زیادتی کے شکار سماجی گروپوں میں سے ایک ہیں اور ان پر کیے جانے والے ظلم کا تعلق حکومت کی ترقیاتی اسکیمات سے منظم طور پر انہیں الگ تھلگ رکھنے سے جڑا ہوا ہے۔ اسی لیے اس طرح کی رپورٹوں کی اہمیت بڑھ جاتی ہے جن کے ذریعہ مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے امتیاز کو ناپا جاسکتا ہے۔ یہ دستاویز سازی تمام فریقین کی توجہ اپنی طرف کھینچتی ہے اور امید ہے کہ اس کے ذریعہ اصلاحی اقدامات کے لیے راہ ہموار ہوگی۔ ریسرچ اسکالر ڈاکٹر بانو جوتسنا نے کہا کہ جب سچر کمیٹی کی رپورٹ میں مسلمانوں کے خلاف امتیازات کو اجاگر کیا گیا تو وہ حاشیے پر دھکیلے جانے والے معاشروں کا جائزہ لینے کا ایک ’’واٹر شیڈ لمحہ ‘‘ تھا۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ ملسمانوں کو تمام کلیدی شعبوں جیسے تعلیم، صحت، تجارت اور روزگار میں منظم طریقے سے تعصب کا سامنا ہے۔ یہ رپورٹ جو رنگناتھ مشرا کمیشن اور امتیابھ کنڈو کمیٹی کی رپورٹ کے بعد سامنے آئی ہے اس میں ایسے 90اضلاع میں جہاں مسلمان 30 فیصد یا اس سے زائد ہیں وہاں پسماندہ مسلمانوں کی ترقی کے لیے اقدام سے مربوط حل کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ سچر کمیٹی کی تجاویز ہنوز تجاویز ہی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسپیکٹ کی رپورٹ سلسلہ وار رپورٹس کا پہلا حصہ ہے جن کے ذریعہ مسلمانوں کو حاشیہ میں دھکیلنے کے عمل کو مزید بے نقاب کیا جائے گا۔ رپورٹ کے ایک اور مصنف ساجد علی نے کہا کہ اس رپورٹ میں جن اضلاع پر توجہ مرکوز کی گئی ہے ان میں ارریہ، پورنیا ، کشن گنج، کٹیہار (بہار) ، دھاور، کوکرا جھار (آسام) ، مالدہ مرشد آباد (مغربی بنگال)، شراوستی اور بلرام پور (یو پی) شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان اضلاع میں تقریباً 1.4کروڑ مسلمان ہیں جو بھارت کی کل مسلم آبادی کا پانچ فیصد ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا ’’ہمارا طریقہ کار ان اضلاع میں سرکاری اسکیم کے فوائد میں ریاست کے مجموعی حصہ کو جمع کرنا تھا۔ ہم نے زمینی صورتحال جاننے کے لیے بلاک اور تحصیل کی سطح پر بھی ڈیٹا اکٹھا کیا ہے۔ ہم نے پایا کہ مسلمانوں کو روزگار، تعلیم اور رہائش سمیت دیگر شعبوں میں امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ انہیں سیاسی طاقت اور دولت کے حصول میں بہت سی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور صحت کی دیکھ بھال اور بنیادی خدمات تک رسائی کا فقدان بھی دیکھا گیا ہے۔ مزید برآں، وہ اکثر آئینی تحفظات کے باوجود امتیازی سلوک کے بعد انصاف کے حصول کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ شدید بدحالی میں رہنے کے باوجود مسلمانوں کو ساتھی ہندوؤں اور پولیس جیسے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے فرقہ وارانہ رویوں کا سامنا ہے اور انہیں سال بہ سال بڑھنے والی اابادی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ رپورٹ اس فسانے کا بھی پردہ فاش کرتی ہے کہ مودی حکومت نے پردھان منتری آواس یوجنا میں مسلمانوں، خاص طور پر پسماندہ (پسماندہ) مسلمانوں کو متناسب حصہ مختص کیا ہے۔ صرف ایک ضلع میں مسلمانوں کو 31%الاٹمنٹ ملے، حالانکہ اس ضلع میں ان کی آبادی 48% ہے۔ جہاں تک دیگر اضلاع کا تعلق ہے وہاں الاٹنٹ بہت ہی کم کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں روشنی ڈالی گئی ہے کہ تمام مسلم اکثریتی اضلاع میں سرکاری سہولتیں اور انفراسٹرکچر کی کمی ہے۔
ایک مشہور جہدکار اور دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر اپوروانند نے کہا کہ حکومت یہ بیان کرنے کو ترجیح دیتی ہے کہ سرکاری اسکیمیں جانب داری سے پاک ہیں اور حکومت تمام طبقات کے لیے کام کرتی ہے ۔ اپوروانند نے کہا، ’’اس کی ایک دلچسپ مثال وزیر خزانہ نرملا سیتارامن کا غیر ملکی سرزمین پر حالیہ بیان ہے جس میں وہ کہتی ہیں چونکہ مسلمانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے، وہ بھارت میں خوش ہیں۔‘‘
پروفیسر ایس عرفان حبیب، پروفیسر نندنی سندر اور دلت کارکن انیل چماڈیا نے بھی اس رپورٹ کی تائید کی اور کہا کہ یہ رپورٹ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو کٹہرے میں کھڑا کرتی ہے جوسیکولرازم کی پاسداری کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن جب بات مسلمانوں کو بااختیار بنانے کی آتی ہے تو فرقہ پرستی پر عمل کرتی ہیں۔
(بشکریہ انڈیا ٹومارو ڈاٹ ان)
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 07 مئی تا 13 مئی 2023