دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو۔۔۔

(رنجن شرما کی فیس بک ٹائم لائن سے ماخوذ)

تصویر میں میرے ساتھ جو ضعیف شخص نظر آ رہے ہیں، ان کا نام جلال الدین ہے۔ عمر پچاسی برس ہے اور بجنور، یو پی کے رہنے والے ہیں۔
آج کشمیر گیٹ ISBT پر انہیں زار و قطار روتے ہوئے دیکھا تو دل تڑپ اٹھا۔ ان کے قریب گیا اور پوچھا:
"بابا، کیا ہوا؟”
ان کی آنکھوں میں ایسا درد تھا جو بیان سے باہر ہے۔
انہیں دلاسہ دیا، پانی پلایا، کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولے:
"بیٹا، میرا بیٹا ایک حادثے میں دنیا سے رخصت ہو گیا ہے۔ میں اس کے آخری دیدار کے لیے جانا چاہتا ہوں۔”
بابا جلال الدین کی آنکھوں میں آنسو تھے اور لہجہ لرزتا ہوا۔
کچھ دن قبل وہ اپنی بیمار بیوی کو اروِند ہاسپٹل میں علاج کی غرض سے لائے تھے۔
بیٹا کہہ کر گیا تھا: "ابو، میں بجنور جا رہا ہوں، پیسوں کا بندوبست کر کے واپس آؤں گا۔ امّی کا خیال رکھیے گا۔”
آج صبح گاؤں سے فون آیا کہ بیٹا ایک حادثے میں چل بسا ہے۔
"اب بیوی کو ہسپتال میں تنہا چھوڑ کر گاؤں جا رہا ہوں۔۔۔”
اتنا کہتے ہی پھر سے آسمان کی طرف دیکھ کر "اللہ!” پکارا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔
میں نے پھر انہیں چپ کرایا اور کہا:
"بابا، مسئلہ کیا ہے؟ آپ کیوں نہیں جا پا رہے اپنے بیٹے کے پاس؟ اگر کہیں بس تک چھوڑنا ہے تو میں لے چلتا ہوں۔”
بابا بولے:
"بیٹا، مسئلہ یہ ہے کہ مجھے یاد نہیں آ رہا کہ کس بس میں بیٹھنا ہے۔۔۔ دکھ اور غم نے یادداشت مفلوج کر دی ہے۔”
میں نے یاد دلایا:
"بابا، آپ ہی نے تو بتایا کہ بیٹا بجنور گیا تھا۔”
تو بابا نے فوراً کہا:
"ہاں بیٹا! مجھے وہیں جانا ہے۔۔۔ اللہ تمہیں خوش رکھے، مجھے اس بس میں سوار کرا دو۔”
میں انہیں کاؤنٹر نمبر 8 لے گیا، کچھ کھانے کو دیا اور بجنور جانے والی بس میں بٹھا دیا۔
دل کو ایک سکون سا محسوس ہوا کہ میں نے کسی بزرگ کی مدد کی۔
میں واپس جانے ہی والا تھا کہ دیکھا، کنڈکٹر نے بابا کو بس سے اتار دیا ہے۔
بابا ہاتھ جوڑ کر التجا کر رہے تھے کہ انہیں بس میں بیٹھے رہنے دیا جائے۔
میں دوڑ کر گیا، بس رکوا دی اور کنڈکٹر سے پوچھا:
"انہیں کیوں اتارا؟”
کنڈکٹر نے کہا:
"ان کے پاس کرایہ نہیں ہے۔”
میں نے کہا:
"بھائی، انسانیت کے ناطے انہیں جانے دو۔”
مگر وہ نہ مانا، بولا:
"اگر دس بیس روپے کی بات ہوتی تو چھوڑ دیتا، مگر بجنور کا کرایہ 280 روپے ہے۔”
میں نے جیب ٹٹولی، کل 300 روپے تھے۔
فوراً ٹکٹ خریدا اور بزرگ کی جیب میں رکھ دیا۔
کہا:
"بابا! اب آپ کو آپ کے بیٹے کے آخری دیدار سے کوئی نہیں روک سکتا۔ جائیے!”
بابا بس میں بیٹھ گئے، بس روانہ ہوئی۔
کچھ ہی فاصلے پر بس رکی، کنڈکٹر دوڑتا ہوا آیا، بیس روپے ہاتھ میں دیے اور کہا:
"بھائی، نیکی کا کام کر رہے ہو، باقی پیسے تو رکھ لو۔ میں دینا بھول گیا تھا۔”
پھر بولا:
"بابا آپ کا نام اور نمبر مانگ رہے ہیں، تاکہ قرض لوٹا سکیں۔”
میں بس میں گیا، نام تو بتایا مگر نمبر نہیں دیا۔
بابا نے کہا:
"بیٹا، تم ہندو ہو؟”
میں نے جواب دیا:
"بابا، ہندو نہیں ہندوستانی ہوں۔ کسی کی ذات یا مذہب دیکھ کر مدد نہیں کی جاتی۔”
بابا کے چہرے پر روشنی سی آگئی۔
کہنے لگے:
"بیٹا، میں یہ احسان کیسے چکاؤں؟ اللہ تمہیں خوش رکھے، کم از کم اپنا نمبر تو دے جا!”
میں نے مسکرا کر کہا:
"بابا، بس ایک وعدہ کرو، جب کوئی ضرورت مند ملے تو اس کی مدد کرنا، ذات اور مذہب دیکھے بغیر۔ میرا قرض ادا ہو جائے گا۔”
یہ کہہ کر میں بس سے اترا، بابا بجنور کی راہ پر اور میں اپنے دفتر کی جانب روانہ ہوا۔
دل میں عجیب سی خوشی تھی کہ آج خدا نے کسی کے کام آنے کا موقع دیا۔
آخر میں بس اتنی سی گزارش ہے کہ عمر رسیدہ لوگوں کو تنہا سفر پر نہ بھیجیں۔ وہ یادداشت کی بھول بھلیوں میں کھو سکتے ہیں اور بے بس ہو سکتے ہیں۔۔۔ جیسا کہ آج بابا جلال الدین کے روپ میں میں نے دیکھا۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 18 مئی تا 24 مئی 2025