عبداللہ نادر عمری، بنگلور
یکسانیت سے بھرے صبح و شام، تھکا دینی والی مصروفیات، ہجوم افکار، ٹنشن اور ڈپریشن سے گرزتی زندگی کو پُرسکون اور فرحت بخش بنانے کے لیے سیاحت اور تفریحی مقامات کی سیر اپنے آپ میں ’انرجی بوسٹر‘ کا کام کرتی ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ سیر و سیاحت ذہنی تناؤ، بے چینی اور ڈپریشن کو ختم کرنے کا بہترین علاج ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ بوجھل ذہنوں اور بیمار جسموں میں ’ڈوپامین ‘اور ’سیروٹین‘ نامی ہارمونس کی افزائش کو فروغ ملتا ہے جو ’’ہیپی ہارمونس/Happy Hormones ‘‘ کہلاتے ہیں۔ شاید اسی لیے موجودہ دور میں سیر و سیاحت اور علمی و تفریحی مقامات کا سفر کئی اداروں کی تعلیمی سرگرمیوں میں شامل ہو چکا ہے۔
البروج انٹرنیشنل اسکول جو شہرِ بنگلور کا معروف تعلیمی ادارہ ہے، یہاں کے اسلامک ڈپارٹمنٹ سے علماء کرام اور حفاظِ قرآن کی ایک بڑی اور مستند ٹیم وابستہ ہے، دسمبر کے وسط میں اس ادارے کے ذمہ داروں کے مشوروں سے سیر و سیاحت اور تعلیمی دورے کا منصوبہ طے پایا۔ اس تعلیمی سفر کو یادگار، مؤثر اور مفید تر بنانے کے لیے نگاہِ انتخاب جنوبِ ہند کے قدیم اور بھارت کا مایہ ناز ادارہ جامعہ دارالسلام پر جا ٹکی، جو ریاست تمل ناڈو کے عمرآباد کی حسین وادی میں موجود ہے۔
بروز جمعہ ساتویں تا دسویں جماعت کے طلباء تجربہ کار اساتذہ کرام کی قیادت میں ’رحلۃ تعلیمیۃ‘ کے بینر تلے جمع ہوگئے، یہ قافلہ دوپہر ڈھائی بجے اسکول سے ریلوے اسٹیشن کی جانب گامزن ہوا، تقریباً بیس منٹ بعد ریلوے اسٹیشن نگاہوں کے سامنے ہے۔ برنداون ریل پہنچنے میں ابھی چالیس منٹ باقی ہیں، اس وقفے میں ذمہ دار اساتذہ اپنی اپنی ٹیم کے طلباء کو اکٹھا کرکے سفر کے متعلق ہدایات دے رہے ہیں اور اشیائے خورد و نوش کی تقسیم بھی ہو رہی ہے۔ ریل گاڑی اپنے مقررہ وقت پر پلیٹ فارم پر پہنچی، سب اس کی گود میں سوار ہوئے، اپنی محفوظ نشستوں پر بیٹھے کوئی پردۂ ذہن پر منزل کی حسین اور خوبصورت تصویر ابھارنے کی کوشش کر رہا ہے، کوئی کھڑکی کے باہر قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ بقول امجد اسلام امجد :
جیسے ریل کی ہر کھڑکی کی اپنی اپنی دنیا ہے
کچھ منظر تو بن نہیں پاتے کچھ پیچھے رہ جاتے ہیں
میرے لیے یہ سارے نظارے، کھیت کھلیان، پہاڑی سلسلے، سبزہ زار میدان دیکھے بھالے ہیں۔ ریل گاڑی پٹریوں پر دندناتی دوڑ رہی ہے اور میں پٹریوں کی رگڑ سے اٹھنے والی آوازوں میں گم ہوں، ان آوازوں سے مجھے کبھی نفرت سی ہوتی تھی مگر اب یہ مانوس لگنے لگی ہیں۔ ماضی کے وہ دن بے اختیار پردۂ ذہن پر تصویر کی صورت رقص کرنے لگے ہیں جب عمرآباد میں زندگی کے خوش گوار اور بے حد خوبصورت پَل مجھے جینا نصیب ہوا تھا۔ ریل کئی راستوں، پُلوں اور منزلوں سے گزرتی ہوئی آمبور اسٹیشن پہنچتی ہے۔
اسٹیشن سے بس اسٹانڈ کے درمیان مختصر فاصلہ ہے، مگر بنگلور سے چنئی جانے والی قومی شاہراہ پر فلائی اوور کا تعمیراتی کام چل رہاہے جس بنا پر سارے راستے مسدود ہیں، بچوں کی اتنی بڑی تعداد کو اس پار لے جانے میں دشواری کا اندیشہ ہے، مجھے دور سے ایک بیریکیڈ کھلا ہوا نظر آرہا ہے، یہ امید کی ایک کرن تھی مگر قریب جانے کے بعد معلوم ہوا کہ اس پار بھی راہیں مسدود ہیں لیکن بفضل تعالٰی دور سے ایک تنگ راستہ نظر آ رہا ہے جسے دیکھ کر سب کی خوشی دیدنی ہے۔ ہم آخر کار بس اسٹینڈ پہنچتے ہیں، یہاں ایک بالکل خالی بس ہے جو سواریوں کے انتظار میں کھڑی ہے۔ یہ بس عمرآباد سے پہلے ہی گڑھ آمبور سے دائیں جانب نریم پیٹ جانے والی ہے۔ ہمیں دیکھ کر ڈرائیور خوشی سے پھولے نہیں سما رہا ہے، کہتا ہے کہ یہ بس عمرآباد نہیں جاتی ہے مگر میں آپ لوگوں کو عمرآباد تک لے جاؤں گا۔
’’اندھے کو کیا چاہیے دو آنکھیں‘‘ ساری بس میں ہم ہی ہم ہیں۔ خیر! یہاں سے ہم عمرآباد کا قصد کرتے ہیں۔ لبِ سڑک کئی عبادت گاہیں، دکانیں موجود ہیں مگر بین الاقوامی شہرت یافتہ نئی پرانی چمڑے کی فیکٹریاں قابلِ ذکر ہیں جس سے آمبور جانا اور پہچانا جاتا ہے۔ لوگوں کا ہجوم اور گاڑیوں کے شور سے سفر کی صعوبت کا احساس تازہ ہو رہا ہے مگر تقریباً تیس منٹ کے بعد آب و ہوا تبدیل ہوجاتی ہے، فضاؤں میں خنکی، برودت اور شادابی پھیل جاتی ہے۔ یہ اشارہ ہے کہ ہم عمرآباد میں ہیں، بس رکی بھی تو کہاں؟ شہرِ آرزو کا حسین تاج محل، دل کش و دل آگیں، پُرشکوہ قدیم عمارت کے سامنے جو جامعہ دارالسلام کی پہچان اور عمرآباد کا Icon ہے۔ میری گھڑی میں ساڑھے سات بجے کا وقت ہے، معہد القرآن کے معصوم بچے اسکول کے طلباء کی اتنی بڑی تعداد کو بس سے اترتے ہوئے دیکھ کر قدرے تعجب اور پُرکیف احساس کا مظاہرہ کر رہے ہیں. ہم طلباء کو کلیہ ہاسٹل کی طرف رہنمائی کرتے ہیں کیونکہ وہیں ہمارے قیام وطعام کا انتظام کیا گیا ہے۔
شام بھیگی بھیگی سی ہے، جامعہ کے مین گیٹ سے داخل ہوتے ہوئے دور سے ہی مسجد سلطان کا بلند و بالا، عالیشان مینار ہر آنے والے کو دعوتِ دیدار دے رہا ہے۔ راستے کے دونوں جانب قطار اندر قطار درختوں کا خوبصورت منظر اور درختوں کے پتوں پر ہلکی ہلکی شبنم کی پھوار، اس حسن کو دوبالا کرتی ہوئی برقی قمقموں سے نکلتی مدھم سی روشنی، یہ پرسکون فضاؤں کی خاموشیاں، یہ روحانی ماحول کی دل انگیزیاں، یہ رشک و سرور میں ڈوبی محفلیں اور یہ علم و ایمان کی پرنور مجلسیں، اس روح پرور ماحول کو دیکھ کر میرا انگ انگ عمرآباد کے لیے جذبۂ عقیدت و محبت سے سرشار ہے اور یہی کیفیت مادر علمی کی آغوش میں تقریباً ہر ’عمری‘ اور عمرآباد سے وابستہ افراد کی ہوتی ہے۔
اب ہم سیدھے قیام گاہ کی طرف بڑھتے ہیں، اس ’رحلۃ تعلیمیۃ‘ کے منتظم مولانا ایاز احمد عمری (استادِ جامعہ) بڑی بے تابی سے ہماری راہ تک رہے ہیں۔ کلیہ ہاسٹل کے صدر دروازے پر مولانا سے ہماری ملاقات ہوتی ہے، آپ کے ہمراہ ہم سب قیام گاہ (ثانویہ مذاکرہ ہال) کا رخ کرتے ہیں، نمازِ عشاء کے بعد عشائیہ سے فارغ ہوکر حافظ جعفر پاشا عمری اور مولانا عبدالحسیب سلفی صاحبان (اساتذۂ البروج اسکول) بچوں کو کل کے پروگرام کی تفصیلات اور اس کے متعلق ہدایات دیتے ہوئے جلد سونے اور علی الصبح بیدار ہونے کی تاکید کرتے ہے۔
(دوسرے دن)
صبح چار بجے مولانا عبدالحسیب سلفی ہمیں تہجد کے لیے جگاتے ہیں، اس سے قبل نہ جانے ہم میں سے کون کون آہِ سحر گاہی کی سکون آمیزی اور لذت آشنائی سے آخری بار کب شاد کام ہوئے تھے، مگر آج کی صبح ہمارے لیے کچھ مختلف ہے، اس کا آغاز ہی قربِ الٰہی کی آرزو میں ڈوبے جذبوں، سحر خیزیوں اور اشک ریزیوں سے ہورہا ہے۔ بالِ جبریل کا شعر گوشۂ دل پر ابھر رہا ہے:
مَیں نے پایا ہے اُسے اشکِ سحَر گاہی میں
جس دُرِّ ناب سے خالی ہے صدف کی آغوش
علامہ اقبال امتِ مسلمہ کے کھوئے ہوئے سوز و ساز اور متاعِ دین و ایمان کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جو کبھی مسلمانوں کا خاصہ اور پہچان تھی، اب اس کا حصول بے آہِ سحر گاہی ممکن نہیں ہے۔
نمازِ فجر کے بعد ہم عمر لائبریری کا رخ کرتے ہیں، اس تذکیری اجلاس کے کنوینر استادِ جامعہ مولانا جعفر علی صدیقی عمری مدنی اسکول کے طلباء اور اساتذہ کا استقبال کرتے ہوئے جامعہ کا تعارف، اس کا پیغام اور اس تعلیمی دورے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔ یہ استقبالیہ نشست ایک کپ چائے کی لذت اور نشاط انگیزی کے ساتھ ختم ہوتی ہے۔
اب سیر و تفریح کا وقت ہے، ہم طلباء کو جامعہ کے کیمپس میں موجود عمارتوں اور مختلف شعبوں کا تعارف کراتے ہوئے جامعہ کی قدیم عمارت کی طرف رواں دواں ہیں جو کبھی پورے دارالسلام کو سمیٹے ہوئے تھی مگر اب شعبۂ تحفیظ القرآن کے لیے مخصوص ہے۔یہاں مدیر معہد القرآن مولانا سراج الدین عمری کا طلباء سے قرآن مجید کی اہمیت و فضلیت پر خطاب ہوتا ہے، مولانا اسکول کے حفّاظ سے قرآن سنتے ہیں اور خوشی کا اظہار کرتے ہیں، ہماری خواہش پر اپنے تین شاگردوں سے پڑھواتے ہیں، تینوں معصوم بچوں نے قرآن مجید کی تلاوت اتنی خوش اسلوبی اور خوش الحانی کے ساتھ کر رہے ہیں کہ رونگٹے کھڑے ہو رہے ہیں۔ سننے والوں کے کانوں میں کلامِ خداوندی کی حلاوت اور شیرینی گھل رہی ہے۔ بچوں کے نام میرے ذہن میں نہیں ہیں مگر ایک طالب علم جو قرآن مجید کی چند آیتیں قرات کے اصول و قواعد کے ساتھ بہترین اسلوب و لہجے میں پڑھ رہے ہیں وہ مولانا عبدالعظیم عمری مدنی کے فرزند ارجمند ہیں۔
میری گھڑی میں سوا آٹھ بج رہے ہیں، اب ہمارے ناشتے کا وقت ہے، جامعہ کی کھچڑی اور لذیذ دال کا ذائقہ کون بھول سکتا ہے، اس کے ساتھ انگریزی ڈیش مزیدار میکرونی بھی ہے۔
ٹھیک نو بجے تذکیری اجلاس کا انعقاد ہونے والا ہے، اسکول کے طالب علم محمد معظم کی قرات سے پروگرام کا آغاز ہوتا ہے۔ خطابات کا آغاز مولانا کلیم اللہ عمری کے اظہارِ خیال سے ہوتا ہے، آپ ’وقت کی قدر و قیمت ‘ اور اس کی اہمیت کو اسلاف کرام کی زندگیوں کی مثال سے اُجاگر رہے ہیں۔’’والدین کی اطاعت‘‘ کے عنوان پر مولانا جعفر علی صدیقی عمری بڑے موثر انداز اور دل انگیز لہجے میں خطاب کر رہے ہیں۔مولانا عبدالصبور حماد عمری مدنی’’موبائل فون کے آداب ‘‘بتاتے ہوئے اس کے فوائد اور نقصانات پر مفید ترین گفتگو کررہے ہیں۔مولانا الیاس اعظمی عمری نے ’’ایک مسلمان کی پہچان کیسی ہونی چاہیے؟ جیسے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ : ایک اچھا مسلمان وہ ہے جو اللہ اور رسول کے احکام کو جانتا ہے اور پھر اسے مانتا ہے۔ اور کہتے ہیں: ہمارا دین ہم سے پراکٹیس چاہتا ہے۔
مدیر ماہنامہ راہ اعتدال، محمد رفیع کلوری عمری صاحب کا موضوع سخن ہے :’’ دورِ حاضر کے چیلنجز‘‘۔ آپ نے تقریباً پانچ چیلنجز کا ذکر اور اس کے مناسب تدابیر بیان کیے، آپ کا خطاب اسکول کے طلباء کے ذہنی سطح کے مطابق ہے، موثر اور مفید ترین ہے۔ناظم جامعہ مولانا عبداللہ جولم فرماتے ہیں کہ’ایمان اور علم ایک جگہ جمع ہوجائیں تو اس کا مقابلہ کوئی نہیں کرسکتا ‘اور طلبہ کو یہ نصیحت کر رہے ہیں کہ ’’آپ یہاں سے دینی جذبہ لے کر جائیں‘‘۔مولانا ابراہیم عمری ’تعمیرِ شخصیت اور کردار سازی‘ کے عنوان پر عالمانہ اور معلوماتی خطاب کرتے ہوئے یہ نصیحت کرتے ہیں کہ’ آپ کا مقصد جتنا اونچا ہوگا، اسی قدر آپ کو محنت بھی کرنی چاہیے۔
اب یہ اس اجلاس کا آخری خطاب ہے جو اسکول کےطلباء کے لیے ان کے مستقبل کے حوالے سے نقطۂ تحول ( ٹریننگ پوائنٹ) ہونے والا ہے، عنوان ہے ’’ایس ایس ایل سی کے بعد کیا کریں؟ ‘‘اس حوالے سے مولانا محمد زکریا عمری نے بہت واضح طور پر عصری علوم کے مختلف میدانوں میں قدم رکھنے کے لیے جو کچھ مفید اقدام ہوسکتے ہیں، تفصیل سے بیان فرمارہے ہیں۔ یہ اجلاس ٹھیک سوا بارہ بجے البروج انٹرنیشنل اسکول کے مدیر معہد الاسلامی حافظ عبدالقیوم عمری کے ہدیۂ تشکر و امتنان کے ساتھ اختتام پذیر ہورہا ہے۔
اب جامعہ کے کیمپس سے نکل کرہم سب بیرونی علاقے کی سیر کرتے ہیں، حافظ جعفر پاشا عمری سالارِ قافلہ ہیں، یہ جامعہ ہسپتال ہے، صرف عمرآباد کے باشندوں کے لیے نہیں ہے، یہاں سے اطراف و اکناف کے ہزاروں لوگ مستفید ہو رہے ہیں۔ میں دیکھ رہا ہوں ابھی یہاں تعمیری و توسیعی کام چل رہا ہے، ہسپتال کے بالکل پیچھے دائیں جانب اقراء اسکول ہے اور اسی سڑک پر تھوڑی دوری پر دوسری اسکول ہے اور سڑک کے بائیں جانب گلی میں مدرسہ نسوان ہے جو برسوں سے نیک نامی اور کامیامی کے منزلیں طے کر رہا ہے۔ عمرآباد کا یہ چھوٹا سا گاؤں تعلیمی قلعوں اور دینی و علمی قندیلوں سے روشن ہے اور آگے بڑھیں گے تو جامعہ کا وسیع و عریض دامنِ کوہ تک پھیلا ہوا یہ کھیل کا میدان ہے، اور یہ دائیں جانب محمدیہ ہائی اسکول کی نئی عمارت ہے، اس کی قدیم اور تاریخی عمارت جامعہ کواٹرس کے سامنے ہے۔یہ عمرآباد کا بازار ہے، اس میں آپ کو ہر چیز مل جائے گی، یہاں کی چائے مولانا ابوالکلام آزاد کی چائے کی طرح لب دوز اور دل سوز ہوتی ہے۔
ابھی ظہر کی اذان ہورہی ہے، نماز کے بعد ہم جامعہ کے پرتکلف دسترخوان سے سیراب ہوتے ہیں۔ہم (اساتذۂ البروج اسکول) عبدالقیوم عمری، جعفر پاشا عمری، عبدالحسیب سلفی، عارف احمد عمری اور راقم الحروف عبداللہ نادر عمری کلیہ درس گاہ کا رخ کرتے ہیں، دفترِ نظامت میں ناظم جامعہ دکتور عبداللہ جولم عمری اور مولانا ابراہیم عمری کے ساتھ ہماری نشست ہوتی ہے۔ ناظم جامعہ چائے سے ہماری ضیافت کرتے ہیں۔کلیہ ہال میں مولانا عبدالصبور حماد عمری، مولانا عبدالوکیل عمری، مولانا محمد سیفی عمری، مولانا اسید احمد شاکر عمری، مولانا الیاس اعظمی عمری، مولانا عبدالقیوم عمری، مولانا سراج الدین عمری اور مولانا حافظ اسلم عمری سے ہماری ملاقات ہوتی ہے۔
ادھر دیگر اساتذۂ اسکول عتیق الرحمٰن عمری، حافظ جنید احمد عبیدی اور عبدالرحمٰن محمدی بچوں کو سامانِ سفر تازہ کرنے کو کہہ رہے ہیں، یہ عمر آباد میں ہمارے قیام کی آخری گھڑیاں ہیں۔صرف ایک شب و روز کا یہ تعلیمی دورہ نہایت خوش گوار نتائج کی امید اور سیر و سیاحت کی بھر پور لطف اندوزی کے ساتھ ختم ہورہا ہے۔ مولانا ایاز احمد عمری جو ابتدا سے آخر تک ہمارے ساتھ رہے، اب وداعی لمحوں میں مسکراتے ہوئے دعائیں دے رہے ہیں۔میں دیکھ رہاہوں کہ سب کے چہروں پر عمرآباد سے رخصتی کے آثار نمایاں ہیں اور لبوں پر دعائیں ہیں ۔
جبینِ دہر پہ فخرِ جہاں عمرآباد
زمیں کی گود میں اک آسماں عمرآباد
یہ اہلِ دانش و اربابِ فکروفن کی زمیں
نشانِ عظمتِ ہندوستاں عمرآباد
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 14 جنوری تا 20 جنوری 2024