داما گنڈم جنگل تنازعہ
نیوی راڈار کے لئے موسیٰ و عیسیٰ ندیوں کے ماخذ کی قربانی،ماحولیاتی نظام کیلئے خطرہ!
زعیم الدین احمد حیدرآباد
لاکھوں درختوں کا کٹاؤ؛ داما گنڈم اور حیدرآبادی باشندوں کے نظامِ تنفس پر مہلک حملہ
پچھلے دنوں وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے ضلع وقار آباد میں دوسرے نیوی راڈار کا افتتاح کیا۔ اس راڈار کی تنصیب کے منصوبہ پر عمل 2010 سے جاری تھا، پچھلی حکومتوں میں بھی اس پر کام ہوتا رہا۔ ٹی آر ایس حکومت میں بھی اس کی فائلیں پاس ہوتی رہی ہیں۔ راڈار کی تنصیب کے سلسلے میں بین الاقوامی سطح پر مثبت رجحان نہیں پایا جاتا۔ امریکہ، کینیڈا، چین، جاپان اور یورپ کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی راڈار کی مخالفت ہوئی اور ان ممالک نے اس کو ترک بھی کردیا، ایسی صورت حال میں پھر کیوں ہمارا ملک اس کو نصب کرنا چاہتا ہے؟ ماہرین اس کی تنصیب سے انسانی صحت پر پڑنے والے طبی نقصانات سے آگاہ کر رہے ہیں۔ اس کے طبی نقصانات پر گفتگو تو ہوگی لیکن اس کی تنصیب تلنگانہ میں کیوں کی جا رہی ہے، جب کہ اس ریاست کو کوئی سمندر بھی نہیں لگتا ہے؟ طبی نقصانات کے ساتھ ساتھ ماحولیات کو جو نقصانات ہوں گے اس پر بھی غور کرنا چاہیے۔
کہا جا رہا ہے کہ یہ دوسرا راڈار اسٹیشن ہوگا جس کی فریکوئنسی کم درجے کی ہوگی، اسی طرح پہلا کم فریکوئنسی والا راڈار اسٹیشن تمل ناڈو کے ضلع ترونلویلی میں واقع ہے۔ امریکہ کی ریاست مشیگن میں اس طرح کا راڈار اسٹیشن قائم کیا گیا تھا لیکن اسے بند کر دیا گیا۔ سوال یہ نہیں ہے کہ اس اسٹیشن سے ریڈیئشن ہوگا جس سے طبی نقصانات ہوں گے، لوگوں کو کینسر اور فرٹیلیٹی جیسے مسائل پیدا ہوں گے۔ یہ تو ایک لمبی بحث ہے۔ اس طرح کے خدشات موبائل ٹاوروں کی تنصیب پر بھی ظاہر کیے گیے تھے لیکن اس کے باوجود جگہ جگہ یہ ٹاور لگے ہوئے ہیں۔ نیوی کہہ رہی ہے کہ اس سے کوئی طبی نقصانات نہیں ہوں گے، کیوں کہ یہ کم فریکوئنسی والا راڈار ہے، یہاں صرف راڈار اسٹیشن ہی نہیں بن رہا ہے بلکہ نیوی میں کام کرنے والے تقریباً آٹھ سو افراد بھی یہاں رہائش پذیر ہوں گے۔ اگر ریڈیئشن کا اثر ہوتا تو سب سے پہلے ان پر ہونا چاہیے۔ بہر حال اس کے طبی نقصانات کیا ہوں گے، ہوں گے بھی یا نہیں اس پر سائنٹفک ماہرین یا ماہرینِ طب ہی بتا سکتے ہیں۔ اصل تنازعہ یہ ہے کہ اس اسٹیشن کے لیے جو زمین دی جا رہی ہے وہ دو ہزار نو سو ایکڑ فاریسٹ لینڈ ہے اور جس میں واقع تقریباً بارہ لاکھ درخت کاٹے جائیں گے۔
نیشنل پلیٹ فارم فار پیپلز موومنٹ کے مطابق راڈار اسٹیشن بنانے کے لیے تقریباً بارہ لاکھ درخت کاٹے جا رہے ہیں، لیکن محکمہ جنگلات نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ بارہ لاکھ نہیں بلکہ صرف دو لاکھ درخت کاٹے جائیں گے تعداد بارہ لاکھ ہو یا دو لاکھ، درخت تو کاٹے جائیں گے ہی۔ اس سے ماحولیات پر کیا اثرات مرتب ہوں گے یہ ایک اہم سوال ہے۔ جب بھی کسی پروجیکٹ پر کام کرنا ہوتا ہے تو اس کے لیے سب سے پہلے ماحول پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لیا جاتا ہے اور اس کو پبلک ڈومین میں رکھا جاتا ہے، لیکن اس اسٹیشن کے لیے اب تک اس طرح کی کوئی رپورٹ پبلک ڈومین میں دستیاب نہیں ہے۔
درحقیقت داما گنڈم کا جنگل قدرتی جنگل ہے، اس میں ایسے نایاب درخت بھی پائے جاتے ہیں جو دوائیں بنانے کے کام میں آتے ہیں، اس کے علاوہ نایاب جڑی بوٹیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ یہ شہر حیدرآباد کے بالک قریب واقع ہے اور اسے حیدرآباد کے پھیپھڑے کہا جاتا ہے۔ حیدرآباد جو ملک کے سب سے تیز ترقی کرنے والے شہروں میں سے ایک ہے، جہاں کانکریٹ اور لوہے کا جنگل تیار ہو رہا ہے، اس کے قریب میں واقع جنگل کا صفایا کرنا کونسی عقلمندی ہے؟ ماحولیاتی آلودگی کے پیش نظر خود حکومت عوام سے کہہ رہی ہے کہ درخت لگائے جائیں کیوں کہ گرمی شدید ہوتی جا رہی ہے، بے موسم برسات ہو رہی ہے، سرما کا موسم شدید ہو رہا ہے، موسمیاتی تبدیلیوں کی اصل وجہ درختوں کا کاٹنا ہے لیکن حکومت خود جنگلات کا صفایا کر رہی ہے۔ آخر یہ کیسی منافقت ہے؟ ہر ملک چیخ رہا ہے کہ ماحولیات کو بچانا چاہیے، اس لیے درخت لگائے جائیں، کیوں کہ یہ ہمارے کرہ ارض کے لیے پھیپھڑوں کا کام کرتے ہیں، دنیا کے بڑے بڑے شہروں میں اربن فاریسٹ کا تصور چل رہا ہے اور ہماری حکومت کا حال یہ ہے کہ جو قدرتی جنگل پہلے سے موجود ہے اسی کو کاٹا جا رہا ہے۔
راڈار اسٹیشن ہمارے ملک کی سیکورٹی کے لیے ضروری ہے، اس پر کوئی سوال نہیں اٹھا رہا ہے، ملک کی سیکورٹی کو سب سے مقدم رکھا جانا چاہیے لیکن کیا راڈار کے لیے اتنے بڑے جنگل کا صفایا کرنا ضروری ہے؟ کیا اسے کسی اور جگہ جو بنجر ہو یا کسی اونچے علاقے میں نہیں بنایا جا سکتا؟ ایک ایسی جگہ جہاں قدرتی جنگل ہے اسی مقام پر راڈار اسٹیشن بنانا کیا ضروری ہے؟ اس کی کوئی وضاحت نیوی نے اب تک نہیں دی ہے۔ اس سوال کا کوئی جواب ان کے پاس نہیں ہے البتہ یہ کہا جا رہا ہے کہ اس جنگل کے بدلے میں دوسرا جنگل بنایا جائے گا۔ کسی اور جگہ اگائے ہوئے مصنوعی جنگل کا قدرتی جنگل سے بھلا کیا تقابل؟ قدرتی جنگل میں بائیو ڈائیورسٹی ہوتی ہے، اگائے ہوئے جنگل میں بائیو ڈائی ورسٹی کہاں ہوتی ہے۔ قدرتی جنگل کا کوئی بدل نہیں ہو سکتا لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ جہاں وہ جنگل بنانا چاہتی ہے وہیں راڈار اسٹیشن بنالے، تنازعہ ختم ہو جائے گا۔ اتنے بڑے پیمانے پر جنگل کو کاٹنا کوئی عقلمندی کا کام نہیں ہے۔ اس سے صرف درخت ہی نہیں بلکہ وہاں موجود جنگلی جانور بھی بے موت مارے جائیں گے؟ نیوی کہہ رہی ہے کہ اس راڈار اسٹیشن سے تین سو لوگوں کو روزگار ملے گا، جو کہ بڑی مضحکہ خیز بات ہے، لاکھوں درختوں کے بدلے محض تین سو لوگوں کو روزگار؟ اس سے تو بہتر ہے کہ وہاں ایکو ٹورزم پارک ڈیویلپ کر دیا جائے، جس سے کم از کم تین ہزار لوگوں کو روزگار ملے گا۔ بے روزگاری دور کرنے کے لیے حکومت کو جو اقدامات کرنے چاہئیں وہ کرے لیکن یہاں تین ہزار ایکڑ جنگل کاٹنے سے جو تباہی ہوگی اس پر پہلے غور کرے۔
یہی وہ علاقہ ہے جو عیسیٰ و موسی ندیوں کا منبع ہے۔ عوام کو اس حقیقت کا جاننا ضروری ہے کہ جو دریا کا منبع ہوتا ہے وہ ایکو سنسیٹیوٹی زون یعنی قدرتی طور پر حساس علاقہ کہا جاتا ہے، ایسے حساس علاقے کو ختم کرنا لازمی طور پر ماحولیاتی تباہی کا باعث بنتا ہے۔ ریاستی حکومت ایک طرف موسی ندی کو انگلینڈ کے تھیمز ندی کی خطوط پر بنانے کا منصوبہ رکھتی ہے، جس کے لیے اس نے ایک لاکھ پچاس ہزار کروڑ روپے مختص بھی کیے ہیں اور کام بھی چل رہا ہے، ندی کے اطراف بسنے والوں کو ہٹایا بھی جا رہا ہے اور دوسری طرف جہاں سے یہ شروع ہوتی ہے اسی کو ختم کیا جا رہا ہے۔ یہ کیسی الٹی منصوبہ بندی ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ جنگلات کو ختم کرنے سے ہی تباہ کن ماحولیاتی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، موسمی تبدیلیوں کی تباہ کاریاں ہم دیکھ رہے ہیں، دھوپ کی شدت، بے موسم کی بارشیں، شدید گرمی و شدید سردی، یہ ساری تباہ کاریاں اسی وجہ سے ہیں۔ حکومتیں تو بڑے بڑے دعوے کر رہی ہیں کہ موسمی مطابقت کے لیے بڑی رقم خرچ کی جائے گی، اکنامکس سروے کے مطابق مرکزی حکومت اس کے لیے جی ڈی پی کا 5.6 فیصد خرچ کرے گی، یعنی آنے والے سات سال میں مرکزی حکومت نے یونائٹیڈ نیشن فریم ورک کنونشن کلائمیٹ چینج (یو ین یف سی سی سی) کو دی گئی درخواست میں موسموں کے درمیان مطابقت کے لیے 57 لاکھ کروڑ روپے خرچ کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ ایک طرف کلائمیٹ اڈبٹیشن کے لیے ماحولیاتی تبدیلیوں کی تباہ کاریوں سے بچنے کے لیے اتنی بڑی رقم خرچ کی جا رہی تو دوسری طرف جو قدرتی جنگل ہے اس کا صفایا کرنا کیا دوغلے پن کو ظاہر نہیں کر رہا ہے؟ لہٰذا ایسے موقع پر ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ماحولیات کو بچائیں اور اپنے جمہوری حقوق کا استعمال کرتے ہوئے قدرتی جنگل کو کاٹنے سے روکیں۔ ورنہ ماحولیاتی تبدیلی کی تباہ کاریوں کا راست اثر مقامی لوگوں کے علاوہ حیدرآباد کے شہریوں پر بھی پڑے گا۔
***
داما گنڈم وہ علاقہ ہے جو عیسیٰ و موسی ندیوں کا منبع ہے۔ عوام کو اس حقیقت کا جاننا ضروری ہے کہ جو دریا کا منبع ہوتا ہے وہ ایکو سنسیٹیوٹی زون یعنی قدرتی طور پر حساس علاقہ کہا جاتا ہے، ایسے حساس علاقے کو ختم کرنا لازمی طور پر ماحولیاتی تباہی کا باعث بنتا ہے۔ ریاستی حکومت ایک طرف موسی ندی کو انگلینڈ کے تھیمز ندی کی خطوط پر بنانے کا منصوبہ رکھتی ہے، جس کے لیے اس نے ایک لاکھ پچاس ہزار کروڑ روپے مختص بھی کیے ہیں اور کام بھی چل رہا ہے، ندی کے اطراف بسنے والوں کو ہٹایا بھی جا رہا ہے اور دوسری طرف جہاں سے یہ شروع ہوتی ہے اسی کو ختم کیا جا رہا ہے۔ یہ کیسی الٹی منصوبہ بندی ہے؟
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 اکتوبر تا 2 نومبر 2024