کریڈٹ کارڈ کا بڑھتا رجحان

انفرادی معیشت اور خاندانی امن و سکون کو برباد کرنے والا ایک جدید اورطاقتورہتھیار

ارشدشیخ

کریڈٹ کارڈ سگریٹ کی طرح ہے جس میں نکوٹین جیسا ہلاکت خیز زہر ہونے کے باوجود لوگ پینا نہیں چھوڑتے
ریزرو بینک آف انڈیا کے ایک تازہ سروے سے پتہ چلتا ہے کہ بھارت میں کریڈٹ کارڈ کے استعمال میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ یہ ایک جدید معاشرتی وباء ہے اور معاشی بدحالی کی طرف پیش قدمی کا مظہر بھی اور بے جا، بلا وجہ اور بے تحاشا خریداری کرنے والوں کے ذہنی دیوالیہ پن کی کھلی دلیل بھی ہے۔ بلاشبہ کریڈٹ کارڈ اجراء کرنے والی کمپنیوں کو سود کی شکل میں بے پناہ آمدنی ہو رہی ہے۔ اپنی تنخواہ یا آمدنی سے کہیں زیادہ قیمتی اشیاء خرید کر آدمی سود کے چکر میں اس طرح پھنس جاتا ہے کہ لاکھ کوششیں کرنے کے باوجود، عمر بھر اس سے نکل نہیں پاتا۔ بغیر قیمت ادا کیے، کوئی بھی چیز گھر لے آنا، خریدار کے لیے بہت دلکش لگتا ہے اور کچھ عرصہ بعد وہ مفت خریداری کے اس جدید طریقے کا عادی ہو جاتا ہے۔ آمدنی سے زیادہ قیمت کی ایسی چیزیں خریدنا اچھا لگتا ہے جس کی اسے سرے سے کوئی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ ماڈرن سوسائٹی کے یہی وہ افراد ہیں جو بینکوں اور کریڈٹ کارڈ کمپنیوں کے لیے نہایت آسان شکار ثابت ہوئے ہیں۔ سرمایہ داری کے اس بازار میں یہ وہ خونخوار، آدم خود شارک ہیں جو ہمیشہ بھوکے رہتے ہیں اور ہر وقت اپنے شکار کی تلاش میں رہتے ہیں۔ یہ وہ ظالم اور بے رحم طبقہ ہے جو ان کے جال میں پھنسے ہوئے شکار کے ساتھ کوئی مروت نہیں کرتا۔
بھارت میں بھی کریڈٹ کارڈ کے ذریعے ادائیگیوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ریزرو بینک آف انڈیا کی جانب سے جاری کردہ اعداد وشمار کی روشنی میں، کریڈٹ کارڈ کے ذریعے کی جانے والی ادائیگیوں کی تفصیلات کے مطابق 2020-2021 کے مالی سال کے دوران 6.3 لاکھ کروڑ روپے خرچ کیے گئے جب کہ 2021-2023 کی پہلی سہ ماہی کے دوران 10.4 لاکھ کروڑ روپے کریڈٹ کارڈ استعمال کرنے والے گاہکوں نے خرچ کیے۔ اس کے مقابلے میں اسی مدت کے دوران ڈیبیٹ کارڈ کے ذریعے کی جانے والی ادائیگی 6.61 لاکھ کروڑ سے گھٹ کر 5.6 لاکھ کروڑ ہوگئی۔ اگر ہم دسمبر 2019 سے دسمبر 2022 کے درمیان تین سال کی مدت میں کریڈٹ کارڈ کے ذریعے ادائیگیوں پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس میں 92% کا اضافہ ہوا اور وہ 65 ہزار کروڑ سے بڑھ کر 1.25 لاکھ کروڑ تک پہنچ گئیں۔ اس کے برعکس ڈبیٹ کارڈ کی ادائیگی 83 ہزار کروڑ روپے سے 30% گھٹ کر 6.89 کروڑ روپے ہوگئی۔ خاص بات یہ ہے کہ یہ اعداد وشمار 2019 اور 2020 میں بالترتیب 6.04 کروڑ اور 5.53 کروڑ روپے تھے۔ دسمبر 2021 سے 2022 کے درمیان ڈبیٹ کارڈ کی کل تعداد تقریباً 93 ہزار تھی۔ بھارت میں کریڈٹ کارڈز، مارکٹ میں موجود ان کارڈز کا حصہ 67% حصہ ہے جبکہ پبلک سیکٹر کے بینکوں کا حصہ 24% ہے۔ سال 2021 میں جملہ کریڈٹ کارڈز کے 8.9 لاکھ کروڑ روپے کے لین دین میں 3.7 لاکھ کروڑ روپے کا لین دین پوائنٹ آف سیل POS مشینوں کے ذریعے کیا گیا اور 5.2 لاکھ کروڑ روپے امیزان اور فلپ کارٹ جیسے ای کامرس پورٹلس کے ذریعے آن لائن کیا گیا۔ 2021 میں کریڈٹ کارڈز کے ذریعے لین دین کی اوسط قیمت 4122 روپے تھی جو 2020 کے مقابلے میں 13% زیادہ ہے۔
ڈیبٹ کارڈ سے کریڈٹ کارڈ میں تبدیلی کا رواج:
بھارت میں آج بھی لوگ اے ٹی ایم سے رقومات نکالنے کے لیے عموماً ڈیبٹ کارڈ ہی استعمال کرتے ہیں۔ کریڈٹ کارڈ کے ذریعے اے ٹی ایم سے رقومات نکالنے کا رواج ہمارے ملک میں بہت کم ہے۔ البتہ اشیاء کی خریداری کے وقت، کریڈٹ کارڈ کے استعمال میں نمایاں اور مستحکم اضافہ ہوا ہے۔ اس میدان کے بعض ماہرین اور تجزیہ نگاروں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ کریڈٹ کارڈ کے استعمال میں اس وقت سے اضافہ ہونے لگا ہے جب ملک کی معیشت کوویڈ اور دیگر وبائی امراض کی وجہ سے زوال پذیر تھی۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ مارچ 2020 کے اواخر میں مجموعی گھریلو بچت 10.8% تھا۔ کوویڈ اور دیگر متعدی امراض کے پھیلنے سے پہلے GDP 16% تھا۔ گھریلو بچتوں میں اس کمی کے کئی اسباب سامنے آئے جن میں مہنگائی، وبائی امراض، معاشی سرگرمیوں میں اضافہ اور نوجوان نسل میں خریداری کے معیار اور اخراجات میں بے تحاشا اضافہ وغیرہ شامل ہیں۔
بھارت میں اگر کسی خریدار کے اکائونٹ میں مناسب رقم موجود نہ ہو تو صارفین فوراً کریڈٹ کارڈز کے ذریعے بل کی ادائیگی کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ اس میں ایک سہولت یہ ہوتی ہے کہ بینکس کسی خریداری پر 30 سے 40 دنوں تک کوئی سود عائد نہیں کرتے۔ یہ سہولت بھی دراصل صارفین کو سود کے جال میں پھانسنے کا بہترین نسخہ ثابت ہوا ہے۔ ریزرو بنک آف انڈیا نے کریڈٹ کارڈ کو یو پی آئی UPI کے ساتھ جوڑنے کی اجازت بھی دے دی ہے۔صارف کے اپنے موبائل کے یو پی آئی ایپ کے ذریعے رقم کی ادائیگی، اس کے لیے ایک بہترین سہولت بخش طریقہ بن گیا ہے اور صارفین اس طریقے کو نہ صرف پسند کرنے لگے ہیں بلکہ اسی طریقہ ادائیگی کو ترجیح بھی دے رہے ہیں۔ یو پی آئی ایپ کے استعمال سے کریڈٹ کارڈ کے ذریعے اکثر صارفین اپنی ضروریات کی اشیاء خریدنے کو ترجیح دے رہے ہیں جو راست صارف کے کریڈٹ کارڈ اکاونٹ سے جڑا ہوتا ہے۔ عموماً صارفین کو بغیر نقدی کے اس طرح خریداری کرنے کی سہولت، بہت آرام دہ اور دلکش لگتی ہے اور وہ اس میں لطف بھی محسوس کرتے ہیں۔ کریڈٹ کارڈ کے استعمال کی کثرت انہیں عیش و آرام اور ذہنی راحت کے جذبات سے دوچار کرنے میں کامیاب ثابت ہو رہی ہے۔ ملک میں اخراجات اور بچت کے عمل پر ان کریڈٹ کارڈز کے استعمال سے پڑنے والے اثرات کا اندازہ لگانے کے لیے اس کا صحیح تجزیہ کرنا بھی ضروری ہے۔
کریڈٹ کارڈ کی تاریخ:
کریڈٹ کارڈ دراصل مالیاتی نظام کا ایک حصہ ہے جو صارفین کو بینکوں سے اور کریڈٹ کارڈ مہیا کرنے والی کمپنیوں کے ذریعے چلائے جانے والے نظام خریدی کی ایک نامور اسکیم کی بنیاد پر گاہکوں کو ضروریات زندگی کی تمام اشیاء خریدنے میں مدد کرتا ہے جس کا نام ’’ابھی خریدیے اور ادائیگی بعد میں کیجیے‘‘ ہے۔ کریڈٹ کارڈ کا استعمال دنیا میں سب سے پہلے امریکہ میں 1920 میں اس وقت شروع ہوا جب تیل کمپنیوں اور ہوٹلس کے کاروباری سلسلے نے انہیں خود اپنے اسٹورس پر خریداری کرنے کے لیے جاری کیا گیا تھا۔ سب سے پہلا مشہور کریڈٹ کارڈ، ’’ڈائنرس کلب "Diners’ Club نے جاری کیا تھا۔ 1950 کی دہائی میں ’’امیریکن ایکسپریس‘‘ نامی کمپنی نے اپنا کریڈٹ کارڈ جاری کیا۔ اس کمپنی نے اپنے صارفین کو خریداری کی رقم کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ صارفین سے رقم واپسی کے لیے اس پر کچھ مہلت کے مزید ایام کی سہولت بھی دینی شروع کی۔ عام طور پر بغیر سود ادا کیے صارفین کو 30 تا 40 دنوں تک رقم ادا کرنے کی سہولت دی جاتی ہے۔ اگر کل رقم مقررہ تاریخ سے پہلے ادا کی جارہی ہو تو اس پر کوئی سود عائد نہیں کیا جاتا۔ ہاں اگر رقم ماہانہ اقساط میں ادا کی جارہی ہو تو اس پر بینک بھاری شرح سود عائد کرتے ہیں۔ کریڈٹ کارڈ سے مربوط اصطلاح ’’ویزا‘‘ کا تعلق بینک امیریکارڈ Bank Americard سے ہے جسے 1958 میں بینک آف امریکہ نے شروع کیا تھا۔ 1976 میں اس کریڈٹ کارڈ کا نام ’’ویزا‘‘ رکھا گیا جو 2007 میں ایک عالمی سطح کے کارپوریشن میں تبدیل ہو گیا اور پھر ساری دنیا میں کریڈٹ کارڈس کے ذریعے اشیاء کی ادھار خریدی کا نظام مقبول ہو گیا۔ اس کارڈ کے استعمال پر جغرافیائی حدود کی بھی کوئی پابندی نہیں ہے جس کی وجہ سے ادھار بیچنے والے تاجروں کی تعداد میں بھی بے تحاشا اضافہ ہونے لگا۔
’’ادائیگی بعد میں کیجیے‘‘ کے طریقہ کار کو عوام بخوشی قبول کرنے لگے۔ چنانچہ کریڈٹ کارڈ جاری کرنے والے بینکوں اور کمپنیوں کی تعداد، عالمی سطح پر بلا مبالغہ بڑھنے لگی۔ کریڈٹ کارڈ اجرا کرنے والی کمپنیاں، اپنے کارڈز کی تشہیر پر ہر سال کروڑوں ڈالر خرچ کرتی ہیں۔ بنیادی طور پر وہ صارفین کو کسی بھی چیز کو بغیر پیسے کے خریدنے پر اکساتی ہیں۔ ان کا ایک مشہور نعرہ ہے’’کل کس نے دیکھا، کل آئے یا نہ آئے، جو کچھ ہے بس آج کا دن ہے‘‘۔ تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ کریڈٹ کارڈ کے ذریعے لوگ اپنی آمدنی سے 83% زیادہ خرچ کرتے ہیں۔ صارفین کے رجحانات کی تحقیق کرنے والے ایک ادارے کا کہنا ہے کہ اپنی پسند کی کوئی شئے بغیر رقم ادا کیے خریدتے وقت انسان کو نفسیاتی طور پر بے حد مسرت اور خوشی کا احساس ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف وہی چیز نقد خریدنے پر ذہنی تکلیف محسوس ہوتی ہے جو اسے ادھار خریدتے وقت بالکل نہیں ہوتی۔ یقینا اسی وجہ سے آج عوام کریڈٹ کارڈ کے ذریعے ادھار خریدنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ اس سے زیادہ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ بعض لوگ اپنی آمدنی اور گنجائش سے کئی گنا زیادہ قیمتی سامان کی خریدی پر بہت زیادہ مسرور ہوتے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق ہر تین امریکیوں میں سے ایک یہ محسوس کرتا ہے کہ بڑی رقمی خریداری کے لیے کریڈٹ کارڈ ہی بہترین سہولت ہے جس سے وہ یقینا فائدہ اٹھانا پسند کرتا ہے۔ اس کے علاوہ سادہ لوح نوجوان ضرورت سے زیادہ اور بلا ضرورت اشیاء خرید کر اصل قیمت پر 5% زیادہ قیمت ادا کرکے ادھار خرید کر سود کے پھیلائے ہوئے اس جال میں پھنس جاتے ہیں۔ یعنی اگلی خریداری کے وقت پچھلا بقایا سود کے ساتھ اور موجودہ رقم پر سود کے ساتھ ادائیگی، انہیں واقعتا سود کے پہاڑ تلے دبا دیتی ہے۔ اس کے باوجود وہ فضول خرچی سے اجتناب کرنا نہیں چاہتے۔ آگے چل کر یہ نوجوان قرض کے گہرے سمندر میں غرق ہو جاتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ناقدین نے کریڈٹ کارڈ فروشوں کو خطرناک آدم خور شارک کے مماثل قرار دیا ہے۔
مال خرچ کرنے کے لیے احکام الٰہی:
’’اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھ اور نہ اسے بالکل ہی کھول دے کہ پھر ملامت کیا ہوا درماندہ بیٹھ جائے‘‘ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں سورۃ الاسریٰ کی آیت 29 میں انسانوں کو اپنا مال خرچ کرنے کا سلیقہ سکھایا ہے۔ بنیادی طور پر انسانوں کو بخل سے روکا ہے۔ ایک بخیل انسان اپنی اور اپنے اہل و عیال کی ضروریات پر خرچ نہیں کرتا جو صحیح نہیں ہے۔ دوسری طرف یہ بھی صحیح نہیں ہے کہ اپنی وسعت، گنجائش اور آمدنی دیکھے بغیر کوئی بے دریغ خرچ کر کے فضول خرچی کا مرتکب ہو۔ آخر میں بخیل اور فضول خرچ انسان، تباہ ہو کر زندگی بھر ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔ بالفاظ دیگر قرآن مجید انسانوں کو اپنی آمدنی خرچ کرنے کے سنہری طریقے سکھاتا ہے، وہ بخل سے بچنے اور فضول خرچی کے ذریعے مال ضائع کرنے سے روکتا ہے۔ جدید ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ بخل دراصل کفایت شعاری کی ضد ہے جو سماج میں ناپسندیدہ عمل ہے۔ فضول خرچی کو انسان کی نادانی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ آج انسانوں کو ان چیزوں کے خریدنے پر اکسا کر انہیں اس کا عادی بنایا جا رہا ہے جن چیزوں کی انہیں کوئی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ بعض دفعہ انہیں خریدنے پر مجبور بھی کیا جاتا ہے جب کہ وہ خریدنے کی استطاعت ہی نہیں رکھتے۔ صارفین پر اس طرح غیر ضروری اشیاء خریدنے کے بعد اصل رقم اور سود کا ناقابل استطاعت بوجھ زندگی بھر کے لیے ایک مصیبت بن جاتا ہے۔ نتیجتاً گھر بار چلانے کے لیے ضروری اخراجات کا مالی بوجھ، ان کے لیے ناقابل برداشت ہوجاتا ہے اور گھر تباہی کے دہانے پر آجاتے ہیں۔ بخل یا فضول خرچی نہ کرنے کا حکم صرف افراد پر ہی لاگو نہیں ہوتا بلکہ اس کا اطلاق قوموں، معاشرے اور حکومتوں پر بھی ہوتا ہے۔
بے جا اور فضول خرچی کا لازمی نتیجہ آخرکار دیوالیہ اور بے روزگاری ہی ہوا کرتا ہے۔ عموماً پچھلا قرض ادا کرنے کے لیے لوگ پہلے سے زیادہ قرض لیتے ہیں۔ اس سے پچھلا چھوٹا قرض تو ادا ہو جاتا ہے لیکن اس سے بڑے قرض کے چکر میں آدمی خود اپنے آپ کو پھنسا لیتا ہے۔ یعنی چھوٹی مصیبت سے نجات پا کر اس سے کہیں بڑی مصیبت میں گردن پھنس جاتی ہے۔ امریکی مالیاتی مشیر ڈیوڈ رامسے کہتے ہیں کہ کریڈٹ کارڈ دراصل دولت کا سگریٹ ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ سگریٹ بری چیز ہے، اس میں جان لیوا نکوٹین ہے جو خطرناک حد تک صحت خراب کردے گی بعد میں صحت کی خرابی اسے ہلاک کر دے گی پھر بھی لوگ سگریٹ پیتے ہیں، صحت خراب کر لیتے ہیں اور آخر میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرجاتے ہیں۔
***

 

***

 بے جا اور فضول خرچی کالازمی نتیجہ آخر کاردیوالیہ اور بے روزگاری ہی ہواکرتا ہے ۔ عموماً پچھلا قرض ادا کرنے کے لئے لوگ اس سے زیادہ قرض لیتے ہیں۔ اس سے پچھلاچھوٹا قرض تو ادا ہوجاتا ہے لیکن اس سے بڑے قرض کے چکر میں آدمی خود اپنے آپ کو پھنسا لیتا ہے۔ یعنی چھوٹی مصیبت سے نجات پا کر اس سے کہیں بڑی مصیبت میں گردن پھنس جاتی ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 اپریل تا 22 اپریل 2023