ملک گیر لاک ڈاؤن: 2020 میں 8،700 سے زیادہ افراد، جن میں زیادہ تر مہاجر مزدور تھے، ریلوے ٹریک پر ہوئے حادثات میں ہلاک ہوئے
نئی دہلی، 3 جون: پی ٹی آئی کی خبر کے مطابق سال 2020 میں 8،733 افراد، جن میں سے بیشتر تارکین وطن مزدور تھے، ملک گیر لاک ڈاؤن کے سبب ٹرینوں کی منسوخی کے باوجود ریلوے پٹریوں پر ہلاک ہوئے ہیں۔
ریلوے بورڈ نے جنوری اور دسمبر 2020 کے درمیان ہونے والی اموات سے متعلق اعداد و شمار شیئر کیے ہیں، جو میں مدھیہ پردیش میں مقیم کارکن چندر شیکھر گوڑ کے آر ٹی آئی کے ایک سوال کے جواب میں سامنے آئے ہیں۔
ریلوے بورڈ نے کہا ہے کہ ’’ریاستی پولیس سے موصولہ اطلاع کی بنیاد پر جنوری 2020 اور دسمبر 2020 کے درمیان ریلوے ٹریک پر 805 افراد زخمی ہوئے اور 8،733 افراد موت کا شکار ہوگئے۔‘‘
پی ٹی آئی کے مطابق ریلوے کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ مرنے والوں میں سے بہت سے لوگ تارکین وطن مزدور تھے، جنھوں نے ریلوے پٹریوں کے ساتھ ساتھ چلنے کا انتخاب کیا تھا کیونکہ ٹرین کے راستے سڑک یا شاہراہوں سے کے مقابلے میں کم مسافت کے سمجھے جاتے ہیں۔ عہدیداروں نے بتایا کہ انھوں نے لاک ڈاؤن اصولوں کی خلاف ورزی کرنے پر پولیس سے بچنے کے لیے بھی پٹریوں کے ساتھ ساتھ چلنا پسند کیا۔
ایک عہدیدار نے پی ٹی آئی کو بتایا کہ ’’انھوں نے یہ بھی خیال کیا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے کوئی ٹرین نہیں چلیں گے۔‘‘
معلوم ہو کہ 25 مارچ سے شروع ہونے والے ملک گیر لاک ڈاؤن کے دوران صرف کارگو ٹرینیں چل رہی تھیں۔ ریلوے نے یکم مئی سے تارکین وطن کے لیے ’’شارمک اسپیشل‘‘ ٹرینیں شروع کیں۔
دسمبر تک 110 باقاعدہ مسافر ٹرینوں کے ساتھ ساتھ قریب 1،100 خصوصی ٹرینوں کے ساتھ مسافر ٹرینیں آہستہ آہستہ دوبارہ کھل رہی ہیں۔ ریلوے نے اب اپنی 70 فیصد خدمات کھول دی ہیں۔
پچھلے سال 8 مئی کو اورنگ آباد ضلع میں کارگو ٹرین کے نیچے آ کر 16 کے قریب تارکین وطن مزدور ہلاک ہوگئے تھے۔ جب یہ واقعہ پیش آیا تب وہ مزدور مدھیہ پردیش واپس اپنے گھر جارہے تھے۔ حادثے میں چار دیگر تارکین وطن مزدور بچ گئے تھے۔
ریاستوں کی مدد سے مرتب ریلوے کے اعداد و شمار میں کہا گیا ہے کہ 2016 اور 2019 کے درمیان پٹریوں پرہوئے حادثات میں 56،271 افراد ہلاک اور 5،938 زخمی ہوئے۔
2016 میں ان حادثات میں 14،032 افراد ہلاک ہوئے، 2017 میں یہ تعداد 12،838 تھی، وہیں 2018 میں 14،197 افراد اور 2019 میں 15،204 افراد کی موت ہوئی۔
تاہم حکام ان اموات کو ’’ریلوے حادثات‘‘ کی درجہ بندی میں نہیں رکھتے بلکہ انھیں ناخوشگوار حالات کے نتیجے میں ہونے والے حادثات کے زمرے میں رکھتے ہیں۔ ریلوے کے مطابق پٹریوں کے ساتھ ہونے والی اموات ’’ناخوشگوار واقعات‘‘ یا ’’بے راہ روی‘‘ کے تحت ہوتی ہیں۔ ریاستی پولیس ان حادثات کی تحقیقات کرتی ہے اور اس کا معاوضہ بھی ریاستی حکومتیں ہی دیتی ہیں۔
مارچ 2020 میں ملک بھر میں لاک ڈاؤن کے دوران بڑے شہروں سے نقل مکانی کرنے والے مزدوروں کا اجتماع ایک تشویش کا باعث تھا۔ عوامی نقل و حمل کے بیشتر طریقوں کے بند ہونے کے بعد ہزاروں تارکین وطن مزدوروں کو یا تو تنگ جگہوں والی نجی گاڑیوں پر سوار ہوکر جانے یا اپنے آبائی شہروں کی سیکڑوں کلومیٹر طویل مسافت کو پیدل چل کر طے کرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا تھا۔
لاک ڈاؤن کے دوران ان تارکین وطن مزدوروں کو پیسے اور کھانے کی کمی جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ پچھلے سال 11،000 سے زیادہ پھنسے ہوئے تارکین وطن کارکنوں کے سروے سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے آدھے کے پاس راشن کا صرف ایک دن کا ذخیرہ ہے بھی باقی بچا تھا۔ اسٹرینڈیڈ ورکرس ایکشن نیٹ ورک کے ذریعے کیے گئے اس سروے کے مطابق ان میں سے 96 فیصد مزدوروں کو حکومت کی طرف سے راشن نہیں ملا تھا اور 70 فیصد نے کوئی پکا ہوا کھانا نہیں پایا تھا۔ اس رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران 89 فیصد کے قریب ملازمین کو ان کے مالکان نے بالکل بھی ادائیگی نہیں کی تھی۔